کیا بنگلہ دیش تباہ ہونے والا ہے
بنگلہ دیش پہلے ہی سطح سمندر بڑھنے کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔
یہ ہمارے سابقہ بازو... مشرقی پاکستان کے لیے اچھی خبر نہیں! سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی وقت بنگلہ دیش میں 9میگناٹیوڈ کا زلزلہ جنم لے کر وہاں آباد کروڑوں انسانوں کی جانیں نگل سکتاہے۔
اس اچانک خبر نے بنگلہ دیش میں سنسنی پھیلا دی ہے۔ اور وہاں لوگ اپنے مستقبل کی جانب سے شدید فکر مند ہو چکے ۔بنگلہ دیش پہلے ہی سطح سمندر بڑھنے کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق 2050ء تک بنگلہ دیش کا ''17 فیصد'' حصّہ سمندر برد ہو جائے گا۔ چناںچہ اس حصّے پر آباد تقریباً پونے دو کروڑ بنگلہ دیشیوں کو ہجرت کے مصائب برداشت کرنا پڑیں گے۔
بنگلہ دیش ایک غریب ملک ہے۔ وہ بہت کم سبزمکانی (گرین ہاؤس) گیسیں خارج کرتا ہے جن کی وجہ سے کرہ ارض میں گرمی بڑھ رہی ہے۔ یہ گرمی پہاڑوں اور قطبین میں جمی برف پگھلانے لگی ہے جس کے باعث سمندروں کی سطح میںاضافہ ہو رہا ہے۔یہ سبز مکانی گیسیں سب سے زیادہ امیر ممالک خارج کرتے ہیں' مگر ان کے منفی پہلو غریب ملکوں کو زیادہ متاثر کر رہے ہیں۔ یہ قدرت کی عجیب انہونی ہے۔ اور اب بیچارے بنگلہ دیشیوں کے سروں پر زبردست زلزلہ آنے کا عذاب بھی منڈلانے لگا ہے۔
دریاؤں کی مٹی کا عجوبہ
اس داستان کا آغاز کروڑوں سال پہلے ہوتا ہے جب کرہ ارض کی خشک سطح تشکیل دینے والی پلیٹوں میں سے ایک، انڈین پلیٹ(Indian Plate) ایشیائی یا یورشیائی( Eurasian Plate) پلیٹ سے آن ٹکرائی۔ اسی عظیم الشان ٹکراؤ کے باعث ہی کوہ ہمالیہ جیسے بلند وبالا پہاڑی سلسلے نے جنم لیا۔ آج بھی دونوں پلیٹوں کے مخصوص حصے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ یہ حصے ارضیاتی اصطلاح میں ''سب ڈکشن زون'' کہلاتے ہیں۔ ان حصّوں میں زبردست دباؤ کی وجہ سے عموماً اوپر، سطح زمین پر دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ یہ دراڑیں ''فالٹ لائن''کہلاتی ہیں۔
جب ہمالیہ ' ہندوکش' قراقرام اور دیگر پہاڑی سلسلے وجود میں آئے تو وہاں سے کئی دریا نکل کر بہنے لگے جن میں دریائے سندھ' گنگا اور برہم پترا نمایاں ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارتی ریاست مغربی بنگال میں گنگا اور برہم پترا کا ملاپ ہوتا ہے۔ چناںچہ اس علاقے میں دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹا یا دہانہ وجود میں آ چکا۔یہ دریائی ڈیلٹا ایک لاکھ مربع کلو میٹر سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس ڈیلٹے پہ بارہ کروڑ سے زیادہ انسان آباد ہیں۔ ان میں سے سات کروڑ افراد کی معیشت کا دارومدار ڈیلٹے پر ہی ہے۔ اس پر ہر فی مربع کلو میٹر 200 انسان آباد ہیں۔ یہ دنیا کے گنجان ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ مگر اب یہی گنجانی کروڑوں انسانوں کے لیے زبردست خطرہ بن چکی۔
