ٹاپ سیکرٹ بھارتی آبدوز پروگرام خطرے میں
اسلحہ ساز ادارے ہر ہتھیار کی بیشتر معلومات خفیہ رکھتے اور صرف خریدار ہی کو فراہم کرتے ہیں
یہ 2005ء کی بات ہے' بھارتی حکمرانوں کو احساس ہوا کہ بھارتی بحریہ کی آبدوزیں قدیم ٹیکنالوجی و آلات حرب کی حامل بن چکیں۔ تب بھارت کی معیشت ترقی پذیر تھی اور حکومت کو پیسا وافر مل رہا تھا۔ لہٰذا بھارتی حکمرانوں کے سر پر علاقائی سپر پاور بننے کا سودا سما گیا۔مگر یہ سپنا اسی وقت پورا ہو سکتا تھا جب بھارتی افواج پڑوسی سپر پاور' چین کی افواج کے ہم پلہ ہو جائیں۔ چناںچہ بھارتی حکمران اپنی افواج کو ہر لحاظ سے بہتر بنانے کے لیے کھربوں روپے خرچ کرنے لگے۔
بھارتی حکومت نے تبھی فیصلہ کیا کہ فرانسیسی اسلحہ ساز ادارے' ڈی سی این ایس(DCNS) سے اسکورپین (Scorpene)نامی آبدوز یں خریدی جائیں۔ ان آبدزوں کو ممبئی میں واقع سرکاری شپ یارڈ کمپنی ' مزا گاؤں ڈاک لمٹیڈ میں تیار ہونا تھا۔ یہ تین ارب ڈالر (تین کھرب روپے ) کا معاہدہ تھا جس کی مالیت تاخیر ہونے کے سبب پونے چار ارب ڈالر تک پہنچ چکی۔
بھارت کی بیوروکریسی اپنے تاخیری ہتھکنڈوں ' نااہلی اور کرپشن کے باعث مشہور ہے۔ چناںچہ پہلی آبدوز بنانے پر کام 2009ء میں شروع ہوا ۔ یہ آبدوز 2015ء میں مکمل ہوئی اور اب تجرباتی مراحل سے گذر رہی ہے۔ 2016ء کے اواخر تک اسے بھارتی بحریہ میں شامل کرنے کا پروگرام ہے۔ لیکن حال ہی میں بھارت کے اسکورپین آبدو ز پروگرام کو ایسا زبردست دھچکا لگا جس نے بھارتی حکمرانوں کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا۔
وسط اگست 2016ء میں انکشاف ہوا کہ اسکورپین آبدوز کی خفیہ معلومات پر مبنی دستاویز انٹرنیٹ میں عام دستیاب ہے۔ یہ 22,400صفحات پر مشتمل دستاویز ہے ۔اس کے کچھ حصے آسٹریلوی اخبار' دی آسٹریلین نے شائع کر دیئے ۔ اسی اخباری رپورٹ نے انکشاف کیا کہ اسکورپین آبدوز سے متعلق سارا خفیہ ڈیٹا طشت از بام ہو چکا۔جب یہ حقیقت سامنے آئی تو اس نے بھارتی حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ سا پیدا کر دیا۔
انکشاف کی اہمیت
دنیا کی سبھی جدید آبدوزوں کے مانند اسکورپین بھی ایک ''اسٹیلتھ'' آبدوز ہے۔ یعنی وہ ریڈار اور شناخت کے دیگر آلات کے ذریعے آسانی سے پکڑ میں نہیں آتی۔ وہ چوری چھپے اپنے شکار کے قریب پہنچتی اور اچانک اس پر حملہ کر دیتی ہے ۔ مگر افشا کردہ دستاویز نے اسکورپین کا سارا اسٹیلتھ پن خاک میں ملا دیا۔
اس دستاویز میں درج ہے کہ انٹیلی جنس اکٹھی کرنے کے سلسلے میں آبدوز کن فرئکوینسیوں پر کام کرتی ہے' تیز یا سست رفتاری سے چلنے پر کس حد تک شور مچاتی ہے' کتنی گہرائی تک جاتی ہے' پانی کا کتنا وزن برداشت کرتی اور کتنی دور تک جا سکتی ہے۔ دستاویز میں میگنیٹک اینڈ الیکٹرو میگنیٹک ڈیٹا ' پروپلر کے شور' پرسی اسکوپ استعمال کرنے کے طریقے اور حالات' تارپیڈو لانچرز وغیرہ کے متعلق بھی تفصیلی معلومات موجود ہے۔
اسلحہ ساز ادارے ہر ہتھیار کی بیشتر معلومات خفیہ رکھتے اور صرف خریدار ہی کو فراہم کرتے ہیں۔ صرف موٹی موٹی باتیں عوام الناس پر افشا کی جاتی ہیں۔ مدعا یہی ہوتا ہے کہ معاصرین ہتھیار کی اصل طاقت نہ جان سکیں بلکہ محض اندازہ ہی لگائیں ۔ لیکن افشا کردہ رپورٹ اسکورپین آبدوز کی ساری خفیہ معلومات سامنے لے آئی۔ لہٰذا اب اس آبدوز کی اصل طاقت واہمیت سبھی پر اجاگر ہو چکی جن میں چین اور پاکستان کی افواج بھی شامل ہیں۔
کم از کم تین اسکورپین آبدوزوں کو ممبئی بندرگاہ میں مستقل قیام کرنا تھا تاکہ بحیرہ عرب میں بھارتی بحریہ اپنا اثر ورسوخ بڑھا سکے۔ بھارتی حکمرانوں کو یقین تھا کہ بحیرہ عرب میں یہ آبدوزیں اترنے سے پاکستانیوں پر ان کی دھاک بیٹھ جائے گی۔ مگر اب اسکورپین آبدوزوں کی ساری خفیہ معلومات افشا ہونے سے ان کی برتری مٹی میں مل چکی ۔ اس بات نے بھارتی حکومت کو سخت صدمہ پہنچایا اور وہ گنگ رہ گئی۔
ظاہر میں بھارتی حکمرانوں اور بھارتی بحریہ کے کمانڈوں نے یہی بیان دیا کہ 22ہزار سے زیادہ صفحات پر مشتمل دستاویز عام ہونے کی کوئی اہمیت نہیں اور اسکورپین آبدوز کی قدر وقیمت برقرار ہے۔ لیکن تمام ماہرین عسکریات اس بات پر متفق ہیں کہ افشا کردہ خفیہ معلومات کی روشنی میں بھارتی افواج کے معاصر اب اسکورپین آبدوزوں کا باآسانی مقابلہ کر سکیں گے۔ چناںچہ جو پونے چار ارب ڈالر خرچ کر کے بھارتی حکمرانوں نے اپنی بحریہ کو طاقتور بنانا چاہا تھا' وہ ایک لحاظ سے رائیگاں گئے۔
دستاویز کیسے افشا ہوئی؟
یہ امر پراسرار ہی ہے کہ اسکورپین آبدوز کی خفیہ معلومات والی دستاویز دنیائے انٹرنیٹ میں کیسے نمودار ہوئی۔ آبدوز ساز فرانسیسی ادارے، ڈی سی این ایس کا دعوی ہے کہ 2011ء میں اس کے ایک ملازم نے کمپیوٹر سے یہ دستاویز چرائی تھی جو اب منظر عام پر آ چکی ۔ تاہم بیشتر ماہرین عسکریات کا خیال ہے کہ یہ کام کسی ایک یا زیادہ ہیکروں نے انجام دیا۔
یہ بھی واضح نہیں کہ دستاویز بھارتی بحریہ کے کمپیوٹر سے چوری ہوئی یا فرانسیسی ادارے کے دفتری کمپیوٹر سے اڑائی گئی۔ بہر حال اس ہیکننگ نے سب سے زیادہ بھارتی حکمرانوں کو ہی متاثر کیا جن پر علاقائی سپر پاور بننے کا بھوت سوار ہے۔ حتیٰ کہ یہ خواب پورا کرنے کے لئے اب وہ ماضی میں اپنے مخالف ' امریکا سے جنگی معاہدے کر رہے ہیں۔ مدعا یہی ہے کہ بھارت عسکری لحاظ سے انتہائی طاقتور بن چکا ۔ طاقت و قوت حاصل کرنے کی بھارتی حکمرانوں کی اشتہا پاکستانی ملک و قوم کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب پاکستانی افواج اور قوم دونوںکو اپنے پڑوسی سے زیادہ چوکنا رہنا ہو گا۔یہ اور بات ہے کہ وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور جنم لیتا ہے جو بھارتی حکمرانوں کے غرور کا سر نیچا کر ڈالتا ہے۔
