نابینا درندے
ہزاروں برس پہلے کاذکرہے، ایک بہت بڑاجنگل تھا۔ جنگل میں کروڑوں پرندے،چوپائے اوردرندے رہتے تھے
ہزاروں برس پہلے کاذکرہے، ایک بہت بڑاجنگل تھا۔ جنگل میں کروڑوں پرندے،چوپائے اوردرندے رہتے تھے۔جنگل کے وسط سے میٹھے پانی کا دریاگزرتا تھا۔ درجنوں چھوٹی بڑی جھیلیں تھیں۔اَن گنت آبی پرندے ہروقت پانی میں موجود رہتے تھے۔جنگل ایک کونے میں پہاڑوںکاسلسلہ تھا۔ایک سے ایک بلندچوٹی۔ایسی بلند چوٹیاں بھی تھیں جسے کوئی پرندہ کبھی سرنہ کرپایا تھا۔جنگل کی خوشحالی ہرطرف زبان زدعام تھی۔
جنگل کا بادشاہ ببرشیرتھا۔ اس نے جنگل میں انصاف قائم کررکھا تھا۔کوئی چیتایاتیندوا،کسی ہرن کے بچے تک کونقصان نہیں پہنچاسکتا تھا۔اگرکوئی کسی کمزور جانور پرظلم کرتا تو عدالت میں فوری مقدمہ پیش کیا جاتا۔ عدالت کاقاضی ایک دانااُلوتھا۔جو انصاف پر مبنی فیصلے کرتا تھا۔گینڈوں پر مشتمل لشکر تھا جو بادشاہ کے حکم پرہر ظالم کونیست ونابود کر دیتا تھا۔ایک چڑیاکاچھوٹاسابچہ بھی اگرعدالت میں مقدمہ دائر کرتا تھا توصرف چندگھنٹوں میں عدالت انصاف دیتی تھی۔ جنگل کی سرحدیں محفوظ تھیں۔ہاتھیوں کے غول ہروقت سرحد پرموجود رہتے تھے۔ان کی طاقت اور ہیبت سے جنگل پرکوئی بُری نظرنہیں ڈال سکتا تھا۔ اصل میں انصاف،امن اور بروقت فیصلوںسے تمام خطہ پوری دنیاکے لیے مثال بن چکاتھا۔
ببرشیرایک دن بڑے آرام سے دربارکی جانب جارہا تھا۔اچانک آندھی کا طوفان آیا اور ایک بہت بڑادرخت جڑسے اکھڑکربادشاہ پرگرگیا اور وہ وہی دم توڑگیا۔یہ سانحہ اس درجہ اچانک وقوع پذیرہواکہ پورا جنگل غیریقینی صورتحال کاشکارہوگیا۔ببرشیرکیونکہ اپنی طاقت اور اقتدار کے عروج پرتھا،اس لیے اس نے اپنی جانشینی کے متعلق سوچا تک نہیں تھا۔اس کی دوبیویوں یعنی شیرنیوں میں کھینچاتانی شروع ہوگئی۔ ہرملکہ چاہتی تھی کہ آنے والاحاکم اس کی اولاد میں سے ہو۔ یہ صورتحال پورے جنگل کومعلوم ہوگئی۔
تمام طاقتورجانوراورگروہ چوکنے ہوگئے۔ ہاتھیوں کے سردار نے سرحدوں کی حفاظت کسی دوسرے کے حوالے کی اور واپس آگیا۔وجہ صرف یہ تھی کہ بڑی ملکہ نے کہاتھاکہ تم میرے بیٹے کوبادشاہ بنادو۔ تمہیں شاہی خزانہ سے مالامال کردوںگی۔گینڈے چھوٹی ملکہ کے ساتھ مل گئے۔ ہاتھیوں اورگینڈوں کے دل بھی ایک دوسرے سے کھٹے ہوگئے۔اس درجہ چپقلش بڑھ گئی کہ ساراجنگل مشکل میں پڑگیا۔گھسمان کی جنگ ہوئی۔ایک معاہدہ ہوا کہ اقتدارپرانے بادشاہ کے سب سے چھوٹے بیٹے کو دیدیاجائے مگراصل طاقت ہاتھیوں اورگینڈوں کے پاس رہیگی۔
خیرسب سے چھوٹا شیر جنگل کاحاکم بن گیا۔اسے حکومت کاکوئی تجربہ نہیں تھا۔ رموزسلطنت کی اہمیت کابھی ادراک نہیں تھا۔ بندر،کوے اورتیندوے ہوشیار اور موقع پرست تھے۔تیندوے کمزور ترین جانور کو مارتے۔ تقریباً ساراگوشت خودکھاجاتے اوربقیہ گوشت بادشاہ کوبطورنذرانہ پیش کردیتے۔حاکم آرام سے عطیہ شدہ گوشت کھاتا اور سویارہتا۔جنگل کے معاملات سے لاپروائی اختیارکرلی۔
اُلو اسے سمجھانے کے لیے وقت مانگتا رہامگر وہ آرام سے کچھار میں سویارہا۔اُلومایوس ہوگیا اور عدالت بندکرڈالی۔نادان بادشاہ نے اپنے تمام درباری بھی بدل دیے۔تمام جانور اور پرندے جوانصاف پسند اوردانا تھے، نئے حاکم کے لیے بیکار تھے۔اب دربارمیں تیندوے،گیدڑ،کوے اوربندررہ گئے۔ انھوں نے بادشاہ کواپنے حصارمیں لے لیا۔ہروقت اس کی تعریف میں مصروف رہتے تھے۔بتاتے تھے کہ پورے علاقے میں تیزی سے ترقی ہورہی ہے۔امن ہی امن ہے۔
رعایابادشاہ کی درازی عمرکے کے لیے دعامانگتے ہیں۔ جو کمزور جانورانصاف مانگنے دربارکارخ کرتا،توپہلے درباریوں کے ٹولے کی مٹھی گرم کرناہوتی۔ جو یہ کام نہ کر سکتا،اسے کبھی انصاف نہ ملتا۔پوراجنگل عجیب تناؤ کاشکار ہوگیا۔ طاقتور درندے جہاں چاہتے، کمزور جانوروں کو چیرپھاڑ ڈالتے۔ کسی کی کوئی شنوائی نہیں تھی۔کمزورپرندے اورجانور محفوظ جنگلوں کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ طاقتورجانوروں نے ایساالحاق قائم کرلیاکہ جنگل ویرانے میں بدلنے لگا۔
جنگل کے دگرگوں حالات دیکھ کرچند بیرونی اژدہے وہاں منتقل ہوگئے۔اژدہے سارادن سوتے تھے اوررات کو جاگتے تھے اور کمزوروں کا شکار کرنے لگے۔ پوراجنگل تنزل کابھیانک نمونہ بن چکا تھا۔ بادشاہ حالات سے لاعلم تھا۔ دربارمیں ہرطرف خوشی اورامن کے جھوٹے شادیانے بجائے جاتے تھے۔ نااہل حکمران کی عادتیں بالکل ایک جیسی ہوتی ہیں۔حدتویہ تھی کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت تک سے لاپروا ہوچکا تھا۔
آس پاس کے جنگلوں کوجب ان حالات کی خبرہوئی توان کے جانوروں نے سرحدکی پاسداری کرناچھوڑدی۔ آناًفاناً شب خون مارکر کمزور اور ضعیف جانوروں پرحملہ کرتے تھے اورمارڈالتے تھے۔ نااہل بادشاہ کو سرحدی خلاف ورزی کابھی علم نہیں تھا۔ خوشامدیوں نے اسے یقین دلا رکھا تھا کہ سرحدیں بالکل محفوظ ہیں اورجنگل کی سلامتی کوکوئی خطرہ نہیں۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھاکہ دشمن اس کی کچھارتک پہنچ چکے ہیں۔ اس کو ایک نیاشوق لاحق ہوچکا تھا۔اس نے نئی شادیاں کرنی شروع کردی تھیں۔
ہر مہینہ ایک نئی شادی اور پھر تھوڑے عرصے کے بعد دوبارہ۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ملکاؤں کی آپس میں حددرجہ چپقلش شروع ہوگئی۔جنگل کے محافظین کی عدم موجودگی،امن کی خراب صورتحال نے ہرایک کی عقل پرپردہ ڈال دیا۔ملکائیں ہروقت ایک دوسرے کے خلاف سازش میں مصروف رہتی تھیں۔انھیں اپنی اپنی اولادوں کے مستقبل کی فکرلاحق تھی۔ علاقے میں کیاادھم مچاہواہے،کسی کوفکرنہیں تھی۔ درباریوں کے بھی مزے تھے۔وہ ملکاؤں اورحاکم کی اولاد کو آپس میں لڑاتے رہتے تھے۔
خاندانی لڑائی جتنی بڑھتی جاتی تھی، درباریوں کے فائدے اتنے ہی بڑھتے جاتے تھے۔ دربار تک عام جانورکی رسائی توبالکل نہیں تھی۔صرف درباری، خوشامدی اورسازش کرنے والے گروہ پہنچ سکتے تھے۔ جنگل کومختلف جاگیروں میں تبدیل کردیا گیا۔ جنگل لوٹ مارکوبرداشت کررہاتھا مگرہرچیزکی کوئی حدہوتی ہے۔ علاقوں کی تقسیم صرف اورصرف ذاتی مفادات کے تحت تھی۔ طاقتور جانور دوسرے کے راج واڑے میں دخل اندازی نہیں کرتا تھا مگر کمزور پرندے اورجانور برباد ہوچکے تھے۔اب جنگل پر طاقتور اور عیاردرندوں کاقبضہ تھا۔
دانشوراُلو،بگڑے ہوئے حالات دیکھ دیکھ کر کڑھتا رہتا تھا۔اسے سمجھ نہیں آتاتھاکہ کیا کرے۔ طوطے نے حال دیکھا تومشورہ دیاکہ جاؤعقاب کے پاس چلے جاؤ۔وہ تمہاری مددضرورکریگا۔اُلونے مشورہ مان لیااور سردارعقاب کے پاس چلاگیا۔اسے ساری صورتحال بتائی۔ سمجھایاکہ جنگل مکمل طورپرلٹ چکاہے،یہ نہ ہوکہ ہرچیزختم ہوجائے۔ جنگل میں تقریباً ایک ہزارعقاب تھے۔
وہ محفوظ صر ف اس وجہ سے تھے کہ ان کی بلند پروازکے سامنے تمام ہتھکنڈے ناکام تھے۔ان کے پنجوں کی طاقت کے سامنے کوئی دم نہیں مارتاتھا۔عقاب نے اپنے سارے غول کے ساتھ مشورہ کیا۔ انھوں نے اُلوکوکہاکہ تم کسی بھی بہانے سے بادشاہ،ملکائیں اور درباریوں کو ایک جگہ اکھٹا کر لو۔اُلو ایک درباری کو رشوت دیکربادشاہ سے ملا اور بتایاکہ عقابوں کاسردار ایک خزانہ دینا چاہتا ہے۔ لہٰذاوہ اسے مل لے۔باتیں سنکر بادشاہ کی رال ٹپک پڑی۔
حکم دیاکہ تین دن کے بعد دربار لگایا جائے اور سارے درباری اس میں حاضر ہوں۔ایسے ہی ہوا۔ دربار عام لگایاگیا۔عیاردرندے اوراژدہے مسکین شکل بنا کر دربار میں بیٹھ گئے۔عقاب اپنے ایک ہزارساتھیوں کے ساتھ آیا۔ببرشیرسے ہم کلام ہونے لگا۔جب محفل جم گئی تو سردار نے اشارہ کیا۔تمام عقاب، درباری درندوں پرپل پڑے اور ان کی آنکھوں پرحملہ کر ڈالا۔دیکھتے ہی دیکھتے خون کے فوارے پھوٹ نکلے۔تمام ظالم درندے اندھے ہوچکے تھے ۔
آخرمیں عقاب نے بادشاہ پرحملہ کیا۔ببرشیرنے کہا کہ میں نے تمہاراکچھ نہیں بگاڑا۔یہ ظلم کیوں کررہے ہو۔ عقاب نے بادشاہ کی آنکھیں پھوڑتے ہوئے کہا کہ یہ بات تمہیں اس وقت کیوں یادنہیں آئی جب پورے جنگل میں ہرکمزورجانورغیرمحفوظ ہوچکا تھا۔ تمہاری آنکھیں اس وقت کیوں نہیں کھلیں جب ہاتھیوں نے سرحدوں کی حفاظت کرنی چھوڑڈالی تھی۔تم اس وقت کیوں نہ دیکھ پائے کہ جب تمہاری ملکائیں ہروقت سازش میں مصروف کار تھیں۔ تمہاری آنکھیں اس وقت کیوں بندتھیں جب پورے کا پورا جنگل ظالم درندوں کے ہاتھ بک چکاتھا۔اب تم نابیناہوکر مروگے۔تمام درباری درندے آنکھوں کے بغیرچنددنوں میں دم توڑ گئے۔ بادشاہ بھی ختم ہوگیا۔ اس کے بعدجنگل میں کیا ہوا ، اس کے بارے میںکچھ نہیں کہاجاسکتا!
جنگل کا بادشاہ ببرشیرتھا۔ اس نے جنگل میں انصاف قائم کررکھا تھا۔کوئی چیتایاتیندوا،کسی ہرن کے بچے تک کونقصان نہیں پہنچاسکتا تھا۔اگرکوئی کسی کمزور جانور پرظلم کرتا تو عدالت میں فوری مقدمہ پیش کیا جاتا۔ عدالت کاقاضی ایک دانااُلوتھا۔جو انصاف پر مبنی فیصلے کرتا تھا۔گینڈوں پر مشتمل لشکر تھا جو بادشاہ کے حکم پرہر ظالم کونیست ونابود کر دیتا تھا۔ایک چڑیاکاچھوٹاسابچہ بھی اگرعدالت میں مقدمہ دائر کرتا تھا توصرف چندگھنٹوں میں عدالت انصاف دیتی تھی۔ جنگل کی سرحدیں محفوظ تھیں۔ہاتھیوں کے غول ہروقت سرحد پرموجود رہتے تھے۔ان کی طاقت اور ہیبت سے جنگل پرکوئی بُری نظرنہیں ڈال سکتا تھا۔ اصل میں انصاف،امن اور بروقت فیصلوںسے تمام خطہ پوری دنیاکے لیے مثال بن چکاتھا۔
ببرشیرایک دن بڑے آرام سے دربارکی جانب جارہا تھا۔اچانک آندھی کا طوفان آیا اور ایک بہت بڑادرخت جڑسے اکھڑکربادشاہ پرگرگیا اور وہ وہی دم توڑگیا۔یہ سانحہ اس درجہ اچانک وقوع پذیرہواکہ پورا جنگل غیریقینی صورتحال کاشکارہوگیا۔ببرشیرکیونکہ اپنی طاقت اور اقتدار کے عروج پرتھا،اس لیے اس نے اپنی جانشینی کے متعلق سوچا تک نہیں تھا۔اس کی دوبیویوں یعنی شیرنیوں میں کھینچاتانی شروع ہوگئی۔ ہرملکہ چاہتی تھی کہ آنے والاحاکم اس کی اولاد میں سے ہو۔ یہ صورتحال پورے جنگل کومعلوم ہوگئی۔
تمام طاقتورجانوراورگروہ چوکنے ہوگئے۔ ہاتھیوں کے سردار نے سرحدوں کی حفاظت کسی دوسرے کے حوالے کی اور واپس آگیا۔وجہ صرف یہ تھی کہ بڑی ملکہ نے کہاتھاکہ تم میرے بیٹے کوبادشاہ بنادو۔ تمہیں شاہی خزانہ سے مالامال کردوںگی۔گینڈے چھوٹی ملکہ کے ساتھ مل گئے۔ ہاتھیوں اورگینڈوں کے دل بھی ایک دوسرے سے کھٹے ہوگئے۔اس درجہ چپقلش بڑھ گئی کہ ساراجنگل مشکل میں پڑگیا۔گھسمان کی جنگ ہوئی۔ایک معاہدہ ہوا کہ اقتدارپرانے بادشاہ کے سب سے چھوٹے بیٹے کو دیدیاجائے مگراصل طاقت ہاتھیوں اورگینڈوں کے پاس رہیگی۔
خیرسب سے چھوٹا شیر جنگل کاحاکم بن گیا۔اسے حکومت کاکوئی تجربہ نہیں تھا۔ رموزسلطنت کی اہمیت کابھی ادراک نہیں تھا۔ بندر،کوے اورتیندوے ہوشیار اور موقع پرست تھے۔تیندوے کمزور ترین جانور کو مارتے۔ تقریباً ساراگوشت خودکھاجاتے اوربقیہ گوشت بادشاہ کوبطورنذرانہ پیش کردیتے۔حاکم آرام سے عطیہ شدہ گوشت کھاتا اور سویارہتا۔جنگل کے معاملات سے لاپروائی اختیارکرلی۔
اُلو اسے سمجھانے کے لیے وقت مانگتا رہامگر وہ آرام سے کچھار میں سویارہا۔اُلومایوس ہوگیا اور عدالت بندکرڈالی۔نادان بادشاہ نے اپنے تمام درباری بھی بدل دیے۔تمام جانور اور پرندے جوانصاف پسند اوردانا تھے، نئے حاکم کے لیے بیکار تھے۔اب دربارمیں تیندوے،گیدڑ،کوے اوربندررہ گئے۔ انھوں نے بادشاہ کواپنے حصارمیں لے لیا۔ہروقت اس کی تعریف میں مصروف رہتے تھے۔بتاتے تھے کہ پورے علاقے میں تیزی سے ترقی ہورہی ہے۔امن ہی امن ہے۔
رعایابادشاہ کی درازی عمرکے کے لیے دعامانگتے ہیں۔ جو کمزور جانورانصاف مانگنے دربارکارخ کرتا،توپہلے درباریوں کے ٹولے کی مٹھی گرم کرناہوتی۔ جو یہ کام نہ کر سکتا،اسے کبھی انصاف نہ ملتا۔پوراجنگل عجیب تناؤ کاشکار ہوگیا۔ طاقتور درندے جہاں چاہتے، کمزور جانوروں کو چیرپھاڑ ڈالتے۔ کسی کی کوئی شنوائی نہیں تھی۔کمزورپرندے اورجانور محفوظ جنگلوں کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ طاقتورجانوروں نے ایساالحاق قائم کرلیاکہ جنگل ویرانے میں بدلنے لگا۔
جنگل کے دگرگوں حالات دیکھ کرچند بیرونی اژدہے وہاں منتقل ہوگئے۔اژدہے سارادن سوتے تھے اوررات کو جاگتے تھے اور کمزوروں کا شکار کرنے لگے۔ پوراجنگل تنزل کابھیانک نمونہ بن چکا تھا۔ بادشاہ حالات سے لاعلم تھا۔ دربارمیں ہرطرف خوشی اورامن کے جھوٹے شادیانے بجائے جاتے تھے۔ نااہل حکمران کی عادتیں بالکل ایک جیسی ہوتی ہیں۔حدتویہ تھی کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت تک سے لاپروا ہوچکا تھا۔
آس پاس کے جنگلوں کوجب ان حالات کی خبرہوئی توان کے جانوروں نے سرحدکی پاسداری کرناچھوڑدی۔ آناًفاناً شب خون مارکر کمزور اور ضعیف جانوروں پرحملہ کرتے تھے اورمارڈالتے تھے۔ نااہل بادشاہ کو سرحدی خلاف ورزی کابھی علم نہیں تھا۔ خوشامدیوں نے اسے یقین دلا رکھا تھا کہ سرحدیں بالکل محفوظ ہیں اورجنگل کی سلامتی کوکوئی خطرہ نہیں۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھاکہ دشمن اس کی کچھارتک پہنچ چکے ہیں۔ اس کو ایک نیاشوق لاحق ہوچکا تھا۔اس نے نئی شادیاں کرنی شروع کردی تھیں۔
ہر مہینہ ایک نئی شادی اور پھر تھوڑے عرصے کے بعد دوبارہ۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ملکاؤں کی آپس میں حددرجہ چپقلش شروع ہوگئی۔جنگل کے محافظین کی عدم موجودگی،امن کی خراب صورتحال نے ہرایک کی عقل پرپردہ ڈال دیا۔ملکائیں ہروقت ایک دوسرے کے خلاف سازش میں مصروف رہتی تھیں۔انھیں اپنی اپنی اولادوں کے مستقبل کی فکرلاحق تھی۔ علاقے میں کیاادھم مچاہواہے،کسی کوفکرنہیں تھی۔ درباریوں کے بھی مزے تھے۔وہ ملکاؤں اورحاکم کی اولاد کو آپس میں لڑاتے رہتے تھے۔
