کوٹہ سسٹم اور ترقی
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے صوبوں کے درمیان کوٹہ سسٹم برقرار رکھا
DI KHAN:
برصغیر میں پسماندہ طبقات کے تحفظ کے لیے برطانوی ہند حکومت نے کوٹہ سسٹم نافذکیا تھا۔کوٹہ سسٹم کی بناء پر مسلمانوں کا سرکاری ملازمتوں میں داخلہ کھلا، اس کا زیادہ فائدہ یوپی' بہار اور پنجاب کے مسلمانوں کو ہوا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد صوبوں کی آبادی کی بناء پرکوٹہ سسٹم نافذ ہوا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے صوبوں کے درمیان کوٹہ سسٹم برقرار رکھا اور سندھ کی دیہی آبادی کے لیے علیحدہ کوٹہ مختص کردیا، جس کی وجہ سے سندھ میں دیہی اورشہری آبادیوں میں تضاد پیدا ہوا۔اس وقت کی پارلیمنٹ نے کوٹہ سسٹم 20 سال کے لیے نافذکیا تھا۔
جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے کوٹہ سسٹم کی معیاد میں توسیع کردی، بعد میں برسرِاقتدار حکومتوں نے کوٹہ سسٹم کی معیاد کو بڑھایا اوراس کی معیاد 2013ء میں ختم ہوگئی اورصوبوں کی آبادی کی بناء پر اورسندھ میں دیہی اور شہری آبادیوں کی بناء پرکوٹہ سسٹم بھی برقرار رکھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے وقت یہ دلائل دیے تھے کہ سندھ کی دیہی آبادی جو اکثریت میں ہے بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ دیہی علاقوں میں اسکولوں اورکالجوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
غربت کی شرح زیادہ ہونے کی بناء پر والدین بچوں کی تعلیم پر خاطرخواہ رقم خرچ نہیں کرپاتے۔ دیہی علاقوں کا تعلیمی معیار پست ہے اور دیہی علاقوں کے طلبہ پروفیشنل اداروں اورسرکاری ملازمتو ں میں شہری علاقوں کے طلبہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔کوٹہ سسٹم کی بناء پر دیہی علاقوں کے طلبہ کو پیشہ وارانہ اداروں میں داخلہ ملے گا، ڈاکٹروں، انجنیئروں اور پروفیشنل ماہرین کا تعداد بڑھے گی۔ شہری علاقوں خاص طور پرحیدرآباد اورکراچی میں اسکولوں اورکالجوں کی تعداد زیادہ ہے، یونیورسٹیاں بھی ان شہروں میں قائم ہیں۔ شہری علاقوں میں فی کس آمدنی بہتر ہونے کی بناء پر والدین بچوں کی تعلیم پر خاطرخواہ رقم خرچ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہری علاقوں کے طلبہ زیادہ معلومات رکھتے ہیں اورزیادہ معلومات انھیں زیادہ ذہین بناتی ہے اور وہ ملازمتو ں کے امتحانات میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
لاڑکانہ، سکھر، نواب شاہ، میر پورخاص اور ٹھٹہ ڈویژن وغیرہ میں اسکولوں کی تعداد کم تھی، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے ، بہت سے اسکول صر ف سرکاری ریکارڈ پر موجود تھے عملاً ان کا وجود نہیں تھا۔ہر ضلع میں کالجوں کی تعداد کم تھی، خاص طور پر لڑکیوں کے کالج نہ ہونے کے برابر تھے۔ 1972ء تک صرف جام شورو میں لیاقت میڈیکل کالج، سندھ یونیورسٹی اور ٹنڈو جام میں ایک زرعی کالج تھا مگر کراچی میں اسکولوں اورکالجوں کے علاوہ ایک جنرل یونیورسٹی اور دو پروفیشنل کالج قائم تھے۔ پیپلزپارٹی کی پہلی تعلیمی پالیسی میں پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیوں کے قیام پر خصوصی توجہ دی گئی۔ کراچی میں این ای ڈی انجنیئرنگ کالج، ٹنڈو جام ایگریکلچر کالج اور مہران انجینئر نگ کالج، لاڑکانہ اور نواب شاہ میں میڈیکل کالجوں کے قیام کی منظوری دی گئی۔
1988ء میں پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت نے سندھ میں اسکولوں اورکالجوں اور پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قیام پر خصوصی توجہ دی خیرپور میں شاہ لطیف یونیورسٹی قائم کی۔ اس پالیسی کے تحت سکھر میں بزنس انسٹی ٹیوٹ، ڈوکری میں زرعی کالج کو یو نیورسٹی کا درجہ دینے کا فیصلہ ہوا۔ اسی طرح اسکولوں اورکالجوں کے قیام پر خاص طور پر توجہ دی گئی۔ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں نئی یونیورسٹیوں کا جال بچھ گیا۔ لیاقت میڈیکل کالج اور مہران انجینئر نگ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت کے قیام کے بعد سندھ میں تعلیم اور صحت کی سہولتوں میں اضافے پر خصوصی توجہ دی گئی۔
