شہر اورکتاب زندہ ہیں

’کتاب مرگئی ہے‘ اور ’کتاب مرچکی ہے‘ جیسے نعروں کے درمیان کراچی ایکسپو سینٹر میں کتابوں کی ایک بڑی نمائش آراستہ ہوئی ہے


Zahida Hina December 08, 2012
[email protected]

PARIS: 'لارنس آف عریبیا' کو عظیم ترین رزمیہ فلموں میں سے ایک کہا گیا ہے۔ 1962ء میں ڈیوڈ لین کی ڈائریکٹ کی ہوئی یہ فلم ہمیں پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت عثمانیہ اور ترکوں کے خلاف عربوں کی بغاوت کی وہ داستان سناتی ہے جو ایک حقیقی کردار ٹی ای لارنس کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔ یہی وہ فلم ہے جس سے آج کے اسٹیون اسپل برگ کی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔

یہ فلم جب کراچی آئی تو اس کی آمد سے پہلے اس کا شہرہ تھا۔ ایک مصری اداکار عمر شریف کے نام نے لوگوں کے سربلند کر دیے تھے کہ دیکھو ہمارا ایک مسلمان ہالی ووڈ کی فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا رہا ہے۔اسی وقت یہ خبر بھی آئی کہ اپنا ماہی منڈا ضیاء محی الدین بھی اس فلم میں پہلی مرتبہ نمودار ہوا ہے۔ لوگ جوق درجوق اس فلم کو دیکھنے گئے۔ کچھ پیٹرا وٹول کا گیٹ اپ اور کچھ صحرا میں فلمائے جانے والے مناظر، ترکوں اور عربوں کی لڑائی کے جیتے جاگتے مناظر۔

عمر شریف کی مسحور کن ہنسی اور چہرے کے تاثرات ، ضیاء محی الدین تو خیر تھے ہی اپنے۔ اس فلم نے ہمارے لوگوں کو 'فتح' کرلیا۔ کچھ تبّرا برطانیہ کے نو آبادیاتی کردار پر پڑھا گیا۔ نہ یہ کمبخت فساد برپا کرتے نہ عثمانیہ سلطنت پارہ پارہ ہوتی۔ اقبال کے اشعار بہت رقّت سے دہرائے گئے۔ یہ معلوم ہونے پر کہ عمر شریف مصری مسیحی ہے دلوں پر تھوڑی سے اوس پڑی لیکن پھر لوگ یہ بات بھول گئے اور انھیں صرف اس کا اسلامی نام یاد رہا۔ ضیاء محی الدین اس فلم کے بعد عرصے تک کہیں نہیں پائے گئے۔ کچھ دنوں بعد وہ چند انگریزی فلموں میں نمودار ہوئے اور اب نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے سربراہ ہیں۔ جو عرف عام میں 'ناپا' کہلاتا ہے۔ ہمارے مشہور افسانہ نگار انور سجاد اور پاکستان ٹیلی ویژن کے شاندار اداکار راحت کاظمی ان کے دست وبازو ہیں۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں اس وقت مجھے کیوں یاد آرہی ہیں؟ اس لیے کہ میں دو متضاد حالتوں میں زندہ رہنے والے اپنے شہر کی محفلوں کے بارے میں لکھنے بیٹھی تھی۔ یہ وہ شہر ہے جہاں ایک طرف لوگوں کو ان کے مسلک ،علاقے اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر چن چن کر قتل کیا جارہا ہے اور اس وحشیانہ عمل کا نام 'ٹارگٹ کلنگ' رکھ دیا گیا ہے۔ کبھی خبر آتی ہے کہ منوں بارود سے بھرا ہوا ٹرک پکڑا گیا جو شہر کے کسی بھرے پرے علاقے کو آگ و خون میں نہلانے والا تھا اور کبھی مہلک ہتھیاروں کی کھیپ برآمد ہوتی ہے۔ وہ تصویریں چھپ رہی ہیں یا ان کی وڈیو کلپ ٹیلی ویژن اسکرین پر دکھائی جارہی ہے جن میں مبینہ دہشت گردوں کی گرفتاری کا منظر ہے۔

اسی شہر میں ادبی اور شعری محفلیں منعقد ہورہی ہیں۔ نئی کتابوں کی رسم اجراء ہورہی ہے۔ ناصرہ زبیری نیا شعری مجموعہ 'کانچ کا چراغ' لائی ہیں جس پر دوسروں کے ساتھ ہماری بے بدل شاعرہ شاہدہ حسن بھی اظہار خیال کریں گی۔ آرٹس کونسل کے احمد شاہ اور ان کے ساتھیوں نے حسب سابق چار دن کی ایک بھرپور ادبی کانفرنس کا اہتمام کیا ہے جس میں ڈاکٹر فاطمہ حسن پیش پیش نظر آتی ہیں۔ اس کانفرنس میں باہر کے ادیبوں کی شرکت نے اسے بجا طور پر 'انٹرنیشنل کانفرنس' کہلانے کا حقدار ٹھہرا دیا ہے۔

ادھر 'کتاب مرگئی ہے' اور 'کتاب مرچکی ہے' جیسے نعروں کے درمیان کراچی ایکسپو سینٹر میں کتابوں کی ایک بڑی نمائش آراستہ ہوئی ہے۔ متعدد ملکوں کے پبلشر سیکڑوں کتابوں کے ساتھ آئے ہیں۔ آتش و آہن اور بارودی دھماکوں سے سہمے ہوئے شہر کی عورتوں، مردوں اور بچوں کے پرے اس نمائش میں نظر آرہے ہیں اور اپنی پسند کی کتابیں خرید رہے ہیں۔ کتاب کی محبت مائوں کو اگر اپنے بچوں کا ہاتھ تھام کرکسی ایسی جگہ لے جائے جہاں کبھی بھی کچھ ہوسکتا ہو تو یہ جاننا چاہیے کہ کتاب زندہ ہے، کتاب کی محبت سینوں میں دھڑکتی ہے اور شہرمٹھی بھر لوگوں سے اور ان کی نفرتوں سے لڑنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

آرٹس کونسل کی اس ادبی محفل میں یوں تو ادبی مسائل و معاملات اورہمارے درمیان سے اٹھ جانے والی اہم شخصیات، میرا جی اور منٹو پر طول طویل گفتگوئیں ہوئیں جن میں ناصر عباس نیر اور فہمیدہ ریاض نے کمالا ت دکھائے۔ ہندوستان سے آئے ہوئے ڈاکٹر شمیم حنفی ان دانشوروں میں سے ہیں کہ جب وہ بولنے کے لیے کھڑے ہوں تو پھر ان کے آگے کسی کا چراغ نہیں جلتا۔ انھوں نے افتتاحی اجلاس سے آخر تک جب بھی گفتگو کی تو سوچنے کے لیے بہت سے سوال اٹھائے۔ انھیں سنتے ہوئے مجھے ظ انصاری یاد آتے ہیں وہ بھی اپنی گفتگو میں اسی طرح موتی رولتے تھے۔

آرٹس کونسل کی ادبی محفل کے افتتاحی اجلاس کے آخر میں ضیاء محی الدین اسٹیج پر نمودار ہوئے۔ یہ وہی ضیاء ہیں جنھیں پہلی مرتبہ شہر والوں نے ''لارنس آف عریبیا'' میں دیکھا تھا ۔ 60ء کے عشرہ میں برطانونی سٹیج پر جب انھوں نے ینگ شائی لاک کا کردار ادا کیا توبرطانیہ کے نقادوں نے انھیں Fifth important young actor

of British stage قرار دیا تھا۔ ایک نوجوان جس کی نگاہیں مستقبل پر جمی ہوئی تھیں۔ 1962ء میں ایک مختصر کردار ادا کرنے والے ضیاء نصف صدی کا فنی سفر طے کرتے ہوئے اپنے لوگوں میں واپس لوٹ آئے ہیں۔ اس روز انھوں نے فرحت اللہ بیگ کی نثر کا ایک معنی خیز اور تہہ دار ٹکڑا پڑھا اورپھر میرا جی کی نظم 'سمندر کا بلاوا'۔ اس روز ناپا کی طرف سے شایع ہونے والی دو کتابوں کی تقریب اجراء بھی ہوئی جن میں خالد احمد کے ترجمہ شدہ شیکسپیئر کے دو کھیل اور احمد عقیل روبی کے ترجمہ کیے ہوئے دو یونانی کلاسیکی ڈرامے ''ایڈی پس ریکس'' اور ''مے ڈیا'' شامل تھے۔ احمد عقیل روبی لاہور میں رہتے ہیں اور ایک فاضل دانشور ہیں۔

میرا خیال تھا کہ ان کے ترجمہ کیے ہوئے یونانی ڈراموں کی کتاب کا اجراء ہورہا ہے، تو شاید وہ بھی بلائے جائیں گے لیکن افسوس کہ وہ اس محفل میں موجود نہیں تھے جو کہ ان کا حق تھا۔ چند برس پہلے ان کی کتاب ''یونان کا ادبی ورثہ'' شایع ہوئی تھی۔ پھر اس کا دوسرا ایڈیشن شایع ہوا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب کتنی مقبول ہوئی۔ اسلام آباد کے سفر میں انھوںنے یہ کتاب مجھے عنایت کی۔ میں اس سے لطف اندوزہوئی لیکن افسوس کہ ا س پر کچھ نہیں لکھ پائی۔

عقیل روبی نے اپنا سفر یونانی تہذیب و ادب کے عشق سے شروع کیا تھا اور آج بھی اسی میں گم ہیں۔ میں بھی نو عمری سے یونان کے عشق میں گرفتار رہی۔ 16 برس کی عمر میں پہلا مضمون 'یونان ۔ دورجدید کا پیش رو، ایک ادبی رسالے میں دسمبر 1962ء میں شایع ہوا۔ اس کے بعد میں نے یونانی ادب اور تہذیب پر جستہ جستہ لکھا لیکن اس کے عشق میں دھونی نہیں رمائی۔ اسی لیے محمد سلیم الرحمان اور احمد عقیل روبی کی قدر و منزلت میرے دل میں بہت ہے۔

یہ دونوں ڈرامے بہ طور خاص 'ایڈی پس ریکس' یونان کے عظیم المیہ ڈراموں میں سے ہے۔ یونان کے المیہ ڈرامے ان افسانوں کی کہانی سناتے ہیں جن میں سے اکثر تقدیر کے تیر کا شکار ہوتے ہیں۔ ہزاروں برس پہلے لکھے جانیو الے یونان کے المیہ ڈراموں پر بلامبالغہ سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکیں۔ اس بارے میں چند سطروں میں بھلا کیا لکھا جاسکتا ہے۔ 'ایڈی پس ریکس' کے چند سطریں پیش کرتی ہوں۔ جو تھیبس کے شہر کے بارے میں جو موت اور خوف کی وباء کا شکار ہے۔ اس کے بارے میں چند سطریں پڑھیں۔ ابتداء ایڈی پس کے اس جملے سے ہوتی ہے کہ

'تمہارا شہر غصے کی بدبو اور دھوئیں سے بھرا ہوا ہے... تمہاری آہوں اور حمد کی صدائوں سے ساری فضا گونج رہی ہے۔

اس کے بعد پروہت کے جملے ہیں:

' میں اپالو کا پروہت ہوں... کچھ لوگ ہاتھوں میں ہار لے کر شہر کے چوراہوں پر رو رہے ہیں... کچھ خانقاہوں اور قبروں پر آہ وزاری کررہے ہیں... ہمارا شہر ایک شدید طوفان سے دوچار ہے... شہرپر آسیب کا سایہ ہے... جو گھر آباد تھے، اجڑ گئے ہیں... موت کا سایہ بڑھتا جارہا ہے... یہ دھرتی جہاں ہم رہ رہے ہیں، تباہ ہورہی ہے... اور جیسا تو جانتا ہے... زندہ انسانوں پر حکومت کرنا، مردہ لوگوں پر حکومت کرنے سے کہیں بہتر ہے۔''

ڈھائی ہزار برس پہلے سوفوکلینر کی لکھی ہوئی یہ سطریں مجھے اپنے شہر اور ان دوسرے زخم خوردہ شہروں کی یاد دلاتی ہیں جو اپنے حکمرانوں اور ان کے نائبوں کے گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں ایڈی پس ایسے دیانتدار حکمران موجود نہیں جو خود اپنے آپ کو بھی انصاف کے امتحان میں ڈال سکیں۔

'ناپا' کو مبارک ہو کہ اس نے احمد عقیل روبی اور خالد احمد کے دو کھیل شایع کیے جو ہمارا عالمی ادبی ورثہ ہیں۔ ایک فرمائش عقیل روبی سے کہ وہ 'انٹی گنی' کی طرف بھی توجہ کریں۔ یہ عظیم یونانی المیہ بھی اگر اردو میں شایع ہوجائے تو پڑھنے والوں کے حق میں اچھا ہوگا۔ اردو میں یہ ڈراما ہندوستان سے چھپ چکا ہے۔

شہر میں ہونے والی یہ ادبی محفلیں، اسٹیج ڈرامے، افسانوں اور شعری مجموعوں کی تقریب اجراء شہر کے زندہ اور بے خوف ہونے کی خبر دیتی ہے۔ یہ بتاتی ہیں کہ شہر اور کتاب دونوں زندہ ہیں۔ دونوں زندہ رہیں کہ اسی میں ہماری زندگی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں