تھرکی کوئل لوک فنکارہ مائی بھاگی

تھر میں بے شمار ایسے گلوگار پیدا ہوئے جنھوں نے موسیقی کی دنیا میں نام کمایا

تھر میں بے شمار ایسے گلوگار پیدا ہوئے جنھوں نے موسیقی کی دنیا میں نام کمایا۔ان میں سے ایک آواز مائی بھاگی کی بھی ہے ، جنھیں تھرکی کوئل کا خطاب ملا،کسے معلوم تھا کہ ایک عام سی صورت والی معصوم لڑکی اپنی آوازکا ایسا جادو جگائے گی کہ سننے والے اس کی آواز کے دیوانے ہوجائیں گے۔

مائی بھاگی ایسے گھرانے میں پیدا ہوئیں جہاں صبح وشام گانے کی آوازکانوں میں سنائی دیتی تھیں،ان کے والد واہیوں کی فقیر میلے اوردوسری تقریبات میں گانا گا کراپنی گزر بسر کرتے تھے ۔ جب وہ آٹھ سال کی عمر کو پہنچیں تو ان کے والد انھیں میلوں اورشادی بیاہ کی تقریبات میں لے کر جانے لگے۔ان کی آواز میں پختگی آتی رہی اور جہاں پر انھیں کچھ سمجھانا ہوتا، ان کے والد بتا دیتے تھے۔جب وہ جوان ہوگئیں تو انھیں دوسری لڑکیوں اورعورتوں کے ساتھ اپنے گاؤں یا پھر قریبی گھروں میں جاکرگانے کی اجازت مل گئی۔

مائی بھاگی کی آواز میں ایک مٹھاس پیدا ہوگئی اور وہ سننے والوں کے کانوں میں رس گھولنے لگی۔ اب جہاں بھی کوئی پروگرام ہوتا تو انھیں ضرور بلوایا جاتا حالانکہ اس زمانے میں اور بھی بہت اچھی آوازیں موجود تھیں لیکن ان کے گانے کا انداز خالص لوک گیتوں کی ترجمانی کرتا تھا، ان کے اندازگائیگی نے انھیں آہستہ آہستہ مقبولیت کی طرف لے جانا شروع کیا۔

مائی بھاگی سندھی،گجراتی،کاٹھیاواڑی، مارواڑی زبانوں میں بھی گایا کرتی تھیں اورمزے کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے لوک گیتوں کی شاعری خود کرتیں اور ان کی دھنیں بھی خود بناتیں۔ وہ ڈھول بھی بجا لیتی تھیں اوران کی ایک الگ پہچان یہ تھی کہ وہ ایک کان پر ہاتھ رکھ کرگاتی تھیں جو ان کا منفرد اسٹائل تھا۔انھیں ساز الغوزہ بہت پسند تھا۔

ان کی قسمت کا ستارہ 1963 سے چمکنا شروع ہوا جب وہ ایک مرتبہ اپنے والد کے ساتھ ماروی کے میلے میں ایک ڈاک بنگلے میں جہاں بڑی شخصیات ٹھہری ہوئی تھیں انھوں نے اپنی آوازکا جادو جگایا اور وہاں پر بیٹھے ہوئے مہمان جیسے سکتے میں آگئے کہ یہ آواز کیسی ہے، تھر کے علاقے میں ایک ایسی آواز بھی ہے جس میں اتنی مٹھاس ہے۔ وہاں ریڈیو پاکستان حیدرآباد والے بھی پروگرام کی کوریج کرنے آئے تھے جنھوں نے ان کی آواز کو ریکارڈ کرلیا جسے جب ریڈیو کے لوگوں نے سنا تو بڑے خوش ہوئے۔

ان کی آواز کو 1966 میں ریڈیو پاکستان کی دو بڑی شخصیات جن میں غلام حسین شیخ اور استاد فیروز گل شامل تھے نے بڑی محنت کر کے ان کے کچھ لوک گیت ریکارڈ کیے۔ جس میں تارن ماں ترندی اچے ، لہرن ماں لڑھندی اچے، دل کوھیارکوھیار رہئی کرے، جب یہ دونوں لوک گیت ریڈیو سے نشر ہوئے تو پورے سندھ میں ایک تہلکہ مچ گیا اور لوگوں کی فرمائشوں کے انبار لگ گئے۔ان لوک گیتوں نے کامیابی کے ریکارڈ توڑ دیے۔

اب مزید لوک گیتوں میں شاہکار گیت ''کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ہیکلی'' سمیت مرلی وارے من موہیو، الاسمن سائیں سرکار آؤں گولی غلام تنھنج درجی، بھٹ جی بھٹائی بھٹ تے وسئے نور، منھنجی توہجائی، بھینر منھنجو بارویو آیوکوھیار آیو، جیجل منھنجی قسمت کندہ نوالو لکھیو لوہ قلم جب ریکارڈ ہوئے اور وہ ریڈیو سے نشر ہوئے تو لوگوں میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ مائی بھاگی سے ملیں۔ ریڈیو پاکستان پر نشر ہونے کے بعد قسمت نے ان کا مزید ساتھ دیا اور انھیں ممتاز مرزا کراچی پی ٹی وی سینٹر پر لے آئے جہاں عبدالکریم بلوچ پروڈیوسر تھے۔ ہوا یہ کہ بلوچ صاحب اس کے جتنے بھی لوک گیت تھے انھیں ریکارڈ کرتے رہے اور جب وہ پی ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ ہوئے تو لوگوں نے مائی بھاگی کو گاتے ہوئے دیکھ کر تسکین حاصل کرلی۔


ان کی گائیکی کا سفر بڑی تیزی کے ساتھ گزرتا رہا لیکن اس کے مزاج اور طبیعت میں کوئی فرق نہیں آیا وہ ویسی کی ویسی ہی رہیں بلکہ ان میں زیادہ عاجزی اور انکساری پیدا ہوگئی اور وہ خدا کا شکر ادا کرکے کہتی تھیں کہ وہ اس لائق نہیں ہے جتنا اس کے رب نے اسے دیا ہے۔

وہ گاؤں دوھیانو فقیر میں جو مٹھا شہر کے قریب ہے 1920 میں پیدا ہوئی تھیں اور وہ اپنے والد مانو فقیر کی لاڈلی تھیں۔ مائی بھاگی اپنے فن میں بالکل منفرد اور خاص حیثیت رکھتی تھیں۔ جب وہ اچھے خاصے پیسے کمانے لگیں اس کے بعد بھی انھیں دولت سے کوئی پیار یا لگاؤ نہیں تھا،اس رویے کی وجہ سے اس کی عزت و ناموس میں اور اضافہ ہوا اور اس نے کبھی بھی غرور نہیں کیا اور نا ہی اپنی شہرت پر کبھی اترائیں۔

وہ اکثر شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست، سمن سرکار، قلندر شہباز اور دوسرے بزرگوں کے مزاروں پر حاضری باقاعدگی کے ساتھ دیتی تھیں۔ سرکاری پروگراموں میں میلے کے موقعے پر ان مزاروں پے گایا کرتی تھیں مگر اپنے دل کو سکون دینے کے لیے وہ کبھی کبھار وہاں جاکر بغیر موسیقی کے Instruments بجاتیں، وہاں پر پڑے ہوئے خالی مٹکوں میں پانی بھرتی اور صحن میں جھاڑو دیا کرتیں۔ جب وہ بیمار رہنے لگیں پھر بھی اپنے آپ کو اٹھوا کر مزاروں پر حاضری دیتی اور خراج عقیدت کے لیے دھیمی آواز میں بھی صوفیانہ کلام گایا کرتیں۔ مجھے یاد ہے ایک بار پی ٹی وی کراچی مرکز نے مائی بھاگی پر ایک اردو میں ڈرامہ سیریل ریکارڈ کی تھی جس کے لوک گیت ٹینا ثانی نے گائے تھے جس نے کافی مقبولیت حاصل کی تھی۔

وہ گانے والوں میں استاد محمد ابراہیم اور استاد محمد جمن کو بے حد پسند کرتی تھیں اور جب انھیں وقت ملتا تو ان کے کلام سنتی تھیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے دولت سے نہیں فن سے محبت ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کوئی دولت اکٹھا نہیںکی اور نہ ہی کوئی محل بنائے۔ سابق سیکریٹری عبدالحمید اخوند کو فنکاروں سے بے حد محبت اور چاہت تھی اور وہ ازحد کوشش کرتے تھے کہ بیماری کی حالت میں فنکاروں کی مالی مدد کرسکیں لیکن جب تک سرکاری Procedure کو پورا کرتے اس وقت تک بیمار فنکار اللہ کو پیارے ہوجاتے تھے۔

یہی درد ناک ستم مائی بھاگی کے ساتھ ہوا۔ انھیں حج کرنے کی بڑی خواہش تھی جس کے لیے اخوند صاحب نے اس وقت کے گورنر سے التجا کی جو مائی بھاگی کے خود بھی بڑے فین تھے، انھوں نے حامی بھرلی۔ لیکن نصیب کی بات ہے ۔ حج کرنے کے لیے ان کا ٹکٹ آگیا تھا اور انھیں 9 جولائی 1986 کو فلائٹ میں جانا تھا مگر ان کی روح 7 جولائی کو پرواز کرگئی۔ انھیں نؤں کوٹ کے قبرستان میں دفنایا گیا۔

ان کا بیٹا کالو فقیر، بیٹی مائی سونی گاتے رہے اور کوشش کی کہ وہ مائی بھاگی کے خلاء کو پرکریں ، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ مائی سونی کا بیٹا رستم فقیر اورکالو فقیر کا بیٹا برکت فقیرگا رہے ہیں ۔ مزید ان کے قریبی گھرانے میں سے مائی جیونی اور مائی حلیمہ بھی میدان میں آگئی ہیں جنھیں اب تک کوئی خاص مقام حاصل نہیں ہوسکا ہے۔

ایک مرتبہ استاد فیروزگل نے جو لیاری کے قدر شناس موسیقار وگائیک تھے ایک تقریب میں کہا تھا کہ وہ جب ہندوستان کے دورے پرگئے تو ان کی ملاقات لتا منگیشکر سے ہوئی جنھیں انھوں نے مائی بھاگی کے لوک گیت سنائے تو لتا نے مائی بھاگی سے ملنے کی بے تابانہ خواہش ظاہرکی مگر ان کی یہ خوشی اس وقت مایوسی میں تبدیل ہوگئی جب میں نے انھیں بتایا کہ مائی بھاگی اس دنیا میں نہیں ہیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے مائی بھاگی کو تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ اس کے علاوہ انھیں بھٹائی، سچل سرمست اور بہت سارے ایوارڈ دیے گئے تھے مگر وہ کہتی تھیں کہ ان کے لیے سب سے بڑا ایوارڈ یہ ہے کہ مجھے لوگ بے تحاشا چاہتے ہیں اور میری آوازکی قدرکرتے ہیں۔
Load Next Story