اب اسی تازہ اسکینڈل کو لیجیے۔ بھارت کی جدید ترین اسکورپین آبدوزیں ابھی میدان جنگ میں داخل بھی نہیں ہوئی تھیں کہ تنازع کا شکار ہوگئیں۔ بھارت کی مسلح افواج کو وقفے وقفے سے چرکے لگتے رہتے ہیں۔ اس بنا پر بھارتی افواج کا مورال عموماً پست رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ بھارتی افواج کی اعلیٰ کمانڈ کرپٹ ہے۔
مثال کے طور پر بھارتی بری فوج کے چیف، جنرل دلبیر سنگھ نے بھارتی سپریم کورٹ میں سابق چیف اور حالیہ وزیر مملکت خارجہ امور، جنرل (ر) وی کے سنگھ کے خلاف ایفیڈیوٹ جمع کرایا ہے۔ اس میں حالیہ چیف نے جنرل (ر) وی کے سنگھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ موصوف نے جنرل دلبیر کی پرموشن شرانگیزی کرتے ہوئے روکے رکھی۔ جنرل دلبیر نے جنرل (ر) وی کے سنگھ پر اپنے خلاف شرمناک اور منفی اقدامات انجام دینے کا الزام بھی لگایا۔
بھارتی بری فوج کے سابق اور حاضر کمانڈر جرنیلوں کے مابین جاری جنگ کی مثال دیگر افواج کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ اسی طرح بھارتی افواج کے جرنیل کمیشن کھانے میں عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ کبھی بوفوز سکینڈل سامنے آتا ہے، تو کبھی آدرش ہاؤسنگ سوسائٹی کا فراڈ۔ حتیٰ کہ بھارتی فوجی افسروں کی اخلاقیات بھی نہایت پست درجے پر پہنچ گئی۔ حال ہی میں انکشاف ہوا تھا کہ بھارتی فوجی افسر اپنے ماتحتوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی بیویوں کو ان کے پاس بھیج دیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مظلوم و نہتے کشمیریوں کا قتل عام کرتے کرتے بھارتی افواج کا ضمیر نجانے کب کا مردہ ہوچکا۔ ایسی دلخراش صورت حال میں گھناونے واقعات جنم لینے ہی تھے۔
مودی نے ملک امریکیوں کو بیچ ڈالا
ایک طرف بھارتی افواج نت نئے سیکنڈلوں کی زد میں ہیں، تو دوسری طرف بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی علاقائی سپرپاور بننے کے جنون میں اندھا دھند اقدامات کررہا ہے۔ حال ہی میں مودی حکومت نے امریکاکے ساتھ ''ایل ای ایم او اے'' (Logistics Exchange Memorandum of Agreement) معاہدہ کیا ہے۔ مودی حکومت نے اس معاہدے کو ''عظیم کامیابی'' قرار دیا لیکن بھارت میں کئی طبقے اس معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔
دراصل 1947ء سے لے کر 2014ء تک ہر بھارتی حکومت کی سعی رہی ہے کہ وہ عالمی مسائل و معاملات میں اپنی غیر جانبداری ہر قیمت پر برقرار رکھے۔ مگر مودی صاحب اقتدار میں آتے ہی امریکا کے پے درپے چکر لگانے لگے۔ یوں بھارت کی غیر جانبداری کا تصور ماند پڑنے لگا۔ اور اب امریکا کے ساتھ ''ایل ای ایم او اے'' معاہدہ کرکے مودی حکومت نے بھارتی غیر جانبداری نظریہ دفن کردیا۔بھارتی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ کرکے مودی حکومت روس اور چین کو ناراض کرکے امریکیوں کی آغوش میں جابیٹھی ہے۔ یہی نہیں بھارتی وزیراعظم نے قومی خود مختاری اور سلامتی ایک طرح سے امریکیوں کے ہاتھ فروخت کرڈالی۔ امریکیوں کی اب سعی ہوگی کہ وہ بھارت میں سیاسی، عسکری، معاشی اور معاشرتی طبقات میں گہرائی میں اپنے پنجے گاڑلیں۔
یاد رہے، امریکا کے نزدیک چین اس کی طاقت اور مفادات کو چیلنج کرنے لگا ہے۔ چناں چہ امریکا اپنے ''60فیصد'' بحری جنگی جہاز بحرالکاہل اور بحرہند میں رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت سے ''ایل ای ایم او اے'' معاہدہ کرکے امریکیوں کو یہ زبردست سہولت حاصل ہوگئی کہ وہ جب چاہے بھارتی بندرگاہوں پر اپنے بحری جہاز و طیارے کھڑے کرسکیں۔
ورنہ عراق اور افغان جنگوں کے آغاز میں امریکیوں کو اپنی ساری تنصیبات و سہولیات پہلی اینٹ کھڑی کر کے بنانی پڑی تھیں۔امریکا درج بالا قسم کے معاہدے جاپان، ویت نام اور فلپائن سے بھی کرچکا ۔اب بھارت سے معاہدہ کرکے امریکی افواج کو یہ سہولت بھی مل گئی کہ وہ بحرہند میں قیام کرسکیں۔ امریکا نے اپنے اتحادی آسٹریلیا سے بھی کہا ہے کہ وہ بحیرہ جنوبی چین میں چینی حکومت کے پھیلاؤ کوشدت سے روکے۔ امریکیوں کے اقدامات سے عیاں ہے کہ وہ چین کا گھیراؤ کرنا چاہتا ہے۔ اسی مقصد کے لیے امریکی اپنے قدیم اتحادی، پاکستان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بھارت کو ترجیح دینے لگے ہیں۔
ظاہر ہے، چین اور روس اس نئی گریٹ گیم کو گہری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ وقت آنے پر اپنے پر مہرے چلیں گے۔ اس نئی گریٹ گیم میں پاکستان کوچاہیے کہ وہ ہزاروں میل دور بیٹھے وعدہ خلاف امریکا کے بجائے چین کا ساتھ دے جو دنیا کی نئی ابھرتی سپرپاور بن چکا۔
آبدوز کی اہمیت
عسکری دنیا میں آبدوز ایک اہم ہتھیار ہے۔ یہ دشمن کی بحریہ کو دور رکھ کر وطن کی حفاظت کرنے میں کام آتی ہے۔ اس سے دشمن کی جاسوسی کرنا ممکن ہے۔ نیز اب میزائل چھوڑنے والی آبدوزیں بھی ایجاد ہوچکیں۔ اسی لیے ہر بڑی بحریہ کے لیے آبدوز بنیادی ضرورت بن چکی۔ہمارے خطے میں چینی بحریہ سب سے زیادہ یعنی ''70'' آبدوزوں کی مالک ہے۔ بعض چینی آبدوزوں سے ایٹمی میزائل بھی چھوڑے جاتے ہیں۔ امریکا اورروس کے ساتھ چین کا شمار زیادہ آبدوزیں رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ چینی ساختہ آبدوزیں پاک بحریہ کے بھی زیر استعمال ہیں۔
بھارتی بحریہ 13 آبدوزیں رکھتی ہیں جبکہ دو ایٹمی آبدوزوں سمیت آٹھ تیاری کی حالت میں ہیں۔ بھارتی آبدوزوں کی اکثریت روس ساختہ ہے۔پاک بحریہ کی ''5'' آبدوزیں بحیرہ عرب میں زیر گشت رہتی ہیں۔ اس شعبے کو مضبوط تر بنانے کے لیے حال ہی میں حکومت پاکستان نے چین سے ''8'' اٹیک آبدوزیں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ''پانچ ارب ڈالر'' کا معاہدہ ہے۔ ماہرین عسکریات کے نزدیک چین کو اپنی عسکری تاریخ میں ملنے والا یہ سب سے بڑا آرڈر ہے۔ چینی آبدوزوں کی شمولیت سے پاک بحریہ زیادہ طاقتور ہو جائے گی۔n
بھارتی حکومت نے تبھی فیصلہ کیا کہ فرانسیسی اسلحہ ساز ادارے' ڈی سی این ایس(DCNS) سے اسکورپین (Scorpene)نامی آبدوز یں خریدی جائیں۔ ان آبدزوں کو ممبئی میں واقع سرکاری شپ یارڈ کمپنی ' مزا گاؤں ڈاک لمٹیڈ میں تیار ہونا تھا۔ یہ تین ارب ڈالر (تین کھرب روپے ) کا معاہدہ تھا جس کی مالیت تاخیر ہونے کے سبب پونے چار ارب ڈالر تک پہنچ چکی۔
بھارت کی بیوروکریسی اپنے تاخیری ہتھکنڈوں ' نااہلی اور کرپشن کے باعث مشہور ہے۔ چناںچہ پہلی آبدوز بنانے پر کام 2009ء میں شروع ہوا ۔ یہ آبدوز 2015ء میں مکمل ہوئی اور اب تجرباتی مراحل سے گذر رہی ہے۔ 2016ء کے اواخر تک اسے بھارتی بحریہ میں شامل کرنے کا پروگرام ہے۔ لیکن حال ہی میں بھارت کے اسکورپین آبدو ز پروگرام کو ایسا زبردست دھچکا لگا جس نے بھارتی حکمرانوں کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا۔
وسط اگست 2016ء میں انکشاف ہوا کہ اسکورپین آبدوز کی خفیہ معلومات پر مبنی دستاویز انٹرنیٹ میں عام دستیاب ہے۔ یہ 22,400صفحات پر مشتمل دستاویز ہے ۔اس کے کچھ حصے آسٹریلوی اخبار' دی آسٹریلین نے شائع کر دیئے ۔ اسی اخباری رپورٹ نے انکشاف کیا کہ اسکورپین آبدوز سے متعلق سارا خفیہ ڈیٹا طشت از بام ہو چکا۔جب یہ حقیقت سامنے آئی تو اس نے بھارتی حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ سا پیدا کر دیا۔
انکشاف کی اہمیت
دنیا کی سبھی جدید آبدوزوں کے مانند اسکورپین بھی ایک ''اسٹیلتھ'' آبدوز ہے۔ یعنی وہ ریڈار اور شناخت کے دیگر آلات کے ذریعے آسانی سے پکڑ میں نہیں آتی۔ وہ چوری چھپے اپنے شکار کے قریب پہنچتی اور اچانک اس پر حملہ کر دیتی ہے ۔ مگر افشا کردہ دستاویز نے اسکورپین کا سارا اسٹیلتھ پن خاک میں ملا دیا۔
اس دستاویز میں درج ہے کہ انٹیلی جنس اکٹھی کرنے کے سلسلے میں آبدوز کن فرئکوینسیوں پر کام کرتی ہے' تیز یا سست رفتاری سے چلنے پر کس حد تک شور مچاتی ہے' کتنی گہرائی تک جاتی ہے' پانی کا کتنا وزن برداشت کرتی اور کتنی دور تک جا سکتی ہے۔ دستاویز میں میگنیٹک اینڈ الیکٹرو میگنیٹک ڈیٹا ' پروپلر کے شور' پرسی اسکوپ استعمال کرنے کے طریقے اور حالات' تارپیڈو لانچرز وغیرہ کے متعلق بھی تفصیلی معلومات موجود ہے۔
اسلحہ ساز ادارے ہر ہتھیار کی بیشتر معلومات خفیہ رکھتے اور صرف خریدار ہی کو فراہم کرتے ہیں۔ صرف موٹی موٹی باتیں عوام الناس پر افشا کی جاتی ہیں۔ مدعا یہی ہوتا ہے کہ معاصرین ہتھیار کی اصل طاقت نہ جان سکیں بلکہ محض اندازہ ہی لگائیں ۔ لیکن افشا کردہ رپورٹ اسکورپین آبدوز کی ساری خفیہ معلومات سامنے لے آئی۔ لہٰذا اب اس آبدوز کی اصل طاقت واہمیت سبھی پر اجاگر ہو چکی جن میں چین اور پاکستان کی افواج بھی شامل ہیں۔
کم از کم تین اسکورپین آبدوزوں کو ممبئی بندرگاہ میں مستقل قیام کرنا تھا تاکہ بحیرہ عرب میں بھارتی بحریہ اپنا اثر ورسوخ بڑھا سکے۔ بھارتی حکمرانوں کو یقین تھا کہ بحیرہ عرب میں یہ آبدوزیں اترنے سے پاکستانیوں پر ان کی دھاک بیٹھ جائے گی۔ مگر اب اسکورپین آبدوزوں کی ساری خفیہ معلومات افشا ہونے سے ان کی برتری مٹی میں مل چکی ۔ اس بات نے بھارتی حکومت کو سخت صدمہ پہنچایا اور وہ گنگ رہ گئی۔
ظاہر میں بھارتی حکمرانوں اور بھارتی بحریہ کے کمانڈوں نے یہی بیان دیا کہ 22ہزار سے زیادہ صفحات پر مشتمل دستاویز عام ہونے کی کوئی اہمیت نہیں اور اسکورپین آبدوز کی قدر وقیمت برقرار ہے۔ لیکن تمام ماہرین عسکریات اس بات پر متفق ہیں کہ افشا کردہ خفیہ معلومات کی روشنی میں بھارتی افواج کے معاصر اب اسکورپین آبدوزوں کا باآسانی مقابلہ کر سکیں گے۔ چناںچہ جو پونے چار ارب ڈالر خرچ کر کے بھارتی حکمرانوں نے اپنی بحریہ کو طاقتور بنانا چاہا تھا' وہ ایک لحاظ سے رائیگاں گئے۔
دستاویز کیسے افشا ہوئی؟
یہ امر پراسرار ہی ہے کہ اسکورپین آبدوز کی خفیہ معلومات والی دستاویز دنیائے انٹرنیٹ میں کیسے نمودار ہوئی۔ آبدوز ساز فرانسیسی ادارے، ڈی سی این ایس کا دعوی ہے کہ 2011ء میں اس کے ایک ملازم نے کمپیوٹر سے یہ دستاویز چرائی تھی جو اب منظر عام پر آ چکی ۔ تاہم بیشتر ماہرین عسکریات کا خیال ہے کہ یہ کام کسی ایک یا زیادہ ہیکروں نے انجام دیا۔
یہ بھی واضح نہیں کہ دستاویز بھارتی بحریہ کے کمپیوٹر سے چوری ہوئی یا فرانسیسی ادارے کے دفتری کمپیوٹر سے اڑائی گئی۔ بہر حال اس ہیکننگ نے سب سے زیادہ بھارتی حکمرانوں کو ہی متاثر کیا جن پر علاقائی سپر پاور بننے کا بھوت سوار ہے۔ حتیٰ کہ یہ خواب پورا کرنے کے لئے اب وہ ماضی میں اپنے مخالف ' امریکا سے جنگی معاہدے کر رہے ہیں۔ مدعا یہی ہے کہ بھارت عسکری لحاظ سے انتہائی طاقتور بن چکا ۔ طاقت و قوت حاصل کرنے کی بھارتی حکمرانوں کی اشتہا پاکستانی ملک و قوم کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب پاکستانی افواج اور قوم دونوںکو اپنے پڑوسی سے زیادہ چوکنا رہنا ہو گا۔یہ اور بات ہے کہ وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور جنم لیتا ہے جو بھارتی حکمرانوں کے غرور کا سر نیچا کر ڈالتا ہے۔
اب اسی تازہ اسکینڈل کو لیجیے۔ بھارت کی جدید ترین اسکورپین آبدوزیں ابھی میدان جنگ میں داخل بھی نہیں ہوئی تھیں کہ تنازع کا شکار ہوگئیں۔ بھارت کی مسلح افواج کو وقفے وقفے سے چرکے لگتے رہتے ہیں۔ اس بنا پر بھارتی افواج کا مورال عموماً پست رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ بھارتی افواج کی اعلیٰ کمانڈ کرپٹ ہے۔
مثال کے طور پر بھارتی بری فوج کے چیف، جنرل دلبیر سنگھ نے بھارتی سپریم کورٹ میں سابق چیف اور حالیہ وزیر مملکت خارجہ امور، جنرل (ر) وی کے سنگھ کے خلاف ایفیڈیوٹ جمع کرایا ہے۔ اس میں حالیہ چیف نے جنرل (ر) وی کے سنگھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ موصوف نے جنرل دلبیر کی پرموشن شرانگیزی کرتے ہوئے روکے رکھی۔ جنرل دلبیر نے جنرل (ر) وی کے سنگھ پر اپنے خلاف شرمناک اور منفی اقدامات انجام دینے کا الزام بھی لگایا۔
بھارتی بری فوج کے سابق اور حاضر کمانڈر جرنیلوں کے مابین جاری جنگ کی مثال دیگر افواج کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ اسی طرح بھارتی افواج کے جرنیل کمیشن کھانے میں عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ کبھی بوفوز سکینڈل سامنے آتا ہے، تو کبھی آدرش ہاؤسنگ سوسائٹی کا فراڈ۔ حتیٰ کہ بھارتی فوجی افسروں کی اخلاقیات بھی نہایت پست درجے پر پہنچ گئی۔ حال ہی میں انکشاف ہوا تھا کہ بھارتی فوجی افسر اپنے ماتحتوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی بیویوں کو ان کے پاس بھیج دیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مظلوم و نہتے کشمیریوں کا قتل عام کرتے کرتے بھارتی افواج کا ضمیر نجانے کب کا مردہ ہوچکا۔ ایسی دلخراش صورت حال میں گھناونے واقعات جنم لینے ہی تھے۔
مودی نے ملک امریکیوں کو بیچ ڈالا
ایک طرف بھارتی افواج نت نئے سیکنڈلوں کی زد میں ہیں، تو دوسری طرف بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی علاقائی سپرپاور بننے کے جنون میں اندھا دھند اقدامات کررہا ہے۔ حال ہی میں مودی حکومت نے امریکاکے ساتھ ''ایل ای ایم او اے'' (Logistics Exchange Memorandum of Agreement) معاہدہ کیا ہے۔ مودی حکومت نے اس معاہدے کو ''عظیم کامیابی'' قرار دیا لیکن بھارت میں کئی طبقے اس معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔
دراصل 1947ء سے لے کر 2014ء تک ہر بھارتی حکومت کی سعی رہی ہے کہ وہ عالمی مسائل و معاملات میں اپنی غیر جانبداری ہر قیمت پر برقرار رکھے۔ مگر مودی صاحب اقتدار میں آتے ہی امریکا کے پے درپے چکر لگانے لگے۔ یوں بھارت کی غیر جانبداری کا تصور ماند پڑنے لگا۔ اور اب امریکا کے ساتھ ''ایل ای ایم او اے'' معاہدہ کرکے مودی حکومت نے بھارتی غیر جانبداری نظریہ دفن کردیا۔بھارتی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ کرکے مودی حکومت روس اور چین کو ناراض کرکے امریکیوں کی آغوش میں جابیٹھی ہے۔ یہی نہیں بھارتی وزیراعظم نے قومی خود مختاری اور سلامتی ایک طرح سے امریکیوں کے ہاتھ فروخت کرڈالی۔ امریکیوں کی اب سعی ہوگی کہ وہ بھارت میں سیاسی، عسکری، معاشی اور معاشرتی طبقات میں گہرائی میں اپنے پنجے گاڑلیں۔
