پاکستان کرنے کے اصل کام
راقم کا گزشتہ کالم کراچی شہر کے مسائل سے متعلق تھا، جو کہ سیاسی ماحول کے تناظر میں لکھا گیا تھا
راقم کا گزشتہ کالم کراچی شہر کے مسائل سے متعلق تھا، جو کہ سیاسی ماحول کے تناظر میں لکھا گیا تھا، اس پر کئی طرح کے ردعمل آئے، ایک قاری کا موقف ہے کہ کراچی کے مسائل کو صرف سیاسی تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے، من حیث القوم بھی اس کا جائزہ لینا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ بحثیت قوم مجموعی طور پر ہم کس طرف جارہے ہیں۔ ہمارے ان قاری کا موقف حقیقت سے قریب تر ہے۔ راقم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ اپنے مسائل کا اسی انداز میں جائزہ لیا جائے لیکن کراچی کے معاملے پر ہماری مقتدر قوتیں اور سیاسی جماعتیں جس قسم کی فاش غلطیاں کر رہی ہیں، اس پر توجہ دلانا بھی وقت کی عین ضرورت تھی۔
بحیثیت مجموعی اس شہر اور ملک کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو ان تمام مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلے کرنے کے تین کام ہیں، یعنی یہ کہ پہلے اپنے نظریہ کا اعادہ کیا جائے کہ یہ دراصل ہے کیا؟ پھر منزل کا تعین کیا جائے اور پھر اس اعتبار سے لوگوں کی تربیت کا کام کیا جائے۔
سب سے پہلے اپنے نظریے کا اعادہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے نظریے کو بھول رہے ہیں یا شعوری اور غیر شعوری طور پر دور ہورہے ہیں، مثلاً بنگلہ دیش کے حوالے سے دیکھ لیجیے، ایک جانب جن لوگوں نے ملک توڑنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دی تھیں، وہ آج بھی پاکستان آنے کے منتظر ہیں اور کیمپوں میں پڑے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، جب کہ اس وقت رہنمائی کرنے والوں کو آج مسلسل پھانسیاں دی جارہی ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ کچھ کو ہم نے محصورین اور بہاری کا نام دے کر اور کچھ کو جماعت اسلامی کے رہنماؤں کا نام دے کر ان تمام کے معاملات پر آنکھیں بند کرلی ہیں۔ حالانکہ ان کے لیے تمام حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کو آواز بلند کرنی چاہیے تھی۔ ان سے متعلق خاموشی کا مطلب سیدھا سا یہ ہے کہ آیندہ کوئی بھی شخص اس وطن کے لیے جان و مال کی قربانی نہ دے، ورنہ اس کا بھی حشر اس سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ طرز عمل نظریہ پاکستان کے خلاف نہیں ہے؟
اسی طرح اگر ہم نظریہ پاکستان پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ریاست مسلمانوں کے لیے اور ان کے فلسفہ زندگی سے متعلق قیام عمل میں لائی گئی تھی تو پھر ہمیں کم از کم ریاست کی سطح پر وہ کام تو کرنا ہوں گے کہ جس میں کسی قسم کا مسلکی اختلاف بھی نہیں ہے، مثلاً سودی نظام کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، عدالتی نظام کو اس قدر فعال کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کو فوری انصاف ملے، نیز بلاتفریق کسی وی آئی پی شخصیت کے خلاف مقدمہ درج ہو اور فوری سزا بھی مل سکے۔
