عید قرباں کا حقیقی فلسفہ و پیغام
پاکستان اوردنیا کے دوسرے بہت سے ملکوں میں ملت اسلامیہ آج سنت ابراہیمی کی یاد میں عید قرباں منارہی ہے
پاکستان اوردنیا کے دوسرے بہت سے ملکوں میں ملت اسلامیہ آج سنت ابراہیمی کی یاد میں عید قرباں منارہی ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا، اور اسے خدائی اشارہ سمجھتے ہوئے بیٹے کی مکمل خوشی کے ساتھ اسے قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اللہ نے ان دونوں کے اخلاص نیت کو قبول فرمایا اور قیامت تک کے لیے قربانی کی یہ روایت اہل ایمان پر حسب شرائط لازم کردی گئی۔
عید قرباں یا عیدالاضحی کی نیک سعادت وبرکت سے فضاؤں میں ایسی ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے جس سے روح سرشارہوجاتی ہے۔ بڑے بزرگ، نوجوان لڑکے بالے، لڑکیاں، خواتین و حضرات کے چہروں پر خوشی کی دھنک بکھر جاتی ہے اور قربانی کے گوشت سے ہر قسم کے طعام سجتے ہیں۔ تعطیلات کے ان دنوں میں عزیز و اقارب، دوست و احباب سے گلے ملنے اور ایک دوسرے کی خیر و عافیت پوچھنے اور دکھ سکھ بانٹنے کے بھرپور مواقعے ملتے ہیں جن کی دل پذیر یادیں سارا سال آپ کے چہرے پر مسکراہٹ کے رنگ بکھیرتی رہتی ہیں۔
مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ امارت وغربت کا فرق جس میں پاکستان روز بہ روز غرق ہوتا جارہا ہے ایسے مواقعے پرکھل کر سامنے آجاتا ہے، یہ ملک قربانیوں سے بنا تھا، قربانیوں سے قائم ہے اور قربانیوں پر ہی قائم رہے گا، 69 سال سے عوام قربانی دے رہے ہیں، لیڈرگوشت کھارہے ہیں، انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں قربانی بھی اسٹیٹس سمبل بن چکی ہے، جانوروں کی قیمتیں اور قصابوں کے ریٹ آسمان سے باتیں کررہے ہیں، متوسط، سفید پوش حتی کہ نسبتاً خوش حال طبقے کے افراد کے لیے بھی موجودہ مہنگائی میں سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہونا مشکل ہوگیا ہے۔ کس کا دل نہیں چاہتا کہ سنت ابراہیمی کی پیروی دل وجان سے کرے لیکن حالات ساتھ نہیں دیتے،کئی گھرانے ایسے ہیں جہاں پانچ پانچ قربانیاں ہورہی ہیں تو بہت سے ایسے بھی ہیں جو ایک قربانی کا بھی تصور نہیں کرسکتے۔
اس موقعے پر ہمیں سوچنا چاہیے کہ قربانی کی اصل روح کیا ہے؟ اس کی وضاحت خود اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان کے ذریعے کردی ہے جس کا مفہوم ہے کہ تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون اللہ کے پاس نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ یعنی وہ جذبہ اللہ تک پہنچتا ہے جس کی بناء پر تم اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں اپنی زندگی کی عزیز ترین متاع اللہ کے راستے میں قربان کرنے کے لیے پیش کردی تھی، اس لیے قربانی کے علامتی عمل کا تقاضا ہے کہ ہم بھی جائزہ لیں کہ ہماری ایسی عزیز ترین چیزیں کون سی ہیں جو اللہ کی مرضی پر چلنے میں ہمارے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں،ان سب کو اللہ کی مرضی کے تابع کرنے کے لیے تمام تدابیر اختیار کریں، ان میں ہماری انا، ہماری خواہشات، ہمارا اسٹیٹس، ہمارے ذرایع آمدنی، ہماری معیشت سب کچھ شامل ہے۔
آج کا دن ہمیں کھانے پینے کا بھرپور موقع ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ یہ سوچنے کی تحریک بھی دیتا ہے کہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر بہت کچھ کرنا ہے، بہت کچھ چھوڑ کر دوسرا بہت کچھ ہے اپنانا اور اسے زندگی کا حصہ بنانا ہے، جب ہم ایسا نہیں کریں گے تو کسی بڑی تبدیلی کے لیے خود کو تیار نہیں کرپائیں گے، عیدالضحیٰ کے موقع پر جانور ذبح کرنا اور اس کے گوشت سے لذت پانا ہمیں تمام ذمے داریوں سے سبکدوش نہیں کردیتا۔ اللہ کے طے کردہ معیار پسندیدگی پر پورا اترنے کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے پورے وجود کا جائزہ لیں اور ہر وہ چیزچھوڑ دیں جو اللہ کی مرضی کے خلاف ہو، نیز ہر وہ چیز اپنالیں جو اللہ کی مرضی سے مطابقت رکھتی ہو، اللہ کے نزدیک مستحسن ٹھہرنے کا یہی ایک معیار ہے۔
اپنی حلال آمدن سے پسندیدہ جانور خرید کر اسے قربان کرنا ہمیں اس بات کے لیے تیار ہونے کی تحریک دیتا ہے کہ ہمیں اپنی بہت سی خواہشات بھی اللہ کی خوشنودی کی خاطر ترک کرنی ہیں، اپنے نفس کے گلے پر چھری پھیرنی ہے، یہ نکتہ ہر وقت ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے کہ ہمیں قربانی صرف کرنی نہیں ہے بلکہ دینی بھی ہے، جانوروں کے ساتھ ساتھ ہمارے نفس پر چڑھی ہوئی سرکشی کی کھال بھی کھینچنی چاہیے، ایسا کرنے کی صورت میں ہی قربانی کے مفہوم تک رسائی ہوسکے گی۔
عید کی خوشیاں مناتے ہوئے ہمیں نمود ونمائش کے مظاہروں سے بھی گریزکرنا چاہیے اور محروم و مستحق بھائیوں کی امداد واعانت کو اپنا شعار بنانا چاہیے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بے جا نمود و نمائش کا جذبہ قربانی کے حقیقی اجرکو ضایع کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔صحت مند اور خوبصورت جانور اگر صرف اللہ کی بارگاہ میں قربانی کی قبولیت کے جذبے کے تحت خریدے جائیں تو اس میں قطعاً مضائقہ نہیں، اسی طرح قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ مستحق افراد تک پہنچانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ آج مہنگائی کے دور میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جوگوشت خریدنے اور کھانے کی بالکل استطاعت نہیں رکھتے۔ اگر ہم قربانی کے جذبے اور روح کو سمجھ کر اسے زندگیوں میں برقرار رکھنا سیکھ لیں تو مسلمان ملکوں، معاشروں اور خاص طور پر پاکستان کے بہت سے مسائل پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
عیدالاضحی کے تہوارکو مناتے ہوئے بحیثیت مسلمان ہمیں اپنی ذمے داریوں کو خاص طور پر یاد رکھنا چاہیے، جن میں اولیت تزکیہ نفس کو حاصل ہے،آج جب دنیا بھر کے مسلمان نت نئی آزمائشوں، پریشانیوں اور ابتلا کا سامنا کررہے ہیں، ہمیں اس بات کو خاص طور پر یاد رکھنا چاہیے کہ ملت اسلامیہ ایک عالمگیر امت ہے، ہمیں ہر مسلمان خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی رہتا ہو کے دکھ اور درد کو پوری طرح محسوس کرنا چاہیے۔ ہمیں اس موقعے پر فلسطین، کشمیر، عراق اور افغانستان، شام، مشرق وسطیٰ، سمیت دنیا کے جن جن ملکوں میں مسلمان دہشتگردی کے خاتمے کے لیے شروع کی جانیوالی جنگ کے نام پر بدترین مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں، انھیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے دنیا کے تمام اسلامی ملکوں کے حکمرانوں اور سربراہوں پر خصوصی ذمے داری عائد ہوتی ہے، عام مسلمانوں کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو پوری طرح محسوس کریں اور ان کے خاتمے کے لیے آواز اٹھائیں۔ اس طرح مسلمان حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات اور آزادی دلانے کے لیے یک آواز ہوں اور مل کر قدم اٹھائیں اور اسلام دشمن طاقتوں سے مرعوب ہونے کے بجائے حق گوئی اور حق کوشی کا وہی راستہ اختیارکریں جو نمرود کے مقابلے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اختیار کیا تھا تاکہ وہ دنیا میں ملت اسلامیہ کے کھوئے ہوئے مقام کو دوبارہ حاصل کرسکیں۔ مسلمانوں کے لیے عیدالاضحی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ وہ خود کو خواہشوں کی بندگی سے نکال کر اپنے آپ کو اللہ کا بندہ بنانے کا عہد کریں۔
قربانی کی سنت ادا کرتے ہوئے ہمیں اس کی روح یعنی تقویٰ کے تقاضوں کے مطابق نفس میں چھپے ہوئے شیطان کو کنکریاں مارنی ہوں گی تاکہ وہ ہمیں گمراہی اور بد عہدی کی راہ پر نہ لے جاسکے۔ اس شیطان کی شکست ہی جذبہ قربانی کی فتح ہے جو فرد کی شخصیت کے متوازن ہونے اور معاشرے میں انصاف کے چلن کی پہلی شرط ہے۔ اسی سے محبتوں کے پھول خوشبو بکھیرنے کے قابل ہونگے اور معاشرے کے تمام طبقات امن کے ثمرات سے فائدہ اٹھائیں گے۔ دعا ہے کہ مسلمان عیدالاضحی مناتے ہوئے اسلام کے اس تہوار کی اصل روح کو اپنی عملی زندگیوں میں سمولیں اور زندگی کی ہر آزمائش میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔
عید قرباں یا عیدالاضحی کی نیک سعادت وبرکت سے فضاؤں میں ایسی ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے جس سے روح سرشارہوجاتی ہے۔ بڑے بزرگ، نوجوان لڑکے بالے، لڑکیاں، خواتین و حضرات کے چہروں پر خوشی کی دھنک بکھر جاتی ہے اور قربانی کے گوشت سے ہر قسم کے طعام سجتے ہیں۔ تعطیلات کے ان دنوں میں عزیز و اقارب، دوست و احباب سے گلے ملنے اور ایک دوسرے کی خیر و عافیت پوچھنے اور دکھ سکھ بانٹنے کے بھرپور مواقعے ملتے ہیں جن کی دل پذیر یادیں سارا سال آپ کے چہرے پر مسکراہٹ کے رنگ بکھیرتی رہتی ہیں۔
مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ امارت وغربت کا فرق جس میں پاکستان روز بہ روز غرق ہوتا جارہا ہے ایسے مواقعے پرکھل کر سامنے آجاتا ہے، یہ ملک قربانیوں سے بنا تھا، قربانیوں سے قائم ہے اور قربانیوں پر ہی قائم رہے گا، 69 سال سے عوام قربانی دے رہے ہیں، لیڈرگوشت کھارہے ہیں، انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں قربانی بھی اسٹیٹس سمبل بن چکی ہے، جانوروں کی قیمتیں اور قصابوں کے ریٹ آسمان سے باتیں کررہے ہیں، متوسط، سفید پوش حتی کہ نسبتاً خوش حال طبقے کے افراد کے لیے بھی موجودہ مہنگائی میں سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہونا مشکل ہوگیا ہے۔ کس کا دل نہیں چاہتا کہ سنت ابراہیمی کی پیروی دل وجان سے کرے لیکن حالات ساتھ نہیں دیتے،کئی گھرانے ایسے ہیں جہاں پانچ پانچ قربانیاں ہورہی ہیں تو بہت سے ایسے بھی ہیں جو ایک قربانی کا بھی تصور نہیں کرسکتے۔
اس موقعے پر ہمیں سوچنا چاہیے کہ قربانی کی اصل روح کیا ہے؟ اس کی وضاحت خود اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان کے ذریعے کردی ہے جس کا مفہوم ہے کہ تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون اللہ کے پاس نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ یعنی وہ جذبہ اللہ تک پہنچتا ہے جس کی بناء پر تم اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں اپنی زندگی کی عزیز ترین متاع اللہ کے راستے میں قربان کرنے کے لیے پیش کردی تھی، اس لیے قربانی کے علامتی عمل کا تقاضا ہے کہ ہم بھی جائزہ لیں کہ ہماری ایسی عزیز ترین چیزیں کون سی ہیں جو اللہ کی مرضی پر چلنے میں ہمارے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں،ان سب کو اللہ کی مرضی کے تابع کرنے کے لیے تمام تدابیر اختیار کریں، ان میں ہماری انا، ہماری خواہشات، ہمارا اسٹیٹس، ہمارے ذرایع آمدنی، ہماری معیشت سب کچھ شامل ہے۔
آج کا دن ہمیں کھانے پینے کا بھرپور موقع ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ یہ سوچنے کی تحریک بھی دیتا ہے کہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر بہت کچھ کرنا ہے، بہت کچھ چھوڑ کر دوسرا بہت کچھ ہے اپنانا اور اسے زندگی کا حصہ بنانا ہے، جب ہم ایسا نہیں کریں گے تو کسی بڑی تبدیلی کے لیے خود کو تیار نہیں کرپائیں گے، عیدالضحیٰ کے موقع پر جانور ذبح کرنا اور اس کے گوشت سے لذت پانا ہمیں تمام ذمے داریوں سے سبکدوش نہیں کردیتا۔ اللہ کے طے کردہ معیار پسندیدگی پر پورا اترنے کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے پورے وجود کا جائزہ لیں اور ہر وہ چیزچھوڑ دیں جو اللہ کی مرضی کے خلاف ہو، نیز ہر وہ چیز اپنالیں جو اللہ کی مرضی سے مطابقت رکھتی ہو، اللہ کے نزدیک مستحسن ٹھہرنے کا یہی ایک معیار ہے۔
اپنی حلال آمدن سے پسندیدہ جانور خرید کر اسے قربان کرنا ہمیں اس بات کے لیے تیار ہونے کی تحریک دیتا ہے کہ ہمیں اپنی بہت سی خواہشات بھی اللہ کی خوشنودی کی خاطر ترک کرنی ہیں، اپنے نفس کے گلے پر چھری پھیرنی ہے، یہ نکتہ ہر وقت ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے کہ ہمیں قربانی صرف کرنی نہیں ہے بلکہ دینی بھی ہے، جانوروں کے ساتھ ساتھ ہمارے نفس پر چڑھی ہوئی سرکشی کی کھال بھی کھینچنی چاہیے، ایسا کرنے کی صورت میں ہی قربانی کے مفہوم تک رسائی ہوسکے گی۔
عید کی خوشیاں مناتے ہوئے ہمیں نمود ونمائش کے مظاہروں سے بھی گریزکرنا چاہیے اور محروم و مستحق بھائیوں کی امداد واعانت کو اپنا شعار بنانا چاہیے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بے جا نمود و نمائش کا جذبہ قربانی کے حقیقی اجرکو ضایع کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔صحت مند اور خوبصورت جانور اگر صرف اللہ کی بارگاہ میں قربانی کی قبولیت کے جذبے کے تحت خریدے جائیں تو اس میں قطعاً مضائقہ نہیں، اسی طرح قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ مستحق افراد تک پہنچانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ آج مہنگائی کے دور میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جوگوشت خریدنے اور کھانے کی بالکل استطاعت نہیں رکھتے۔ اگر ہم قربانی کے جذبے اور روح کو سمجھ کر اسے زندگیوں میں برقرار رکھنا سیکھ لیں تو مسلمان ملکوں، معاشروں اور خاص طور پر پاکستان کے بہت سے مسائل پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
عیدالاضحی کے تہوارکو مناتے ہوئے بحیثیت مسلمان ہمیں اپنی ذمے داریوں کو خاص طور پر یاد رکھنا چاہیے، جن میں اولیت تزکیہ نفس کو حاصل ہے،آج جب دنیا بھر کے مسلمان نت نئی آزمائشوں، پریشانیوں اور ابتلا کا سامنا کررہے ہیں، ہمیں اس بات کو خاص طور پر یاد رکھنا چاہیے کہ ملت اسلامیہ ایک عالمگیر امت ہے، ہمیں ہر مسلمان خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی رہتا ہو کے دکھ اور درد کو پوری طرح محسوس کرنا چاہیے۔ ہمیں اس موقعے پر فلسطین، کشمیر، عراق اور افغانستان، شام، مشرق وسطیٰ، سمیت دنیا کے جن جن ملکوں میں مسلمان دہشتگردی کے خاتمے کے لیے شروع کی جانیوالی جنگ کے نام پر بدترین مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں، انھیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے دنیا کے تمام اسلامی ملکوں کے حکمرانوں اور سربراہوں پر خصوصی ذمے داری عائد ہوتی ہے، عام مسلمانوں کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو پوری طرح محسوس کریں اور ان کے خاتمے کے لیے آواز اٹھائیں۔ اس طرح مسلمان حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات اور آزادی دلانے کے لیے یک آواز ہوں اور مل کر قدم اٹھائیں اور اسلام دشمن طاقتوں سے مرعوب ہونے کے بجائے حق گوئی اور حق کوشی کا وہی راستہ اختیارکریں جو نمرود کے مقابلے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اختیار کیا تھا تاکہ وہ دنیا میں ملت اسلامیہ کے کھوئے ہوئے مقام کو دوبارہ حاصل کرسکیں۔ مسلمانوں کے لیے عیدالاضحی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ وہ خود کو خواہشوں کی بندگی سے نکال کر اپنے آپ کو اللہ کا بندہ بنانے کا عہد کریں۔
قربانی کی سنت ادا کرتے ہوئے ہمیں اس کی روح یعنی تقویٰ کے تقاضوں کے مطابق نفس میں چھپے ہوئے شیطان کو کنکریاں مارنی ہوں گی تاکہ وہ ہمیں گمراہی اور بد عہدی کی راہ پر نہ لے جاسکے۔ اس شیطان کی شکست ہی جذبہ قربانی کی فتح ہے جو فرد کی شخصیت کے متوازن ہونے اور معاشرے میں انصاف کے چلن کی پہلی شرط ہے۔ اسی سے محبتوں کے پھول خوشبو بکھیرنے کے قابل ہونگے اور معاشرے کے تمام طبقات امن کے ثمرات سے فائدہ اٹھائیں گے۔ دعا ہے کہ مسلمان عیدالاضحی مناتے ہوئے اسلام کے اس تہوار کی اصل روح کو اپنی عملی زندگیوں میں سمولیں اور زندگی کی ہر آزمائش میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