دریائے گنگا اور برہم پترا لاکھوں برس سے بہہ رہے ہیں۔ وہ پہاڑوں سے اپنے ساتھ جو مٹی لائیں' اس کا بڑا حصہ ڈیلٹا میں جمع ہوتا ہے۔ سو پچھلے لاکھوں سال کے دوران وسیع و عریض ڈیلٹا میں اربوں ٹن مٹی جمع ہو چکی۔ اکثر مقامات پر مٹی کی پرت ''بارہ تا سولہ میل'' موٹی ہے۔ مٹی کی اسی عظیم الشان پرت کے باعث زمانہ حال تک یہ حقیقت ماہرین سائنس کی نظروں سے پوشیدہ رہی کہ ڈیلٹا کے نیچے کس قسم کی ارضیاتی سرگرمی جاری ہے۔
سب ڈکشن زون کا انکشاف
2000ء میں پہلی بار انکشاف ہوا کہ گنگا و برہم پترا کے ڈیلٹا کے نیچے ایک سب ڈکشن زون واقع ہے۔ اور یہ کہ اس خطے میں انڈین اور ایشائی پلیٹیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ اس انکشاف نے ماہرین ارضیات کو پریشان کر ڈالا کیونکہ وہ اس نئی سب ڈکشن زون کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے۔ماہرین ارضیات دنیا بھر میں واقع سب ڈکشن زونوں پر تحقیق کرتے ہیں۔ یوں وہ کسی حد تک بتا سکتے ہیں کہ کس سب ڈکشن زون میں زلزلہ آنے کا امکان ہے اور کون سی والی اس خطرے میں گرفتار نہیں۔
یاد رہے' ہماری سطح زمین چھوٹی بڑی متحرک پلیٹوں کے اوپر واقع ہے۔ ہمیں سطح زمین پر تو کوئی حرکت نظر نہیں آتی' مگر تمام پلیٹیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ جب یہ ٹکراؤ آمنے سامنے ہو' تو عموماً چھوٹی پلیٹ بڑی پلیٹ کے نیچے گھس جاتی ہے۔ اگر ٹکراؤ بغلی ہو،تو پلیٹیں ایک دوسرے سے رگڑ کھاتی اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔
پلیٹوں کے سب ڈکشن زونوں یا خطوں میں بعض اوقات پلیٹیں ایک دوسرے میں پھنس جاتی ہیں۔ یہ کیفیت چند برس سے لے کر کئی سو سال تک جاری رہ سکتی ہے۔ آخر کار کسی پلیٹ کا کوئی حصہ ٹوٹ جائے تو یہ کیفیت ختم ہو تی ہے۔ مگر ٹوٹنے کا یہی عمل زلزلہ پیدا کردیتا ہے۔ پلیٹوں کے آپس میں پھنسنے کی حالت جتنی طویل عرصہ برقرار رہے'ختم ہونے پر اتنی ہی زیادہ شدت کا زلزلہ آتا ہے۔ ماہرین ارضیات اسی پھنسنے کے عمل پر تحقیق کرتے ہیں تاکہ جان سکیں' زلزلہ اندازاً کب آ سکتا ہے۔
بنگلہ دیشی سب ڈکشن زون پر تحقیق
2003ء میں ماہرین ارضیات نے گنگا و برہم پترا ڈیلٹا کے نیچے واقع نو دریافت شدہ سب ڈکشن زون پر تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان ماہرین کا تعلق امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی اور ڈھاکہ یونیورسٹی سے تھا۔ انہوں نے ڈیلٹا کے مخصوص مقامات پر دو درجن جی پی ایس آلات نصب کر دیئے جن کا رابطہ سیٹلائٹوں سے تھا۔ یہ آلات زمین کی معمولی حرکت بھی نوٹ کر سکتے تھے۔ ماہرین کی تحقیق2014ء تک جاری رہی۔ پھر تحقیق کے نتائج حاصل کرنے کی خاطر کام شروع ہوا۔ یہ ایک پیچیدہ اور طویل عمل ہوتا ہے۔ چناںچہ اس سرگرمی میں دو سال لگ گئے۔ آخر جون 2016ء میں تحقیق کے نتائج سامنے آ گئے۔
اس جدید تحقیق سے انکشاف ہوا کہ مشرقی بنگلہ دیش میں سب ڈکشن زون واقع ہے۔ زمین سے چند میل نیچے موجود یہ زون 250 کلو میٹر چوڑا جبکہ اتنا ہی لمبا ہے۔ گویا یہ زون ''24 ہزار مربع میل'' رقبے پر پھیلا ہوا ہے جو عظیم الشان رقبہ بنتا ہے۔امریکی اور بنگلہ دیشی ماہرین پھر یہ ریکارڈ کنگھالنے لگے کہ ماضی میں اس علاقے میں کتنے زلزلے آچکے۔ انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس سب ڈکشن زون میں پچھلے چار سو سال سے کوئی زلزلہ نہیں آیا۔ جبکہ اتنی ہی مدت سے زلزلوں کا ریکارڈ رکھا جارہا ہے۔ ماہرین کے نزدیک یہ نہایت تشویشناک بات ہے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ سب ڈکشن زون میں دونوں پلیٹوں کے ٹکراؤ سے زبردست دباؤ جنم لے چکا۔ امریکی ماہر ارضیات، ڈاکٹر مائیکل سٹیکلر کا کہنا ہے :''میرے نزدیک سب ڈکشن زون میں دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ چناں چہ مستقبل قریب میں خوفناک زلزلہ آنے کا قوی امکان ہے۔ ممکن ہے کہ یہ زبردست دباؤ 100 فٹ لمبے زمین کے ٹکڑے کو ہلا ڈالے۔ ایسی صورت میں علاقے میں بھیانک جانی و مالی تباہی جنم لے گی۔''
یاد رہے، اسی سب ڈکشن زون کے کنارے پر ہی بنگلہ دیشی دارالحکومت، ڈھاکہ آباد ہے جہاں ڈیڑھ کروڑ انسان بستے ہیں۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ اس خطرناک زون میں محض 8.1 میگناٹیوڈ کا زلزلہ بھی آیا، تو وسیع علاقے میں شدید تباہی مچے گی۔ وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا بہت بڑا رقبہ گنگا۔ برہم پترا کے ڈیلٹا پر واقع ہے۔ یہ ڈیلٹا بارہ تا سولہ میل گہرائی تک مٹی رکھتا ہے۔ لہٰذا جب بھی 8.1 شدت کا زلزلہ آیا تو قدرتاً یہ مٹی اپنی جگہ سے سرک جائے گی۔ نتیجتاً کئی علاقوں میں عمارتیں، سڑکیں اور انسان آناً فاناً زمین میں دھنس جائیں گے۔
گنگا اور برہم پترا کے عظیم دریا بھی تباہی پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اکثر مقامات پر ان کا پھیلاؤ دس میل تک پھیلا ہوا ہے۔ جب بھی زلزلہ آیا، تو یہ اپنا راستہ تبدیل کرکے نئی سمت بہنے لگیں گے۔ (ماضی میں زلزلے آنے پر ایسا ہوچکا ) چناں چہ ان کے نئے راستے میں جو بھی شے آئی، وہ زیر آب آجائے گی۔
ایک طرف بنگلہ دیش میں تباہ کن زلزلہ آنے کا خطرہ جنم لے چکا، تو دوسری سمت یہ غریب ملک اس سے نمٹنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ بنگلہ دیش میں جابجا کمزور عمارتیں بنائی جاتی ہیں۔ ان پر تھوڑا زیادہ وزن پڑے تو وہ گرپڑتی ہیں۔ اگر زلزلہ آیا، تو وہ معمولی جھٹکے بھی برداشت نہیں کریں گی۔غرض بنگلہ دیش رہنے کے لیے ایک خطرناک ملک بن چکا۔ ایک سمت سمندر اس کا رقبہ نگل رہا ہے، تو دوسری سمت زلزلہ اسے تباہ کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ قابل ذکر نکتہ یہ کہ بنگلہ دیش میں اکثر سرکاری تنصیبات مثلاً بجلی گھر ڈیلٹا کے علاقے میں واقع ہیں۔ وہاں معمولی سا زلزلہ بھی انہیں منہدم کر ڈالے گا۔
سید ہمایوں اختر ڈھاکہ یونیورسٹی سے منسلک ماہر ارضیات ہیں۔ وہ بھی بنگلہ دیشی سب ڈکشن زون کی کھوج لگانے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ کہتے ہیں ''بنگلہ دیش میں آبادی بہت زیادہ بڑھ چکی۔ اگر یہاں 9 میگناٹیوڈ کا زلزلہ آیا، تو سب کچھ برباد ہوجائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بنگلہ دیش سے بنی نوع انسان کا نام و نشان مٹ جائے۔''
خطرے کی بات کیوں؟
