بھارتی محنت کشوں کی تاریخی اور دنیا کی سب سے بڑی ہڑتال
مودی حکومت کے کالے کرتوتوں کا نشانہ بننے والے بھارتی عوام بھی اپنی ہی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں
KARACHI:
جب سے بھارت میں انتہا پسند ذہنیت کے حامل نریندر مودی کی حکومت آئی ہے نہ صرف پورے خطے میں اس کے منفی اثرات دیکھے جاسکتے ہیں بل کہ بھارتی باشندے بھی اندرون ملک مودی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بے انتہا پریشانیوں اور مشکلات کا شکار ہیں۔
خود کو علاقے کا ''چوہدری '' سمجھنے والے مودی اور اُن کے رفقا نے جو کام کیے ہیں اُن پر پوری دنیا میں تنقید کی جارہی ہے۔ یہ بات اب طشت ازبام ہے کہ مودی حکومت پاکستان کو پریشان کرنے اور غیرمستحکم کرنے کے لیے اپنی خفیہ ایجنسی ''را'' اور دیگر ہم خیال ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی، انتہاپسندی اور تخریب کاری کی کارروائیوں میں مسلسل مصروف ہے۔ جب ان کرتوتوں کا پردہ چاک ہوجاتا ہے تو مودی حکومت اپنی روایتی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے واقعات کو دوسرا رنگ دینے کی کوشش کرتی ہے۔
مودی حکومت کے کالے کرتوتوں کا نشانہ بننے والے بھارتی عوام بھی اپنی ہی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اصل میں مودی خود کو عقلِ کُل سمجھنے کی بری عادت میں مبتلا ہیں اور وہ اس خوش فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ وہ جو کررہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ پہلے بھارتی حکومت کی جانب سے انتہاپسندی کو فروغ دینے کی عادت کی وجہ سے بھارت میں جو عدم برداشت کا رجحان شروع ہوا اُس پر بھارت کا سمجھ دار طبقہ مودی حکومت سے بے انتہا نالاں رہا اور ہے۔
حکومتی عدم برداشت کی پالیسیوں کی وجہ ہی سے سیکڑوں نام ور لوگوں نے بھارتی حکومت سے لیے گئے اپنے ایوارڈ اور اعزازات واپس کردیے تھے۔ اب رواں ماہ ستمبر میں جب مودی سرکار نے مزید اداروں کو پرائیویٹائز کرنے اور دیگر من پسند معاشی پالیسیوں کا اعلان کیا تو بھارت کی ٹریڈ یونینز نے ملک گیر احتجاج کرکے مودی کی پالیسیوں اور اقدامات پر عدم اعتماد کی مہر ثبت کردی۔
بھارت کی 10 بڑی ٹریڈ یونینز سے وابستہ کروڑوں ملازمین نے 2 ستمبر کو ملک گیر ہڑتال کرکے بھارتی حکومت پر واضح کردیا کہ اُس کی پالیسیاں اور معاشی اقدامات کسی صورت قبول نہیں کیے جاسکتے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس ہڑتال کو جسے ''بھارت بند'' کا نام دیا گیا ہے دنیا بھر میں مزدوروں کی سب سے بڑی ہڑتال کہا جاسکتا ہے، جس میں15 کروڑ سے 18 کروڑ افراد نے شرکت کی۔ بھارتی حکومت کے خلاف اس احتجاج کے دوران سیکڑوں ادارے اور ٹرانسپورٹ سسٹم معطل رہا، بسیں، ریل گاڑیاں کھڑی رہیں، بینک اور دیگر اداروں میں تالابندی رہی۔ رکشے اور ٹیکسیاں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے اور اگر ملے تو بغیر ڈرائیور کے۔
اس ساری صورت حال میں بہت سے شہروں میں نظام زندگی بالکل معطل ہوکر رہ گیا تھا۔ احتجاج میں صرف مودی حکومت کی معاشی پالیسیوں اور نام نہاد اقتصادی اصلاحات ہی کو شدید تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا بل کہ سوشل سیکیوریٹی کے مسائل، صحت عامہ کے ایشوز اور کم تن خواہوں کے معاملے پر بھی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ گوکہ یہ ہڑتال کرناٹکا اور کیرالہ سمیت اُن ریاستوں میں ہوئی جہاں بھارتی اپوزیشن کا اثرورسوخ زیادہ ہے، لیکن اس کے اثرات مودی حکومت کے زیراثر علاقوں میں بھی محسوس کیے گئے۔ حکومت نے مختلف علاقوں میں ہڑتال کے پیش نظر تعلیمی ادارے بند کردیے تھے۔ جن علاقوں میں ہڑتال نہیں ہوئی وہاں کے لوگ بھی اس معاملے پر بحث و مباحثہ کرتے نظر آئے۔
