بارانی کسان اور زمین و آسمان

اب جب ہماری کاشتکاری ماڈرن ہو گئی ہے اور زمین میں کیماوی کھاد بھی ڈالی جانے لگی ہے تو گندم وغیرہ کا ذائقہ بدل گیا ہے


Abdul Qadir Hassan December 08, 2012
[email protected]

KARACHI: ہم بارانی زمینوں والوں کے پائوں زمین پر اور آنکھیں آسمان پر لگی ہوتی ہیں۔ ادھر کافی عرصہ سے بارش نہیں ہوئی اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ اب زمین تو اپنی جگہ انسانوں کے لیے پینے کا پانی بھی نہیں ہے۔ دیہات میں پانی کا قدیم ذریعہ یعنی زمین کے تالاب بھی خشک ہو چکے ہیں، اب زمین کے اندر بھی پانی کم ہوتا جا رہا ہے۔ ٹیوب ویل بند ہو رہے ہیں اور پانی اس قدر گہرائی تک جا پہنچا ہے کہ ٹیوب ویل کو مزید زمین کے اندر گہرا لے جائیں تو اس پانی کو کھینچ کر باہر لانے کے لیے اتنا طاقت ور انجن کیسے چلائیں کہ اس کے لیے ڈیزل اس قدر مہنگا ہو گیا ہے کہ تمام فصلیں کسان کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔

اتنی مہنگی فصل وہ کس منڈی میں لے جائے اور کس کو فروخت کرے۔ ایک زمانہ تھا جب فصل خود بخود اگتی اور بارآور ہوتی تھی، یہ مرے بچپن کا زمانہ تھا، بارش ہوئی زمین سیراب ہو گئی اور جب اتنی خشک ہو گئی کہ اس میں ہل چلایا جا سکے تو منہ اندھیرے گائوں کی گلیوں میں ہلچل پیدا ہو گئی، بیلوں کو ہانک کر کسان ہل کندھے پر اٹھائے کھیتوں کو چل پڑے، یہ شروع کے دن ہوتے ورنہ ہل اور دوسرا سامان دوسرے دن کے لیے کھیت میں ہی چھوڑ دیا جاتا، صبح دھوپ تیز ہونے تک ہل جوتا جاتا، چند دنوں میں زمین بیج کے لیے تیار ہو جاتی تو پھر ایک دن نالی پھیر دی جاتی، کسان کمر پر بندھی ہوئی چادر کی جھولی سے مٹھی بھر بھر کر بیچ نکالتا اور ایک توازن کے ساتھ نالی میں ڈالتا جاتا، زمین میں نالی بھر جاتی اور بیج زمین کے سپرد ہوجاتا، زمین اپنے کاشتکار کی یہ امانت پیار کے ساتھ قبول کر لیتی۔

پھر چند دن بعد فصل کی سبز نرم کونپلیں زمین سے باہر نکل آتیں اور ان سے اندازہ ہوتا کہ کاشت کیسی ہوئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فضل کرتا اور فصل کو آسمان سے خوراک ملتی رہتی تا آنکہ وہ پک کر تیار ہو جاتی، پھر اس کی کٹائی شروع ہوتی اور وہ دعائیں جو سال بھر بارش کے لیے کی جاتی تھیں اب بدل جاتیں اور خشک موسم درکار ہوتا کہ تیار فصل خراب نہ ہو اور اس کی کٹائی وغیرہ آرام کے ساتھ ہو جائے۔

یہی موسم ہوتا جب کاشتکار کہتا کہ اب تو سونے کی کنی بھی قبول نہیں، کسی مشین کی مدد کے بغیر سال بھر کی خوراک جمع ہو جاتی ،گھر بھر جاتا۔ وہی زمانہ کہ جس کے گھر دانے اس کے کملے بھی سیانے اور وہی زمانہ بھی کہ جیل جانے کے لیے تیار، تھوڑا بچا کھچا اور باقی ماندہ لڑائی جھگڑا کرنے کا موسم، یہ وہ زمانہ تھا جب کاشتکار بیمار نہیں پڑتا تھا، کوئی حادثہ نہ ہو عام بیماری بس ایک ہی ہوتی تھی آخری بیماری اور ہمارا علاقہ چونکہ سرد علاقہ ہے اس لیے بڑے بوڑھے سردیوں کے موسم میں اللہ کو پیارے ہوتے تھے۔ ہماری کاشتکاری کی زندگی میں انجن اور ڈیزل نہیں تھا سادہ صاف ستھری خوراک اور مسلسل مشقت، بیماری کہاں سے آئے۔

اب جب ہماری کاشتکاری ماڈرن ہو گئی ہے اور زمین میں کیماوی کھاد بھی ڈالی جانے لگی ہے تو گندم وغیرہ کا ذائقہ بدل گیا ہے۔ میں زمین کا کچھ حصہ پرانے بیج اور کھاد کے بغیر کاشت کراتا ہوں اور یہ گندم لاہور میں بیٹھ کر کھاتا ہوں لیکن کوئی دو سال پہلے ایسا ہوا کہ بارشیں نہیں ہوئیں قحط پڑ گیا فصل کاشت نہ ہوئی اور میں نے پہلی بار گندم لاہور سے خریدی جس کا ذائقہ بادل نخواستہ قبول کیا، اب اطلاع آئی ہے کہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے گندم کی کاشت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ زمین میں وتر نہیں ہے، خشک زمینوں میں روئیدگی کیسے ہو سکتی ہے۔

زمین کی پیاس اپنی جگہ اب تو عام انسان بھی پیاس سے بے چین ہو رہے ہیں۔ پرانے زمانے کے کنوئیں ختم ہو گئے ہیں، تالاب غیر آباد ہو چکے ہیں اور جیسا کہ عرض کیا ہے زیر زمین پانی بہت گہرا چلا گیا ہے اگر کالا باغ ڈیم بن جاتا، پانی جذب ہونے لگتا تو زمین کے اندر بھی پانی کا ذخیرہ ختم نہ ہوتا لیکن بھارت کی کامیابی کہ ہم یہ زندگی بخش منصوبہ نہیں بنا رہے بلکہ اس کے خلاف جانیں دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ اب میرے گائوں کی حالت یہ ہے کہ گائوں کی پانی کی اسکیم کا ٹیوب ویل بجلی کا بہت زیادہ بل اور پانی کی کمی کی وجہ سے بند ہو گیا ہے۔ عام ٹیوب ویل بھی پانی کی کمی کا شکار ہیں اور گائوں والوں کے پینے کا پانی بھی نہیں ہے، اب پہلی بار پانی بکنا شروع ہو گیا ہے۔

مجھے یاد آتا ہے کہ جب میں پڑھنے کے لیے لاہور آیا تو میری ماں نے میرے بھائی سے کہا کہ اسے خرچ زیادہ دینا، سنا ہے لاہور میں پانی بھی بکتا ہے۔ اب یہاں ماں کے گائوں میں بھی پانی بک رہا ہے، اس پر کیا کہا جائے۔ میرے گائوں کا مجھ پر حق ہے کہ ان کی پیاس کو محسوس کروں۔ لاہور میں پانی بہت ہے مگر میرے گائوں میں سرے سے ہے ہی نہیں اس لیے میں ذاتی طور پر پانی کی کمی کو محسوس نہیں کرتا لیکن گائوں میں لوگ پانی کو یاد کرنے لگے ہیں۔

یہی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جا سکتا ہے۔ میں نے اپنے ٹیوب ویلوں کو چلانے والوں سے کہا کہ وہ لوگوں کو پانی دیں لیکن جواب ملتا ہے کہ پانی ہو تو کسی کو دیں، ہماری حکومتیں اب الیکشن کی تیاری کر رہی ہیں، اس لیے انھیں کوئی دوسرا کام نہیں سوجھتا مگر ان کے پیاسے ووٹر کہاں جائیں۔ ایک وضاحت کہ محترم رحمٰن ملک صاحب کی سالگرہ کے بارے میں جو خبر تھی اس میں تاریخیں درست نہیں تھیں لیکن نفس مضمون میں کوئی غلطی نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