دنیا بھر میں ماہرین ارضیات نت نئی سب ڈکشن زون دریافت کرتے رہتے ہیں مگر بنگلہ دیش کی حالیہ دریافت شدہ سب ڈکشن زون دو لحاظ سے اچھوتی ہے۔ اول یہ کہ اس میں طویل عرصے سے کوئی زلزلہ نہیں آیا۔ یہ امر اس زون کو نہایت خطرناک بنا ڈالتا ہے۔ وجہ یہی کہ ایک سب ڈکشن زون میں جتنی دیر بعد زلزلہ آئے، وہ اتنا ہی زیادہ شدید ہوتا ہے۔دوسری تشویشناک بات یہ کہ اس سب ڈکشن زون کے اردگرد چودہ کروڑ لوگ رہتے بستے ہیں۔ ان سبھی نے بھربھری مٹی کے اوپر اپنی عمارتیں اور گھر بنارکھے ہیں ۔اور یہ گھر بھی مٹی ہی سے بنائے گئے ہیں۔ چناں چہ شدید زلزلہ دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں انسانوں کو نگل جائے گا۔ ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ڈھاکہ سمیت تمام بنگلہ دیشی شہروں میں سڑکیں خاصی چھوٹی ہیں۔ لہٰذا وہاں دن بھر ٹریفک جام رہتا ہے۔ اگر زلزلہ آیا تو سڑکیں ملبے سے پٹ جائیں گی۔ یوں امدادی کارروائیاں انجام دینا نہایت کٹھن مرحلہ بن جائے گا۔
بنگلہ دیش کا جغرافیہ
گنگا اور برہم پترا کے علاوہ بنگلہ دیش میں دیگر چھوٹے بڑے دریا بہتے ہیں۔ اسی لیے ملک کا ''80 فیصد'' رقبہ دریائی ڈیلٹا پر واقع ہے۔ یہ علاقہ سپاٹ زمین کے مانند ہے جس پر جابجا دریا اور ندی نالے دکھائی دیتے ہیں۔ مون سون کے زمانے میں یہ دریا پانی سے بھر جائیں، تو اکثر علاقوں میں سیلاب آجاتا ہے۔بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً پونے سولہ کروڑ ہے۔ یہ دنیا کا سب سے زیادہ گنجان ملک ہے۔ اس ملک میں فی مربع کلو میٹر 1237 افراد آباد ہیں۔ زلزلہ آنے پر یہی گنجانی بنگلہ دیشیوں کے لیے باعث مصیبت بن جائے گی۔
پاکستان کا سب ڈکشن زون
وطن عزیز میں بھی ایک سب ڈکشن زون واقع ہے جو ''خندقِِ مکران'' (Makran Trench) کہلاتا ہے۔ یہ بلوچستان و سندھ کی سرحد سے لے کر مشہور ایرانی بندرگاہ بندر عباس تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس پاکستانی سب ڈکشن زون میں عرب پلیٹ، یورشیائی پلیٹ سے ٹکرارہی ہے۔ یورشیائی پلیٹ چونکہ بڑی ہے لہٰذا عرب پلیٹ اس کے نیچے داخل ہورہی ہے۔ مشرق میں عرب پلیٹ انڈین پلیٹ سے رگڑ کھاتے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ یاد رہے، بلوچستان اور صوبہ سرحد کا بیشتر علاقہ انڈین نہیں یورشیائی پلیٹ کا حصہ ہے۔''خندق مکران'' دراصل بحیرہ عرب میں کئی میل نیچے گہرائی میں واقع کھائی ہے، مگر اس کی وجہ سے قریبی زمینی علاقوں میں عجوبے بھی جنم لیتے ہیں۔ مثلاً مٹی کے پہاڑ بن جانا، زمین سے پانی نکلنا اور سمندر میں مٹی کے جزیرے نمودار ہونا۔ یہ سبھی عجوبے سب ڈکشن زون میں ارضیاتی سرگرمیوں کے باعث جنم لیتے ہیں۔
''خندق مکران'' میں بھی پلیٹوں کے دباؤ سے زلزلے جنم لے چکے۔ نومبر 1945ء میں اسی سب ڈکشن زون میں 8.1 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ زلزلے کے باعث سونامی نے جنم لیا جس نے بلوچستانی ساحلی شہروں میں خاصی تباہی مچائی۔ بتایا جاتا ہے کہ سونامی کی وجہ سے تین سو تا چار ہزار لوگ مارے گئے تھے۔اس سب ڈکشن زون میں آخری زلزلہ اگست 1947ء میں آیا ۔ تب سے خندق مکران میں معمولی زلزلے ہی جنم لے رہے ہیں۔ تاہم یہ اس لحاظ سے خطرناک زون ہے کہ قریب ہی پاکستانی میگا شہر، کراچی واقع ہے۔ خدانخواستہ مستقبل قریب میں خندق مکران میں 8.1 یا زیادہ شدت کا زلزلہ آیا تو کراچی کی بلند و بالا عمارتیں زمین بوس ہوسکتی ہیں۔واضح رہے، بلوچستان میں 1935ء کا مشہور زلزلہ ''چمن فالٹ'' میں پلیٹوں کا دباؤ خارج ہونے سے آیا تھا۔ چمن فالٹ انڈین اور یورشیائی پلیٹوں کے ٹکراؤ سے وجود میں آئی ہے۔
اس اچانک خبر نے بنگلہ دیش میں سنسنی پھیلا دی ہے۔ اور وہاں لوگ اپنے مستقبل کی جانب سے شدید فکر مند ہو چکے ۔بنگلہ دیش پہلے ہی سطح سمندر بڑھنے کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق 2050ء تک بنگلہ دیش کا ''17 فیصد'' حصّہ سمندر برد ہو جائے گا۔ چناںچہ اس حصّے پر آباد تقریباً پونے دو کروڑ بنگلہ دیشیوں کو ہجرت کے مصائب برداشت کرنا پڑیں گے۔
بنگلہ دیش ایک غریب ملک ہے۔ وہ بہت کم سبزمکانی (گرین ہاؤس) گیسیں خارج کرتا ہے جن کی وجہ سے کرہ ارض میں گرمی بڑھ رہی ہے۔ یہ گرمی پہاڑوں اور قطبین میں جمی برف پگھلانے لگی ہے جس کے باعث سمندروں کی سطح میںاضافہ ہو رہا ہے۔یہ سبز مکانی گیسیں سب سے زیادہ امیر ممالک خارج کرتے ہیں' مگر ان کے منفی پہلو غریب ملکوں کو زیادہ متاثر کر رہے ہیں۔ یہ قدرت کی عجیب انہونی ہے۔ اور اب بیچارے بنگلہ دیشیوں کے سروں پر زبردست زلزلہ آنے کا عذاب بھی منڈلانے لگا ہے۔
دریاؤں کی مٹی کا عجوبہ
اس داستان کا آغاز کروڑوں سال پہلے ہوتا ہے جب کرہ ارض کی خشک سطح تشکیل دینے والی پلیٹوں میں سے ایک، انڈین پلیٹ(Indian Plate) ایشیائی یا یورشیائی( Eurasian Plate) پلیٹ سے آن ٹکرائی۔ اسی عظیم الشان ٹکراؤ کے باعث ہی کوہ ہمالیہ جیسے بلند وبالا پہاڑی سلسلے نے جنم لیا۔ آج بھی دونوں پلیٹوں کے مخصوص حصے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ یہ حصے ارضیاتی اصطلاح میں ''سب ڈکشن زون'' کہلاتے ہیں۔ ان حصّوں میں زبردست دباؤ کی وجہ سے عموماً اوپر، سطح زمین پر دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ یہ دراڑیں ''فالٹ لائن''کہلاتی ہیں۔
جب ہمالیہ ' ہندوکش' قراقرام اور دیگر پہاڑی سلسلے وجود میں آئے تو وہاں سے کئی دریا نکل کر بہنے لگے جن میں دریائے سندھ' گنگا اور برہم پترا نمایاں ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارتی ریاست مغربی بنگال میں گنگا اور برہم پترا کا ملاپ ہوتا ہے۔ چناںچہ اس علاقے میں دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹا یا دہانہ وجود میں آ چکا۔یہ دریائی ڈیلٹا ایک لاکھ مربع کلو میٹر سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس ڈیلٹے پہ بارہ کروڑ سے زیادہ انسان آباد ہیں۔ ان میں سے سات کروڑ افراد کی معیشت کا دارومدار ڈیلٹے پر ہی ہے۔ اس پر ہر فی مربع کلو میٹر 200 انسان آباد ہیں۔ یہ دنیا کے گنجان ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ مگر اب یہی گنجانی کروڑوں انسانوں کے لیے زبردست خطرہ بن چکی۔
دریائے گنگا اور برہم پترا لاکھوں برس سے بہہ رہے ہیں۔ وہ پہاڑوں سے اپنے ساتھ جو مٹی لائیں' اس کا بڑا حصہ ڈیلٹا میں جمع ہوتا ہے۔ سو پچھلے لاکھوں سال کے دوران وسیع و عریض ڈیلٹا میں اربوں ٹن مٹی جمع ہو چکی۔ اکثر مقامات پر مٹی کی پرت ''بارہ تا سولہ میل'' موٹی ہے۔ مٹی کی اسی عظیم الشان پرت کے باعث زمانہ حال تک یہ حقیقت ماہرین سائنس کی نظروں سے پوشیدہ رہی کہ ڈیلٹا کے نیچے کس قسم کی ارضیاتی سرگرمی جاری ہے۔
