سوئس اکاؤنٹس کیس اور پانامہ لیکس
سوئس بینکوں میں پڑے اِس غریب اور پسماندہ ملک پاکستان کے ساٹھ ملین ڈالرزکس کی ملکیت ہیں
ISLAMABAD:
ابھی چند سال پہلے کی ہی بات ہے جب اخبارات کی شہ سرخیوں اورالیکٹرک میڈیا کے ٹاک شوز میں ایک ہی خبرکا ذکر بڑی شدومد کے ساتھ ہوا کرتا تھا کہ سوئس بینکوں میں پڑے اِس غریب اور پسماندہ ملک پاکستان کے ساٹھ ملین ڈالرزکس کی ملکیت ہیں۔اُس وقت پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں برسرِ اقتدارتھی اور اُس کے کو چیئرمین آصف علی زرداری اِس ملک کے سب سے اعلیٰ اور قابلِ احترام عہدے کی لذتوں اور نعمتوں سے بہرہ مند اورمستفید ہورہے تھے۔ دستورِ پاکستان کے تحت وہ اپنے خلاف ہر قسم کی قانونی اورعدالتی کارروائیوں سے مستثنیٰ تھے۔
اِس ملک کی کوئی عدالت اُن کے خلاف کوئی کیس سماعت کے لیے قبول یا منظورکر ہی نہیں سکتی تھی اور نہ اُنہیں جوابدہی کے لیے طلب کرنے کا اپنا اختیار استعمال کرسکتی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹوکی اچانک اور ناگہانی شہادت نے زرداری صاحب کی تو قسمت اور تقدیر ہی بدل دی۔اِس سے پہلے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ آصف علی زرداری کبھی اِس ملک کے صدرِمملکت کے عہدے پر بھی فائزہوسکتے ہیں۔قسمت سے زیادہ ہمیں اُن کی ذہانت اورقابلیت کو بھی داددینا پڑے گی کہ اُنہوں نے میاں نواز شریف کو اپنے ساتھ ملا کرکس طرح سابق صدر پرویز مشرف کو مواخذے کا خوف دلاکے از خود استعفیٰ دینے پر مجبورکردیا اور پھر کس خوبصورتی کے ساتھ خود اِس عہدے پربراجمان ہو گئے۔
مخدوم امین فہیم بے چارے یہی سمجھتے رہے کہ مشرف دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کو قائم ، دائم ،متحرک اورفعال رکھنے کی اعلیٰ کارکردگی اور قربانیوں کے انعام کے طور پر وزیرِ اعظم کے عہدے کے لیے قرعہ اُن کے نام ہی نکلے گا، لیکن اُنہیں نہیں معلوم تھا کہ آصف علی زرداری کے ذہن میں کیا پلاننگ اورمنصوبہ بندی پروان چڑھ رہی ہے۔ وہ اگر صوبہ سندھ سے کسی کو وزیرِ اعظم بنا دیتے تو پھر نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے اِس ذہین وفہیم شخص کے لیے خود اپنے تئیں صدرکا عہدہ تجویزکرنا نا ممکن ہوجاتا اور اِس طرح آنے والے وقتوں میںوہ خود کو کسی بھی ممکنہ عدالتی کارروائی سے کیونکر اورکیسے بچا پاتے۔ لہذا وزیرِاعظم کے منصب کے لیے قرعہ یوسف رضا گیلانی کے نام نکال دیا گیا اور یوں صدرِ مملکت اپنے پورے پانچ سال بڑے سکون واطمینان کے ساتھ گذارگئے۔
