21ویں صدی کی جنگیں لڑنا

سرحدی سیکیورٹی کے دستے جدید ترین ہتھیاروں اور دیگرآلات سے مزین ہوں

جو قومیں اپنی خود مختاری اور آزادی کو قائم رکھنا چاہتی ہیں انھیں اپنی دفاعی ضروریات کے لیے بہت بھاری رقوم خرچ کرنا پڑتی ہیں خواہ اس میں ان کے اتحادی بھی ان کے لیے دفاعی حصار کیوں نہ قائم کریں۔ تیسری دنیا کے زیادہ تر ممالک غیر ملکی قرضوں تلے بری طرح سے دبے ہوئے ہیں جب کہ دفاعی ضروریات پر ان کے بہت زیادہ اخراجات ہوتے ہیں نیز عسکری سازو سامان اور افرادی قوت پر بھی بے پناہ اخراجات آتے ہیں جن کو اقتصادی طور پر برداشت کرنا ان کے لیے تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے۔

ایسی صورت میں جب ہمیں اپنی مشرقی سرحدوں پر بھارت جیسے خطرناک دشمن کا سامنا ہے جب کہ مغربی سرحد پر افغانستان جیسا احسان فراموش دشمن اٹھ کھڑا ہوا ہے تو ہمیں اپنے دفاع کے لیے اپنے اخراجات میں متعدبہ اضافہ کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے یہ سوچنا کہ ہمارے پاس بھی اتنا ہی اسلحہ ہو جتنا ہمارے دشمنوں کے پاس ہے یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ مشرقی سرحد کی حفاظت کے لیے دشمن کے مساوی اسلحہ مہیا کرنا اول تو ممکن نہیں دوسرا اس سے مقابلے کے لیے ہمارے پاس اس کے مساوی جغرافیائی گہرائی بھی نہیں لہٰذا ہمیں غیر روایتی ہتھیاروں سے کام لینا پڑے گا اور اپنے جوہری اثاثے کو اولین دفاعی حصار بنانا پڑے گا تاکہ ہم اپنی اگلے محاذوں کا اس طرح دفاع کر سکیں جس طرح 1965ء اور 1971ء میں کیا گیا۔

ہمارے موجودہ وسائل کا انحصار داخلی مواصلاتی دفاعی لائنوں پر ہے تاکہ ہمارے فوجی دستے کم نوٹس پر تزویراتی نقل و حرکت کامیابی سے کر سکیں۔ بھارت کے ساتھ ہماری اگلی جنگ افغانستان کے ذریعے شروع ہو گی چنانچہ ہمیں دو طرفہ حملے سے بچاؤ کے ٹھوس انتظامات کرنے ہوں گے تاکہ ہمارا داخلی محاذ محفوظ رہ سکے۔

آرمی کے لیے نقل و حرکت کے مقامات میں اونچے پہاڑ' میدانی علاقے اور صحرا شامل ہیں۔ داخلی تحفظ کے لیے ہمیں اپنی فضائیہ کو مزید ایڈوانسڈ آلات سے مسلح کرنا ہو گا تاکہ ان کا استعمال کامیابی کی ضمانت فراہم کر سکے۔ دشمن اگر فوراً جنگی محاذ کھولتا ہے تو اس کے لیے ہمیں اپنے اقتصادی اہداف کو بروقت بروئے کار لانا ہو گا۔ جہاں تک ہماری بحریہ کی جنگی کارروائیوں کا تعلق ہے تو اس کے بھی دو پہلو ہونگے۔ -1 یہ کہ دشمن کو ہم اپنے ساحلوں تک رسائی سے ہر قیمت پر روکیں -2 اور یہ کہ سمندروں میں لاجسٹک ضرورتوں کو بلاتعطل جاری رکھ سکیں۔ اس مقصد کی خاطر ہمیں نہ صرف اپنی آبدوزوں کے بیڑے کو تیار رکھنا ہو گا بلکہ تیز رفتار میزائل کشتیاں بھی استعمال کرنا ہونگی۔