میڈیا کے ذریعے لوگوں کو حرص و ہوس کے انجکشن لگانے کا عمل بند کیا جاسکے۔ غرض بے شمار ایسے کام کرنے کے ہیں کہ جس سے یہ قوم اور ریاست نظریہ پاکستان سے قریب تر ہوسکتی ہے اور یہ صرف اس وقت ہی ہوسکتا ہے کہ جب نظریہ کا اعادہ کرلیا جائے اور جب نظریے کا اعادہ ہوجائے تو منزل کا بھی تعین کرلیا جائے، یعنی نظریے کے مطابق ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام، جہاں سو فیصد نہ سہی لیکن جہاں تک ممکن ہوسکے تمام معاملات (مثلاً سیاسی، معاشی اور معاشرتی وغیرہ) اسلامی تعلیمات سے قریب تر ہوں۔منزل کا تعین کرنے کے بعد منزل تک پہنچنے کے لیے عوام کی تربیت بھی نہایت ضروری ہے۔
واضح رہے کہ تربیت نظریے اور منزل کے تعین کے مطابق ہی ہوتی ہے اور چونکہ ہم دن بہ دن اپنے نظریہ سے دور ہوتے جارہے ہیں، اس لیے عوامی کردار بھی یا ہماری سماجی اقدار بھی بدل رہی ہیں جس سے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں، مثلاً ایک وقت تھا کہ لوگ اپنے معمولات زندگی میں زبان کو بڑی اہمیت دیا کرتے تھے، کسی سے کوئی وعدہ، لین دین کا معاملہ کرلیا تو زبانی بات کی بڑی اہمیت ہوتی تھی، کیونکہ وہ اپنے نظریے پر پختہ یقین رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر زبان سے پھرے تو یہ ان کی عزت و شان کے خلاف بھی بات ہوگی اور خدا کے ہاں بھی جواب دینا ہوگا۔
لیکن آج کیا ہے؟ عموماً کسی بڑے لین دین میں تحریری معاہدے کے باوجود ایک دوسرے پر کم ہی اعتبار کرتے ہیں اور اس کے باوجود ایک دوسرے کو دھوکے دے دیے جاتے ہیں۔ عدالتیں ایسے مقدمات سے بھری پڑی ہیں کہ جہاں قریبی یا خونی رشتوں کے ایک دوسرے پر دعوے ہیں۔ یہ حال صرف عوام کا ہی نہیں رہنماؤں کا بھی ہے، آئے دن دھرنے، احتجاج، وعدے مگر سب زیادہ تر قول وفعل کے تضاد کے ساتھ۔نظریے سے دوری کے باعث عام لوگ خود اپنے پیدا کردہ مسائل کے بھنور میں گھرتے چلے جارہے ہیں۔
مال کی محبت میں اپنی زندگی خود اجیرن کرنے پر تلے ہوئے ہیں، حالانکہ ہمارا دینی نظریہ اس کے برخلاف تعلیم دے رہا ہے۔ سورہ التکاثر میں پیغام دیا جارہا ہے کہ ''تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے، یہاں تک کہ (اسی فکر میں) تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو''۔ چنانچہ دیکھیے کہ کوئی حرام اور کوئی حلال کمانے کی دھن میں ہی اپنا تمام وقت برباد کردیتا ہے، سرکاری محکموں میں رشوت عام، معاشرے میں رشوت لینا اب کوئی برائی نہیں، ملازمت بھی ایمانداری سے نہ کرنا کوئی برائی نہیں، اسپتالوں میں بھی عملہ وقت پر نہیں آتا، ایماندار ڈاکٹر اور ایماندار مکینک، حتیٰ کہ گھر کے لیے ملازمہ بھی آسانی سے دستیاب نہیں۔ کوئی علاج کی سکت نہ رکھنے سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے، تو کوئی کسی سیاسی جماعت کے احتجاج کے باعث راستہ بند ہونے سے اسپتال کے راستے میں ہی دم توڑ جاتا ہے۔
لیکن شرمسار کوئی نہیں، کوئی جواب طلب کرنے والا نہیں، کیونکہ ایسا کرنے والوں کا کوئی نظریہ نہیں، بلکہ سب کو زیادہ سے زیادہ مال کمانے کی فکر ہے اور یہی نظریہ بھی ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں تو گھر میں کھانے پینے کی اشیاء بھی ڈھک کر لانے کی تلقین ملتی ہے، پڑوسی کے حقوق کی ہدایت ملتی ہے، صبر کا درس ملتا ہے، لیکن آج ہم شفاف ( ٹرانسپیرنٹ) پلاسٹک کی تھیلوں میں صبح و شام کھانے پینے کی اشیا لاتے ہیں جو صرف پڑوسی کو ہی نہیں ان تمام افراد کو دکھائی دیتی ہے جو دکان سے گھر تک راستے میں موجود ہوتے ہیں، اور اکثر تو ہم خود دکھاوا کرتے ہیں، قربانی کا جانور ہی لے لیں، اس عمل میں ہم سڑکیں اور گلیاں خود اپنے ہاتھوں سے بند کرتے ہیں اور گندی بھی۔ صبر کا تو یہ عالم ہے کہ ایک موٹر سائیکل سوار کو جب ہم نے تنبیہ کی کہ پہلے جس کا حق ہے اس کو راستہ دینا چاہیے تو وہ بولا، کون سی دنیا کیا بات کر رہے ہو، آپ انتظار کرو گے تو کرتے ہی رہ جاؤ گے، کوئی تمھارا خیال نہ کرے گا۔بات یہ ہے کہ ہماری قوم فکری و نظریاتی معاملے میں بہت دور جا رہی ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نظریہ کا اعادہ کریں اور لوگوں کی تربیت بھی۔ کرنے کے اصل کام یہ ہیں، آئیے غور کریں۔
