’’گڈ شاٹ‘‘ اظہر علی

اظہر علی نے ایک ’’اچھے شاٹ‘‘ سے اپنی قیادت بچا لی ہےاگروہ دستبرداری کااعلان کردیتےتوٹیم میں جگہ بھی نہیں بچ سکتی تھی


Saleem Khaliq September 13, 2016
آخر میں چیئرمین شہریارخان کیلیے دعائے صحت کر لیتے ہیں، وہ دل کا آپریشن کرانے کے بعد ان دنوں لندن کے اسپتال میں زیرعلاج ہیں فوٹو: فائل

لاہور: '' اگر ہم پانچواں ون ڈے بھی ہار گئے تو میں کپتانی چھوڑ دوں گا'' ٹیم میٹنگ میں جب اظہر علی نے یہ جملہ کہا تو سب حیران رہ گئے، یہ اندازہ تو تھا کہ کلین سوئپ کی صورت میں بورڈ شاید انھیں قیادت سے ہٹا دے مگر پاکستان میں ازخود کون عہدہ چھوڑتا ہے، اس وقت اظہر کا حال بھی خراب تھا، چہرے سے ہوائیاں اڑ رہی تھیں مگر پھر جب آخری میچ میں فتح ملی تو سب تبدیل ہو گیا، ان کا اعتماد واپس آ گیا اور صورتحال تبدیل ہو گئی۔

یہ تفصیلات اس میٹنگ میں شریک ایک شخص نے بتائیں، مجھے تھوڑا بہت اندازہ تو تھا مگر یہ باتیں سن کر سب کچھ کلیئر ہوگیا، دراصل پی سی بی نے پلان بنایا تھا کہ سیریز کے بعد اظہر علی کو فارغ کر دیا جائے گا مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس صورت میں سب کہتے کہ خود قیادت سونپی پھر ہٹا بھی دیا، یا پہلے والا فیصلہ غلط تھا یا موجودہ، اس مسئلے کو حل کرنے کا موقع خود اظہر نے ہی فراہم کر دیا،البتہ سارا گیم اس وقت تبدیل ہوا جب پانچویں میچ کے بعد کپتان کا ارادہ بدل گیا، اظہرکے قریبی لوگ کہتے ہیں کہ ان میں ایک بڑی خامی ہے کہ وہ خود کوئی بڑا قدم نہیں اٹھاتے دوسروں کے مشوروں پر ہی عمل کرتے ہیں، مصباح الحق کا ان کے کیریئر پر گہرا اثر ہے۔

درحقیقت انھوں نے ہی اپنی جگہ اظہر کو کپتان بنوایا تھا،موجودہ قائد کو یہ بات بخوبی پتا ہے کہ وہ بطور عام کھلاڑی زیادہ دنوں تک ٹیم میں برقرار نہیں رہ سکیں گے، اسی لیے ڈٹ گئے،اب بورڈکے پاس بھی تنازع سے بچنے کیلیے انھیں عہدے پر برقراررکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، اسی لیے قیادت کا فیصلہ موخر کر دیا گیا، اظہر اور سرفراز احمد میں بہت فرق ہے،ایک محتاط انداز سے کھیلنے والاکھلاڑی ہے جو زیادہ بولڈ فیصلے بھی نہیںکرتا، دوسرا جارحانہ انداز کا مالک پلیئر بڑے فیصلوں سے بھی گریز نہیںکرتا، اظہر جیسے لوگوں کو سب پسند کرتے ہیں، چاہے وہ بورڈ آفیشلز،سلیکٹرز یا ساتھی کرکٹرز ہوں،ابھی تو شکستوں کے بعد پڑنے والے دباؤ سے بچنے کیلیے بورڈ انھیں قربانی کا بکرا بنانے لگا تھا مگر حکام دل سے سرفراز کو ون ڈے کپتان مقررکرنا بھی نہیں چاہتے،اس کی وجہ ان کا ''یس مین'' نہ ہونا ہے۔

ایسے لوگ خطرات سے کھیلتے رہتے ہیں، دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے مگر فی الحال تو اظہر علی نے ایک ''اچھے شاٹ'' سے اپنی قیادت بچا لی ہے، اگروہ دستبرداری کا اعلان کر دیتے تو ٹیم میں جگہ بھی نہیں بچ سکتی تھی، اس سارے معاملے میں کوچ مکی آرتھر کا کردار بھی بڑا معنی خیز ہے، انھوں نے اعلیٰ حکام سے خود کہا کہ وہ اظہر علی کی قیادت سے مطمئن نہیں ہیں، وہ دفاعی سوچ کے حامل کرکٹر اور ون ڈے کرکٹ کیلیے موزوں نہیں ہیں، دوسری جانب ٹیم میں شامل بعض لوگوں نے بتایا کہ وہ سامنے تو اظہر کی بیحد تعریف کرتے رہتے ہیں، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آرتھر بھی پاکستانی کرکٹ کی سیاست سمجھ چکے اور اسی رنگ میں رنگنے لگے ہیں، یہ بات درست نہیں انھیں ایسی باتوں سے بچنا ہو گا اسی صورت کامیاب ثابت ہو سکتے ہیں، کوچ کا اصل امتحان ون ڈے سیریز تھی جس میں بدترین شکست ہوئی، ٹیسٹ میں تو ٹیم پہلے سے ہی جیت رہی تھی، اگر آرتھر اسی طرح سیاسی چالیں چلتے رہے تو بہتری کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔

اب کچھ دیگر موضوعات پر بات ہو جائے، انضمام الحق نے بورڈ کے خرچ پر کئی دن تک انگلینڈ میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کا ''جائزہ'' لیا مگر لاہور سے اپنے آبائی شہر ملتان نہیں گئے جہاں ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی ایونٹ جاری تھا، انھوں نے گھر بیٹھے ٹیم منتخب کر لی،عماد بٹ کو صرف ایک میچ کیلیے انگلینڈ لے جایاگیا اور پھر بغیر کھلائے ڈراپ کر دیا، بعض حلقوں میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ کیا کسی سے وعدہ کیا گیا تھا کہ عماد کو انگلینڈ بھیجا جائے گا؟ ون ڈے سیریز میں 1-4 سے شکست نے ثابت کر دیا کہ سلیکٹرز اپنے فرائض بخوبی انجام نہیں دے رہے ہیں، مگر صرف وہی نہیں بورڈ حکام کون سے اچھے کام کر رہے ہیں، اب یہ دیکھیں کہ وسیم باری کو کئی سال قبل بورڈ سے زائد العمر ہونے پر ہی فارغ کیا گیا، مگر اب 68سال کی عمر میں وہ 74سالہ انتخاب عالم کی جگہ منیجر بن گئے،وسیم باری چیئرمین شہریارخان کے بہت قریبی فرد ہیں۔

اسی لیے جیسے کرنل (ر) نوشاد علی کو انھوں نے دوستی نبھاتے ہوئے اے ٹیم کا منیجر بنایا ویسے ہی وسیم باری کو بھی نواز دیا، افسوس اسی بات کا ہے کہ میرٹ پر کوئی فیصلہ نہیں ہوتا ہر جگہ دوستیاں نبھائی جاتی ہیں، وسیم باری ویسے ہی ماضی میں اتنے اچھے انداز میں فرائض انجام نہیں دے سکے، سری لنکن ٹیم پر لاہور میں جب حملہ ہوا تو وہ بورڈ میں اعلیٰ پوزیشن پر فائز تھے مگر بدقسمتی سے سیکیورٹی انتظامات پر کوئی توجہ ہی نہیں دی، پاکستان جو آج انٹرنیشنل کرکٹ کیلیے نوگو ایریا بن چکا اس میں وسیم باری اور ذاکر خان کا اہم کردار ہے، دونوں نے اپنے فرائض سے غفلت برتی جس کا ملک کو نقصان اٹھانا پڑا، اگر وہ سیکیورٹی میں خامیاں دیکھ کر نشاندہی کر دیتے تو سانحہ لاہور سے بچا جا سکتا تھا۔

آخر میں چیئرمین شہریارخان کیلیے دعائے صحت کر لیتے ہیں، وہ دل کا آپریشن کرانے کے بعد ان دنوں لندن کے اسپتال میں زیرعلاج ہیں، حسب توقع انھوں نے عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ نہیں کیا حالانکہ 82 سال کی عمر میں صحت انھیں مزید کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی، شاید ان کی بعض قریبی شخصیات کو بھی اب بورڈ کے پروٹوکول کی عادت ہو چکی ہے اس لیے وہ نہیں چاہتیں کہ چیئرمین جائیں،ایسے میں یہ سوال ضرور ذہن میںآتا ہے کہ جب آپ مصباح الحق، شاہد آفریدی اور یونس خان کے بارے میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ اتنے سال کے ہو گئے اب ریٹائر ہو جانا چاہیے، ایسے میں کسی کو چیئرمین یا دیگر آفیشلز کی عمریںکیوں دکھائی نہیں دیتیں، سب کیلیے قانون ایک سا ہونا چاہیے۔ا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |