ہیڈ کوچ کو قومی ٹیم کی ورلڈ کپ میں براہ راست شمولیت خطرے میں نظر آنے لگی

اگر ہم ہر بار ایک جیسے کھلاڑیوں کو ہی ٹیم میں منتخب کرتے رہیں گے تو نتائج بھی ایک جیسے ہی ہوں گے، ہیڈ کوچ مکی آرتھر

ہمارے پاس کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے، ہمیں کچھ کھلاڑیوں پر سرمایہ لگانا ہوگا، ہیڈ کوچ۔ فوٹو: فائل

پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کا کہنا ہے کہ گرین کیپس ون ڈے میں جس طرح پرانے طرز کی کرکٹ کھیل رہے ہیں تو 2019 میں ہونے والے ورلڈ کپ میں ان کی براہ راست شمولیت خطرے میں پڑ گئی ہے۔

ایک انٹرویو میں مکی آرتھر کا کہنا تھا کہ جس طرح کی کرکٹ پاکستانی ٹیم اس وقت کھیل رہی ہے ہمیں اسے چھوڑ کر بہادری سے کرکٹ کھیلنا ہو گی اور اچھی کارکردگی نہ دکھانے والے سینئر کھلاڑیوں کی چھٹی کر کے کرکٹ کو جاری رکھنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے بہت حقیقت پسند ہونا ہوگا، پہلے ہمیں وقت نہیں مل سکا لیکن اب ہمیں اپنا آگے جانے کا سفر شروع کرنا ہوگا، میں بہت اچھے طریقے سے کھلاڑیوں اور ان شعبوں کو سمجھ چکا ہوں جن میں بہتری کے لئے ہمیں کام کرنا ہے، ان لوگوں کو بھی دیکھ چکا ہوں جن کے ساتھ مل کر ٹیم کی بہتری کے لئے کام ہو سکتا ہے اور بہت پر امید ہوں کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

مکی آرتھر کا کہنا تھا کہ اگر ہم ہر بار ایک جیسے کھلاڑیوں کو ہی ٹیم میں منتخب کرتے رہیں گے تو نتائج بھی ایک جیسے ہی ہوں گے اور ہم آئی سی سی رینکنگ میں نویں نمبر پر ہی بیٹھیں رہیں گے۔ ہمارے پاس کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے، ہمیں کچھ کھلاڑیوں پر سرمایہ لگانا ہوگا۔

پاکستانی کوچ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کے کھلاڑیوں کی ٹیم میں منتخب ہونے کے حوالے سے تاریخ رہی کہ وہ ٹیم میں اپنی جگہ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے فیلڈ میں ان کی کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے، چاہتا ہوں کہ یہ نظام فوری طور پر اوپر سے نیچے تک ختم ہو تاکہ کھلاڑی اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں۔ انھوں نے کہا کہ چاہتا ہوں کہ کھلاڑی جارحانہ طرز کی کرکٹ کھیلیں، ایسی کرکٹ جو دیکھنے والوں کو بھی اچھی لگے، ایسا کھیل جس سے کھلاڑی بھی متاثر ہوں اور سپوٹرز کی جانب سے بھی پزیرائی ملے، ایسی کرکٹ جو چیلنجز اور تفریح سے بھرپور ہو۔


کھلاڑیوں کی فٹنس کے حوالے سے مکی آرتھر کا کہنا تھا کہ مجھے پاکستانی عوام اور پی سی بی کی جانب سے بڑی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں جن کی تکمیل کے لئے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کروں گا اور کھلاڑی بھی اسے اچھی طرح جانتے ہیں، تمام کھلاڑیوں پر واضح کردیا ہے کہ جو بھی ان فٹ کھلاڑی ہو گا اسے نہیں کھلایا جائے گا۔ انھوں نے مصباح الحق اور یونس خان کی فٹنس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ دونوں کھلاڑیوں کی گزشتہ برس بہترین پرفارمنس کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ دونوں اپنی فٹنس کو بہتر بنانے کے لئے خوب محنت کرتے ہیں، اسی طرح ون ڈے ٹیم میں شعیب ملک ہے جو 30 کی دہائی میں ہے لیکن اس کے باوجود اس کی فٹنس بہت ہی شاندار ہے، چاہتا ہوں کہ نوجوان کھلاڑی بھی اپنے آپ کو اسی طرح فٹ رکھیں کیونکہ یہی حقیقی معنوں میں پروفیشنلزم ہے۔

قومی کرکٹ ٹیم کے کوچ کا کہنا تھا کہ محمد عرفان جب انگلینڈ پہنچے تو وہ ایک روزہ کرکٹ کھیلنے کے لئے بالکل بھی فٹ نہیں تھے، بہت ہو چکا اب ہمیں عوام کو بتانا ہو گا کہ ہم آگے پہنچنے والے ان فٹ کھلاڑیوں کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہیں، انگلینڈ کے خلاف ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی ٹور کے لئے پہنچنے والی پاکستانی ٹیم کے تمام کھلاڑی فٹنس کے معیار پر پورا نہیں اترتے تھے جو ایک اچھی مثال نہیں ہے۔

واضح رہے کہ ہر 4 سال ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے لئے آئی سی سی رینکنگ میں موجود 7 ٹیمیں اور میزبان براہ راست کوالیفائی کر جاتے ہیں لیکن پاکستانی ٹیم اس وقت ون ڈے رینکنگ میں نویں نمبر پر موجود ہے اور ورلڈ کپ میں براہ راست شامل ہونے کے لئے گرین شرٹس کے پاس صرف ایک برس باقی رہ گیا ہے۔ پاکستان نے اپنی رینکنگ کو بہتر بنانے کے لئے آئی سی سی کی شیڈول 30 ستمبر 2017 سے قبل 14 ایک روزہ میچ کھیلنے ہیں۔

اگر پاکستان آئی سی سی کی مقررہ کردہ تاریخ سے قبل اپنی ون ڈے رینکنگ بہتر بنانے میں ناکام رہتا ہے تو پھر اسے 2018 میں ہونے والا ورلڈ کپ کوالیفائنگ مرحلہ کھیلنا ہو گا جس میں 10 ٹیمیں شامل ہوں گی اور ان میں سے صرف دو ٹیمیں ہی ورلڈ کپ میں شرکت کر سکیں گی۔
Load Next Story