عدلیہ کارروائی سے بھی آصف علی زرداری محفوظ رہے۔ سوئس اکاؤنٹس کیس کے لیے وہ وزیرِ اعظم کو خط لکھنے کے لیے کہتے رہے مگر یوسف رضا گیلانی ٹس سے مس نہ ہوئے۔توہینِ عدالت کے جرم کی پاداش میں وہ وزیرِاعظم کے عہدے سے بھی معزول ہوگئے لیکن اپنے مہربان اور سرپرست صدرکوآخری دم تک بچاتے رہے۔ بعد ازاںسوئس حکومت کوخط بھی لکھا گیا تو اتنی تاخیرسے کہ اُس کی ڈیڈ لائن ہی گذرگئی اور یوں ساٹھ ملین ڈالرزکامعاملہ قصہِ پارینہ بن کر عوام کے ذہنوں سے نکل گیا۔اب ایک نیا قصہ'' پاناما پیپرز '' کی شکل میں ہمارے سیاسی بازیگروں کے ہاتھ لگ گیا ہے اور وہ اُسے لے کر اُسی طرح کی سیاست کررہے ہیں جس طرح کبھی سوئس اکاؤنٹس کیس کو لے کر اپنی سیاست چمکایا کرتے تھے۔
پانامہ لیکس کے حوالے سے موجودہ حکمران آج کل یقینا بڑی مشکل میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر صاف شفاف اورغیرجانبدارانہ تحقیقات ہوگئیں تو وہ اُس دولت کی پاکستان سے باہر منتقلی کو قطعاً قانونی ثابت نہیں کر پائیں گے۔عام خیال یہی ہے کہ یہ دولت بہرحال غیر قانونی ذرایع سے ہی باہر منتقل ہوئی ہے۔ ورنہ پاکستانی قوانین کے مطابق اتنی بڑی مقدار میں فارن ایکسچینج لے جاناکسی طور ممکن ہی نہیں۔ آصف علی زرداری کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وزیر اعظم اگر آج صدر ِمملکت کے عہدے پر فائز ہوجاتے تو آئین ِپاکستان میں درج استثنائی مراعات کی بدولت عمران خان سمیت کوئی لیڈر اُن کا کچھ بگاڑ نہیں پاتا اور وہ بڑے آرام سے اپنے یہ پانچ سال گذار لیتے۔وقت یونہی تیزی کے ساتھ گذر جاتا اور لوگ پانامہ لیکس کو سوئس معاملے کی طرح بھول چکے ہوتے۔
پانامہ پیپرز میں حکمرانوں کے بچوں کی باہر خریدی گئی پراپرٹی اور آف شورکمپنیوںکے حوالے سے جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اُن کا قانونی دفاع کرنا بہر حال بہت مشکل کام ہے۔ اِسی لیے حکومت کی کوشش ہے کہ جتنا بھی ممکن ہو وقت گذارا جائے۔جس طرح پیپلز پارٹی کے گزشتہ پانچ سالوں کی کرپشن کو آج لوگ بھلا بیٹھے ہیں اُسی طرح اِس معاملے کو بھی بھلا دینگے۔کون نہیں جانتا کہ سابقہ آصف علی زرداری دور میں کیسے کیسے بڑے مالیاتی اسکینڈلز سامنے آتے رہے۔ کیسی کیسی کرپشن کے قصے عام ہوتے رہے لیکن کوئی آج اُن کا تذکرہ بھی نہیں کرتا۔این آئی سی ایل اسکینڈل، ای او بی آئی، او جی ڈی سی ایل، رینٹل پاور،حج کرپشن کی باز گشت وقت کے دھندلکوں میں دب کر رہ گئی۔
حج کرپشن میں ملوث ایک وفاقی وزیرتو عدالت کے فیصلے کے نتیجے میں آج قید وبند کی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔کیا ہمیں یاد نہیں ہے کہ برطانیہ میں متعین پاکستانی سفیر کی مدد سے کس طرح بکس کے بکس بھر بھر کے سوئٹزرلینڈسے فائلیں غائب کروائی گئیں۔ یہ بات کسی معجزے سے کم معلوم نہیں ہوتی ہے کہ آج وہی جماعت جس کا بال بال کرپشن کے گندے اور بد بودار پانی سے بھیگا ہوا ہے خان صاحب کے ساتھ ملکرکرپشن ہی کے خلاف تحریک چلا رہی ہے۔ اُس حکومت کے خلاف سرگرم عمل ہے جس کے حالیہ دور میں ابھی تک کوئی بڑا مالی اسکینڈل سامنے نہیں آیا ہے۔الزامات تو بڑے بڑے لگائے جاتے رہے ہیں لیکن ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ کوئی بھی کیس عدلیہ کے روبرو نہیں لایا گیا۔
