یہ کڑوا سچ بھی برداشت کرلیں

گزشتہ دنوں تیرہ سال کے بعد میں کراچی میں پاکستان کے جشن آزادی کی فضاؤں میں خود کو بہت اچھا محسوس کر رہا تھا


یونس ہمدم September 16, 2016
[email protected]

گزشتہ دنوں تیرہ سال کے بعد میں کراچی میں پاکستان کے جشن آزادی کی فضاؤں میں خود کو بہت اچھا محسوس کر رہا تھا، مگر اندر سے میرا دل بہت ملول بھی تھا۔ میں جتنے بھی دن کراچی میں رہا کراچی کی بدحالی کو دیکھ دیکھ کرکڑھتا رہا، میں کراچی میں جہاں جہاں بھی گیا، میں نے جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہی دیکھے تھے، ہر گلی،کوچے کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی تھیں، بیشتر علاقوں میں گٹر کا پانی بھی بہہ رہا تھا، بدبو اور تعفن نے کہیں بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے کراچی کسی یتیم اور بدحال بچے کی طرح ہے۔

جس کا کوئی بھی والی وارث نہیں ہے، جس کا کوئی بھی نگہبان نہیں ہے، سب نے خاص طور پر سندھ حکومت اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہر فرد نے کراچی کی طرف سے اپنی آنکھیں بندکی ہوئی ہیں۔ اتنا بے یارومددگار کراچی مجھے اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آیا تھا۔ یہ وہی کراچی ہے جو منی پاکستان کہلاتا تھا۔ پاکستان کا دل اورکراچی کو پاکستان کی شہ رگ کہا جاتا تھا مگر اب یہی کراچی اپنی تباہی وبربادی پر نوحہ کناں نظر آتا تھا۔کراچی کی یہ ابتر حالت صرف دوچار برسوں کی غماز نہیں ہے یہ ربع صدی سے بھی زیادہ عرصے سے بے توجہی اور مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔

کراچی کے ہر ادارے میں لوٹ مار،کرپشن،اقربا پروری،کساد بازاری انتہائی عروج پر ہے اورکراچی کی موجودہ صورتحال کی ذمے دار وہ تمام سیاسی پارٹیاں وہ تمام مذہبی تنظیمیں ہیں جو چندہ، بھتہ، فطرہ، صدقہ اور زکوٰۃ حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں۔ دھونس اور دھاندلی بھی ساتھ ساتھ رہی ہے، ساری جماعتیں اور تنظیمیں صرف اپنا الوسیدھا کرتی رہی ہیں، بڑی بڑی ریلیاں بڑے بڑے جلسے اور جلوس نکالنے پر کروڑوں روپے وہ بھی عوام کی جیبوں سے نکلوا کر بے دریغ خرچ کرتی رہی ہیں، خود کو مضبوط اور ملک و قوم کوکمزورکرتی رہی ہیں۔

عوام حق تلفی کا شکار ہیں اور کراچی اپنی تمام جائز سہولتوں سے محروم ہے، ہماری نئی نسل کے بچے اور جوان جشن آزادی تو بڑی لگن اور شان سے مناتے ہیں مگر پاکستان کس تیزی کے ساتھ پستی کی طرف جا رہا ہے اس بات کا انھیں احساس اور ادراک نہیں ہے کیونکہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے عوام کو برادریوں، لسانی اکائیوں اور مذہبی فرقوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔

ہماری نوجوان نسل کو پتا ہی نہیں کہ پاکستان کتنی عظیم قربانیوں کے بعد عالم وجود میں آیا ہے، ہندوستان سے پاکستان آنے والے لاکھوں لوگوں نے ایک آگ اور خون کا دریا عبور کیا تھا پھر بے شمار لوگ راستے میں ہی شہید کردیے گئے تھے اور کچھ لٹے پٹے سرزمین پاکستان میں آگئے تھے۔ کراچی کو سب نے مل کر خوب سنوارا تھا۔ اس کے حسن میں اضافہ کیا تھا، اس کو ترقی کے راستے پر ڈالا تھا مگر پھر کچھ خود غرض سیاستدانوں اور بدنیت مذہبی رہنماؤں نے اپنے مفادات کی خاطرکراچی کے چاند کو گہنا دیا۔کراچی پاکستان کا دل تھا مگر اس دل کی شریانوں سے اس کا ایک ایک قطرہ نچوڑنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھتے گئے اور آج کراچی کے وجود کو کھوکھلا کرکے چھوڑ دیا ہے۔

14 اگست کے دن جب گلی گلی قومی نغمے بجائے جا رہے تھے تو ان میں ایک یہ نغمہ بھی میرے دل کو کرید رہا تھا۔ جو ایک پرانی فلم ''بیداری'' کا ہے۔ جسے سلیم رضا نے گایا تھا اور جس کے شاعر فیاض ہاشمی تھے۔ اس گیت کی فلم بندی کے دوران بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے کچھ کلپس بھی دکھائے گئے تھے۔ قائداعظم کی تقریرکے کچھ حصے تھے۔ تحریک پاکستان کی جدوجہد تقسیم ہند کے دوران کے کچھ مناظر بھی دکھائے گئے تھے کہ کس طرح لوگ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے تھے اور کیا کیا ان پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے تھے۔ میں اس گیت کا کچھ حصہ قارئین کی بھی نذرکر رہا ہوں جو آج کی اشد ضرورت ہے اور گیت میں نئی نسل کو مخاطب کیا گیا ہے:

ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا مرے بچو سنبھال کے

منزل پہ آئی قوم ہر بلا کو ٹال کے
برسوں کے بعد پھر اڑے پرچم ہلال کے

دیکھوکہیں اجڑے نہ ہمارا یہ باغیچہ
اس کو لہو سے اپنے شہیدوں نے ہے سینچا

اس کو بچانا جان مصیبت میں ڈال کے
اس ملک کو رکھنا مرے بچو سنبھال کے

دنیا کی سیاست کے عجب رنگ ہیں پیارے
چلنا ہے مگر تم کو تو قرآن کے سہارے

ہر اک قدم اٹھانا ذرا دیکھ بھال کے
اس ملک کو رکھنا مرے بچو سنبھال کے

اس گیت میں شاعر نے جو پیغام دیا تھا اس پیغام کو آج ساری قوم نے بھلادیا ہے اس قوم کو ملک کے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے صحیح سمت کی طرف جانے کی قدم قدم پر تلقین کی مگر خود غرض سیاستدانوں اور حکمرانوں نے پاکستان جو بے بہا قربانیوں کا ثمر تھا اس کی بالکل حفاظت نہیں کی، سب گدھ بن گئے سب ملک کو لوٹنے کھسوٹنے میں لگے رہے، ہر ادارہ برباد کردیا۔ ہر شعبہ کرپشن کا شکار ہوتا چلا گیا۔

میں یہاں فلم انڈسٹری کی ضرور بات کروں گا، ہماری فلموں نے ملک و قوم کوایک کلچر دیا تھا۔ فلمیں ہر ملک میں اس ملک کے کلچر کو فروغ دینے کا وسیلہ ہوتی ہیں۔ ہم نے اس وسیلے پر بھی کاری ضربیں لگا کر فلم انڈسٹری کو بھی تباہ و بربادکردیا۔ فلمی صنعت کے کل ملا کر 32 شعبے ہوتے ہیں اور ان 32 شعبوں سے ہزاروں خاندانوں کی روٹی روزی چلتی تھی، فلمی صنعت کی بربادی کے ساتھ ہی ہزاروں خاندانوں کے چولہے بھی ٹھنڈے ہوتے چلے گئے۔

فلم انڈسٹری پر حکومت نے اپنے اپنے دور میں خوب کمایا، فلموں کی آمدنی سے کروڑوں کا ٹیکس ہر سال قومی خزانے میں جاتا تھا مگر کسی بھی حکومت نے فلم انڈسٹری کی ترقی کے لیے کبھی نہیں سوچا۔ نہ کچھ کیا۔ پھر فلم انڈسٹری کو سہارا دینے کے لیے جھوٹے منہ ایک ادارہ نیف ڈیک کے نام سے بنایا گیا تھا۔ مگر اس کے ساتھ بھی صاحب اقتدار لوگوں نے اچھا نہیں کیا۔ اسے بھی نوچ نوچ کر کھاتے چلے گئے۔ نیف ڈیک کے نام پر لوگوں نے کروڑوں روپے اپنی جیبوں میں بھر لیے اور پھر مال بٹورنے کے بعد نیف ڈیک کا بھی بیڑا غرق کردیا گیا اور فلم انڈسٹری اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کے قابل ہی نہ رہ سکی۔

گزشتہ چالیس سالوں میں بڑے بڑے نام نہاد مذہبی رہنماؤں نے اپنی تقریروں سے وہ کام نہ کیا تھا جو ہماری فلمیں عوام کے کام آرہی تھیں۔ فلموں کے ذریعے حب الوطنی کا پیغام ملتا تھا۔ پیار ملتا تھا بے شمار بامقصد فلموں نے ہمارے کلچر کو پروان چڑھایا تھا۔ یہ فلمیں عوام کو صحیح سمت میں گامزن کرنے میں مددگار ثابت ہوتی تھیں، کاش ہمارے آج کے حکمرانوں کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ یہ ملک ہمیں کسی نے پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیا تھا۔ اس کے حصول میں قدم قدم پر لاشیں پیش کی گئی تھیں۔

قدم قدم پر قربانیوں کا ایک طویل سلسلہ تھا جسے آج ساری قوم اور خاص طور پر حکمران بھول بیٹھے ہیں۔ یہ ملک ہے تو حکمرانوں کے عیش بھی ہیں۔ اس ملک کی حفاظت کی ذمے داری صرف فوج ہی کی نہیں ہے، قوم کے ہر طبقے کے ہر فرد کی ہے آج خاص طور پر سیاسی رہنماؤں اور حکمرانوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ اب پانی سر سے اونچا ہوتا جا رہا ہے ہمارے معاشرے میں تسلسل کے ساتھ جھوٹ برداشت کیا جا رہا ہے۔ تو آج اس کڑوے سچ کو بھی برداشت کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے قوم کو تقسیم کیا ہے اور ہماری فلموں نے قوم کو یکجا رکھا اور پیارومحبت کا درس دیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