طبقاتی نظام
یہ وہی ہورہا ہے جوصدیوں سے اس طبقاتی نظام میں ہوتا آرہا ہے۔ ہاں مگراشکال بدلتی رہتی ہیں۔
یہ وہی ہورہا ہے جوصدیوں سے اس طبقاتی نظام میں ہوتا آرہا ہے۔ ہاں مگراشکال بدلتی رہتی ہیں۔ طریقہ واردات اورعوام کو بے وقوف بنانے کی ترکیب بدل جاتی ہے۔1951کے انتخابات میں سابق مشرقی پاکستان کی بیشترقومی اسمبلی کی نشستیں کمیونسٹ پارٹی نے حاصل کرلی تھی تو 1954 میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگادی گئی۔ ترکی میں ایسا آئین ہے کہ خواہ آپ سونشستیں حاصل کرلیں اورکل ووٹوں کے دس فیصد ووٹ حاصل نہ کر پائیں تو اسمبلی ممبر نہیں بن سکتے۔
اٹلی میں کمیونسٹ پارٹی اڑتالیس فیصد ووٹ لے کر بھی حکومت نہیں بنا سکتی، اس لیے کہ آئین میں لکھا ہے کہ اکاون فیصد ووٹ لینا ہے، پھردوسرا راؤنڈ شروع ہوتا ہے اوردائیں بازوکی جماعتیں اتحاد بنا کرچوون فیصد ووٹ لے کرحکومت بنا لیتی ہیں۔ پیسوں کے بل بوتے پرامریکی صدارتی انتخابات میں سوشلسٹ امیدوار برنی سینڈرز کو ہیلری شکست دے دیتی ہے۔ میکسیکو میں بائیں بازوکے صدارتی امیدوارکو منظم دھاندلی کے ذریعے ہروایاجاتا ہے۔ پاکستان میں آئی جے آئی بنوانے والے ٹی وی پرآکر برملا اعتراف بھی کرتے ہیں۔
پاکستان میں بورژوا سیاسی جماعتوں کے رہنما سب کچھ کہہ جاتے ہیں لیکن مہنگائی اور بے روزگاری پر لب کشائی نہیں کرتے اور نہ کوئی ہڑتال۔ یہ کیاکہتے ہیں ذرا غورکریں ۔ بعض مذہبی رہنما کہتے ہیں کہ بیت اللہ محسود شہید ہیں ۔کچھ سیاستدان مخالف سیاستدان کے جلوس پرکارکنوں کو پتھراؤکرنے کا حکم دیتے ہیں،کسی نے بینر پر لکھا'جو قائدکا غدارہے وہ موت کا حقدار ہے' پھر دوسرے دن ایک اور بینرآجاتا ہے 'جو ملک کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے'تیسرے دن شہر بھر میں کہیں ' جئے الطاف' اورکہیں 'جئے' آفاق' کے نعرے سرخ رنگ میں برش سے جلدی میں لکھے ہوئے نظرآئے۔
حال ہی میں اسٹبلیشمنٹ اورحکومت نے ایم کیوایم پر نرم ہاتھ رکھنے اورصرف عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کرنے کا اعلان کیا ہے۔ادھر سندھ ہائی کورٹ نے فریال تالپور سے پوچھا کہ نوے ارب روپے لاڑ کانہ میں کہاں خرچ کیے؟ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے عمران خان کے خلاف درخواست قبول کرلی لیکن نوازشریف کو تین ہفتے کی مہلت دے دی۔ ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں جہاں امریکی آلہ کار حکمران اقتدار پر بیٹھے ہیں۔ ان سے حزب اسلامی مصالحت کر کے اقتدار میں شامل ہوگئی ہے۔
انیس سو اکہتر میں ایک مذہبی جماعت نے جنرل یحییٰ کے ساتھ مشرقی پاکستان میں بھی شامل ہوکرالبدر اورالشمس نامی عسکری تنظیمیں تشکیل دی تھیںِ۔ ادھر واحد بلوچ کی ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی اور نہ عدالت نے یہ بتایا کہ انھیں کہاں،کون اورکیوں اغواکیا گیا ہے۔ ابھی تک کامریڈ واحد بلوچ کے ، جوکہ نوجوانی میں کمیونسٹ پارٹی آف پا کستان کے رکن بھی رہے ہیں، اغوا کے خلاف کوئی از خود نوٹس نہیں لیا گیا۔ ہمارے قریبی تعلقات والے ملک ترکی میں اردگان حکو مت نے پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے چوبیس منتخب مئیروں کو برطرف کردیا ہے۔
طالبان سے تو بار بار مذاکرات کیے جاتے رہے ہیں، دفتر بھی دیا جاتا ہے لیکن بلوچ نوجوانوں سے مذاکرات کیوں نہیں کیے جاتے؟ پاک سرزمین پارٹی وہی سب کچھ کرتی تھی جو ایم کیوایم کراتی ہے ۔مگر تمام تنقید اورالزامات کے باوجود سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری، لاعلاجی، بے گھری اورناخواندگی پرکوئی بات نہیں کرنی ہے۔آئی ایم ایف کے قرضے جات کی ضبتگی اوردفاعی اخراجات میں کمی کرکے صحت اورتعلیم کے بجٹ میں اضافے کی بات کوئی نہیں کررہا ہے۔ دال، چاول اورآٹے کی مہنگائی پر سب خاموش ہیں، صرف نان ایشوز پہ ٹاکرے اورجملے بازی کے لاحاصل تبادلے ہو رہے ہیں۔
اصل میں سب نظام کو بچانا چاہتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کون سے نظام کو بچانا چاہتے ہیں؟درحقیقت سرمایہ داری کو بچانا چاہتے ہیں، مگر یہ بات کھل کرعوام میں کہنے کی ان میں ہمت نہیں۔اس لیے بھی کہ یہ نظام اب اپنی ضعیف العمری کو پہنچ گیا ہے، قبر بھی کھود دی گئی ہے،صرف دھکا دینے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان میں اٹھارہ کروڑ مزدوروں اور پیداواری قوتوں کی ہڑتال ستمبرکے پہلے ہفتے میں ہوئی، یہ ہڑتال سرمایہ داری کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتی ہے۔ سرمایہ داری کا توکام ہی ہے پیداواری قوتوں کا استحصال کرنا، لیکن سیاسی لیڈران اپنے آپ کو عوام کا خدمت گارکہتے ہیں، وہ کیونکر ارب پتی بن گئے؟ کھربوں روپے مالیت کے سعودی عرب اورانڈیا میں اسٹیل مل اورشوگر مل لگانے کے بجائے پاکستان میں کیوں نہیں لگاتے؟ سیکڑوں سرمایہ داروں نے پاکستانی بینکوں میں پیسے رکھنے کے بجائے بیرون ملک میں کیوں جمع رکھا؟
اس لیے کہ اسی کو سرمایہ داری کہتے ہیں۔ایک جانب پیسوں کا انباراوردوسری جانب بھوک سے مرتے ہوئے لوگ ۔اس وقت دنیاکا امیرترین شخص امانسیو اور ٹیکا (اسپین) اٹھترارب ڈالرکے اثاثوں کا مالک ہے تودوسری طرف اسی دنیا میں ہر ماہ ڈیڑھ لا کھ انسان صرف بھوک سے مررہے ہیں۔اس غربت، بھوک، افلاس، مہنگائی اور بیروزگاری کا خاتمہ انتخابات کے ذریعے نہیں بلکہ عالمی کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے ہی حل ہوگا۔ کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ سچے جذبوںکی قسم وہ دن جلد آنے والا ہے جب چہار طرف خوشحالی اور محبتوں کے پھول کھلیں گے۔