بحیثیت مجموعی اس شہر اور ملک کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو ان تمام مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلے کرنے کے تین کام ہیں، یعنی یہ کہ پہلے اپنے نظریہ کا اعادہ کیا جائے کہ یہ دراصل ہے کیا؟ پھر منزل کا تعین کیا جائے اور پھر اس اعتبار سے لوگوں کی تربیت کا کام کیا جائے۔
سب سے پہلے اپنے نظریے کا اعادہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے نظریے کو بھول رہے ہیں یا شعوری اور غیر شعوری طور پر دور ہورہے ہیں، مثلاً بنگلہ دیش کے حوالے سے دیکھ لیجیے، ایک جانب جن لوگوں نے ملک توڑنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دی تھیں، وہ آج بھی پاکستان آنے کے منتظر ہیں اور کیمپوں میں پڑے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، جب کہ اس وقت رہنمائی کرنے والوں کو آج مسلسل پھانسیاں دی جارہی ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ کچھ کو ہم نے محصورین اور بہاری کا نام دے کر اور کچھ کو جماعت اسلامی کے رہنماؤں کا نام دے کر ان تمام کے معاملات پر آنکھیں بند کرلی ہیں۔ حالانکہ ان کے لیے تمام حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کو آواز بلند کرنی چاہیے تھی۔ ان سے متعلق خاموشی کا مطلب سیدھا سا یہ ہے کہ آیندہ کوئی بھی شخص اس وطن کے لیے جان و مال کی قربانی نہ دے، ورنہ اس کا بھی حشر اس سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ طرز عمل نظریہ پاکستان کے خلاف نہیں ہے؟
اسی طرح اگر ہم نظریہ پاکستان پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ریاست مسلمانوں کے لیے اور ان کے فلسفہ زندگی سے متعلق قیام عمل میں لائی گئی تھی تو پھر ہمیں کم از کم ریاست کی سطح پر وہ کام تو کرنا ہوں گے کہ جس میں کسی قسم کا مسلکی اختلاف بھی نہیں ہے، مثلاً سودی نظام کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، عدالتی نظام کو اس قدر فعال کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کو فوری انصاف ملے، نیز بلاتفریق کسی وی آئی پی شخصیت کے خلاف مقدمہ درج ہو اور فوری سزا بھی مل سکے۔
میڈیا کے ذریعے لوگوں کو حرص و ہوس کے انجکشن لگانے کا عمل بند کیا جاسکے۔ غرض بے شمار ایسے کام کرنے کے ہیں کہ جس سے یہ قوم اور ریاست نظریہ پاکستان سے قریب تر ہوسکتی ہے اور یہ صرف اس وقت ہی ہوسکتا ہے کہ جب نظریہ کا اعادہ کرلیا جائے اور جب نظریے کا اعادہ ہوجائے تو منزل کا بھی تعین کرلیا جائے، یعنی نظریے کے مطابق ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام، جہاں سو فیصد نہ سہی لیکن جہاں تک ممکن ہوسکے تمام معاملات (مثلاً سیاسی، معاشی اور معاشرتی وغیرہ) اسلامی تعلیمات سے قریب تر ہوں۔منزل کا تعین کرنے کے بعد منزل تک پہنچنے کے لیے عوام کی تربیت بھی نہایت ضروری ہے۔
