موسم سرما نے خون کو گرما دیا
عالمی سرمایہ داری کا دھڑن تختہ ہونے والا ہے،اس لیے دنیا بھر کے محنت کش اور نوجوان جدوجہد میں برسر پیکار ہیں۔
KARACHI:
گزشتہ برسوں انقلاب بہار نے عرب، افریقہ اور امریکا کے عوام کو طوفان کی لپیٹ میں لیا تھا، ہر چند کہ یہ طوفان فرانس سے شروع ہوا، لیکن اس نے تیونس میں داخل ہوکر ساری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس سال کے موسم سرما میں یعنی 2012ء کے اختتام پر کچھ ایسا ہی سلسلہ شروع ہوا۔ عوامی تحریکیں شروع تو اسپین اور یونان سے ہوئیں، لیکن یہ تحریکیں سرحدوں کو توڑتے ہوئے انڈونیشیا تک جا پہنچیں۔ یہ طوفان 14 نومبر کو 23 یورپی ملکوں کی 40 یونینوں میں عام ہڑتالوں، احتجاج اور مظاہروں کی شکل میں برپا ہوئے۔
یہ سب کچھ ان کٹوتیوں کے اقدام اور معیار زندگی پر کیے جانے والے حملوں کے خلاف ہوا۔ بارسلونا کے مظاہرے میں کمیونسٹ ٹریڈ یونین فیڈریشن کے بینرز پر لکھا تھا ''ہم اس دن کی شروعات کر رہے ہیں جو یورپ میں پولیس کی تاریخ میں سنگ میل ہوگا''۔ اسپین، اٹلی، یونان اور پرتگال میں ہڑتالیں، محنت کشوں اور پولیس کے مابین پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین کے خلاف پولیس نے ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کا استعمال کیا، اور صرف اسپین کے دارالخلافہ میڈرڈ میں 82 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ میڈرڈ کے مظاہرے میں ایک بینر پر لکھا تھا ''وہ ہم سے ہمارا مستقبل چھین رہے ہیں''۔
اٹلی کے شہر میلان میں شدید جھڑپیں ہوئیں اور ہڑتال سے دارالخلافہ روم جام ہوگیا۔ نیسلز اور بروشیا میں مظاہرین نے ریل کی پٹڑی پر قبضہ کرلیا۔ جنیوا میں بندرگاہ کے داخلی راستے کو بند کردیا گیا، پیسا میں مظاہرین نے جھکے ہوئے مینار کی چھت سے بڑے بڑے بینرز ٹانگ دیے، جب کہ وینس میں مظاہرین نے ایک بینک کے باہر بینرز لگائے جس پر لکھا تھا کہ ''تم ہمارے قرضوں سے کمائی کر رہے ہو''۔ ویانا میں سینٹ اسٹیفن کے گرجے کے نیچے 350 کے قریب افراد سرتاکی (یونانی ناچ) ناچ رہے تھے۔ پرتگال کے شہر لزبن میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھے گئے۔
بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں بڑے مظاہرے ہوئے اور ریل کے مزدوروں نے ہڑتال کی، مشہور زمانہ تیز رفتار ریل تھیلس معطل ہوگئی۔ اسی طرح 700 پروازیں بھی منسوخ کردی گئیں۔ فرانس کے مختلف شہروں میں 130 مظاہرے ہوئے۔ پیرس، ٹواوز، مارسائی اور دیگر کئی شہروں میں پولیس کے ساتھ پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔ جرمنی میں برلن، فرینکفرٹ، ہمسبرگ اور دیگر شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ لندن میں ویسٹ منسٹر سمیت کئی شہروں میں ریلی نکالی گئی۔ یورپی یونین میں مجموعی شرح بے روزگاری 11.6 فیصد تک جا پہنچی ہے جب کہ نوجوانوں میں یہ 23.3 فیصد ہے۔
یورپ کے علاوہ اردن میں حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات پر سے سبسڈیز ختم کرنے کے بعد بڑے پیمانے پر ملک گیر مظاہرے ہوئے ہیں۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان پُرتشدد جھڑپیں بھی ہوئی ہیں، غیر متوقع طور پر بادشاہ کے خلاف نعرے سننے کو ملے۔ مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی بار مظاہرین کی اتنی بڑی تعداد سڑکوں پر دیکھنے کو ملی ہے۔ اخوان المسلمین مذہبی انتہا پسندی پر مبنی قوانین کا انعقاد اور آزادی اظہار کا خاتمہ چاہتی ہے۔ حزب اختلاف نے محمد مرسی کو دور حاضر کا فرعون قرار دیا۔ مصر کا قومی قرضہ GDP کے 83 فیصد سے تجاوز کرچکا ہے۔ فلسطین پر اسرائیل کے جارحانہ حملے میں 150 شہریوں کے قتل کے بعد دنیا میں اس قتل عام کے خلاف سب سے بڑا 10 لاکھ کا مظاہرہ اسرائیل کے دارالخلافہ تل ابیب میں ہوا۔ واضح رہے کہ اسرائیل کی کل آبادی 77 لاکھ کی ہے۔
مظاہرین یہ نعرے لگا رہے تھے کہ ''معصوم فلسطینیوں کا قتل بند کرو''۔ کویت سٹی میں پارلیمنٹ کو توڑنے کے خلاف ایک لاکھ 50 ہزار افراد نے مظاہرے کیے اور حزب اختلاف نے آیندہ انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں ہزاروں مظاہرین نے مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی کے خلاف ریلی نکالی اور پولیس سے مظاہرین کی جھڑپیں ہوئیں۔ بنگلہ دیش میں 120 مزدوروں کے جل کر ہلاک ہونے کے خلاف مزدوروں کی فیڈریشن نے بہت بڑا جلوس نکالا اور قاتلوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ بحرین میں جنوری 2012ء کے آخر میں بادشاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ کی طرف سے تحریک کو کمزور بنانے کے لیے اصلاحات کا اعلان کیا گیا کہ آئین میں ترمیم لائی جائیں گی جس میں وزراء سے سوال کرنے اور برطرف کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔
یہ تحریک تیزی سے سعودی عرب کے اندر بھی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود بحرین کی تحریک سعودی عرب میں داخل ہوچکی ہے۔ بحرین کے معاملے پر وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق ''امریکا بحرین میں جمہوریت کے خلاف صف آراء ہے۔ مزیدبرآں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی وکٹوریا نولینڈ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ''بحرین امریکا کا اہم اتحادی اور سکیورٹی پارٹنر ہے جس کو علاقائی طور پر خطرات کا سامنا ہے''۔ اس وقت سعودی عرب کے علاقے القطیف اور مشرقی حصے میں تحریک چل رہی ہے۔ ادھر پاکستان میں صوبہ پنجاب میں جونیئر ڈاکٹرز بھی اپنی جدوجہد میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں اور بلوچستان سے ماہر چشم ڈاکٹر سعید خان جنھیں عرصہ پہلے اغواء کیا گیا تھا بازیاب کرلیا گیا ہے۔
کشمیر کی PWD ورکرز یونین کے زیر اہتمام 13 نومبر کو نیو سیکریٹریٹ سے محنت کشوں کے مطالبات کی منظوری کے لیے ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ ریلی میں کشمیر کے تمام اضلاع سے محنت کشوں نے سیکڑوں کی تعداد میں شرکت کی۔ اس سے قبل مزدوروں نے مسلسل 33 دن تک علامتی بھوک ہڑتال بھی کر رکھی تھی۔ اسی تسلسل میں 34 ویں دن 13 نومبر کو احتجاجی ریلی نکالی گئی جو نیو سیکریٹریٹ سے شروع ہوئی اور پریس کلب گھڑی پن چوک دو میل سے ہوتی ہوئی اسمبلی سیکریٹریٹ گیٹ پر اختتام پذیر ہوئی۔ کراچی، سیالکوٹ، ملتان، گجرانوالہ اور رحیم یار خان میں ایک ملٹی نیشنل مشروب ساز کمپنی کے سیکڑوں مزدوروں کو برطرف کرنے پر ان تمام شہروں میں مزدوروں نے ریلیاں نکالیں، دھرنے دیے اور گھیراؤ کیا، لیکن انتظامیہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
انتظامیہ نے مزدوروں کے کام کے اوقات کار میں اضافہ کردیا جب کہ ملتان میں 240 ملازمین کو یونین سرگرمیوں سے روکنے کے لیے منیجمنٹ اسٹاف میں ترقی دے دی گئی۔ جموں کشمیر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام فہیم اکرم شہید کی اکیسیوں برسی کے موقع پر طلبہ رہنماء نے کہا کہ ''طلبہ یونین پر پابندی عائد کرکے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو سیاست سے دور رکھتے ہوئے ان کے حقوق سلب کرنے اور اپنی وراثتی سیاست کو جاری رکھنے کے لیے راہ ہموار کر رکھی ہے۔ اگر حکمرانوں اور سیاستدانوں کے بچے سیاست کرسکتے ہیں تو پھر غریب طالب علموں کے لیے (جو مزدوروں اور کسانوں کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں) طلبہ سیاست پر کیوں پابندی عائد کرکے اسے بری چیز ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟
پاکستان میں شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب فیصل آباد، کراچی، ملتان، سرگودھا، گوجرانوالہ اور لاہور سمیت متعدد شہروں میں محنت کش اور نوجوان لوڈشیڈنگ، قتل، اغواء اور مہنگائی کے خلاف مظاہرے نہ کرتے ہوں۔ اب موسم سرما کی تحریک انڈونیشیا اور جاپان تک پھیل گئی ہے۔ چونکہ عالمی سرمایہ داری کا اب دھڑن تختہ ہونے والا ہے،اس لیے دنیا بھر کے محنت کش اور نوجوان اپنے اپنے انداز میں جدوجہد میں برسر پیکار ہیں۔ یہ لڑائیاں بہت جلد ایک لڑی میں پرو جائیں گی اور عوام کا طوفان سڑکوں پر امنڈ آئے گا تو وہ کسی لیڈر، کسی پارٹی کے بہکاوے، سبز باغ، دکھاوے یا عقل مند دانشوروں کی خود ساختہ عقلمندی کی رہنمائی کو ٹھوکر مارتے ہوئے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں گے۔پھر ایک اسٹیٹ لائن سماج کا قیام (پنچائیتی نظام) عمل میں لاکر افلاس، غربت، ذلت، اذیت، غلاظت، بھوک، جہالت، اقتدار اور اختیار کا خاتمہ کرکے ایک خوش حال معاشرے کی تشکیل کریں گے۔