خاندانی لڑائی جتنی بڑھتی جاتی تھی، درباریوں کے فائدے اتنے ہی بڑھتے جاتے تھے۔ دربار تک عام جانورکی رسائی توبالکل نہیں تھی۔صرف درباری، خوشامدی اورسازش کرنے والے گروہ پہنچ سکتے تھے۔ جنگل کومختلف جاگیروں میں تبدیل کردیا گیا۔ جنگل لوٹ مارکوبرداشت کررہاتھا مگرہرچیزکی کوئی حدہوتی ہے۔ علاقوں کی تقسیم صرف اورصرف ذاتی مفادات کے تحت تھی۔ طاقتور جانور دوسرے کے راج واڑے میں دخل اندازی نہیں کرتا تھا مگر کمزور پرندے اورجانور برباد ہوچکے تھے۔اب جنگل پر طاقتور اور عیاردرندوں کاقبضہ تھا۔
دانشوراُلو،بگڑے ہوئے حالات دیکھ دیکھ کر کڑھتا رہتا تھا۔اسے سمجھ نہیں آتاتھاکہ کیا کرے۔ طوطے نے حال دیکھا تومشورہ دیاکہ جاؤعقاب کے پاس چلے جاؤ۔وہ تمہاری مددضرورکریگا۔اُلونے مشورہ مان لیااور سردارعقاب کے پاس چلاگیا۔اسے ساری صورتحال بتائی۔ سمجھایاکہ جنگل مکمل طورپرلٹ چکاہے،یہ نہ ہوکہ ہرچیزختم ہوجائے۔ جنگل میں تقریباً ایک ہزارعقاب تھے۔
وہ محفوظ صر ف اس وجہ سے تھے کہ ان کی بلند پروازکے سامنے تمام ہتھکنڈے ناکام تھے۔ان کے پنجوں کی طاقت کے سامنے کوئی دم نہیں مارتاتھا۔عقاب نے اپنے سارے غول کے ساتھ مشورہ کیا۔ انھوں نے اُلوکوکہاکہ تم کسی بھی بہانے سے بادشاہ،ملکائیں اور درباریوں کو ایک جگہ اکھٹا کر لو۔اُلو ایک درباری کو رشوت دیکربادشاہ سے ملا اور بتایاکہ عقابوں کاسردار ایک خزانہ دینا چاہتا ہے۔ لہٰذاوہ اسے مل لے۔باتیں سنکر بادشاہ کی رال ٹپک پڑی۔
حکم دیاکہ تین دن کے بعد دربار لگایا جائے اور سارے درباری اس میں حاضر ہوں۔ایسے ہی ہوا۔ دربار عام لگایاگیا۔عیاردرندے اوراژدہے مسکین شکل بنا کر دربار میں بیٹھ گئے۔عقاب اپنے ایک ہزارساتھیوں کے ساتھ آیا۔ببرشیرسے ہم کلام ہونے لگا۔جب محفل جم گئی تو سردار نے اشارہ کیا۔تمام عقاب، درباری درندوں پرپل پڑے اور ان کی آنکھوں پرحملہ کر ڈالا۔دیکھتے ہی دیکھتے خون کے فوارے پھوٹ نکلے۔تمام ظالم درندے اندھے ہوچکے تھے ۔
آخرمیں عقاب نے بادشاہ پرحملہ کیا۔ببرشیرنے کہا کہ میں نے تمہاراکچھ نہیں بگاڑا۔یہ ظلم کیوں کررہے ہو۔ عقاب نے بادشاہ کی آنکھیں پھوڑتے ہوئے کہا کہ یہ بات تمہیں اس وقت کیوں یادنہیں آئی جب پورے جنگل میں ہرکمزورجانورغیرمحفوظ ہوچکا تھا۔ تمہاری آنکھیں اس وقت کیوں نہیں کھلیں جب ہاتھیوں نے سرحدوں کی حفاظت کرنی چھوڑڈالی تھی۔تم اس وقت کیوں نہ دیکھ پائے کہ جب تمہاری ملکائیں ہروقت سازش میں مصروف کار تھیں۔ تمہاری آنکھیں اس وقت کیوں بندتھیں جب پورے کا پورا جنگل ظالم درندوں کے ہاتھ بک چکاتھا۔اب تم نابیناہوکر مروگے۔تمام درباری درندے آنکھوں کے بغیرچنددنوں میں دم توڑ گئے۔ بادشاہ بھی ختم ہوگیا۔ اس کے بعدجنگل میں کیا ہوا ، اس کے بارے میںکچھ نہیں کہاجاسکتا!