محکوم و مجبور بلدیاتی عہدیداران
اس ملک کو سب سے بااختیار اور بہترین بلدیاتی نظام سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے دیا تھا
ملک کے تین چھوٹے صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہونے کے بعد بھی پنجاب جیسے بڑے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کا آخری مرحلہ مکمل نہیں ہورہا، جہاں مسلم لیگ (ن) کو سب سے زیادہ اکثریت حاصل ہوئی تھی اور پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بھی اکثر نشستیں حکمران لیگ ہی جیت رہی ہے اور گزشتہ سال 25 دسمبر کو پنجاب میں جو جماعتی بلدیاتی الیکشن ہوا تھا اس میں بھی (ن) لیگ ہی نے بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔
ملک کے چاروں صوبوں میں عوام دشمن حکومتوں کے بجائے گئے لولے لنگڑے بلدیاتی انتخابات موجودہ نام نہاد جمہوری حکومتوں نے نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پر کرائے گئے تھے۔ ملک بھر میں متنازعہ ہوکر اپنی ساکھ خراب کرلینے والے الیکشن کمیشن کی خاموشی سے تو لگتا ہے کہ اس میں بلدیاتی انتخابات مکمل کرانے کی اہلیت ہی نہیں ہے اور وہ جان بوجھ کراس سلسلے میں تاخیر پہ تاخیر کرکے ثابت کر رہا ہے کہ وہ بھی ملک میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے خلاف ہے۔
اس ملک کو سب سے بااختیار اور بہترین بلدیاتی نظام سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے دیا تھا اور یہ اعزاز بھی تین سابق فوجی صدورجنرل ایوب، جنرل ضیاالحق اورجنرل پرویز مشرف کو حاصل ہے کہ ان کے دور میں وقت مقررہ پر بلدیاتی انتخابات ہوئے اوردورآمریت قرار دیے جانے والے تین فوجی ادوار میں سات بار بلدیاتی انتخابات وقت اور باقاعدگی سے ہوئے تھے۔
بلدیاتی انتخابات نہ کرانے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومتیں ملوث رہی ہیں جب کہ مسلم لیگ قائداعظم اور مسلم لیگ جونیجو کہہ سکتی ہیں کہ ان کی وفاقی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات کرائے تھے جب کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی چھ وفاقی حکومتوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے پر توجہ ہی نہیں دی گئی تھی اور اگر سپریم کورٹ سختی نہ کرتی تو چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات ہی نہ ہوتے کیونکہ دونوں پارٹیوں کے ارکان قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی اپنے صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کے سخت خلاف ہیں کیونکہ بلدیاتی منتخب اداروں کی موجودگی میں انھیں ترقیاتی کاموں کے نام پر سرکاری فنڈ آئینی طور پر نہیں مل سکتے مگر سیاسی حکومتیں اپنوں کو نوازنے کے لیے غیر قانونی طور پر انھیں فنڈ دیتی آرہی ہیں۔
بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات تو سب سے پہلے ہوئے مگر بلدیاتی عہدیداروں کو اختیارات دینے میں ایک سال سے زائد تاخیرکی گئی۔ کے پی کے میں بھی یہی ہوا۔ سندھ میں انتخابات کے نویں مہینے میں بلدیاتی اداروں کو عہدیدار تو مل گئے مگر پنجاب میں دس ماہ ہونے کے بعد بھی بلدیاتی عہدیداروں کا انتخاب نہیں کرایا جا رہا جس کا مکمل ذمے دار الیکشن کمیشن ہے۔ اسلام آباد کے نومنتخب میئروں کو فوری اختیارات دے دیے جاتے ہیں مگر باقی صوبوں میں فوری طور یہ مراحل مکمل نہیں کیے جاتے۔
پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) دونوں جنرل ضیا الحق کو آمر قرار دیتے نہیں تھکتیں مگر ان دونوں کی صوبائی حکومتوں کو جنرل ضیا کا 1979ء کا بلدیاتی نظام بہت پسند ہے اور اسی لیے بیوروکریسی سے آزاد اور بااختیار ضلع نظام انھیں پسند نہیں حالانکہ وہ بھی ایک فوجی جنرل پرویز مشرف کا دیا ہوا تھا مگر دونوں پارٹیوں اور ان کے حلیفوں نے اقتدار میں آتے ہی انگریز دورکا کمشنری نظام بحال کرکے بلدیاتی اداروں کو بیوروکریسی کے کنٹرول میں دے دیا تھا۔ چاروں صوبوں میں کے پی کے کا بلدیاتی نظام بہتر تو نہیں کچھ غنیمت ہے مگر وہاں بھی بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت کے آگے محکوم اور مجبور اور بیوروکریٹس کے شکنجے میں ہیں۔
پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے کراچی دشمنی میں بلدیاتی نظام کو مذاق بنادیا ہے۔ سندھ میں تین میونسپل کارپوریشنیں کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں ہیں مگر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی بلدیہ عظمیٰ صرف نام کی بلدیہ عظمیٰ ہے۔ اس سے بااختیارتوحیدرآباد اور سکھر کی میونسپل کارپوریشنیں ہیں۔
سندھ حکومت کو پتا تھا کہ کراچی اورحیدرآباد کی میئرشپ انھیں نہیں مل سکتی۔ اس لیے ملک کے سب سے بڑے بلدیاتی ادارے سے واٹر بورڈ، کے بی سی اے، کے ڈی اے، ایم ڈی اے، ایل ڈی اے جیسے اہم اداروں کے علاوہ کراچی میں صفائی اورکچرا اٹھانے کا کام بھی واپس لے کر سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو سونپ دیا گیا ہے اور اب یہ ادارے بلدیہ عظمیٰ کے نہیں سندھ حکومت کے ماتحت ہیں جب کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی اب آزاد وخود مختار نہیں بلکہ سندھ حکومت کا محتاج محکمہ بلدیات اور بیوروکریسی کے رحم وکرم پر رہ جانے والا محدود اختیارات کا حامل بلدیاتی ادارہ بنادیا گیا ہے اور یہ سب متحدہ کی اکثریت اور کراچی دشمنی میں پی پی کی سندھ حکومت نے جان بوجھ کر کیا ہے۔کس قدر شرمناک بات ہے کہ ملک کے سب سے بڑے ادارے کا سربراہ میئر اور لاہور کا میئر لارڈ میئر کہلائے گا۔ کراچی میں ہر ضلع کے لیے بحال کی گئی ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنوں کے ساتھ سندھ حکومت نے امتیازی سلوک کرکے ڈی ایم سیز کے منتخب سربراہوں کو میئر کی بجائے چیئرمین کا نام دیا ہے جب کہ سکھر اور حیدرآباد کے بلدیاتی سربراہ میئر قرار دیے گئے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی سابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں کیونکہ پی پی کو متحدہ کی ضرورت تھی اس وقت تو حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو متحدہ کی طرف سے مانگے گئے وسیع اختیارات دینے کا فیصلہ کرلیا تھا جو قوم پرستوں کے احتجاج پر عملدرآمد سے محروم رہا اور اب تو پی پی کو سندھ میں بھی متحدہ کی ضرورت نہیں اس لیے بلدیہ عظمیٰ کو تمام اختیارات سے محروم کرنے کے قانون سندھ حکومت پہلے ہی بناچکی ہے جس کی وجہ سے سندھ کے وزیر اعلیٰ اور حکومتی وزرا بار بار کہہ رہے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کو قانون کے مطابق اختیارات دیے جائیں گے۔ سندھ حکومت بلدیاتی اداروں اور خصوصاً بلدیہ عظمیٰ کراچی کو حاصل تمام اہم اختیارات قانون بناکر سلب کرچکی ہے تو اختیارات کہاں سے اور کیسے ملیں گے؟
متحدہ قومی موومنٹ، پی ٹی آئی اور جماعت بھی بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کے مطالبات کر رہی ہیں کیونکہ نہایت محدود اختیارات کے حامل بلدیاتی ادارے اور ان کے مجبور سربراہ مفلوج، بے اختیار اور بیوروکریسی کے آگے مجبور اور بے بس کردیے گئے ہیں اور پی پی رہنما مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ناظمین کا دور بھول جاؤ۔ کراچی کی ڈی ایم سیز کے چیئرمینوں کو بلدیہ عظمیٰ کے میئر سے زیادہ اختیارات حاصل ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کراچی میں ضلع جنوبی، ملیر اور ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کی چیئرمین شپ حاصل کرچکی ہے اور بلدیہ عظمیٰ کا میئر جیل سے منتخب ہونے آیا تھا اور منتخب ہوکر واپس جیل چلا گیا جس پر سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ ایک لحاظ سے متحدہ کا میئر کا انتخاب ہی غلط تھا۔ کراچی کو کسی جذباتی میئر کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ میئر کے جیل میں رہنے سے ڈپٹی میئر قائم مقام میئر نہیں بن سکتا کیونکہ میئر جیل میں ہے بیرون ملک نہیں ہے اور جیل سے کراچی کی میئر شپ نہیں چلائی جاسکتی۔
ملک کی چاروں صوبائی حکومتوں اور اسلام آباد کے لیے وفاقی حکومت نے مختلف بلدیاتی قانون بنائے ہیں جس سے ملک میں بلدیاتی نظام مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ کراچی سمیت جہاں جہاں میئر ہیں وہاں صرف ایک ڈپٹی میئر اور اسلام آباد میں تین ڈپٹی میئر رکھے گئے ہیں اور کسی صوبے کا بلدیاتی نظام بااختیار نہیں ہے۔ بلدیاتی عہدیداروں کی آزادی اور اہم اختیارات سلب کرلیے گئے ہیں جس کی وجہ سے محکوم و مجبور بلدیاتی عہدیدار مکمل ناکام ثابت ہوں گے اور ارکان اسمبلی کی خوشنودگی کے لیے بے کار بلدیاتی نظام سے عوامی مسائل بڑھیں گے کم نہیں ہوں گے۔