باطل تو ہے ہی مٹنے کے لیے

ظالم ہو یا ظلم، انجام کے اعتبار سے دونوں کا مستقبل انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

ظالم ہو یا ظلم، انجام کے اعتبار سے دونوں کا مستقبل انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔ ہر ظالم ایک دن اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر عبرت ناک موت کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ اسلام میں ظالم اور ظلم کی قطعی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام اپنے ماننے، چاہنے والوں کی شرافت، دیانت، صبر و تحمل، بھائی چارے، رواداری، انسان دوستی، انسانی ہمدردی، تکریم انسانیت، احترام آدمیت، عفو و در گزر، حقوق اﷲ اور اطاعت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کا درس دیتا ہے۔ اسلام آج ظلم کی مذمت اور مظلوم کی مدد کرنے کا درس ہے، ظلم چاہے کتنا ہی طاقتور اور بااثر کیوں نہ ہو، اپنے ظلم اور مظلوم کی انجام کار بددعا کا شکار ہوکر ہی رہتا ہے اور ظلم کی موت کا ہی حق دار ٹھہرتا ہے۔ ظالم چاہے شکل نمرود میں ہو یا جسد فرعون میں، یزیدگی طاری ہو یا چنگیزیت کے لبادے میں ہو، ظلم کی جو بھی شکل و صورت ہو اور ظالم کتنے ہی پردوں میں ہو، بالآخر فنا ہوکر ہی رہتا ہے، اسی لیے ظلم کافر کو زیب دیتا ہے، اسی کا طرۂ امتیاز ہے جب کہ اسلام اور مسلمان کی شان کے خلاف ہے، کیونکہ اسلام اور مسلمان اپنے نام اور مفہوم کے لحاظ سے امن وامان، سکون و سلامتی کا خواہاں، آرزو مند اور پیکر ہے۔

آغاز اسلام کے وقت سلام کی صدائے حق پر لبیک کہنے والے مظلوم مسلمانوں پر کفار مکہ نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے، ظلم و تشدد کا ہر حربہ اختیار کیا گیا، تپتے ہوئے صحرا اور ریگزار عرب میں مظلوم صحابہؓ و صحابیاتؓ پر کوڑے برسائے گئے، ظلم و ستم کا ہر حربہ استعمال کیا گیا، لیکن اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت اور اسلام کا نشہ ان کے دلوں سے نہ نکالا جاسکا۔ کفار و مشرکین کا غصہ غریب اور لاچار مسلمانوں پر ٹوٹنے لگا۔ چنانچہ انھیں ستانے کے لیے نئے نئے انداز ستم ایجاد کیے گئے، کفار مکہ نے حتی المقدور کوششیں کیں کہ کسی بھی طرح اسلام کی نشر و اشاعت، تبلیغ دین اور اسلام کی روز افزوں بڑھتی ہوئی ترقی کو روکا جاسکے اور مسلمانوں کو دین اسلام سے پھیر کر دوبارہ بت پرستی کی راہ پر لگادیا جائے۔

انھوں نے اس سلسلے میں ہر ممکن کوشش کی، منصوبے بنائے سازشیں کیں مختلف حربے استعمال کیے، ہر طرح کے مکر و فریب و دجل اور فتنہ انگیزی کے ذریعے سے کام لیا، طرح طرح کے مظالم ڈھائے، ظلم و ستم و جبر کی انتہا کردی، صحابہ کرامؓ پر مصائب اور پریشانیوں کے پہاڑ توڑ ڈالے لیکن کفار مکہ کے یہ تمام منصوبے، سازشیں سب کے سب ناکام ہوگئے اور انھیں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ تمام مظالم کے باوجود مسلمانوں کو ذرہ برابر بھی حق پرستی کی راہ سے نہ ہٹاسکے، ان کی یہ تمام سفاکیاں کسی ایک مسلمان کو بھی جادہ اسلام سے نہ ہٹاسکیں۔