اب لاڑکانہ، نواب شاہ، سکھر اور دیگر علاقوں میں پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قیام پر توجہ دی گئی۔ سندھ کے ہر ضلع میں میڈیکل اور انجنیئرنگ کالج کا قیام عمل میں آیا، یوں آج تک پورے صوبے میں 20 پروفیشنل اور جنرل یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں جن میں سے 12 یونیورسٹیاں دیہی علاقوں میں قائم ہیں۔ حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم اور لٹریسی کے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت سندھ بھر میں 46000 اسکول ہیں جن میں دیہی علاقوں میں اسکولوں کی تعداد 39890 ہے۔ ان میں بنداسکولوں کی تعداد5000 سے زیادہ ہے۔ پورے سندھ میں خواندگی کی شرح60فی صد ہے جن میں شہری علاقوں میں خواندگی کی شرح76 اور دیہی علاقوں میں 46 فیصد ہے یہ فرق مربوط کوششوں کے ذریعے ختم ہوسکتا ہے۔اب تک حیدرآباد شہر میں کوئی یونیورسٹی قائم نہیں کی گئی ہے۔
سندھ یوں توگزشتہ 30 برسوں سے بحران کا شکار ہے شہری علاقوں میں سیاسی اور لسانی تضادات کی بنا پر تعلیمی ماحول شدید متاثر ہوا جس کے نتیجے میں غیر حاضر اساتذہ کا ادارہ مستحکم ہوا۔ امتحانات میں نقل عام ہوئی، جعلی سرٹیفکیٹ اور ڈگریوں کا کاروبار عروج پر پہنچا۔ شہری علاقوں کے تعلیمی معیار کو نقصان پہنچانے میں شہری علاقوں کی نمایندہ تنظیم متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اہم کردار ادا کیا جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ بنیادی قابلیت سے محرو م ہوگئے۔ پاکستان سول سروس کے مقابلے کے ا متحانات میں شہری طلبہ کی اکثریت فیل ہونے لگی جس کے نتیجے میں امتحان دینے والے طلبہ کی تعداد کم ہوگئی۔
گزشتہ 20 برسوں کے دوران پورے ملک میں سی ایس ایس کے امتحانی مراکزکی فہرست کے مطالعے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ سندھ کے سب سے کم طالب علم امتحان دیتے ہیں، ناقص کارکردگی کی بنا پر شہری علاقوں کی نشستیں خالی رہتی ہیں۔ شہری نشستوں سے اہل طلبہ امتحانات میں کامیاب ہوئے مگرکوٹہ میں کم نشستوں کی بنیاد پر انھیں سول سروس میں ملازمتیں نہ مل سکیں۔
پھر نئی صدی کے آغاز کے ساتھ سرکاری شعبے کا سائز کم ہونے لگا۔ بینکوں اورکارخانوں کی نجکاری نے نجی شعبے کا سائز بڑھایا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے نجی شعبے میں انقلابی تبدیلیاں رونما کیں۔اب غیر ملکی سرمائے سے چلنے والے بڑے اداروں کو اہل نوجوانوں کی ضرورت پڑی خواہ ان کا تعلق کسی بھی علاقے سے کیوں نہ ہوا۔ ایم کیو ایم جو کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے نعرے پر قائم ہوئی تھی مختلف وجوہات کی بناء پر اس نعرے سے دستبردار ہوگئی مگرکوٹہ سسٹم شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان ایک تضاد کی بنیاد رہا۔ دستیاب اعددا وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولتوں میں خاطرخواہ اضافہ ہوتا ہے اور دیہی علاقوں کے تعلیمی اداروں کا معیار بلند ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سی ایس ایس کے امتحانات میں سندھ کے دیہی علاقوں کے طلبہ کامیاب ہونے کا تناسب شہری علاقوں کے برابر ہوگیا ہے۔
یہ کہا جاتا ہے کہ اب بھی دیہی علاقوں میں گھوسٹ اسکول موجود ہیں اور غیر حاضر اساتذہ کے ادارے کا وجود ہے۔ یہ سب باتیں حقیقت پر مبنی ہیں مگر اب گلوبلائزیشن کے دور میں شہری اور دیہی علاقوں کا کوٹہ ختم کر کے اور میرٹ کا اصول نافذ کرکے مقابلے کی فضاء کے ذریعے تعلیمی معیارکو بلندکیا جاسکتا ہے۔پیپلزپارٹی کے رہنما تاج حیدر بلدیاتی اداروں میں خواتین کے کوٹے کوکم کرنے کا یہ جوازدیتے ہیں کہ خواتین کو جنرل انتخابات میں حصہ لینا چاہیے، اس طرح ان کے حالات کار بہتر ہوں گے۔
یہی اصول شہری اور دیہی کوٹے کے خاتمے کے لیے استعمال ہونا چاہیے تاکہ سندھ کے نوجوان میرٹ پر مقابلہ کریں۔کوٹہ سسٹم کے بارے میں سیاسی قیادت کو فیصلہ کرنا ہے اس بارے میں کھلے دل کے ساتھ بحث و مباحثہ ہونا چاہیے۔ سرکاری افسروں کو اس بارے میں فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ سندھ میں تعلیمی معیارکو بلند کرکے نوجوانوں کو عالمی مارکیٹ میں مقابلے کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے، مگر یہ سب کچھ میرٹ کی بنیاد پر پالیسی کی بنا پرہوگا۔