آرٹس کونسل اور پانچویں عالمی اُردو کانفرنس

اگر کسی بھی عہد کا ادب استحصالی قوت اور طاغوتی عناصر کے سامنے جھک جائے تو اظہار حق رائے دہی کی راہ بند ہوجاتی ہے۔

میں اپنے بہت ہی معزز قارئین کرام کو کراچی میں منعقد ہونے والی پانچویں عالمی اُردو کانفرنس 2012 پر مبارکباد دیتا ہوں اور پہلے انجمن ترقی پسند مصنفین کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ انجمن15 اپریل 1936 میں کیوں قائم ہوئی اور سرسید احمد خان کی تحریک کے اثر سے اس کو برصغیر کے مسلم حلقوں میں روشن خیالی اور ترقی پسندی کا کیسے فروغ ملا۔

اس انجمن کے اجماع سے ساری دنیا کے ادباء، شعراء، نقاد اس کے پرچم تلے جمع ہونے لگے تھے اور انھوں نے معاشرتی مظالم، سامراجی قوتوں کے زور، آمریت کے فروغ، جہالت میں بڑھوتری، بڑھتی ہوئی مفاد پرستی کے بتوں کو اپنے افکار سے، اپنے قلم اور صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے توڑ ڈالا۔ اس انجمن کے تحت کئی کانفرنسز ہوئیں پہلی کانفرنس 1935 میں پیرس میں منعقد ہوئی، انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کل ہند کانفرنس 10 اپریل 1936 میں لکھنو میں ہوئی اور دوسری کانفرنس کلکتہ میں ہوئی، تیسری کانفرنس دہلی میں منعقد ہوئی اور 1942 کے دسمبر کے آخری ہفتے میں تحریک کی چوتھی کانفرنس ممبئی میں ہوئی۔

انجمن ترقی پسند مصنفین میں ہر علاقائی زبانوں کے ترقی پسندانہ ادب کو فوقیت حاصل ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کا مقصد سماجی و سامراجی ظلم و ستم کے خلاف یکجا ہونا، غریب، مظلوم کسانوں، مزدوروں کے استحصال کو روکنا تھا۔ اگر کسی بھی عہد کا ادب استحصالی قوت اور طاغوتی عناصر کے سامنے جھک جائے تو اظہار حق رائے دہی کی راہ بند ہوجاتی ہے، پھر فکر تازہ کی آبیاری کہاں ہو پائے گی، آمریت کے خلاف کون آواز اٹھائے گا، اسی لیے ان سب کے لیے ایک مربوط حکمت عملی وضع کی گئی جو انجمن ترقی پسند مصنفین کے پلیٹ فارم سے شروع ہوئی جس کے میر کارواں منشی پریم چند تھے۔

اس تحریک میں شاعر ہو کہ ادیب، نقاد ہو کہ دانشور، مصوّر ہو کہ فلسفی ہر ایک شامل ہوسکتا ہے، روشن خیالی کے ساتھ۔ ترقی پسند ادب کا خاص کام یہ ہے کہ وہ ادب کو ''ادب برائے ادب'' کے دائرے سے باہر نکالتا ہے اور زندگی کا سچا ترجمان بناتا ہے اور اس کو فکری، سماجی، شعوری، فہم و فراست عطا کرتا ہے۔ اسی لیے لوگ اس تحریک میں شامل ہوتے گئے اور ترقی پسند تحریک پروان چڑھنے لگی۔ پاکستان میں اس انجمن کی طرف سے پہلی کانفرنس نومبر 1949 کے دوسرے ہفتے میں لاہور میں منعقد ہوئی اور اس میں نیا منشور پیش کیا گیا۔ اس کانفرنس کا دیباچہ اس وقت کے جنرل سیکریٹری احمد ندیم قاسمی نے پیش کیا۔

انھوں نے کہا ''بدخواہوں کا منفی پروپیگنڈہ انجمن کو نقصان پہنچا رہا ہے'' (کچھ لوگ آج بھی یہی عمل کر رہے ہیں) اس طرح دوسری کانفرنس 13 / 12 جولائی کراچی میں منعقد ہوئی جس کی صدارت مولوی عبدالحق نے کی۔ ایک ایسی انجمن جس میں اردو کے جید ادباء، نقاد، اسکالر شامل تھے، رابندر ناتھ ٹیگور، جواہر لال نہرو، منشی پریم چند، فراق گورکھپوری، شیودان سنگھ، محمود الظفر، ڈاکٹر رشید جہاں، ن۔م راشد، عبدالمجید سالک، اے ۔ایس ڈانگے، جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر دین محمد تاثیر، سجاد ظہیر، آنجہانی ملک راج آنند جیسے روشن ستارے ہوں اس کی ترقی کبھی نہیں رک سکتی۔