بغض و عناد اور تعصب کی عینک اُتارکراگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ حکومت نے پاکستان ریلوے کو جسے سابقہ ادوار میں تباہ کردیا گیا تھا دوبارہ فعال اور بہتر بنانے کی مخلصانہ کوششیں کی ہیں۔ جس نے آج پی آئی اے کی حالت بھی سدھارنے کا بیڑا اُٹھالیا ہے۔ جس نے اگر اپنے ساڑھے تین سالوں میںبڑے بڑے قرضے لیے ہیں تو ملک بھر میں ترقیاتی کاموں کا ایک ریکارڈ بھی قائم کرڈالا ہے۔ سڑکوں ، شاہراہوں اور موٹرویزکا جال بچھاڈالا ہے۔لاہور ، پنڈی اسلام آباد کے بعد اب ملتان میں بھی میٹرو بس کا افتتاح ہونے کو ہے۔
اورنج ٹرین اور سی پیک جیسے عظیم منصوبوں کی نہ صرف بنیاد رکھی ہے بلکہ اُن پر تیزی کے ساتھ کام بھی ہو رہا ہے۔توانائی کے کئی پروجیکٹس، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور اب 39 اسپتالوں کی تعمیر بھی اُس کے پانچ سالہ منصوبوں کاحصہ بن چکے ہیں۔ ہماری افواج کے تعاون سے ملک بھر سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ بھی اب قریب تر ہے۔کراچی شہر میں عرصہ درازسے جاری بدامنی کی فضا ء کو بھی خلوصِ نیت سے اگر کسی نے ختم کرنے کی کوشش کی ہے تو وہ یہی حکومت ہے۔ اِس سے پہلے پرویز مشرف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتوںنے تو اِس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے صرف اُسے اپنے مفاد میں ہی استعمال کیا۔ اِن تمام باتوں کو دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ دور پہلے کی نسبت ایک بہتر دور ہے تو یقینا غلط نہ ہوگا۔کسی کو اگر کسی کا احتساب کرنا مقصود ہے تو ذرا انتظارکرلیاجائے۔ 2018ء اب قریب ہی ہے ۔
الیکشن میں جیت کر جس کا چاہیں احتساب کرلے۔ ویسے بھی پانامہ پیپرز میں جن معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے اُن کا تعلق موجودہ دور سے ہر گز نہیں ہے۔ اگر کسی نے سابقہ دور میں کوئی بد عنوانی کی ہے تو اُس کا احتساب ضرورکیا جائے ۔ لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ 1999سے لے کر 2013ء تک کے تو معاملات چھوڑ دیے جائیں اورپانامہ لیکس کے انکشافات کی روشنی میں 1998ء میں کی جانے والی بدعنوانی یا کسی کی جلاوطنی کے دور میں رقم کی غیر قانونی منتقلی کوجواز بناکر سارا نظام اورسسٹم ہی اُکھاڑ دیا جائے۔ ویسے بھی پانامہ پیپرزکامعاملہ اب عدالتوں میں جا چکا ہے۔ ذرا صبر اور اطمینان سے عدالتوں کو کام کرنے دیا جائے۔اُن پر دباؤ ڈال کر اپنے حق میں فیصلے نہ کروائے جائیں۔ ایف آئی اے یا ملک کے دیگر اداروں کی تضحیک و تحقیر اور بے توقیری کرکے ہم کسی اور کا نقصان نہیں کررہے ہوتے ہیں بلکہ اِس ملک و قوم کو زک پہنچا رہے ہوتے ہیں۔
ابھی چند سال پہلے کی ہی بات ہے جب اخبارات کی شہ سرخیوں اورالیکٹرک میڈیا کے ٹاک شوز میں ایک ہی خبرکا ذکر بڑی شدومد کے ساتھ ہوا کرتا تھا کہ سوئس بینکوں میں پڑے اِس غریب اور پسماندہ ملک پاکستان کے ساٹھ ملین ڈالرزکس کی ملکیت ہیں۔اُس وقت پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں برسرِ اقتدارتھی اور اُس کے کو چیئرمین آصف علی زرداری اِس ملک کے سب سے اعلیٰ اور قابلِ احترام عہدے کی لذتوں اور نعمتوں سے بہرہ مند اورمستفید ہورہے تھے۔ دستورِ پاکستان کے تحت وہ اپنے خلاف ہر قسم کی قانونی اورعدالتی کارروائیوں سے مستثنیٰ تھے۔
اِس ملک کی کوئی عدالت اُن کے خلاف کوئی کیس سماعت کے لیے قبول یا منظورکر ہی نہیں سکتی تھی اور نہ اُنہیں جوابدہی کے لیے طلب کرنے کا اپنا اختیار استعمال کرسکتی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹوکی اچانک اور ناگہانی شہادت نے زرداری صاحب کی تو قسمت اور تقدیر ہی بدل دی۔اِس سے پہلے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ آصف علی زرداری کبھی اِس ملک کے صدرِمملکت کے عہدے پر بھی فائزہوسکتے ہیں۔قسمت سے زیادہ ہمیں اُن کی ذہانت اورقابلیت کو بھی داددینا پڑے گی کہ اُنہوں نے میاں نواز شریف کو اپنے ساتھ ملا کرکس طرح سابق صدر پرویز مشرف کو مواخذے کا خوف دلاکے از خود استعفیٰ دینے پر مجبورکردیا اور پھر کس خوبصورتی کے ساتھ خود اِس عہدے پربراجمان ہو گئے۔
مخدوم امین فہیم بے چارے یہی سمجھتے رہے کہ مشرف دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کو قائم ، دائم ،متحرک اورفعال رکھنے کی اعلیٰ کارکردگی اور قربانیوں کے انعام کے طور پر وزیرِ اعظم کے عہدے کے لیے قرعہ اُن کے نام ہی نکلے گا، لیکن اُنہیں نہیں معلوم تھا کہ آصف علی زرداری کے ذہن میں کیا پلاننگ اورمنصوبہ بندی پروان چڑھ رہی ہے۔ وہ اگر صوبہ سندھ سے کسی کو وزیرِ اعظم بنا دیتے تو پھر نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے اِس ذہین وفہیم شخص کے لیے خود اپنے تئیں صدرکا عہدہ تجویزکرنا نا ممکن ہوجاتا اور اِس طرح آنے والے وقتوں میںوہ خود کو کسی بھی ممکنہ عدالتی کارروائی سے کیونکر اورکیسے بچا پاتے۔ لہذا وزیرِاعظم کے منصب کے لیے قرعہ یوسف رضا گیلانی کے نام نکال دیا گیا اور یوں صدرِ مملکت اپنے پورے پانچ سال بڑے سکون واطمینان کے ساتھ گذارگئے۔
عدلیہ کارروائی سے بھی آصف علی زرداری محفوظ رہے۔ سوئس اکاؤنٹس کیس کے لیے وہ وزیرِ اعظم کو خط لکھنے کے لیے کہتے رہے مگر یوسف رضا گیلانی ٹس سے مس نہ ہوئے۔توہینِ عدالت کے جرم کی پاداش میں وہ وزیرِاعظم کے عہدے سے بھی معزول ہوگئے لیکن اپنے مہربان اور سرپرست صدرکوآخری دم تک بچاتے رہے۔ بعد ازاںسوئس حکومت کوخط بھی لکھا گیا تو اتنی تاخیرسے کہ اُس کی ڈیڈ لائن ہی گذرگئی اور یوں ساٹھ ملین ڈالرزکامعاملہ قصہِ پارینہ بن کر عوام کے ذہنوں سے نکل گیا۔اب ایک نیا قصہ'' پاناما پیپرز '' کی شکل میں ہمارے سیاسی بازیگروں کے ہاتھ لگ گیا ہے اور وہ اُسے لے کر اُسی طرح کی سیاست کررہے ہیں جس طرح کبھی سوئس اکاؤنٹس کیس کو لے کر اپنی سیاست چمکایا کرتے تھے۔
پانامہ لیکس کے حوالے سے موجودہ حکمران آج کل یقینا بڑی مشکل میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر صاف شفاف اورغیرجانبدارانہ تحقیقات ہوگئیں تو وہ اُس دولت کی پاکستان سے باہر منتقلی کو قطعاً قانونی ثابت نہیں کر پائیں گے۔عام خیال یہی ہے کہ یہ دولت بہرحال غیر قانونی ذرایع سے ہی باہر منتقل ہوئی ہے۔ ورنہ پاکستانی قوانین کے مطابق اتنی بڑی مقدار میں فارن ایکسچینج لے جاناکسی طور ممکن ہی نہیں۔ آصف علی زرداری کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وزیر اعظم اگر آج صدر ِمملکت کے عہدے پر فائز ہوجاتے تو آئین ِپاکستان میں درج استثنائی مراعات کی بدولت عمران خان سمیت کوئی لیڈر اُن کا کچھ بگاڑ نہیں پاتا اور وہ بڑے آرام سے اپنے یہ پانچ سال گذار لیتے۔وقت یونہی تیزی کے ساتھ گذر جاتا اور لوگ پانامہ لیکس کو سوئس معاملے کی طرح بھول چکے ہوتے۔
پانامہ پیپرز میں حکمرانوں کے بچوں کی باہر خریدی گئی پراپرٹی اور آف شورکمپنیوںکے حوالے سے جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اُن کا قانونی دفاع کرنا بہر حال بہت مشکل کام ہے۔ اِسی لیے حکومت کی کوشش ہے کہ جتنا بھی ممکن ہو وقت گذارا جائے۔جس طرح پیپلز پارٹی کے گزشتہ پانچ سالوں کی کرپشن کو آج لوگ بھلا بیٹھے ہیں اُسی طرح اِس معاملے کو بھی بھلا دینگے۔کون نہیں جانتا کہ سابقہ آصف علی زرداری دور میں کیسے کیسے بڑے مالیاتی اسکینڈلز سامنے آتے رہے۔ کیسی کیسی کرپشن کے قصے عام ہوتے رہے لیکن کوئی آج اُن کا تذکرہ بھی نہیں کرتا۔این آئی سی ایل اسکینڈل، ای او بی آئی، او جی ڈی سی ایل، رینٹل پاور،حج کرپشن کی باز گشت وقت کے دھندلکوں میں دب کر رہ گئی۔
حج کرپشن میں ملوث ایک وفاقی وزیرتو عدالت کے فیصلے کے نتیجے میں آج قید وبند کی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔کیا ہمیں یاد نہیں ہے کہ برطانیہ میں متعین پاکستانی سفیر کی مدد سے کس طرح بکس کے بکس بھر بھر کے سوئٹزرلینڈسے فائلیں غائب کروائی گئیں۔ یہ بات کسی معجزے سے کم معلوم نہیں ہوتی ہے کہ آج وہی جماعت جس کا بال بال کرپشن کے گندے اور بد بودار پانی سے بھیگا ہوا ہے خان صاحب کے ساتھ ملکرکرپشن ہی کے خلاف تحریک چلا رہی ہے۔ اُس حکومت کے خلاف سرگرم عمل ہے جس کے حالیہ دور میں ابھی تک کوئی بڑا مالی اسکینڈل سامنے نہیں آیا ہے۔الزامات تو بڑے بڑے لگائے جاتے رہے ہیں لیکن ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ کوئی بھی کیس عدلیہ کے روبرو نہیں لایا گیا۔
بغض و عناد اور تعصب کی عینک اُتارکراگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ حکومت نے پاکستان ریلوے کو جسے سابقہ ادوار میں تباہ کردیا گیا تھا دوبارہ فعال اور بہتر بنانے کی مخلصانہ کوششیں کی ہیں۔ جس نے آج پی آئی اے کی حالت بھی سدھارنے کا بیڑا اُٹھالیا ہے۔ جس نے اگر اپنے ساڑھے تین سالوں میںبڑے بڑے قرضے لیے ہیں تو ملک بھر میں ترقیاتی کاموں کا ایک ریکارڈ بھی قائم کرڈالا ہے۔ سڑکوں ، شاہراہوں اور موٹرویزکا جال بچھاڈالا ہے۔لاہور ، پنڈی اسلام آباد کے بعد اب ملتان میں بھی میٹرو بس کا افتتاح ہونے کو ہے۔
اورنج ٹرین اور سی پیک جیسے عظیم منصوبوں کی نہ صرف بنیاد رکھی ہے بلکہ اُن پر تیزی کے ساتھ کام بھی ہو رہا ہے۔توانائی کے کئی پروجیکٹس، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور اب 39 اسپتالوں کی تعمیر بھی اُس کے پانچ سالہ منصوبوں کاحصہ بن چکے ہیں۔ ہماری افواج کے تعاون سے ملک بھر سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ بھی اب قریب تر ہے۔کراچی شہر میں عرصہ درازسے جاری بدامنی کی فضا ء کو بھی خلوصِ نیت سے اگر کسی نے ختم کرنے کی کوشش کی ہے تو وہ یہی حکومت ہے۔ اِس سے پہلے پرویز مشرف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتوںنے تو اِس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے صرف اُسے اپنے مفاد میں ہی استعمال کیا۔ اِن تمام باتوں کو دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ دور پہلے کی نسبت ایک بہتر دور ہے تو یقینا غلط نہ ہوگا۔کسی کو اگر کسی کا احتساب کرنا مقصود ہے تو ذرا انتظارکرلیاجائے۔ 2018ء اب قریب ہی ہے ۔
الیکشن میں جیت کر جس کا چاہیں احتساب کرلے۔ ویسے بھی پانامہ پیپرز میں جن معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے اُن کا تعلق موجودہ دور سے ہر گز نہیں ہے۔ اگر کسی نے سابقہ دور میں کوئی بد عنوانی کی ہے تو اُس کا احتساب ضرورکیا جائے ۔ لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ 1999سے لے کر 2013ء تک کے تو معاملات چھوڑ دیے جائیں اورپانامہ لیکس کے انکشافات کی روشنی میں 1998ء میں کی جانے والی بدعنوانی یا کسی کی جلاوطنی کے دور میں رقم کی غیر قانونی منتقلی کوجواز بناکر سارا نظام اورسسٹم ہی اُکھاڑ دیا جائے۔ ویسے بھی پانامہ پیپرزکامعاملہ اب عدالتوں میں جا چکا ہے۔ ذرا صبر اور اطمینان سے عدالتوں کو کام کرنے دیا جائے۔اُن پر دباؤ ڈال کر اپنے حق میں فیصلے نہ کروائے جائیں۔ ایف آئی اے یا ملک کے دیگر اداروں کی تضحیک و تحقیر اور بے توقیری کرکے ہم کسی اور کا نقصان نہیں کررہے ہوتے ہیں بلکہ اِس ملک و قوم کو زک پہنچا رہے ہوتے ہیں۔