واضح رہے کہ تربیت نظریے اور منزل کے تعین کے مطابق ہی ہوتی ہے اور چونکہ ہم دن بہ دن اپنے نظریہ سے دور ہوتے جارہے ہیں، اس لیے عوامی کردار بھی یا ہماری سماجی اقدار بھی بدل رہی ہیں جس سے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں، مثلاً ایک وقت تھا کہ لوگ اپنے معمولات زندگی میں زبان کو بڑی اہمیت دیا کرتے تھے، کسی سے کوئی وعدہ، لین دین کا معاملہ کرلیا تو زبانی بات کی بڑی اہمیت ہوتی تھی، کیونکہ وہ اپنے نظریے پر پختہ یقین رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر زبان سے پھرے تو یہ ان کی عزت و شان کے خلاف بھی بات ہوگی اور خدا کے ہاں بھی جواب دینا ہوگا۔
لیکن آج کیا ہے؟ عموماً کسی بڑے لین دین میں تحریری معاہدے کے باوجود ایک دوسرے پر کم ہی اعتبار کرتے ہیں اور اس کے باوجود ایک دوسرے کو دھوکے دے دیے جاتے ہیں۔ عدالتیں ایسے مقدمات سے بھری پڑی ہیں کہ جہاں قریبی یا خونی رشتوں کے ایک دوسرے پر دعوے ہیں۔ یہ حال صرف عوام کا ہی نہیں رہنماؤں کا بھی ہے، آئے دن دھرنے، احتجاج، وعدے مگر سب زیادہ تر قول وفعل کے تضاد کے ساتھ۔نظریے سے دوری کے باعث عام لوگ خود اپنے پیدا کردہ مسائل کے بھنور میں گھرتے چلے جارہے ہیں۔
مال کی محبت میں اپنی زندگی خود اجیرن کرنے پر تلے ہوئے ہیں، حالانکہ ہمارا دینی نظریہ اس کے برخلاف تعلیم دے رہا ہے۔ سورہ التکاثر میں پیغام دیا جارہا ہے کہ ''تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے، یہاں تک کہ (اسی فکر میں) تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو''۔ چنانچہ دیکھیے کہ کوئی حرام اور کوئی حلال کمانے کی دھن میں ہی اپنا تمام وقت برباد کردیتا ہے، سرکاری محکموں میں رشوت عام، معاشرے میں رشوت لینا اب کوئی برائی نہیں، ملازمت بھی ایمانداری سے نہ کرنا کوئی برائی نہیں، اسپتالوں میں بھی عملہ وقت پر نہیں آتا، ایماندار ڈاکٹر اور ایماندار مکینک، حتیٰ کہ گھر کے لیے ملازمہ بھی آسانی سے دستیاب نہیں۔ کوئی علاج کی سکت نہ رکھنے سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے، تو کوئی کسی سیاسی جماعت کے احتجاج کے باعث راستہ بند ہونے سے اسپتال کے راستے میں ہی دم توڑ جاتا ہے۔
لیکن شرمسار کوئی نہیں، کوئی جواب طلب کرنے والا نہیں، کیونکہ ایسا کرنے والوں کا کوئی نظریہ نہیں، بلکہ سب کو زیادہ سے زیادہ مال کمانے کی فکر ہے اور یہی نظریہ بھی ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں تو گھر میں کھانے پینے کی اشیاء بھی ڈھک کر لانے کی تلقین ملتی ہے، پڑوسی کے حقوق کی ہدایت ملتی ہے، صبر کا درس ملتا ہے، لیکن آج ہم شفاف ( ٹرانسپیرنٹ) پلاسٹک کی تھیلوں میں صبح و شام کھانے پینے کی اشیا لاتے ہیں جو صرف پڑوسی کو ہی نہیں ان تمام افراد کو دکھائی دیتی ہے جو دکان سے گھر تک راستے میں موجود ہوتے ہیں، اور اکثر تو ہم خود دکھاوا کرتے ہیں، قربانی کا جانور ہی لے لیں، اس عمل میں ہم سڑکیں اور گلیاں خود اپنے ہاتھوں سے بند کرتے ہیں اور گندی بھی۔ صبر کا تو یہ عالم ہے کہ ایک موٹر سائیکل سوار کو جب ہم نے تنبیہ کی کہ پہلے جس کا حق ہے اس کو راستہ دینا چاہیے تو وہ بولا، کون سی دنیا کیا بات کر رہے ہو، آپ انتظار کرو گے تو کرتے ہی رہ جاؤ گے، کوئی تمھارا خیال نہ کرے گا۔بات یہ ہے کہ ہماری قوم فکری و نظریاتی معاملے میں بہت دور جا رہی ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نظریہ کا اعادہ کریں اور لوگوں کی تربیت بھی۔ کرنے کے اصل کام یہ ہیں، آئیے غور کریں۔