خود حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر پتھر برسائے گئے، آپؐ کے قتل کے منصوبے بنائے گئے۔ آپؐ کے دندان مبارک کو شہید کیا گیا۔ آپؐ راستے سے گزرتے تو آپؐ پر کچرا پھینکا جاتا، جب آپؐ تبلیغ اسلام فرماتے تو ابوجہل و ابولہب آپؐ کے پیچھے پیچھے چلتے اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہتے کہ ''لوگو! (نعوذباﷲ) یہ دیوانہ ہے، دین سے پھر گیا ہے اس کی باتوں میں نہ آنا''۔ عین نماز کی حالت میں آپؐ کی گردن مبارک میں چادر کا پھندا بناکر اس زور سے کھینچا گیا کہ آپؐ کی گردن مبارک پر نشان پڑگئے اور آپؐ گھٹنوں کے بل گرگئے، عین نماز کی حالت میں جب آپؐ کی پیشانی مبارک سجدہ ریز تھی اور ہونٹوں پر رب ذوالجلال کی ثنا جاری تھی کہ کندھوں کے درمیان پشت مبارک پر بوجھ آگرا، اتنا وزنی کہ سر سجدے سے اٹھانا ممکن نہ رہا۔ قریب میں کچھ لوگ ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہونے لگے اور پیٹ پکڑ کر ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ یہ ابوجہل کے ساتھی تھے، عقبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عقبہ اور امیہ بن ابی معیطر نے سجدہ گزار کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھڑی ڈالی تھی۔


محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت اور مقبول اسلام کی پاداش میں صحابہ کرامؓ پر جو مظالم ڈھائے گئے وہ بھی کچھ کم نہ تھے لیکن صحابہ کرامؓ کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہ آئی، ٹھیک نصف النہار کے وقت تپتے ہوئے سنگریزوں پر لٹاکر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیے جاتے کہ ہلنے نہ پائے، دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹاتے اور اس وقت تک جنبش نہ کرنے دیتے جب تک زخموں کی رطوبت سے آگ بجھ نہ جاتی، پانی میں غوطہ دیتے، رسی باندھ کر گھسیٹتے، ڈنڈوں سے پیٹا جاتا، چٹائی میں لپیٹ کر کرب ناک دھوئیں کی دھونی دی جاتی کہ سانس لینا مشکل ہوجاتا اور دم گھٹنے لگتا۔ ان واقعات میں بعض صحابہ کرامؓ نے جام شہادت بھی نوش فرمایا۔ حضرت بلالؓ، حضرت صہیبؓ، حضرت عمارؓ، حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت طلحہؓ اس ستم رسیدہ جماعت کے افراد تھے۔

مرد تو مرد، مسلمان عورتیں تک کفار مکہ کے ظلم سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ حضرت سمعیہؓ، حضرت زنیرہؓ اور لبیبہؓ بھی کفار مکہ کے ستم کا نشانہ بنیں، حضرت سمعیہؓ کو ابوجہل نے نیزے سے چھید چھید کر ہلاک کردیا، لیکن یہ تمام سفاکیاں بے سود رہیں، ناکام رہیں، حق باطل پر غالب تھا اور غالب ہی رہا، کوئی ایک مسلمان بھی جادہ اسلام سے نہ ہٹ سکا۔ بات دراصل یہ تھی کہ انقلاب اسلام کی راہ روکنے کے لیے ابولہب کی سرکردگی میں 25 سرداران قریش کی کمیٹی نے پیغمبر اسلام کو ایذا پہنچانے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیروکاروں کے لیے زمین تنگ کردینے کا فیصلہ کیا تھا، یہ لوگ ظلم و جبر کی علامت تھے۔

بالآخر صبر و تحمل کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور زبان رحمت سے بارگاہ الٰہی میں راز و نیاز کی باتیں ہوئیں اور جلال الٰہی کو جوش آگیا، تاریخ کے دھارے نے اپنا رخ پھیرا اور کروٹ بدلی، تاریخ کی یہ کروٹ ظالموں کے لیے ایک عبرتناک سبق بن گئی، غزوہ بدر کے تاریخ ساز موقع پر غیبی امداد کی صورت میں انسانیت کے ان تمام دشمنوں پر قہر الٰہی ٹوٹا اور اسلام اور انسانیت کے یہ دشمن غزوہ بدر میں ایک ایک کرکے ڈھیر ہوگئے۔ ان کے اپنے بھی ان پر ماتم نہ کرسکے۔

یہ اسلام کی پہلی عظیم الشان فتح تھی جو جہالت و جاہلیت کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ تھی، بلاشبہ وحشت و سفاکیت کی نمایندہ قوتوں، قوموں اور ریاستوں کے جھٹکے کے بعد ہی انسانی تہذیب و تمدن کا پاکیزہ سفر شروع ہوتا ہے اور بقول قرآن یہی اﷲ رب العالمین کا طریقہ رہا ہے کہ اسلام حق و صداقت کا ترجمان اور دینی فطرت ہے، قدرت نے اسے غالب کرکے کفر کی تمام قوتوں کو مغلوب کرنے کے لیے ایک ابدی فیصلہ دے دیا کہ ''حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل تو تھا ہی مٹنے کے لیے''۔
Load Next Story