ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں

ہماری قوم اپنے مشاہیر اور محسنوں کو یاد رکھنے والی قوم ہے وہ ان کو اور ان کے پیغام کو یاد بھی رکھتی ہے

Amjadislam@gmail.com

''جس جرات' حوصلہ مندی اور بے باکی سے احمد ندیم قاسمی نے 6 ستمبر1965ء کی جنگ کے بارے میں مضامین لکھے کسی اور ادیب اور دانشور کے قلم سے نہیں نکلے اور یہ فی الحقیقت کوئی معمولی بات نہیں ہے اس وقت اکثر ادیب و دانشور تذبذب اور عدم فیصلہ کا شکار تھے لیکن قاسمی صاحب ہی کی وہ آواز تھی جس نے سب کو تذبذب کی دلدل سے نکال کر پاکستانی ہونا سکھایا تھا یہ مضامین ان کی کتاب ''تہذیب و فن'' میں آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں ان کے مضامین پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا تھا کہ اس مسئلے پر ان کا ذہن کس قدر صاف اور شفاف ہے۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی تھی کہ ترقی پسندی اور محب وطن پاکستانی ہونے میں کوئی تضاد نہیں ہے اپنے مضمون ''روح عصر کے تقاضے میں قاسمی صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ''جب تک ہم پاکستانی ادیب نہیں بنیں گے عالمی نقطہ نظر کا ادیب کہلانا ہمیں کیسے سجے گا؟ اور عصر کی روح صرف واشنگٹن اور نیو یارک' پیرس اور لندن' برلن اور روم ہی میں تو نہیں رہتی تلاش کیجیے تو پنڈی اور کراچی میں بھی مل جائے گی اور درخت کی چوٹی تک پہنچنے کا صحیح راستہ یہ ہے کہ تنے کی طرف سے اوپر بڑھیے زمین پر سے چھلانگ مار کر درخت کی پھننگ پر جا بیٹھنا تو صرف ٹارزنوں کا کام ہے اور ہم ٹارزن نہیں ہیں ہم تو اہل قلم ہیں جن کا مٹی سے رشتہ بہت استوار ہوتا ہے''

یہ طویل اقتباس حال ہی میں شایع ہونے والے اکادمی ادبیات پاکستان کے ادبی مجلے ''ادبیات' کے اس خصوصی شمارے سے لیا گیا ہے جو احمد ندیم قاسمی صدی کے حوالے سے ترتیب دیا گیا ہے اس کے مصنف ہم سب کے محترم ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں جن کی ادبی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں اس کے انتخاب کی دوسری وجہ یہ بنی کہ ابھی چھ ستمبر کو گزرے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا سو اس کی معنویت دوگونہ ہو گئی ہے کہ اس میں جنگ اور امن دونوں زمانوں میں ادیب کے رول اور ادب کے تقاضوں پر بات کی گئی ہے گزشتہ دنوں چھ ستمبر کی مرکزی تقریب میں شرکت کے لیے اسلام آباد جانا ہوا تو واپسی پر اکادمی ادبیات کے دفتر میں کچھ وقت اس کے چیئرمین برادرم ڈاکٹر قاسم بگھیو کے ساتھ بھی گزارنے کا موقع ملا اور اسی ملاقات میں قاسم بھائی نے ''ادبیات'' کے اس خصوصی احمد ندیم قاسمی نمبر کی ایک کاپی مجھے یہ کہہ کر دی کہ ابھی نہ تو اس کا رسمی افتتاح ہوا ہے اور نہ ہی اس کی تقسیم شروع کی گئی ہے سو آپ ہمارے دفتری عملے سے قطع نظر ان اولین لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اس پرچے کو دیکھا ہے اور پھر اس کے مندرجات اور طباعت پر میری رائے بھی مانگی گئی میں نے عرض کیا کہ 604 صفحات پر مشتمل اس ضخیم اشاعت پر تبصرے کے لیے چند منٹ نہیں بلکہ کئی دن درکار ہیں البتہ اس کی پیش کش اور انداز کی تعریف فی البدیہہ بھی کی جا سکتی ہے کہ فائنل کور سے لے کر آخری صفحے تک مشمولہ مواد کو بہت خوب صورتی سے بانٹا اور پیش کیا گیا ہے بالخصوص ٹائٹل پر موجود قاسمی صاحب کی تصویر تو بار بار دیکھنے والی ہے۔

کوئی ایک برس قبل جب احباب نے مل کر قدیم صدی تقریبات کمیٹی کا ڈول ڈالا تو بہت سے محبان ندیم کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر قاسم بگھیو سے بھی رابطہ کیا گیا جنہوں نے اپنے مکمل تعاون کا نہ صرف یقین دلایا بلکہ اس پر عمل کر کے بھی دکھایا جس کا مختصر تذکرہ انھوں نے اس خصوصی نمبر کے پیش لفظ میں کچھ اس طرح سے کیا ہے۔


''رواں سال احمد ندیم قاسمی کے سوویں یوم پیدائش کا سال ہے اور اس سلسلے کا آغاز اکادمی نے ان کی پیدائش کا سوواں سال شروع ہوتے ہی ان کے لیے ایک بڑی تقریب کر کے کیا تھا اس کے بعد بہت سے اداروں اور ادبی تنظیموں نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے اسی مناسبت سے ہم اس نمبر کو جو 2006ء میں شایع ہوا تھا جس کی ضخامت تین سو صفحات تھی اب اسے مزید اضافوں کے ساتھ شایع کر رہے ہیں علاوہ ازیں احمد ندیم قاسمی۔ ''شخصیت اور فن'' کو بھی نئے اضافوں کے ساتھ شایع کرنے کے منصوبے پر بھی کام جاری ہے یہ کتاب بھی بہت جلد آپ کے ہاتھوں میں ہو گی''

اس دوران میں ندیم صدی کمیٹی نے نہ صرف فارن آفس اور سیکریٹری وزارت خارجہ اعزاز چوہدری صاحب کے تعاون سے بہت سے ممالک کے پاکستانی سفارت خانوں میں خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا ہے بلکہ اندرون ملک بھی پی ٹی وی کے تعاون سے ڈرامہ سیریل ''قاسمی کہانی'' کے نشر مکرر کے ساتھ ساتھ ہمدرد لیبارٹریز (وقف) کی اعانت سے ایک کل پاکستانی عظیم الشان مشاعرے ''بیاد قاسمی'' اور بینک الفلاح کے تعاون سے قاسمی صاحب کی شخصیت اور فن کے بارے میں خصوصی ڈاکومنٹری بھی بنوائی جو بہت جلد رسمی افتتاحی تقریب کے بعد ادب اور قاسمی دوستوں کے ہاتھوں میں ہو گی اس سی ڈی کے فولڈر میں سگنیچر قلم بنانے والے ادارے کے تعاون سے قاسمی صاحب کے دستخطوں والے خصوصی پین بھی رکھے جا رہے ہیں جو ایک عظیم اہل قلم کے حوالے ایک استعاراتی رعایت بھی رکھتے ہیں۔ جہاں تک ادبیات میں شامل مضامین' تصویروں اور قاسمی صاحب کی مختلف تحریروں کے انتخاب کا تعلق ہے تو یہ کام عمومی طور پر خاصی محنت اور توجہ سے کیا گیا ہے لیکن اگر مشاہیر کی تحریروں کو کچھ زیادہ جگہ دی جاتی تو اس کا مجموعی تاثر مزید بہتر ہو سکتا تھا۔

''ماہ نو'' کے بعد ''ادبیات'' کے اس خصوصی احمد ندیم قاسمی نمبر کی اشاعت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری قوم اپنے مشاہیر اور محسنوں کو یاد رکھنے والی قوم ہے وہ ان کو اور ان کے پیغام کو یاد بھی رکھتی ہے اور اس سے فیض بھی حاصل کرتی ہے اسی حوالے سے آخر میں قاسمی صاحب کے دو شعر

خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو!
وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشت انساں پر
کسی بھی شہر میں جاؤں' غریب شہر نہیں
Load Next Story