لسانی جارحیت کے مناظر

بنگلور میں دنیا بھر کی چوٹی کی آئی ٹی فرمیں قائم ہیں جن کا خیال تھا کہ یہ شہر آزاد خیال اور پرامن ہے


کلدیپ نئیر September 16, 2016

بنگلور میں فسادات اور قتل و غارت گری کے مناظر ٹی وی پر دیکھ کر مجھے آج سے ستر برس قبل تقسیم برصغیر کے ہولناک واقعات یاد آ گئے، ہم پاکستان میں مقیم تھے جہاں ہم صدیوں سے رہ رہے تھے مگر ہمیں اپنا سب کچھ وہیں چھوڑ کر بھارت منتقل ہونا پڑا، میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ بنگلور جیسا کاسمو پولیٹن شہر زبان کے تنازعہ پر اس قدر وحشت و بربریت کا شکار ہو جائے گا کہ جس میں کناڈا کے لوگ تاملوں کا قتل عام شروع کر دیں گے۔

بنگلور میں دنیا بھر کی چوٹی کی آئی ٹی فرمیں قائم ہیں جن کا خیال تھا کہ یہ شہر آزاد خیال اور پرامن ہے لہٰذا آئی ٹی فرموں کے دفاتر کھولنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اس وقت اگر کوئی مجھ سے پوچھتا کہ کیا ایسا ہولناک منظر بنگلور میں وقوع پذیر ہو سکتا ہے تو میں بڑے اعتماد سے جواب دیتا کہ ہر گز نہیں۔ لیکن یہ ہو گیا کیونکہ جن لوگوں کو لبرل خیال کیا جاتا تھا وہ تنگ نظری کا شکار ہو گئے البتہ خوش قمستی سے تامل ناڈو کی وزیراعلیٰ جے جیا للیتا نے عزم صمیم کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ریاست میں اس قسم کی کسی جوابی کارروائی کی ہر گز اجازت نہیں دیں گی جس کی وجہ سے یہ فسادات وہاں نہیں پھیل سکے۔ جے للیتا کو اس امر کی داد دی جانی چاہیے جنہوں نے بلا امتیاز تشدد اور قتل و غارت کو روک لیا۔

واضح رہے کہ کرناٹک اور تامل ناڈو کی ریاستوں میں دریائے کاویری کے پانی کی تقسیم کا تنازعہ بہت پرانا ہے اور یہ پہلا موقع نہیں کہ کرناٹک نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس فیصلے میں تامل ناڈو کو ایک خاص مقدار میں پانی جاری کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی جب کبھی ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے تو دونوں ریاستوں کے لوگوں نے ایک دوسرے کو گلے سے پکڑ لیا ہے لہٰذا آج جو بنگلور میں ہوا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں البتہ اس مرتبہ خون خرابہ کچھ زیادہ ہی ہوا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟

سپریم کورٹ کے فیصلے کو تو کوئی بھی چیلنج نہیں کر سکتا لہٰذا حل یہی ہے کہ دونوں فریق میز پر بیٹھ کر مذاکرات کریں بالخصوص ایسی صورت میں جب عوام کے جذبات مشتعل ہو چکے ہوں چونکہ کرناٹک اور تامل ناڈو کی ریاستوں میں پانی کی تقسیم کا مسئلہ بہت حساس نوعیت کا ہے تو مجھے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی یہ بات یاد آتی ہے جنہوں نے کہا تھا کہ اس مسئلہ پر قابو پانے کے لیے باقاعدہ ریفرنڈم کرایا جائے۔ باوثوق حلقے قوم کو متنبہ کرتے رہے ہیں کہ یہ مسئلہ آگے چل کر قابو سے باہر ہو سکتا ہے اور تنازعہ مسلسل جاری رہے گا۔

اصل میں کرناٹک نے دریائی پانی کی تقسیم کے بارے میں طے پانے والے تمام فیصلوں کو اپنے طور پر منسوخ کر دیا ہے جس کی وجہ سے حالات خراب ہو گئے ہیں اور ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے ۔