یاد رہے، امریکا کے نزدیک چین اس کی طاقت اور مفادات کو چیلنج کرنے لگا ہے۔ چناں چہ امریکا اپنے ''60فیصد'' بحری جنگی جہاز بحرالکاہل اور بحرہند میں رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت سے ''ایل ای ایم او اے'' معاہدہ کرکے امریکیوں کو یہ زبردست سہولت حاصل ہوگئی کہ وہ جب چاہے بھارتی بندرگاہوں پر اپنے بحری جہاز و طیارے کھڑے کرسکیں۔
ورنہ عراق اور افغان جنگوں کے آغاز میں امریکیوں کو اپنی ساری تنصیبات و سہولیات پہلی اینٹ کھڑی کر کے بنانی پڑی تھیں۔امریکا درج بالا قسم کے معاہدے جاپان، ویت نام اور فلپائن سے بھی کرچکا ۔اب بھارت سے معاہدہ کرکے امریکی افواج کو یہ سہولت بھی مل گئی کہ وہ بحرہند میں قیام کرسکیں۔ امریکا نے اپنے اتحادی آسٹریلیا سے بھی کہا ہے کہ وہ بحیرہ جنوبی چین میں چینی حکومت کے پھیلاؤ کوشدت سے روکے۔ امریکیوں کے اقدامات سے عیاں ہے کہ وہ چین کا گھیراؤ کرنا چاہتا ہے۔ اسی مقصد کے لیے امریکی اپنے قدیم اتحادی، پاکستان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بھارت کو ترجیح دینے لگے ہیں۔
ظاہر ہے، چین اور روس اس نئی گریٹ گیم کو گہری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ وقت آنے پر اپنے پر مہرے چلیں گے۔ اس نئی گریٹ گیم میں پاکستان کوچاہیے کہ وہ ہزاروں میل دور بیٹھے وعدہ خلاف امریکا کے بجائے چین کا ساتھ دے جو دنیا کی نئی ابھرتی سپرپاور بن چکا۔
آبدوز کی اہمیت
عسکری دنیا میں آبدوز ایک اہم ہتھیار ہے۔ یہ دشمن کی بحریہ کو دور رکھ کر وطن کی حفاظت کرنے میں کام آتی ہے۔ اس سے دشمن کی جاسوسی کرنا ممکن ہے۔ نیز اب میزائل چھوڑنے والی آبدوزیں بھی ایجاد ہوچکیں۔ اسی لیے ہر بڑی بحریہ کے لیے آبدوز بنیادی ضرورت بن چکی۔ہمارے خطے میں چینی بحریہ سب سے زیادہ یعنی ''70'' آبدوزوں کی مالک ہے۔ بعض چینی آبدوزوں سے ایٹمی میزائل بھی چھوڑے جاتے ہیں۔ امریکا اورروس کے ساتھ چین کا شمار زیادہ آبدوزیں رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ چینی ساختہ آبدوزیں پاک بحریہ کے بھی زیر استعمال ہیں۔
بھارتی بحریہ 13 آبدوزیں رکھتی ہیں جبکہ دو ایٹمی آبدوزوں سمیت آٹھ تیاری کی حالت میں ہیں۔ بھارتی آبدوزوں کی اکثریت روس ساختہ ہے۔پاک بحریہ کی ''5'' آبدوزیں بحیرہ عرب میں زیر گشت رہتی ہیں۔ اس شعبے کو مضبوط تر بنانے کے لیے حال ہی میں حکومت پاکستان نے چین سے ''8'' اٹیک آبدوزیں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ''پانچ ارب ڈالر'' کا معاہدہ ہے۔ ماہرین عسکریات کے نزدیک چین کو اپنی عسکری تاریخ میں ملنے والا یہ سب سے بڑا آرڈر ہے۔ چینی آبدوزوں کی شمولیت سے پاک بحریہ زیادہ طاقتور ہو جائے گی۔n