ورلڈ اسنوکر چیمپئن محمد آصف پاکستان کا مان بن گئے
اسنوکر ان چار کھیلوں میں ہے جن میں پاکستان چیمپئن بنا مگر اقتدار کے ایوانوں میں اسے کبھی قابل توجہ نہیں سمجھا گیا
ورلڈ سنوکر چیمپئن محمد آصف نے عزم و ہمت کی نئی تاریخ رقم کرکے ثابت کردیا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، ایک ایسا ملک جس میں کرکٹ کے شیدائیوں اور وسائل کی کوئی کمی نہیں۔
ہاکی کو نئی زندگی دینے کیلئے بھی کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں، سنوکر کو گلی محلے میں نوجوانوں کی وقت گزاری اور جوا کھیلنے کا ذریعہ سمجھا جاتاہے مگر پاکستان کے اس سپوت نے نامساعد حالات ، وسائل کی کمی اور معاشی مشکلات کے باوجود مضبوط حریفوں کو شکست دیتے ہوئے ایک ایسا اعزاز قوم کی جھولی میں ڈال دیا جس کا دنیا کے کروڑوں کھلاڑی خواب دیکھتے ہیں۔
محمد آصف نے2003ء میں علاقائی ٹورنامنٹ میں برتری ثابت کرنے کے بعد فیصل آباد کی سطح پر نام کمایا، پنجاب کی سطح پر اپنا وجود ثابت کرنے کے بعد2009ء میں قومی چیمپئن کے طور پر اپنی پہچان کرائی، ایک بیٹے اور ایک بیٹی کے شفیق باپ نے جھنگ روڑ پر واقع محلہ کوثر آباد میں رہائش کے ساتھ سنوکرکوہی اپنا اوڑنا بچھوڑنا بنائے رکھا، چھوٹا سا کلب اس کا ذریعہ آمدن رہاہے، حافظ قرآن پڑھا لکھا اور با صلاحیت کیوئسٹ ہونے کے باوجود نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرنے کے بعد اسے یہی راستہ نظر آیا کہ پارٹنر محمد ارشد کے ساتھ مل کر کلب ہی بنالے جس میں اپنے کھیلنے اور دوسرے نوجوانوں کو سیکھنے سکھانے کا سلسلہ بھی جاری رہے۔
سنوکر ان چار کھیلوں میں ہے جن میں پاکستان چیمپئن بنا مگر اقتدار کے ایوانوں میں اسے کبھی قابل توجہ نہیں سمجھا گیا، آج سے 18 سال قبل محمد یوسف نے دنیا بھر کے کیوئسٹ کو آئوٹ کلاس کرتے ہوئے عالمی ٹائٹل پر قبضہ جمایا تو پاکستان میں کھیل کو بے پناہ فروغ ملا، ایک عام اور مسائل زدہ شخص کے کارنامے کو خوب سراہا گیا مگر مستقبل کے محمد یوسف تلاش کرنے کیلئے حکومتی وسائل میسر آئے نہ کوئی ٹھوس حکمت عملی سپورٹس کے کرتا دھرتا وضع کرسکے۔
پاکستان بلیئرڈ اینڈ سنوکر ایسوسی ایشن کو ماضی میں ایک سیگریٹ ساز ادارے کی سپانسر شپ حاصل تھی، کھیلوں میں تمباکو مصنوعات کا ذکر تک ممنوعہ قرار دیدیا گیا تو مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا، محمد یوسف سے جتنی بار بھی گفتگو ہوئی معاشی پریشانیوں کا ذکر کرتے نظر آئے، چیمپئن بننے کے بعد حکومت کی طرف سے بیشتر انعامات دینے کا وعدہ بھی وفا نہ کیا گیا، عالمی ایونٹ کا فائنل کھیلنے والے محمد صالح اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے واپس افغانستان جابسے، اپنے سینئر ساتھیوں کے تلخ تجربات، ذاتی زندگی میں معاشی مشکلات اور وسائل کی کمی کے باوجود محمد آصف کا انٹرنیشنل مقابلوں میں شرکت جاری رکھنا ہی بڑا کارنامہ ہوتا مگر انہوں نے تو کمال کر دکھایا اور منزل پر پہنچ کر دم لیا۔
چڑھتے سورج کے پجاری آج محمد آصف کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملارہے ہیں، حکومتی ایوانوں سے بھی ستائش پر مبنی بیانات کی سیریز چل پڑی ہے لیکن بین الصوبائی رابطے کی وزارت،اولمپک ایسوسی ایشن اور پاکستان سپورٹس بورڈ سمیت کوئی بھی 2 قومی کھلاڑیوں کو بلغاریہ بھجوانے کیلئے 8 لاکھ روپے کی معمولی رقم بھی مہیا کرنے کو تیار نہیں تھا، سپورٹس پالیسی کے حوالے سے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن، سپورٹس بورڈ اور فیڈریشنز کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیوں کیلئے بلائی گئی پریس کانفرنسوں میں لاکھوں روپے چند گھنٹے میں اڑا دیئے جاتے ہیں۔
آفیشلز کے بیرون ملک سیر سپاٹوں پر کروڑوں بے دریغ خرچ ہوتے ہیں مگر دوسری بار ملک کو عالمی چیمپئن ٹائٹل کا حق دار بنانے والی بلیئرڈ اینڈ سنوکر ایسوسی ایشن کو کوئی الحاق دینے یا گود لینے کو تیار نہیں، سپورٹس حکام نے کئی ماہ خط وکتابت کے بعد کھلاڑیوں کے ورلڈ چیمپئن شپ میں شرکت کے اخراجات اٹھانے سے انکار کرکے ثابت کیا ہے کہ جن کھیلوں میں سیاسی اثرورسوخ سے تقرر پانے والے اعلیٰ عہدیدار موجود ہوں فنڈز بھی انہیں کا حق ہے، مالی وسائل پر دسترس اور غیر ملکی دوروں کی کشش ہی سیاستدانوں کو چین سے بیٹھنے دیتی۔
ہر نام نہاد سیاسی دانشور کی خواہش ہوتی ہے کہ ایک آدھ سپورٹس فیڈریشن بھی اپنے قبضے میں کرلے، اختیارات کی جنگ نے ہی پاکستانی کھیلوں کو دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے، ایک دھڑا سپورٹس پالیسی کے نفاذ کی حمایت ، دوسرا مخالفت میں سرگرم ہے، ایک پارٹی دوسرے کو قابض تو دوسری پہلی کو غاصب قرار دیتی ہے، کھیل اور باصلاحیت کھلاڑی ہماری ترجیح ہوں تو محمد آصف جیسے جوانوں کو چندہ مانگ کر ملک کا نام روشن کرنے کیلئے پاپڑ نہ بیلنا پڑیں۔
پاکستان بلیئرڈ اینڈ سنوکرایسوسی ایشن کے صدر عالمگیر شیخ خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے مخیر حضرات کی معاونت سے محمد آصف کو بلغاریہ نہ بجھواتے تو پاکستان ایک عرصہ کے بعد حاصل ہونے والے عالمی اعزاز سے محروم رہ جاتا، ترقی یافتہ ملکوں میں امیروں کا کھیل سمجھے جانے والے سنوکر میں پاکستان کا دوسرا ورلڈ ٹائٹل پوری قوم کیلئے مسرت کا موقع مگر کھیلوں کے اربارب اختیار کیلئے لمحہ فکریہ ہے، پنجاب اور سندھ کے وزراء اعلیٰ کی طرف سے انعامات کے اعلانات دیر آید درست آید کے مصداق خوش آئند اقدامات ہیں مگر مستقبل میں مزید محمد یوسف اور محمد آصف عالمی افق پر لانے کیلئے سنوکر کو کرکٹ، ہاکی، فٹبال جیسی ہی اہمیت دینا ہوگی، گلی محلوں سے سامنے آنے والا ٹیلنٹ نکھارنے کیلئے سپورٹس اداروں کے تحت سہولیات سے مزید کلب بنائے جائیں، نامور کھلاڑی کوچنگ کورسز کیلئے بیرون ملک بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
سکول کالج کی سطح پر مقابلے ہوں، کوالیفائیڈ کوچز کیوئسٹ کی رہنمائی کریں توصلاحیتوں میں مزید نکھار آئے گا۔ پاکستان میں کرکٹ بورڈ کا بجٹ اربوں تک جاتاہے، ہاکی فیڈریشن نے بھی صوبوں اور وفاقی حکومت سے کروڑوں روپے حاصل کرکے ہی قومی کھیل کا وقار بحال کرنے کی مہم شروع کی، فٹبال کیلئے فیفا کی خطیر امداد ہی کافی ہے، پاکستان سپورٹس بورڈ وزارت بین الصوبائی رابطہ کے تحت آنے کے باوجود افسروں اور ملازمین کی فوج ظفر موج کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے مگر اکا دکا مقابلوں میں بہتر کارکردگی کے سوا کوئی خاص نتائج نظر نہیں آتے، اولمپکس میڈل تو دور کی بات ہم کوالیفائنگ رائونڈ سے بھی آگے نہیں بڑھ پاتے، ضرورت اس امر کی ہے کہ سکواش، سنوکر، جوڈو، ریسلنگ جیسے انفرادی کھیلوں کا انفرا سٹرکچر بہتر کرکے کھلاڑیوں کو اوائل عمری میں ہی مناسب سہولیات اور رہنمائی فراہم کی جائے۔
باصلاحیت پلیئرز کو بیرون ملک ٹریننگ اور انٹر نیشنل مقابلوں میں شرکت کے زیادہ سے زیادہ مواقع دیئے جائیں، 16 افراد کے سکواڈ میں سے 11 کھیلتے ہیں، پہلے تو فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز عہدیداروں کے جھگڑے ختم نہیں ہوتے، پسند نا پسند کی بنا پر ٹیم میں شامل کئے جانے والے ایک دو کھلاڑی بھی لٹیا ڈبو دینے کیلئے کافی ہوتے ہیں، انفرادی کھیلوں میں ون ٹو ون مقابلہ جلد ہی حقیقی ٹیلنٹ کو آشکار کر دیتا ہے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔
اگر ایک پلیئر مناسب سہولیات اور تربیت کی فراہمی سے گولڈ میڈل جیت کر لاسکتا ہے تو 16 کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیموں پر ہی زیادہ توجہ مرکوز کیوں رکھی جائے، اولمپک چیمپئن امریکہ یا چین دونوں کے میڈلز کی دوڑ زیادہ تر انفرادی کھیلوں میں ہی ہوتی ہے جس میں صرف ایک اتھلیٹ، سوئمر، سپرنٹر، ٹینس یا بیڈ منٹن کا کھلاڑی ملک کو اعزاز دلانے کا ذریعہ بن جاتا ہے، مستقبل کے چیمپئن پیدا کرنے کیلئے سپورٹس کے ارباب اختیار کو باہمی سیاست چھوڑ کر مضبوط انفراسٹرکچر تیا رکرنے پر توجہ دینا ہوگی کیونکہ محمد آصف کے ورلڈ ٹائٹل جیسے کرشمے روز روز نہیں ہوتے، فتوحات کا سفر جاری رکھنے کیلئے ٹھوس پلاننگ اور پھر اس پر سختی سے عمل در آمد کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہاکی کو نئی زندگی دینے کیلئے بھی کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں، سنوکر کو گلی محلے میں نوجوانوں کی وقت گزاری اور جوا کھیلنے کا ذریعہ سمجھا جاتاہے مگر پاکستان کے اس سپوت نے نامساعد حالات ، وسائل کی کمی اور معاشی مشکلات کے باوجود مضبوط حریفوں کو شکست دیتے ہوئے ایک ایسا اعزاز قوم کی جھولی میں ڈال دیا جس کا دنیا کے کروڑوں کھلاڑی خواب دیکھتے ہیں۔
محمد آصف نے2003ء میں علاقائی ٹورنامنٹ میں برتری ثابت کرنے کے بعد فیصل آباد کی سطح پر نام کمایا، پنجاب کی سطح پر اپنا وجود ثابت کرنے کے بعد2009ء میں قومی چیمپئن کے طور پر اپنی پہچان کرائی، ایک بیٹے اور ایک بیٹی کے شفیق باپ نے جھنگ روڑ پر واقع محلہ کوثر آباد میں رہائش کے ساتھ سنوکرکوہی اپنا اوڑنا بچھوڑنا بنائے رکھا، چھوٹا سا کلب اس کا ذریعہ آمدن رہاہے، حافظ قرآن پڑھا لکھا اور با صلاحیت کیوئسٹ ہونے کے باوجود نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرنے کے بعد اسے یہی راستہ نظر آیا کہ پارٹنر محمد ارشد کے ساتھ مل کر کلب ہی بنالے جس میں اپنے کھیلنے اور دوسرے نوجوانوں کو سیکھنے سکھانے کا سلسلہ بھی جاری رہے۔
سنوکر ان چار کھیلوں میں ہے جن میں پاکستان چیمپئن بنا مگر اقتدار کے ایوانوں میں اسے کبھی قابل توجہ نہیں سمجھا گیا، آج سے 18 سال قبل محمد یوسف نے دنیا بھر کے کیوئسٹ کو آئوٹ کلاس کرتے ہوئے عالمی ٹائٹل پر قبضہ جمایا تو پاکستان میں کھیل کو بے پناہ فروغ ملا، ایک عام اور مسائل زدہ شخص کے کارنامے کو خوب سراہا گیا مگر مستقبل کے محمد یوسف تلاش کرنے کیلئے حکومتی وسائل میسر آئے نہ کوئی ٹھوس حکمت عملی سپورٹس کے کرتا دھرتا وضع کرسکے۔
پاکستان بلیئرڈ اینڈ سنوکر ایسوسی ایشن کو ماضی میں ایک سیگریٹ ساز ادارے کی سپانسر شپ حاصل تھی، کھیلوں میں تمباکو مصنوعات کا ذکر تک ممنوعہ قرار دیدیا گیا تو مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا، محمد یوسف سے جتنی بار بھی گفتگو ہوئی معاشی پریشانیوں کا ذکر کرتے نظر آئے، چیمپئن بننے کے بعد حکومت کی طرف سے بیشتر انعامات دینے کا وعدہ بھی وفا نہ کیا گیا، عالمی ایونٹ کا فائنل کھیلنے والے محمد صالح اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے واپس افغانستان جابسے، اپنے سینئر ساتھیوں کے تلخ تجربات، ذاتی زندگی میں معاشی مشکلات اور وسائل کی کمی کے باوجود محمد آصف کا انٹرنیشنل مقابلوں میں شرکت جاری رکھنا ہی بڑا کارنامہ ہوتا مگر انہوں نے تو کمال کر دکھایا اور منزل پر پہنچ کر دم لیا۔
چڑھتے سورج کے پجاری آج محمد آصف کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملارہے ہیں، حکومتی ایوانوں سے بھی ستائش پر مبنی بیانات کی سیریز چل پڑی ہے لیکن بین الصوبائی رابطے کی وزارت،اولمپک ایسوسی ایشن اور پاکستان سپورٹس بورڈ سمیت کوئی بھی 2 قومی کھلاڑیوں کو بلغاریہ بھجوانے کیلئے 8 لاکھ روپے کی معمولی رقم بھی مہیا کرنے کو تیار نہیں تھا، سپورٹس پالیسی کے حوالے سے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن، سپورٹس بورڈ اور فیڈریشنز کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیوں کیلئے بلائی گئی پریس کانفرنسوں میں لاکھوں روپے چند گھنٹے میں اڑا دیئے جاتے ہیں۔
آفیشلز کے بیرون ملک سیر سپاٹوں پر کروڑوں بے دریغ خرچ ہوتے ہیں مگر دوسری بار ملک کو عالمی چیمپئن ٹائٹل کا حق دار بنانے والی بلیئرڈ اینڈ سنوکر ایسوسی ایشن کو کوئی الحاق دینے یا گود لینے کو تیار نہیں، سپورٹس حکام نے کئی ماہ خط وکتابت کے بعد کھلاڑیوں کے ورلڈ چیمپئن شپ میں شرکت کے اخراجات اٹھانے سے انکار کرکے ثابت کیا ہے کہ جن کھیلوں میں سیاسی اثرورسوخ سے تقرر پانے والے اعلیٰ عہدیدار موجود ہوں فنڈز بھی انہیں کا حق ہے، مالی وسائل پر دسترس اور غیر ملکی دوروں کی کشش ہی سیاستدانوں کو چین سے بیٹھنے دیتی۔
ہر نام نہاد سیاسی دانشور کی خواہش ہوتی ہے کہ ایک آدھ سپورٹس فیڈریشن بھی اپنے قبضے میں کرلے، اختیارات کی جنگ نے ہی پاکستانی کھیلوں کو دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے، ایک دھڑا سپورٹس پالیسی کے نفاذ کی حمایت ، دوسرا مخالفت میں سرگرم ہے، ایک پارٹی دوسرے کو قابض تو دوسری پہلی کو غاصب قرار دیتی ہے، کھیل اور باصلاحیت کھلاڑی ہماری ترجیح ہوں تو محمد آصف جیسے جوانوں کو چندہ مانگ کر ملک کا نام روشن کرنے کیلئے پاپڑ نہ بیلنا پڑیں۔