سامراج کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ کوئی ایسا نظریہ پیش نہیں کرسکتا جو انسانوں کو استحصالی نظام سے نجات اور دائمی امن کی ضمانت دے۔ واحد طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ احیائی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ ترقی پسند تحریک نے سماجی شعور کے ارتقاء اور معاشرتی تقاضوں کا بھرپور اظہار کیا، جمہوری اقدار اور انسان دوستی کو فروغ ملا، ہمارے ادب میں قنوطیت، انفعالیت، قدامت پسندی ختم ہوکر رہ گئی۔

ہمارے معاشرے میں دو رجحان پائے جاتے ہیں، ایک تو پرانے نظام معیشت کی پسماندگی کا نتیجہ ہے تو دوسرا رجحان مغربی استعمار کے پروردہ ہیں۔ اردو ادب میں ترقی پسند تحریک ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ 1954 کے بعد اس انجمن پر پابندی لگ گئی اور یہ غیر فعال ہوگئی، تقریباً 32 سال، پھر 2007 میں ملتان میں اس کا باقاعدہ احیاء ہوا۔ مارچ 2012 میں پروفیسر ڈاکٹر محمد علی صدیقی انجمن ترقی پسند مصنفین کے پہلے باقاعدہ صدر منتخب ہوئے اور سلیم راز جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔

یہ مقام مسرت ہے کہ کراچی میں آرٹس کونسل کے زیر اہتمام پانچویں عالمی اردو کانفرنس منعقد کی گئی۔ کراچی شہر نے اس کانفرنس کے ذریعے اردو کے عالمی افق پر جو شہرت پائی ہے وہ اردو سے محبت کرنے والے طبقے یا لوگوں کے لیے باعث مسرت و اطمینان کا باعث ہے۔

انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کی سب سے فعال تنظیم ہے جس کے ملک میں 50 سے زائد یونٹس ہیں جو سرگرمی کے ساتھ اردو اور علاقائی زبان میں ادب تخلیق کر رہی ہیں۔ 2012 کے بعد باقاعدہ انتخابات کے بعد سرگرم ادب ترقی پسند مصنفین ادب کو ادبی پیمانوں سے تخلیق کرنے پر یقین رکھتی ہے اور اس نقطے کو سجاد ظہیر اور فیض احمد فیضؔ اور آج کے موجودہ صدر ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے بار بار اپنی تحریروں و تقریروں میں واضح کیا ہے کہ اس ترقی پسند مصنفین کا ماضی اس قدر شاندار رہا ہے کہ ہم اسے صحیح معنوں میں عوامی احساسات کا ترجمان سمجھتے ہیں۔

بعض ترقی پسند ادیبوں نے جن میں مخدوم محی الدین اور مجاز لکھنوی سر فہرست ہیں جنھوں نے پاکستان کے قومی ترانے بھی لکھے ہیں اور اس لیے اس انجمن کو تخلیق پاکستان کی تحریک میں بھی کلیدی مقام حاصل ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین سرسید کی تحریک کی توسیع ہے جس کا مقصد، مقصدی و قومی ادب کی ترویج تھا جبکہ دائیں بازو کے ادیبوں و نقادوں نے اس تحریک کی مخالفت میں سماج سے اپنا رشتہ توڑنے پر زور دیا ہے اور انجمن کی مخالفت میں ''ادب برائے ادب'' کی ترویج کی، وہ آج تک اپنے اسی موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور عوامی تحریکوں سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آئندہ سال کی کانفرنس میں آرٹس کونسل آف پاکستان اس شکایت کا ازالہ کرے گی اور اردو ادیبوں کی نمائندہ تنظیم جو پاکستان کی سب سے بڑی ادبی تنظیم بھی ہے اسے عوام دوستی کی بنا پر نظر انداز نہیں کرے گی۔

ترقی پسند ادب کی ضرورت ہے، لیکن مقام افسوس ہے کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کی عالمی اردو کانفرنس 2012 میں ہم عصر ترقی پسند مصنفین کو نظرانداز کیا گیا اور ہندوستان سے بھی غیر ترقی پسند نقادوں کو اہمیت دی گئی۔ 6 دسمبر تا 9 دسمبر تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں منٹو اور میرا جی کا جشن صد سالہ منایا گیا۔ ضیا محی الدین کے اعزاز میں تقریب اعتراف کمال منعقد کی گئی، شاعر عوام حبیب جالبؔ کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
Load Next Story