چونکہ ہمارے پاس جغرافیائی گہرائی کی کمی ہے لہٰذا ہمیں اپنے حساس علاقوں اور اثاثوں کے دفاع کے لیے آخری آدمی اور آخری راؤنڈ تک بے جگری کے ساتھ مقابلہ کرنا ہو گا۔ ہر سیکٹر کے لیے جن فوجی دستوں کو متعین کیا جائے ان کا کمانڈ اور کنٹرول بے حد موثر ہونا چاہیے۔ 1965ء اور 1971ء کی دونوں جنگوں نے ہمیں یہ سبق دیا کہ ہیڈ کوارٹر 10کور کی فورسز جو آزاد کشمیر کا دفاع کررہی تھیں ان کو چار ڈویژن کے گروپ میں تقسیم کیا جائے جس میں ایف سی این اے بھی شامل ہیں۔

لاہور اور سیالکوٹ کے لیے ایک ایک کور' بہاولپور کے لیے ایک کور رحیم یار خان اور پنوں عاقل بیلٹ کے لیے ایک کور' عمر کوٹ اور بدین کے لیے ایک کور کراچی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں کے لیے ایک ڈویژن' پشاور' کوئٹہ' گوجرانوالہ اور بہاولپور کے لیے کور بریگیڈ سائز ٹاسک فورسز پر مشتمل ہوں جن کی استعداد ایک ڈویژن ٹاسک فورس کے ہیڈ کوارٹر تک ہو۔

ہر کور کے لیے فضائی سپورٹ بھی موجود ہو جو فضائی مستقر پر رکھی جائیں۔ پنڈی میں شمالی کمان قائم کی جائے جب کہ مرکزی کمان گوجرانوالہ میں قائم ہو۔ اور کوئٹہ میں جنوبی کمان جو کہ پہلے ہی موجود ہے وہیں بروئے کار لائی جائے۔ ہر کمان کے پاس تمام آپریشنل ضروریات پوری ہونی چاہئیں۔ مرکزی اور جنوبی کمان کے پاس بریگیڈ سائز لانگ رینج گروپ ہونے چاہئیں جو دشمن پر پیش قدمی کر کے اسے اپنے دفاع پر مجبور کر دیں۔ جنوبی کمان کے پاس صحرا میں تیزی سے حرکت کرنے والے اونٹوں پر نیم فوجی دستے سوار ہوں۔


یہ جنگ ممکنہ طور پر بہت سے محاذوں پر لڑی جائے گی چنانچہ اس مقصد کے لیے بھاری نفری کی ضرورت ہو گی۔ جب کہ لاجسٹک ضرورتیں بھی مناسب تعداد میں ہونی چاہئیں۔ زیادہ بھاری ڈھانچے امن کے زمانے میں انتظامی مشکلات پیدا کرتے ہیں جب کہ جنگ کے موقع پر بھی ان کو قابل استعمال بنانا مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں اب یہ رواج ہے کہ لاجسٹک سروسز میں کم سے کم افرادی قوت رکھی جائے جو کہ میدان جنگ میں کام کرے۔

دفاعی سروسز کو کم سے کم لیکن بہت زیادہ سخت اور مضبوط رکھا جائے لہٰذا ہمیں -1ہیڈ کوارٹر پر افرادی قوت بہت کم رکھنا چاہیے۔ -2ہر ہیڈ کوارٹر میں اسٹاف بہت کم ہونا چاہیے۔ -3منسلک فوجی ٹروپس کی تعداد بھی کم سے کم رکھی جانی چاہیے افرادی قوت کا بہترین استعمال کیا جائے۔ سپورٹ اور سپلائی کے کام پہلے ہی لاجسٹک ایریا کے سپرد کر دیے جائیں۔

بٹالین' بریگیڈ اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بنیادی طور پر ٹیکنیکل ہیڈ کوارٹر کے زیر اثر ہونے چاہئیں۔ ائرفورس صرف فضائی جنگ میں لڑاکا پائلٹ کی سپورٹ کرے جب کہ آرمی اور نیوی کے لیے فضائیہ کی ضرورت درکار نہیں ہو گی۔

حرکت پذیری کا ارتکاز بکتر بند فارمیشنز پر ہونا چاہیے۔ اب جنگ عظیم دوئم کی ٹینک فارمیشنز کی ضرورت باقی نہیں رہی میسر ٹینکوں کو 8 یا 9 کے گروپ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اسی ضمن میں نو انفٹری بٹالین کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے علاوہ ازیں انفٹری بٹالین کو اور زیادہ مختصر کرنے کی ضرورت ہے سوائے پہاڑی علاقوں میں دفاع کے لیے جیسے کہ آزاد کشمیر نیز رائفل کمپنیوں کی تعداد چار کے بجائے تین کر دینی چاہیے۔ ہر بریگیڈ کے پاس ایک اضافی بٹالین موجود ہو اور ہر بٹالین کے پاس ایک اضافی بریگیڈ۔

ہماری بہترین طور پر منظم تزویراتی فورسز کو علیحدہ گروپوں میں تقسیم کیا جائے جس طرح کہ پوری دنیا میں ہوتا ہے لہٰذا ایک علیحدہ سروس کی تشکیل کے بعد اسے ایک چار ستاروں والے جرنیل کی سربراہی میں دیدیا جائے۔ ایک ''ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈائریکٹریٹ'' آرمی چیف کو رپورٹ کرے جس میں تمام پیرا ملٹری فورسز شامل ہوں یعنی رینجرز' فرنٹیئر کور (ایف سی) اے ایس پی' ڈی ایس جی وغیرہ کے ساتھ کوسٹ گارڈز جو بحریہ سے حاصل کیے جائیں۔

یہ موثر اور منضبط سنگل کمان اینڈ کنٹرول میکنزم تزویراتی اثاثہ جات کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے جو کہ انسداد دہشتگردی کے فرائض بھی انجام دے گا اس کی کمان ایک سینٹر تین ستارہ جرنیل کے پاس ہونی چاہیے بالخصوص جس کو عملی طور پر جنگ میں شرکت کا تجربہ حاصل ہو نیز اسے داخل سیکیورٹی کے بارے میں بھی مکمل آگاہی ہو۔

رینجرز اور ایف سی کو اپنی داخلی سیکیورٹی کو علیحدہ کرنا ہو گا جب کہ سرحدی سیکیورٹی کے دستے جدید ترین ہتھیاروں اور دیگرآلات سے مزین ہوں جس سے ان کی انفرادی صلاحیت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو سکے۔ جنگ کے دوران رینجرز اور ایف سی کی بریگیڈ گروپس تک فوری اور تیز تر نقل و حرکت کا انتظام ہو تاکہ نیکٹا پر موثر طور پر عملی درآمد کیا جا سکے۔ انسداد دہشتگردی فورس اسی ڈائریکٹریٹ سے تشکیل دی جا سکتی ہے۔

قیام امن کے لیے اور مہم جوئی کے خلاف استحکام کی خاطر 21 ویں صدی میں کم افرادی قوت والی لڑاکا فورس کی ضرورت ہے لہٰذا اس کی تنظیم نو کرنی چاہیے تاکہ وہ کئی جنگیں کر سکے اور اس کی اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رہے جو بنگلہ دیش' سری لنکا' بھوٹان اور مالی سے مختلف ہو۔ ایک سولجر جس میں بحریہ اور فضائیہ دونوں کے ارکان شامل ہیں، ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ وطن پر جان قربان کرنے کے لیے تیار ہوں جب کہ دشمن فوجی اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا ہمیں اپنے سولجرز کو 21ویں صدی کی جنگیں لڑنے کے لیے تیار کرنا ہو گا۔ (ہماری دفاعی ضروریات کے حوالے سے سلسلہ ہائے مضامین کا ایک جزو)
Load Next Story