پاکستان بلیئرڈ اینڈ سنوکرایسوسی ایشن کے صدر عالمگیر شیخ خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے مخیر حضرات کی معاونت سے محمد آصف کو بلغاریہ نہ بجھواتے تو پاکستان ایک عرصہ کے بعد حاصل ہونے والے عالمی اعزاز سے محروم رہ جاتا، ترقی یافتہ ملکوں میں امیروں کا کھیل سمجھے جانے والے سنوکر میں پاکستان کا دوسرا ورلڈ ٹائٹل پوری قوم کیلئے مسرت کا موقع مگر کھیلوں کے اربارب اختیار کیلئے لمحہ فکریہ ہے، پنجاب اور سندھ کے وزراء اعلیٰ کی طرف سے انعامات کے اعلانات دیر آید درست آید کے مصداق خوش آئند اقدامات ہیں مگر مستقبل میں مزید محمد یوسف اور محمد آصف عالمی افق پر لانے کیلئے سنوکر کو کرکٹ، ہاکی، فٹبال جیسی ہی اہمیت دینا ہوگی، گلی محلوں سے سامنے آنے والا ٹیلنٹ نکھارنے کیلئے سپورٹس اداروں کے تحت سہولیات سے مزید کلب بنائے جائیں، نامور کھلاڑی کوچنگ کورسز کیلئے بیرون ملک بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
سکول کالج کی سطح پر مقابلے ہوں، کوالیفائیڈ کوچز کیوئسٹ کی رہنمائی کریں توصلاحیتوں میں مزید نکھار آئے گا۔ پاکستان میں کرکٹ بورڈ کا بجٹ اربوں تک جاتاہے، ہاکی فیڈریشن نے بھی صوبوں اور وفاقی حکومت سے کروڑوں روپے حاصل کرکے ہی قومی کھیل کا وقار بحال کرنے کی مہم شروع کی، فٹبال کیلئے فیفا کی خطیر امداد ہی کافی ہے، پاکستان سپورٹس بورڈ وزارت بین الصوبائی رابطہ کے تحت آنے کے باوجود افسروں اور ملازمین کی فوج ظفر موج کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے مگر اکا دکا مقابلوں میں بہتر کارکردگی کے سوا کوئی خاص نتائج نظر نہیں آتے، اولمپکس میڈل تو دور کی بات ہم کوالیفائنگ رائونڈ سے بھی آگے نہیں بڑھ پاتے، ضرورت اس امر کی ہے کہ سکواش، سنوکر، جوڈو، ریسلنگ جیسے انفرادی کھیلوں کا انفرا سٹرکچر بہتر کرکے کھلاڑیوں کو اوائل عمری میں ہی مناسب سہولیات اور رہنمائی فراہم کی جائے۔
باصلاحیت پلیئرز کو بیرون ملک ٹریننگ اور انٹر نیشنل مقابلوں میں شرکت کے زیادہ سے زیادہ مواقع دیئے جائیں، 16 افراد کے سکواڈ میں سے 11 کھیلتے ہیں، پہلے تو فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز عہدیداروں کے جھگڑے ختم نہیں ہوتے، پسند نا پسند کی بنا پر ٹیم میں شامل کئے جانے والے ایک دو کھلاڑی بھی لٹیا ڈبو دینے کیلئے کافی ہوتے ہیں، انفرادی کھیلوں میں ون ٹو ون مقابلہ جلد ہی حقیقی ٹیلنٹ کو آشکار کر دیتا ہے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔
اگر ایک پلیئر مناسب سہولیات اور تربیت کی فراہمی سے گولڈ میڈل جیت کر لاسکتا ہے تو 16 کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیموں پر ہی زیادہ توجہ مرکوز کیوں رکھی جائے، اولمپک چیمپئن امریکہ یا چین دونوں کے میڈلز کی دوڑ زیادہ تر انفرادی کھیلوں میں ہی ہوتی ہے جس میں صرف ایک اتھلیٹ، سوئمر، سپرنٹر، ٹینس یا بیڈ منٹن کا کھلاڑی ملک کو اعزاز دلانے کا ذریعہ بن جاتا ہے، مستقبل کے چیمپئن پیدا کرنے کیلئے سپورٹس کے ارباب اختیار کو باہمی سیاست چھوڑ کر مضبوط انفراسٹرکچر تیا رکرنے پر توجہ دینا ہوگی کیونکہ محمد آصف کے ورلڈ ٹائٹل جیسے کرشمے روز روز نہیں ہوتے، فتوحات کا سفر جاری رکھنے کیلئے ٹھوس پلاننگ اور پھر اس پر سختی سے عمل در آمد کی ضرورت ہوتی ہے۔