جس کا قوم کو اس سے پیشتر کبھی واسطہ نہیں پڑا جب کہ اس پر مستزاد یہ کہ دونوں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں جو کہ بھارت کے وفاقی آئین کی خلاف ورزی ہے مزید برآں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دریائی پانی میں حصہ داری کا معاملہ ویسے ہی بہت حساس اور پیچیدہ ہوتا ہے اور اس وقت دریائے کویری کے پانی میں حصہ داری کا معاملہ ہے اس کا حل صرف اس صورت میں نکل سکتا ہے جب سیاسی جماعتیں اپنی تنگ نظری کی سیاست سے بالاتر ہو کر کوئی فیصلہ کرنے کی کوشش کریں اس حوالے سے اگر کوئی دانشمندانہ فیصلہ کر لیا جاتا ہے تو اس سے ہمارے ملک کی یکجہتی کو تقویت ملے گی ورنہ اتحاد پارہ پارہ ہو سکتا ہے اس مقصد کی خاطر فریقین میں خلوص نیت کا ہونا لازمی شرط ہے۔ یہ ناممکن نہیں کہ دونوں ریاستوں کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے کوئی منصفانہ فیصلہ کر لیا جائے۔

میں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ ہمارا اصل مسئلہ ہماری بے تحاشا آبادی ہے۔ یہ بات میں نے امریکا کے ایک نوبل انعام یافتہ دانشور سے کہی تھی مگر اس کا جواب تھا کہ نہیں تمہارا اصل مسئلہ پانی کی منصفانہ تقسیم کا ہے۔ ہم نے بھارت کو مستقبل میں پیش آنے والے مسائل پر تبادلہ خیال کیا لیکن کافی طویل بحث مباحثہ کے باوجود ہمارے نظریات میں یکسانیت پیدا نہیں ہو سکی۔ مہاراشٹر میں چند سال قبل دریائی پانی کی تقسیم پر اس قسم کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی جس سے مجھے امریکی دانشور کے ساتھ ہونے والی بات چیت یاد آ گئی۔

بھارت میں سات بہت بڑے دریا موجود ہیں جن میں برہم پتر انڈس (سندھ) نرمدا' کرشنا' گوداوری اور کویری مشہور ہیں جب کہ ان کی ذیلی شاخوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ نئی دہلی نے سینٹرل واٹر اینڈ پاور کمیشن بنا رکھا ہے تاکہ تمام دریاؤں کے پانی کو بہتر طور پر استعمال میں لایا جا سکے اور آبپاشی کے علاوہ بجلی بھی پیدا کی جا سکے۔ بھارت کے کئی علاقوں میں بڑی کامیابی سے اس پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے لیکن کئی علاقوں میں اس حوالے سے بہت سنجیدہ قسم کے مسائل بھی پیدا ہو چکے ہیں جن پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ ہریانہ نے جو پنجاب کا حصہ تھا راجستھان اور دہلی کے لیے پانی جاری کرنے سے انکار کر دیا حالانکہ سندھ طاس معاہدے کے موقع پر دہلی نے اس کے برعکس موقف اختیار کیا تھا اس وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ راجستھان کے لیے زیادہ پانی کی ضرورت ہے کیونکہ وہ صحرائی علاقہ ہے۔

یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آزادی کے 70 سال بعد تک یہ مسائل حل نہیں ہو سکے۔ جب کانگریس کی مرکز میں اور صوبوں میں بھی حکومت تھی تب ایسا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا، بی جے پی کی اس دور میں لوک سبھا کی صرف چند نشستیں تھیں لہٰذا اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی لیکن آج منظرنامہ مختلف ہے۔ اب لوک سبھا میں اس کی اکثریت ہے اور اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہیے اس ضمن میں اسے اصول یا بے اصولی کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ البتہ جنوبی ہند میں صورتحال مختلف ہے۔

کرناٹک اور تامل ناڈو میں بی جے پی کی حکومت نہیں۔ مرکز کو یہاں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وزیراعظم مودی کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ملک کے مختلف حصوں کو متحد کر دیا ہے مگر وہ بھی موجودہ صورتحال میں مسائل سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ وہ صرف عمومی قسم کا بیان جاری کر دیتے ہیں۔ مگر مسئلہ کو حل نہیں کرتے مذکورہ دونوں ریاستوں کا مسئلہ بنیادی طور پر لسانی تھا مگر اب وہ پانی تک پہنچ گیا ہے۔

ہندو اور مسلمان جو صدیوں سے اکٹھے رہتے رہے تھے، تقسیم کے فوراً بعد ہی اجنبی بن گئے اور انھوں نے ایک دوسرے کا قطعاًً کوئی لحاظ نہ کیا۔ تب وسیع پیمانہ پر جو صورتحال پیدا ہوئی محدود پیمانے پر وہی تامل ناڈو اور کرناٹک میں پیدا ہو گئی ہے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ ریاستی جھگڑے بھی کہیں تقسیم پر منتج نہ ہو جائیں جب دوست اور پڑوسی اچانک اجنبی بن جاتے ہیں کیونکہ اس کے مذہب مختلف تھے، بنگلور آج وہی تقسیم برصغیر کا منظر تازہ کر رہا ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |