کراچی آرٹس کونسل کی ادبی کانفرنس
مسائل میں گھرے ہوئے کراچی جیسے پر آشوب شہر میں ایسی اہم اور کامیاب تقاریب کا انعقاد بلاشبہ کسی کارنامے سے کم نہیں۔
6 سے 9 دسمبر تک کراچی آرٹس کونسل کی طرف سے جس ''پانچویں عالمی اردو کانفرنس'' کا اہتمام کیا گیا ہے میں اس کے دوسرے دن کی تقاریب میں شامل ہو کر ابھی ابھی لاہور واپس پہنچا ہوں کہ مجھے اور انور مسعود کو آج شام پہلے سے طے شدہ ''فارم ایوو'' کے ایک پروگرام میں شرکت کرنا ہے۔ اداروں کی شکل کس طرح ایک اچھے لیڈر اور فعال تنظیم کی وجہ سے محاورۃً راتوں رات بدل جاتی ہے اس کی ایک زندہ مثال کراچی آرٹس کونسل ہے کہ جب سے اس کا انتظام برادرم احمد شاہ اور ان کی ٹیم کے ہاتھ میں آیا ہے تو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں چند برس پہلے تک ''اس کے بعد ایک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور'' والی کیفیت ٹھہر سی گئی تھی۔
ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے میں دو کانفرنسوں میں شریک نہیں ہو سکا مگر ان کی تفصیلات سے بخوبی آگاہ ہوں جب کہ باقی تین کا تو میں چشم دید گواہ ہوں، اتنے کم وسائل کے ساتھ اتنے زیادہ مسائل میں گھرے ہوئے کراچی جیسے پر آشوب شہر میں ایسی اہم اور کامیاب تقاریب کا انعقاد بلاشبہ کسی کارنامے سے کم نہیں، اتفاق سے گزشتہ تین برس بالترتیب ن م راشد، فیض احمد فیض اور سعادت حسن منٹو کے صد سالہ یوم پیدائش کی تقریبات بھارت میں ہوئیں سو ان تینوں ادبی اکابرین کے لیے ان کانفرنسوں میں خصوصی پروگرام رکھے گئے جب کہ دو ہزار دس میر تقی میر کی دو صد سالہ برسی کا سال تھا اور اس برس یعنی 2012ء میں ہی میرا جی کا ایک سوواں جنم دن بھی پڑتا تھا تو یوں سمجھیے کہ پانچ ادبی کانفرنسوں میں ملا جلا کر پانچ بڑے لوگوں کو خصوصیت کے ساتھ یاد بھی کیا گیا۔
اس بار بھارت سے صرف ڈاکٹر پروفیسر شمیم حنفی ہی تشریف لا سکے البتہ اردو کی نئی بستیوں سے حاضری پہلے کی نسبت زیادہ رہی۔ UK کی ایک نئی ادبی تنظیم کی طرف سے محترمہ غزل انصاری نے دو بہت کمال کے کام کیے جن میں سے ایک تو عوامی شاعر حبیب جالب کے ورثاء کے لیے ایک خصوصی عطیہ تھا جس کا استعاراتی رشتہ غالباً اس مشہور مقولے سے قائم کیا گیا تھا کہ ''بھوکے کو مچھلی مت دو اسے مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھائو'' معلوم ہوا کہ جالب مرحوم کی صاحبزادی خواتین کو ڈرائیونگ سکھانے کا کام کرتی ہے۔
مگر اپنی گاڑی نہ ہونے کی وجہ سے محنت کے باوجود اس کی آمدنی اپنی بیمار ماں کے علاج اور گھر کے اخراجات کے لیے ناکافی ہے جس کی وجہ سے وہ لوگ ہمہ وقت مالی مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ یوکے کی اس تنظیم نے (جس کے انور مسعود اور میں بھی گزشتہ برس مہمان رہ چکے ہیں اور جس کے سرکردہ احباب میں برادرم اشتیاق میر بھی شامل ہیں) جالب فیملی کو ایک نئی کار خرید کر دی ہے تا کہ اس کے ذریعے ایک عزت دارانہ معقول اور اور مسلسل انداز میں ان کے مسائل کو کم کیا جا سکے۔ اس سے ملتا جلتا ایک اقدام پچاس ہزار روپے کا وہ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ تھا جو بزرگ اور سینئر شاعر رسا چغتائی کو پیش کیا گیا۔
شاید بہت کم قارئین کے علم میں یہ بات ہو کہ ثناء اللہ ڈار المعروف میرا جی نے صرف ساڑھے سینتیس برس کی عمر پائی تھی اور یہ کہ 23 برس کی عمر تک وہ شاعری' تراجم اور تنقید کے اصناف میں اس قدر اعلیٰ معیاری اور غیر روایتی ادب تخلیق کر چکے تھے کہ جس کی مثال اردو بھی کیا دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں میں بھی کم کم ہی مل پائے گی۔ میں ان کی ایک تنقیدی کتاب ''مشرق و مغرب کے نغمے'' کی نثر اور تنقیدی بصیرت کا اپنی طالب علمی کے دنوں سے قائل اور گھائل ہوں مگر ان سے متعلق خصوصی نشست میں یہ جان کر میری گرویدگی میں مزید اضافہ ہوا کہ یہ مضامین انھوں نے اپنی محدود تعلیم کے باوجود اس عمر میں لکھے تھے جب ہمارے بیشتر نقاد ان ''نغمہ گروں'' کے کام تو کیا نام تک سے واقف اور آشنا نہیں ہوتے۔
یوں تو اس نشست میں صدر محفل کشور ناہید کے علاوہ ڈاکٹر شمیم حنفی، مسعود اشعر، فہمیدہ ریاض، شاہدہ حسن، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر اور وسعت اللہ خان سب ہی نے (کمپیئر علی حیدر ملک سمیت) میرا جی کے بارے میں بہت اچھی گہری، نئی، خیال انگیز اور فکر افروز باتیں کیں لیکن مجھے ذاتی طور پر وسعت اللہ خان کا مقالہ سب سے زیادہ پسند آیا کہ انھوں نے بڑے لطیف اور نیم طنزیہ پیرائے میں میرا جی کی شخصیت' کام اور ان کے دور کی ادبی فضا کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا کہ حقیقت افسانہ اور ڈراما کچھ دیر کے لیے یکجان سے ہو گئے۔
سامعین میں یوں تو بے شمار شناسا چہرے نظر آئے لیکن تین سینئر خواتین سے مل کر ماضی کے کچھ حصے یک دم روشن ہو گئے۔ یہ خواتین سلمٰی وحید (وحید مراد کی بیگم) وہیل چیئر میں بیٹھی شاہدہ احد (افسانہ نگار) اور بیگم لطف اللہ خان تھیں، وحید مراد اور لطف اللہ خان صاحب تو اب اس دنیا میں نہیں لیکن شاہدہ بہن کے شوہر عزیز بھائی کو حسب معمول ان کی دیکھ بھال میں مستعد دیکھ کر انسانی عظمت سے وابستہ کئی گوشے پھر سے منور ہو گئے۔
کسی نے مجھے بھیڑ میں ایک پلاسٹک کا کور سا تھما دیا جو میں نے اس وقت تو بغیر دیکھے رکھ لیا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ اس میں لطف اللہ خاں صاحب کی تصویر کے ساتھ محکمہ ڈاک پاکستان کی طرف سے جاری کردہ کچھ یادگاری ٹکٹ تھے۔ خاں صاحب کی پہلی برسی سے قبل ان ٹکٹوں کا اجراء یقیناً ایک قابل تعریف اور احسان شناسی کا حامل عمل ہے اور جو لوگ بھی اس عمل کی تکمیل میں شامل اور معاون رہے ہیں، وہ تحسین کے لائق ہیں کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو احمد ندیم قاسمی مرحوم کے حوالے سے اسی طرح کا یادگاری ٹکٹ جاری کروانے میں تین برس لگ گئے تھے۔
سات دسمبر کا آخری سیشن ''دو شاعر ایک شام'' تھا جس میں انور مسعود اور میں نے کلام سنایا، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ پروگرام اس لیے ترتیب دیا گیا تھا کہ اگلے روز ہونے والے مشاعرے میں ہم دونوں اس مصروفیت کے باعث شامل نہیں ہو سکتے تھے جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا ہے لیکن یہ برادرم احمد شاہ اور ان کے احباب کی محبت ہے کہ انھوں نے ہماری متوقع غیر حاضری کو کس پیارے انداز میں حاضری سے بدل دیا۔
رات کا کھانا کمشنر کراچی حسین صاحب کی طرف سے تھا جس کا اہتمام تحریک پاکستان سے متعلق اور کراچی کی مشہور تاریخی عمارت فریئر ہال کے وسیع لان میں کیا گیا تھا۔ یہاں ہم سب مہمانوں کو سندھ کے روایتی تحفے یعنی اجرک اور ٹوپی کے ساتھ ایک عدد شیلڈ اور گلدستہ بھی پیش کیا گیا اور تقاریر کے مختصر سے وقفے میں ہر مقرر نے اس بات کو سراہا کہ ایسے ماحول میں ادب کی یہ محفل یقیناً لوگوں کے دلوں میں حوصلہ پیدا کرے گی اور اس ٹمپریچر کو کم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو گی جسے بڑھانے کے لیے مختلف سیاسی گروہ دانستہ اور الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات شاید نادانستہ طور پر مصروف ہیں۔
کتاب میلہ بھی کراچی شہر کی ایک ا ہم اور تسلسل کے ساتھ جاری رہنے والی روایتی تقریب ہے مگر اس بار اس کی اور ادبی کانفرنس کی تاریخیں پتہ نہیں کیوں ایک ہی ہفتے میں رکھ دی گئیں سو وقت کی کمی کی وجہ سے وہاں کی حاضری رہ گئی۔ البتہ احباب سے ملنے والی خبروں سے پتہ چلا ہے کہ اس بار بھی یہ میلہ بہت عمدہ اور بھر پور انداز میں چل رہا ہے اور لوگوں کا جوش و خروش سیکیورٹی کے تمام تر خدشات کے باوجود دیدنی ہے خدا ہمارے اس پیارے شہر کراچی اور پاکستان کے تمام شہروں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے میں دو کانفرنسوں میں شریک نہیں ہو سکا مگر ان کی تفصیلات سے بخوبی آگاہ ہوں جب کہ باقی تین کا تو میں چشم دید گواہ ہوں، اتنے کم وسائل کے ساتھ اتنے زیادہ مسائل میں گھرے ہوئے کراچی جیسے پر آشوب شہر میں ایسی اہم اور کامیاب تقاریب کا انعقاد بلاشبہ کسی کارنامے سے کم نہیں، اتفاق سے گزشتہ تین برس بالترتیب ن م راشد، فیض احمد فیض اور سعادت حسن منٹو کے صد سالہ یوم پیدائش کی تقریبات بھارت میں ہوئیں سو ان تینوں ادبی اکابرین کے لیے ان کانفرنسوں میں خصوصی پروگرام رکھے گئے جب کہ دو ہزار دس میر تقی میر کی دو صد سالہ برسی کا سال تھا اور اس برس یعنی 2012ء میں ہی میرا جی کا ایک سوواں جنم دن بھی پڑتا تھا تو یوں سمجھیے کہ پانچ ادبی کانفرنسوں میں ملا جلا کر پانچ بڑے لوگوں کو خصوصیت کے ساتھ یاد بھی کیا گیا۔
اس بار بھارت سے صرف ڈاکٹر پروفیسر شمیم حنفی ہی تشریف لا سکے البتہ اردو کی نئی بستیوں سے حاضری پہلے کی نسبت زیادہ رہی۔ UK کی ایک نئی ادبی تنظیم کی طرف سے محترمہ غزل انصاری نے دو بہت کمال کے کام کیے جن میں سے ایک تو عوامی شاعر حبیب جالب کے ورثاء کے لیے ایک خصوصی عطیہ تھا جس کا استعاراتی رشتہ غالباً اس مشہور مقولے سے قائم کیا گیا تھا کہ ''بھوکے کو مچھلی مت دو اسے مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھائو'' معلوم ہوا کہ جالب مرحوم کی صاحبزادی خواتین کو ڈرائیونگ سکھانے کا کام کرتی ہے۔
مگر اپنی گاڑی نہ ہونے کی وجہ سے محنت کے باوجود اس کی آمدنی اپنی بیمار ماں کے علاج اور گھر کے اخراجات کے لیے ناکافی ہے جس کی وجہ سے وہ لوگ ہمہ وقت مالی مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ یوکے کی اس تنظیم نے (جس کے انور مسعود اور میں بھی گزشتہ برس مہمان رہ چکے ہیں اور جس کے سرکردہ احباب میں برادرم اشتیاق میر بھی شامل ہیں) جالب فیملی کو ایک نئی کار خرید کر دی ہے تا کہ اس کے ذریعے ایک عزت دارانہ معقول اور اور مسلسل انداز میں ان کے مسائل کو کم کیا جا سکے۔ اس سے ملتا جلتا ایک اقدام پچاس ہزار روپے کا وہ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ تھا جو بزرگ اور سینئر شاعر رسا چغتائی کو پیش کیا گیا۔
شاید بہت کم قارئین کے علم میں یہ بات ہو کہ ثناء اللہ ڈار المعروف میرا جی نے صرف ساڑھے سینتیس برس کی عمر پائی تھی اور یہ کہ 23 برس کی عمر تک وہ شاعری' تراجم اور تنقید کے اصناف میں اس قدر اعلیٰ معیاری اور غیر روایتی ادب تخلیق کر چکے تھے کہ جس کی مثال اردو بھی کیا دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں میں بھی کم کم ہی مل پائے گی۔ میں ان کی ایک تنقیدی کتاب ''مشرق و مغرب کے نغمے'' کی نثر اور تنقیدی بصیرت کا اپنی طالب علمی کے دنوں سے قائل اور گھائل ہوں مگر ان سے متعلق خصوصی نشست میں یہ جان کر میری گرویدگی میں مزید اضافہ ہوا کہ یہ مضامین انھوں نے اپنی محدود تعلیم کے باوجود اس عمر میں لکھے تھے جب ہمارے بیشتر نقاد ان ''نغمہ گروں'' کے کام تو کیا نام تک سے واقف اور آشنا نہیں ہوتے۔
یوں تو اس نشست میں صدر محفل کشور ناہید کے علاوہ ڈاکٹر شمیم حنفی، مسعود اشعر، فہمیدہ ریاض، شاہدہ حسن، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر اور وسعت اللہ خان سب ہی نے (کمپیئر علی حیدر ملک سمیت) میرا جی کے بارے میں بہت اچھی گہری، نئی، خیال انگیز اور فکر افروز باتیں کیں لیکن مجھے ذاتی طور پر وسعت اللہ خان کا مقالہ سب سے زیادہ پسند آیا کہ انھوں نے بڑے لطیف اور نیم طنزیہ پیرائے میں میرا جی کی شخصیت' کام اور ان کے دور کی ادبی فضا کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا کہ حقیقت افسانہ اور ڈراما کچھ دیر کے لیے یکجان سے ہو گئے۔
سامعین میں یوں تو بے شمار شناسا چہرے نظر آئے لیکن تین سینئر خواتین سے مل کر ماضی کے کچھ حصے یک دم روشن ہو گئے۔ یہ خواتین سلمٰی وحید (وحید مراد کی بیگم) وہیل چیئر میں بیٹھی شاہدہ احد (افسانہ نگار) اور بیگم لطف اللہ خان تھیں، وحید مراد اور لطف اللہ خان صاحب تو اب اس دنیا میں نہیں لیکن شاہدہ بہن کے شوہر عزیز بھائی کو حسب معمول ان کی دیکھ بھال میں مستعد دیکھ کر انسانی عظمت سے وابستہ کئی گوشے پھر سے منور ہو گئے۔
کسی نے مجھے بھیڑ میں ایک پلاسٹک کا کور سا تھما دیا جو میں نے اس وقت تو بغیر دیکھے رکھ لیا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ اس میں لطف اللہ خاں صاحب کی تصویر کے ساتھ محکمہ ڈاک پاکستان کی طرف سے جاری کردہ کچھ یادگاری ٹکٹ تھے۔ خاں صاحب کی پہلی برسی سے قبل ان ٹکٹوں کا اجراء یقیناً ایک قابل تعریف اور احسان شناسی کا حامل عمل ہے اور جو لوگ بھی اس عمل کی تکمیل میں شامل اور معاون رہے ہیں، وہ تحسین کے لائق ہیں کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو احمد ندیم قاسمی مرحوم کے حوالے سے اسی طرح کا یادگاری ٹکٹ جاری کروانے میں تین برس لگ گئے تھے۔
سات دسمبر کا آخری سیشن ''دو شاعر ایک شام'' تھا جس میں انور مسعود اور میں نے کلام سنایا، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ پروگرام اس لیے ترتیب دیا گیا تھا کہ اگلے روز ہونے والے مشاعرے میں ہم دونوں اس مصروفیت کے باعث شامل نہیں ہو سکتے تھے جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا ہے لیکن یہ برادرم احمد شاہ اور ان کے احباب کی محبت ہے کہ انھوں نے ہماری متوقع غیر حاضری کو کس پیارے انداز میں حاضری سے بدل دیا۔
رات کا کھانا کمشنر کراچی حسین صاحب کی طرف سے تھا جس کا اہتمام تحریک پاکستان سے متعلق اور کراچی کی مشہور تاریخی عمارت فریئر ہال کے وسیع لان میں کیا گیا تھا۔ یہاں ہم سب مہمانوں کو سندھ کے روایتی تحفے یعنی اجرک اور ٹوپی کے ساتھ ایک عدد شیلڈ اور گلدستہ بھی پیش کیا گیا اور تقاریر کے مختصر سے وقفے میں ہر مقرر نے اس بات کو سراہا کہ ایسے ماحول میں ادب کی یہ محفل یقیناً لوگوں کے دلوں میں حوصلہ پیدا کرے گی اور اس ٹمپریچر کو کم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو گی جسے بڑھانے کے لیے مختلف سیاسی گروہ دانستہ اور الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات شاید نادانستہ طور پر مصروف ہیں۔
کتاب میلہ بھی کراچی شہر کی ایک ا ہم اور تسلسل کے ساتھ جاری رہنے والی روایتی تقریب ہے مگر اس بار اس کی اور ادبی کانفرنس کی تاریخیں پتہ نہیں کیوں ایک ہی ہفتے میں رکھ دی گئیں سو وقت کی کمی کی وجہ سے وہاں کی حاضری رہ گئی۔ البتہ احباب سے ملنے والی خبروں سے پتہ چلا ہے کہ اس بار بھی یہ میلہ بہت عمدہ اور بھر پور انداز میں چل رہا ہے اور لوگوں کا جوش و خروش سیکیورٹی کے تمام تر خدشات کے باوجود دیدنی ہے خدا ہمارے اس پیارے شہر کراچی اور پاکستان کے تمام شہروں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