سب ڈکشن زون کا انکشاف
2000ء میں پہلی بار انکشاف ہوا کہ گنگا و برہم پترا کے ڈیلٹا کے نیچے ایک سب ڈکشن زون واقع ہے۔ اور یہ کہ اس خطے میں انڈین اور ایشائی پلیٹیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ اس انکشاف نے ماہرین ارضیات کو پریشان کر ڈالا کیونکہ وہ اس نئی سب ڈکشن زون کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے۔ماہرین ارضیات دنیا بھر میں واقع سب ڈکشن زونوں پر تحقیق کرتے ہیں۔ یوں وہ کسی حد تک بتا سکتے ہیں کہ کس سب ڈکشن زون میں زلزلہ آنے کا امکان ہے اور کون سی والی اس خطرے میں گرفتار نہیں۔
یاد رہے' ہماری سطح زمین چھوٹی بڑی متحرک پلیٹوں کے اوپر واقع ہے۔ ہمیں سطح زمین پر تو کوئی حرکت نظر نہیں آتی' مگر تمام پلیٹیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ جب یہ ٹکراؤ آمنے سامنے ہو' تو عموماً چھوٹی پلیٹ بڑی پلیٹ کے نیچے گھس جاتی ہے۔ اگر ٹکراؤ بغلی ہو،تو پلیٹیں ایک دوسرے سے رگڑ کھاتی اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔
پلیٹوں کے سب ڈکشن زونوں یا خطوں میں بعض اوقات پلیٹیں ایک دوسرے میں پھنس جاتی ہیں۔ یہ کیفیت چند برس سے لے کر کئی سو سال تک جاری رہ سکتی ہے۔ آخر کار کسی پلیٹ کا کوئی حصہ ٹوٹ جائے تو یہ کیفیت ختم ہو تی ہے۔ مگر ٹوٹنے کا یہی عمل زلزلہ پیدا کردیتا ہے۔ پلیٹوں کے آپس میں پھنسنے کی حالت جتنی طویل عرصہ برقرار رہے'ختم ہونے پر اتنی ہی زیادہ شدت کا زلزلہ آتا ہے۔ ماہرین ارضیات اسی پھنسنے کے عمل پر تحقیق کرتے ہیں تاکہ جان سکیں' زلزلہ اندازاً کب آ سکتا ہے۔
بنگلہ دیشی سب ڈکشن زون پر تحقیق
2003ء میں ماہرین ارضیات نے گنگا و برہم پترا ڈیلٹا کے نیچے واقع نو دریافت شدہ سب ڈکشن زون پر تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان ماہرین کا تعلق امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی اور ڈھاکہ یونیورسٹی سے تھا۔ انہوں نے ڈیلٹا کے مخصوص مقامات پر دو درجن جی پی ایس آلات نصب کر دیئے جن کا رابطہ سیٹلائٹوں سے تھا۔ یہ آلات زمین کی معمولی حرکت بھی نوٹ کر سکتے تھے۔ ماہرین کی تحقیق2014ء تک جاری رہی۔ پھر تحقیق کے نتائج حاصل کرنے کی خاطر کام شروع ہوا۔ یہ ایک پیچیدہ اور طویل عمل ہوتا ہے۔ چناںچہ اس سرگرمی میں دو سال لگ گئے۔ آخر جون 2016ء میں تحقیق کے نتائج سامنے آ گئے۔
اس جدید تحقیق سے انکشاف ہوا کہ مشرقی بنگلہ دیش میں سب ڈکشن زون واقع ہے۔ زمین سے چند میل نیچے موجود یہ زون 250 کلو میٹر چوڑا جبکہ اتنا ہی لمبا ہے۔ گویا یہ زون ''24 ہزار مربع میل'' رقبے پر پھیلا ہوا ہے جو عظیم الشان رقبہ بنتا ہے۔امریکی اور بنگلہ دیشی ماہرین پھر یہ ریکارڈ کنگھالنے لگے کہ ماضی میں اس علاقے میں کتنے زلزلے آچکے۔ انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس سب ڈکشن زون میں پچھلے چار سو سال سے کوئی زلزلہ نہیں آیا۔ جبکہ اتنی ہی مدت سے زلزلوں کا ریکارڈ رکھا جارہا ہے۔ ماہرین کے نزدیک یہ نہایت تشویشناک بات ہے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ سب ڈکشن زون میں دونوں پلیٹوں کے ٹکراؤ سے زبردست دباؤ جنم لے چکا۔ امریکی ماہر ارضیات، ڈاکٹر مائیکل سٹیکلر کا کہنا ہے :''میرے نزدیک سب ڈکشن زون میں دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ چناں چہ مستقبل قریب میں خوفناک زلزلہ آنے کا قوی امکان ہے۔ ممکن ہے کہ یہ زبردست دباؤ 100 فٹ لمبے زمین کے ٹکڑے کو ہلا ڈالے۔ ایسی صورت میں علاقے میں بھیانک جانی و مالی تباہی جنم لے گی۔''
