کراچی اور کافکا

کراچی جس دہشت گردی اور وحشیانہ قتل و غارت گری کا شکار ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ انسانی آبادیوں میں درندے گھس آئے ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari December 08, 2012
[email protected]

موبائل فون کے ماہرین نے پیغام رسانی کی ایسی ایسی سہولتیں متعارف کرائی ہیں کہ ہم سیکنڈوں میں اپنا کوئی مختصر یا طویل پیغام دنیا کے کسی بھی ملک تک پہنچا سکتے ہیں، ان سہولتوں میں ایک سہولت ایس ایم ایس کی ہے۔ ایس ایم ایس کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگ اپنی شکایتیں اپنا غصہ بیک وقت ہزاروں افراد تک پہنچا رہے ہیں۔ ہمارے موبائل پر ہر روز صبح سے آدھی رات تک ایس ایم ایس کی بھرمار رہتی ہے۔ جب سے انتہا پسندوں نے ملک بھر میں بے گناہوں کی قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع کیا ہے، اس قتل و غارت گری سے متاثر ہونیوالوں نے اپنا سارا غصہ کالم نگاروں پر اتارنا شروع کر دیا ہے۔

خاص طور پر ہمارے ایک فرقے کے دوست ہم پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ہم ان کی کمیونٹی پر ہونیوالے مظالم پر آنکھیں بند کرکے جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خودکش حملوں، ٹائم بموں، بارودی گاڑیوں اور ٹارگٹ کلنگ کے جہادیوں کے جہاد کا سب سے بڑا ٹارگٹ ایک خاص کمیونٹی بن رہی ہے، لیکن اس حوالے سے ہم پر کسی مخصوص کمیونٹی سے تعلق کے حوالے سے جانبداری کا الزام اس لیے غلط اور زیادتی ہے کہ جن لوگوں کا خود اپنی ذات ہی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ بھلا کسی کمیونٹی سے تعلق کے حوالے سے جانبدار کیسے ہوسکتے ہیں؟

ہمارا ملک خاص طور پر کراچی جس دہشت گردی اور بہیمانہ غیر انسانی اور وحشیانہ قتل و غارت گری کا شکار ہے اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ انسانی آبادیوں میں درندے گھس آئے ہیں، ہر روز جس بیدردی سے بے گناہ انسانوں کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا جا رہا ہے اس کی مذمت قومی اور بین الاقوامی سطح پر کی جا رہی ہے۔ دنیا کی تاریخ کے ان بدترین قاتلوں کو اس بات کی بھی پرواہ نہیں رہی ہے کہ ان کے بموں، گولیوں کی زد میں معصوم بچے بچیاں بھی آ رہے ہیں، اس اندھی بہری اور گونگی قتل و غارت گری کے خلاف میں نے اس قدر سخت کالم لکھے ہیں کہ میرے خیر خواہوں نے مجھ سے بار بار ہاتھ روکنے کی درخواست کی ہے۔

انسان خواہ ہندو ہو، مسلمان ہو، سکھ ہو یا عیسائی ، وہ ہر حال میں انسان ہوتا ہے، ان سب کی جانیں یکساں طور پر محترم اور قیمتی ہوتی ہیں۔ کمیونٹی فقہہ کے حوالوں سے انسانوں کی جان لینے کے اس وحشیانہ کلچر نے ساری دنیا میں ہمیں اس قدر ذلیل و رسوا کردیا ہے کہ دنیا ہمارے نام سے نفرت کرنے لگی ہے۔

دنیائے ادب کے اکابرین فرانز کافکا کو انسانی ادب کا بادشاہ کہتے ہیں، چیکو سلواکیہ کے ایک یہودی گھرانے میں جنم لینے والا یہ افسانہ نگار اپنے مختصر افسانوں کی وجہ سے شہرت کے اس مقام پر پہنچا جہاں ادیب ''آئی کون'' بن جاتا ہے۔ کافکا کے مختصر افسانوں میں ایک افسانہ ''دستاویز'' ہے جس میں کافکا نے اپنے مہذب شہر میں وحشیوں کی آمد کا بڑے موثر انداز میں نقشہ کھینچا ہے۔ اگرچہ کافکا کے وحشیوں کی شہر میں آمد کا مقصد مختلف ہے، لیکن ان کی جنگلی حرکتوں سے شہری اس قدر حیران و پریشان ہوجاتے ہیں کہ ان سے نجات کی کوئی صورت ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔

ہمارے شہر کراچی میں جو وحشی گھس آئے ہیں وہ کافکا کے وحشیوں سے زیادہ بدتر وحشی اس طرح ہیں کہ کافکا کے وحشی زندہ اور سالم بیل پر ٹوٹ پڑتے تھے اور اپنے تیز دانتوں سے بیل کی بوٹیاں نوچ لیتے تھے اور ہمارے وحشی بے گناہ انسانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ کافکا ان وحشیوں کی تصویر اس طرح کھینچتا ہے۔ شمال کی وحشی نسلوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے دارالخلافہ تک کیسے آگئے جب کہ ہمارا شہر سرحدوں سے بہت دور واقع ہے؟ بہرحال وحشی ہمارے شہر میں پہنچ گئے ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ شہر کا خوبصورت علاقہ ان کی آمد سے اصطبل میں تبدیل ہوگیا ہے۔

وہ آپس میں پہاڑی کوئوں کی طرح باتیں کرتے ہیں۔ ان کی دلخراش آوازوں سے ہماری سماعتیں متاثر ہورہی ہیں، انھیں ہماری اخلاقیات اور معاشی قدروں سے کوئی غرض نہیں، وہ ہمارے تہذیبی اداروں پر قہقہے لگاتے ہیں، ہم انھیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، اس کوشش میں ہمارے جبڑے درد ہوجاتے ہیں، لیکن ان وحشیوں کی سمجھ میں ہماری کوئی بات نہیں آتی۔ وہ قصائیوں کا سارا گوشت کھا جاتے ہیں، ان کے گھوڑے بھی گوشت خور ہیں، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وحشی اور ان کے گھوڑے گوشت کے لوتھڑے کو مخالف سمتوں سے کھانا شروع کر دیتے ہیں۔

ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے، کبھی کبھی ان کا منہ اتنا بگڑ جاتا ہے کہ وہ حیوان لگنے لگتے ہیں۔ ہم سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال گونجنے لگتا ہے ''اب کیا ہوگا؟'' بادشاہ کے محل کی کشش ان وحشیوں کو یہاں تک کھینچ لائی ہے اور ہم میں سے کوئی بھی انھیں یہاں سے پیچھے شمال کی طرف دھکیلنے میں کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ ہم کب تک ان وحشیوں کے عذاب جھیلتے رہیں گے؟

کافکا کا یہ سوال آج ہمارے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کے سامنے کھڑا جواب طلب کر رہا ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہمیں اس بربریت کے پس منظر پر، محرکات پر نظر ڈالنا ہوگی۔ جس کمیونٹی کے لوگ پاکستان میں ٹارگٹ ہورہے ہیں یہ کوئی صرف پاکستان تک محدود مسئلہ ہے نہ یہ وحشت و بربریت پاکستان تک محدود ہے، یہ فرقہ وارانہ قتل و غارت عراق میں بھی اسی شدت سے جاری ہے، جس کا سامنا ہم کر رہے ہیں اور شام میں ہونے والی خونریزی بھی اسی فقہی جنگ کا حصہ ہے اور یہ جنگ آہستہ آہستہ تمام مسلم ممالک تک پھیلتی جارہی ہے۔ اس جنگ کا اصل نشانہ ایران نظر آتا ہے۔

کیونکہ ایران ایک مسلکی ملک ہے اور اس مسلک سے تعلق رکھنے والے ایس ایم ایس کے ذریعے ان پر ہونیوالے مظالم سے ہم سب کو آگاہ کر رہے ہیں۔ شہنشاہ ایران کے خلاف انقلاب ایران انقلابوں کی تاریخ کا ایک اہم انقلاب ہے، لیکن مجھے اس بات کا بہرحال دکھ ہے کہ یہ متحد مضبوط اور تیل سے مالا مال قوم اپنے انقلاب کو جدید علوم سائنس و ٹیکنالوجی، صنعتی اور سماجی ترقی کی راہ پر ڈالتی تو بلاشبہ ایران اب تک ایک ترقی یافتہ تابندہ ملک بن جاتا۔ لیکن اسے فقہی بھول بھلیوں میں دھکیل کر خود اپنے پر ہی ظلم نہیں کیا گیا بلکہ مسلم دنیا پر بھی ظلم کیا گیا۔ایران اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن ملک ہے۔

امریکا مشرق وسطیٰ کے تیل پر اپنی اجارہ داری مضبوط رکھنے کے لیے اسرائیل کو اس خطہ کی منی سپر پاور کی حیثیت سے برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ایران ایٹمی طاقت بننے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ کچھ مسلم ممالک بھی ایران کو ایٹمی طاقت بنتے نہیں دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کا راستہ روکنے کے لیے ہر جگہ کوشاں ہیں ۔ اس مشن کی کامیابی کے لیے دہشت گردی ٹارگٹ کلنگ کا راستہ اپنایا جارہا ہے۔ اس پس منظر میں اگر اس جنگ پر نظر ڈالیں تو اس دوآتشہ جنگ کے خطرناک مضمرات کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ پیغمبرِ اسلام نے اپنے آخری خطبے میں کہا تھا کہ ''اب نہ کسی عربی کو عجمی پر فوقیت ہوگی نہ کسی کالے کو گورے پر نہ کسی گورے کو کالے پر''۔ اگر اس فرمان کی روشنی میں مسلم ملکوں کے اکابرین 57 ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کو متحد کردیں تو نہ فقہی قتل و غارت کا کوئی جواز رہے گا نہ سامراجی ملکوں کی سازشوں کا کوئی امکان رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں