پاکستان نے دہشت گردوں کے 3 اہم فنانسرزاوراہل خانہ کی شہریت منسوخ کردی
فیض اللہ نورزئی، خیراللہ، ملک نورزئی نے دھوکہ دہی اورجعلی دستاویزات سے اپنے اورخاندان کے30 افراد کے شناختی کارڈ بنوائے
پاکستان نے افغانستان اور پاکستان میں مقیم دہشت گرد تنظیموں کے 3 اہم فنانسرز کی شہریت کالعدم قرار دیدی۔
ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق ان کے اہلخانہ کے شناختی کارڈ بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ ان فراد کو غیرملکی قرار دیتے ہوئے نادرار نے ان کی شناختی دستاویزات کو بھی منسوخ قرار دیدیا۔ ایکسپریس ٹریبیون کودستیاب دستاویزات کے مطابق انٹیلیجنس ایجنسیوں کی درخواست پر ان افراد کے شناختی کارڈ منسوخ کیے گئے۔
دہشت گردوں کے فنانسرز اور ان کے خاندان کے تیس ارکان نے دھوکہ دہی اور جعلی دستاویزات کے ذریعے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کیے اور ان کو شمال مغربی بلوچستان میں افغان سرحد سے متصل قلعہ عبداللہ کا رہائشی دکھایا گیا تھا،ان افراد کے نام فیض اللہ خان نورزئی، حاجی خیراللہ اور ملک نورزئی کا نام دیا گیا۔ فیض اللہ کے بھائی نے اللہ دتہ کے جعلی نام سے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کیا۔
فیض اللہ کے خاندان کے 11، ملک نورزئی کے خاندان کے 14اور خیراللہ کے خاندان کے 5ارکان نے بھی پاکستانی شناختی کارڈحاصل کر رکھے تھے،امریکا اور اقوام متحدہ نے2011میں ان افراد کو دہشت گردوں کا فنانسر قرار دیا تھا۔امریکی وزارت خزانہ کی ویب سائٹ کے مطابق فیض اللہ طالبان کے اہم فنانسر کے طور پر کام کرتا رہا اور اس نے خلیجی ریاستوں میں ڈونرز سے طالبان کیلیے ایک لاکھ ڈالر سے زائد رقم اکٹھی کی تھی۔
اس نے افغان صوبہ قندھار میں طالبان کے ایک کمانڈرکی بھی مالی امدادکی اور طالبان اور القاعدہ جنگجوؤں کی تربیت کیلیے بھی فنڈز فراہم کیے جنھوں نے اتحادی اور افغان فوجی دستوں کیخلاف حملے کیے۔فیض اللہ پر خودکش بمباروں کو پناہ دینے،انھیں پاکستان سے افغانستان بھیجنے، طیارہ شکن میزائل فراہم کرنے اور ہلمند میں طالبان جنگجوؤںکی اعانت کے بھی الزامات ہیں،ان افراد نے عسکریت پسندوں کی تربیت اور کارروائیوں میں بھی سہولت فراہم کی۔
انھوں نے 2009 میں جنوبی افغانستان میں طالبان جنگجوؤں کو ہتھیار، گولہ بارود ، دھماکاخیز مواد اور طبی سامان فراہم کیا۔فیض اللہ پاک افغان سرحد کے قریب ایک مدرسہ بھی چلاتا رہا جہاں طالبان کیلیے لاکھوں ڈالر بھی اکٹھے کیے گئے اور انھیں عسکری تربیت بھی فراہم کی جاتی رہی۔
2007میں یہ مدرسہ القاعدہ جنگجوؤں کو تربیت کیلیے بھی استعمال ہوتا رہا۔فیض اللہ کے بھائی ملک نے بھی 2005میں طالبان کو ہزاروں ڈالر فراہم کیے۔ اس کا افغانستان میں گاڑیوں کا کاروبار تھا اور وہ دبئی اور جاپان سے گاڑیاں امپورٹ کرتا تھا۔نادرا کے ترجمان نے ایکسپریس ٹریبیون کے رابطہ کرنے پر کہاکہ اس کی تصدیق کیلیے مناسب فوم وزارت داخلہ ہے تاہم وزارت داخلہ کے ترجمان نے متعدد بار کالز اورٹیکسٹ میسیجز کرنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔
ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق ان کے اہلخانہ کے شناختی کارڈ بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ ان فراد کو غیرملکی قرار دیتے ہوئے نادرار نے ان کی شناختی دستاویزات کو بھی منسوخ قرار دیدیا۔ ایکسپریس ٹریبیون کودستیاب دستاویزات کے مطابق انٹیلیجنس ایجنسیوں کی درخواست پر ان افراد کے شناختی کارڈ منسوخ کیے گئے۔
دہشت گردوں کے فنانسرز اور ان کے خاندان کے تیس ارکان نے دھوکہ دہی اور جعلی دستاویزات کے ذریعے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کیے اور ان کو شمال مغربی بلوچستان میں افغان سرحد سے متصل قلعہ عبداللہ کا رہائشی دکھایا گیا تھا،ان افراد کے نام فیض اللہ خان نورزئی، حاجی خیراللہ اور ملک نورزئی کا نام دیا گیا۔ فیض اللہ کے بھائی نے اللہ دتہ کے جعلی نام سے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کیا۔
فیض اللہ کے خاندان کے 11، ملک نورزئی کے خاندان کے 14اور خیراللہ کے خاندان کے 5ارکان نے بھی پاکستانی شناختی کارڈحاصل کر رکھے تھے،امریکا اور اقوام متحدہ نے2011میں ان افراد کو دہشت گردوں کا فنانسر قرار دیا تھا۔امریکی وزارت خزانہ کی ویب سائٹ کے مطابق فیض اللہ طالبان کے اہم فنانسر کے طور پر کام کرتا رہا اور اس نے خلیجی ریاستوں میں ڈونرز سے طالبان کیلیے ایک لاکھ ڈالر سے زائد رقم اکٹھی کی تھی۔
اس نے افغان صوبہ قندھار میں طالبان کے ایک کمانڈرکی بھی مالی امدادکی اور طالبان اور القاعدہ جنگجوؤں کی تربیت کیلیے بھی فنڈز فراہم کیے جنھوں نے اتحادی اور افغان فوجی دستوں کیخلاف حملے کیے۔فیض اللہ پر خودکش بمباروں کو پناہ دینے،انھیں پاکستان سے افغانستان بھیجنے، طیارہ شکن میزائل فراہم کرنے اور ہلمند میں طالبان جنگجوؤںکی اعانت کے بھی الزامات ہیں،ان افراد نے عسکریت پسندوں کی تربیت اور کارروائیوں میں بھی سہولت فراہم کی۔
انھوں نے 2009 میں جنوبی افغانستان میں طالبان جنگجوؤں کو ہتھیار، گولہ بارود ، دھماکاخیز مواد اور طبی سامان فراہم کیا۔فیض اللہ پاک افغان سرحد کے قریب ایک مدرسہ بھی چلاتا رہا جہاں طالبان کیلیے لاکھوں ڈالر بھی اکٹھے کیے گئے اور انھیں عسکری تربیت بھی فراہم کی جاتی رہی۔
2007میں یہ مدرسہ القاعدہ جنگجوؤں کو تربیت کیلیے بھی استعمال ہوتا رہا۔فیض اللہ کے بھائی ملک نے بھی 2005میں طالبان کو ہزاروں ڈالر فراہم کیے۔ اس کا افغانستان میں گاڑیوں کا کاروبار تھا اور وہ دبئی اور جاپان سے گاڑیاں امپورٹ کرتا تھا۔نادرا کے ترجمان نے ایکسپریس ٹریبیون کے رابطہ کرنے پر کہاکہ اس کی تصدیق کیلیے مناسب فوم وزارت داخلہ ہے تاہم وزارت داخلہ کے ترجمان نے متعدد بار کالز اورٹیکسٹ میسیجز کرنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