یاد رہے، اسی سب ڈکشن زون کے کنارے پر ہی بنگلہ دیشی دارالحکومت، ڈھاکہ آباد ہے جہاں ڈیڑھ کروڑ انسان بستے ہیں۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ اس خطرناک زون میں محض 8.1 میگناٹیوڈ کا زلزلہ بھی آیا، تو وسیع علاقے میں شدید تباہی مچے گی۔ وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا بہت بڑا رقبہ گنگا۔ برہم پترا کے ڈیلٹا پر واقع ہے۔ یہ ڈیلٹا بارہ تا سولہ میل گہرائی تک مٹی رکھتا ہے۔ لہٰذا جب بھی 8.1 شدت کا زلزلہ آیا تو قدرتاً یہ مٹی اپنی جگہ سے سرک جائے گی۔ نتیجتاً کئی علاقوں میں عمارتیں، سڑکیں اور انسان آناً فاناً زمین میں دھنس جائیں گے۔
گنگا اور برہم پترا کے عظیم دریا بھی تباہی پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اکثر مقامات پر ان کا پھیلاؤ دس میل تک پھیلا ہوا ہے۔ جب بھی زلزلہ آیا، تو یہ اپنا راستہ تبدیل کرکے نئی سمت بہنے لگیں گے۔ (ماضی میں زلزلے آنے پر ایسا ہوچکا ) چناں چہ ان کے نئے راستے میں جو بھی شے آئی، وہ زیر آب آجائے گی۔
ایک طرف بنگلہ دیش میں تباہ کن زلزلہ آنے کا خطرہ جنم لے چکا، تو دوسری سمت یہ غریب ملک اس سے نمٹنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ بنگلہ دیش میں جابجا کمزور عمارتیں بنائی جاتی ہیں۔ ان پر تھوڑا زیادہ وزن پڑے تو وہ گرپڑتی ہیں۔ اگر زلزلہ آیا، تو وہ معمولی جھٹکے بھی برداشت نہیں کریں گی۔غرض بنگلہ دیش رہنے کے لیے ایک خطرناک ملک بن چکا۔ ایک سمت سمندر اس کا رقبہ نگل رہا ہے، تو دوسری سمت زلزلہ اسے تباہ کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ قابل ذکر نکتہ یہ کہ بنگلہ دیش میں اکثر سرکاری تنصیبات مثلاً بجلی گھر ڈیلٹا کے علاقے میں واقع ہیں۔ وہاں معمولی سا زلزلہ بھی انہیں منہدم کر ڈالے گا۔
سید ہمایوں اختر ڈھاکہ یونیورسٹی سے منسلک ماہر ارضیات ہیں۔ وہ بھی بنگلہ دیشی سب ڈکشن زون کی کھوج لگانے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ کہتے ہیں ''بنگلہ دیش میں آبادی بہت زیادہ بڑھ چکی۔ اگر یہاں 9 میگناٹیوڈ کا زلزلہ آیا، تو سب کچھ برباد ہوجائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بنگلہ دیش سے بنی نوع انسان کا نام و نشان مٹ جائے۔''
خطرے کی بات کیوں؟
