دہشت گردی کیخلاف پاکستان کا کردار اور امریکی پالیسی
افغان صدر اشرف غنی اپنے متعصبانہ بیانات کے باعث پاکستان کے لیے دوسرے حامد کرزئی ثابت ہو رہے ہیں
پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے نمایندہ خصوصی رچرڈ اولسن نے جمعرات کو امریکا کی سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ تعلقات میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں بیان دیتے ہوئے پاکستان کے متعلق کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے باعث پاکستانی افواج نے تاریخی کامیابی حاصل کی' دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مدد ملی۔
فاٹا میں بھی پاک فوج کے آپریشن کی اہمیت برقرار ہے تاہم پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کر کے ان کی تمام محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنا ہوں گی' دہشت گردی ختم کرنے کے حوالے سے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے 6جولائی کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں' افغانستان میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کا کردار اہم ہے' پرامن افغانستان کے لیے خطے کے تمام ممالک کو مل کر کام کرنا ہو گا۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کے بڑے ٹھکانوں اور محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کیا جس پر اس کی اس تاریخی کامیابی کو آج نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا سراہ رہی ہے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ ایک جانب امریکا دہشت گردی کے خلاف پاکستانی افواج کی کوششوں اور قربانیوں کی ستائش کرتا ہے تو دوسری جانب وہ ڈومور کا مطالبہ کرنا نہیں بھولتا۔ امریکا پاکستان سے اس مطالبے کا اعادہ کرتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرے خاص طور پر وہ حقانی گروپ کے خلاف کارروائی کے لیے مسلسل دباؤ بڑھا رہا ہے۔
پاکستان کی قیادت بارہا اس امر کی یقین دہانی کرا چکی ہے کہ ان کے نزدیک اچھے اور برے طالبان میں کوئی تمیز نہیں اور وہ سب کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کر رہا ہے۔جنرل راحیل شریف نے چھ جولائی کو عیدالفطر پر وزیرستان میں اگلے مورچوں کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہمارا آپریشن جاری رہے گا،پاکستان کسی کو اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ افغان سرزمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکی حکام ایک خاص پالیسی کے تحت پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لیے یہ بیان دیتے رہتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے مخصوص گروہوں کے بارے میں اپنی برداشت کی پالیسی تبدیل کرے اور ان کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کرے۔
امریکا افغانستان کے اندر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ناکامی کا ملبہ پاکستان کے سر تھوپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں دہشت گردوں کی کارروائیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں لیکن اس خطے میں دہشت گردی کا تب تک خاتمہ ممکن نہیں جب تک افغانستان کی حکومت خلوص نیت سے پاکستان کے ساتھ مل کر مشترکہ کارروائیاں نہیں کرتی۔ لیکن افغان حکومت کا پاکستان کے خلاف مخاصمانہ کردار خطے میں صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغان حکام پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں اور ہر مشکل موقع پر اس کے ساتھ تعاون کریں۔ افغان صدر اشرف غنی اپنے متعصبانہ بیانات کے باعث پاکستان کے لیے دوسرے حامد کرزئی ثابت ہو رہے ہیں۔ افغان حکومت بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات تیزی سے مضبوط بنا رہی ہے لیکن یہ تعلقات پاکستان دشمنی کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہئیں۔ نئی دہلی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور افغان صدر اشرف غنی نے ملاقات کے بعد اپنے مشترکہ اعلامیے میں پاکستان کا نام لیے بغیر اسے ہدف تنقید بنایا۔
افغان صدر نے بھارتی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کو دھمکی دی کہ جو ہمارا راستہ بلاک کرے گا وہ خود بلاک ہو جائے گا' چاہ بہار بندر گاہ کی تعمیر سے خطے میں پاکستان کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی' چاہ بہار کے بعد افغانستان مزید لینڈ لاک ملک نہیں رہا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بھارت اور افغانستان پاکستان کے خلاف ایک ہو گئے ہیں اور عملی طور پر اسے نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
امریکا کو افغانستان کے اس کردار پر بھی نظر رکھنی چاہیے اگر وہ حقیقی معنوں میں خطے میں دہشت گردی کا خاتمہ اور امن چاہتا ہے تو اسے افغان حکومت پر بھی دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے بجائے اس کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنائے' یکطرفہ پاکستان پر دباؤ ڈالنا قطعی طور پر مناسب نہیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے بالکل صائب کہا کہ افغانستان میں قیام امن کسی فوجی آپریشن سے ممکن نہیں اس کے لیے مذاکرات کا عمل شروع کیا جائے۔ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے کوئی بھی ملک تنہا اس کا خاتمہ نہیں کر سکتا' ناگزیر ہے کہ تمام ممالک مل کر اس کے خلاف میدان عمل میں اتریں۔