دنیا بھر میں ماہرین ارضیات نت نئی سب ڈکشن زون دریافت کرتے رہتے ہیں مگر بنگلہ دیش کی حالیہ دریافت شدہ سب ڈکشن زون دو لحاظ سے اچھوتی ہے۔ اول یہ کہ اس میں طویل عرصے سے کوئی زلزلہ نہیں آیا۔ یہ امر اس زون کو نہایت خطرناک بنا ڈالتا ہے۔ وجہ یہی کہ ایک سب ڈکشن زون میں جتنی دیر بعد زلزلہ آئے، وہ اتنا ہی زیادہ شدید ہوتا ہے۔دوسری تشویشناک بات یہ کہ اس سب ڈکشن زون کے اردگرد چودہ کروڑ لوگ رہتے بستے ہیں۔ ان سبھی نے بھربھری مٹی کے اوپر اپنی عمارتیں اور گھر بنارکھے ہیں ۔اور یہ گھر بھی مٹی ہی سے بنائے گئے ہیں۔ چناں چہ شدید زلزلہ دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں انسانوں کو نگل جائے گا۔ ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ڈھاکہ سمیت تمام بنگلہ دیشی شہروں میں سڑکیں خاصی چھوٹی ہیں۔ لہٰذا وہاں دن بھر ٹریفک جام رہتا ہے۔ اگر زلزلہ آیا تو سڑکیں ملبے سے پٹ جائیں گی۔ یوں امدادی کارروائیاں انجام دینا نہایت کٹھن مرحلہ بن جائے گا۔
بنگلہ دیش کا جغرافیہ
گنگا اور برہم پترا کے علاوہ بنگلہ دیش میں دیگر چھوٹے بڑے دریا بہتے ہیں۔ اسی لیے ملک کا ''80 فیصد'' رقبہ دریائی ڈیلٹا پر واقع ہے۔ یہ علاقہ سپاٹ زمین کے مانند ہے جس پر جابجا دریا اور ندی نالے دکھائی دیتے ہیں۔ مون سون کے زمانے میں یہ دریا پانی سے بھر جائیں، تو اکثر علاقوں میں سیلاب آجاتا ہے۔بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً پونے سولہ کروڑ ہے۔ یہ دنیا کا سب سے زیادہ گنجان ملک ہے۔ اس ملک میں فی مربع کلو میٹر 1237 افراد آباد ہیں۔ زلزلہ آنے پر یہی گنجانی بنگلہ دیشیوں کے لیے باعث مصیبت بن جائے گی۔
پاکستان کا سب ڈکشن زون
وطن عزیز میں بھی ایک سب ڈکشن زون واقع ہے جو ''خندقِِ مکران'' (Makran Trench) کہلاتا ہے۔ یہ بلوچستان و سندھ کی سرحد سے لے کر مشہور ایرانی بندرگاہ بندر عباس تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس پاکستانی سب ڈکشن زون میں عرب پلیٹ، یورشیائی پلیٹ سے ٹکرارہی ہے۔ یورشیائی پلیٹ چونکہ بڑی ہے لہٰذا عرب پلیٹ اس کے نیچے داخل ہورہی ہے۔ مشرق میں عرب پلیٹ انڈین پلیٹ سے رگڑ کھاتے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ یاد رہے، بلوچستان اور صوبہ سرحد کا بیشتر علاقہ انڈین نہیں یورشیائی پلیٹ کا حصہ ہے۔''خندق مکران'' دراصل بحیرہ عرب میں کئی میل نیچے گہرائی میں واقع کھائی ہے، مگر اس کی وجہ سے قریبی زمینی علاقوں میں عجوبے بھی جنم لیتے ہیں۔ مثلاً مٹی کے پہاڑ بن جانا، زمین سے پانی نکلنا اور سمندر میں مٹی کے جزیرے نمودار ہونا۔ یہ سبھی عجوبے سب ڈکشن زون میں ارضیاتی سرگرمیوں کے باعث جنم لیتے ہیں۔
''خندق مکران'' میں بھی پلیٹوں کے دباؤ سے زلزلے جنم لے چکے۔ نومبر 1945ء میں اسی سب ڈکشن زون میں 8.1 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ زلزلے کے باعث سونامی نے جنم لیا جس نے بلوچستانی ساحلی شہروں میں خاصی تباہی مچائی۔ بتایا جاتا ہے کہ سونامی کی وجہ سے تین سو تا چار ہزار لوگ مارے گئے تھے۔اس سب ڈکشن زون میں آخری زلزلہ اگست 1947ء میں آیا ۔ تب سے خندق مکران میں معمولی زلزلے ہی جنم لے رہے ہیں۔ تاہم یہ اس لحاظ سے خطرناک زون ہے کہ قریب ہی پاکستانی میگا شہر، کراچی واقع ہے۔ خدانخواستہ مستقبل قریب میں خندق مکران میں 8.1 یا زیادہ شدت کا زلزلہ آیا تو کراچی کی بلند و بالا عمارتیں زمین بوس ہوسکتی ہیں۔واضح رہے، بلوچستان میں 1935ء کا مشہور زلزلہ ''چمن فالٹ'' میں پلیٹوں کا دباؤ خارج ہونے سے آیا تھا۔ چمن فالٹ انڈین اور یورشیائی پلیٹوں کے ٹکراؤ سے وجود میں آئی ہے۔