ہڑتالیوں سے مختلف علاقوں میں خطاب کرتے ہوئے ٹریڈ یونینز کے راہ نماؤں نے مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ صرف بیان بازی کے بجائے اپنی معاشی پالیسیوں کو حقیقی معنوں میں عوام دوست اور غریب نواز بنائے۔ اس ہڑتال کے دوران ٹریڈیونینز کے نمائندوں نے بھارتی حکومت کو مطالبات کی فہرست بھی پیش کی جس میں مختلف تجاویز کے ساتھ ساتھ کم ازکم تن خواہ 18 ہزار روپے کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یونیورسل سوشل سیکیوریٹی دینے اور ریلوے، دفاعی پیداوار کے اداروں اور انشورنس کے محکمے میں غیرملکی سرمایہ کاری پر پابندی لگانے اور پینشن کی شرح کم ازکم 3 ہزار روپے کرنے کے بھی مطالبات قابل ذکر تھے۔
مظاہرین کی جانب سے بتائے گئے اعدادوشمار کے مطابق یہ دنیا میں اب تک کی جانے والی سب سے بڑی ہڑتال تھی، جس نے قومی معیشت کو ایک اندازے کے مطابق 180 ارب روپے کا دھچکا لگایا۔ گوکہ ہڑتال شروع ہونے سے پہلے بھارتی حکومت نے کچھ مصنوعی اقدامات اور وقتی اعلانات کرکے ٹریڈ یونینوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور بھارتی وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے محنت کشوں کی کم از کم تن خواہ 246 روپے روزانہ سے بڑھاکر 350 روپے کرنے کا اعلان بھی کیا، لیکن مودی سرکار اپنے اس حربے میں بھی ناکام رہی اور مختلف بھارتی شہروں کے تجارتی اداروں کی تالابندی نے مودی سرکار کی غلط پالیسیوں، ناکامیوں اور من پسند فیصلوں پر ''ہم نہیں مانتے'' کا طمانچہ رسید کردیا۔ ٹریڈیونینز کا مطالبہ تھا کہ کم ازکم اجرت 690 روپے روزانہ کی جائے۔
انڈین نیشنل ٹریڈ یونین کانگریس کے نائب صدر اشوک سنگھ نے کہا کہ مودی کہتے ہیں کہ میری لڑائی غربت کے خلاف ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اُن کی لڑائی ملک کے غریبوں کے ساتھ ہے۔
مغربی بنگال میں کچھ ایسے مظاہرین کو پولیس نے گرفتار کیا جنھوں نے حکومت کے مطابق احتجاج کو پُرتشدد بنانے کی کوشش کی۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ ان لوگوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ مجموعی طور پر ٹریڈ یونینز کی یہ ہڑتال ''بھارت بند'' پُرامن اور کام یاب رہی۔ بھارتی میڈیا نے دکھایا کہ ہزاروں بسیں اپنے اپنے ٹرمینلز پر کھڑی رہیں، ٹرینوں کی آمدورفت بھی بری طرح متاثر ہوئی، آسام، اُترپردیش اور دیگر علاقوں میں ہڑتال کے حامیوں نے ریلوے ٹریک پر رکاوٹیں ڈال کر ریلوے ٹریفک کی روانی کو روک دیا۔
گذشتہ سال بھی 2 ستمبر کو ایسی ہی ہڑتال کی گئی تھی۔ تاہم اُس میں شریک افراد کی تعداد اس سال کی نسبت خاصی کم تھی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مودی نے حکومت سنبھالنے سے قبل ملکی معیشت کو بھرپور ترقی دینے کے وعدے کیے تھے، لیکن ٹریڈیونینز کے راہ نماؤں کے مطابق مودی نے اپنا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔ ظاہری طور پر کچھ اقدامات ضرور کیے گئے، لیکن ایسا نہیں ہوا کہ غریبوں کی زندگیوں میں کوئی انقلاب آگیا ہو۔
2 ستمبر کی ملک گیر ہڑتال میں چند ایک مودی کی حمایتی یونینوں کو چھوڑکر بھارت کی تمام مرکزی ٹریڈ یونینز اور ان کی ذیلی تنظیموں نے بھرپور شرکت کی، اُن سب کی متفقہ رائے تھی کہ مودی سرکار کی غلط معاشی پالیسیوں اور دکھاوے کے اقدامات کی وجہ سے ٹریڈ یونینز اور ان سے وابستہ کروڑوں لوگ شدید خطرے میں ہیں۔
بھارت میں اس تاریخی ہڑتال اور ٹریڈ یونینز کے احتجاج کو پورے بھارت میں دیکھا گیا، لیکن یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا مودی حکومت اس کا نوٹس لے گی؟ سیدھا سا جواب ہے کہ دنیا بھر میں ہر بات میں خود کو صحیح سمجھنے والی حکومت اس کا نوٹس لینے کی اخلاقی جرات نہیں کرے گی۔ ہڑتال ختم ہوئی تو بات ختم ہوئی، بھارتی حکم راں اور اس کے مشیر اقتدار کے نشے میں دھت اور انتہاپسندوں کی انتہاپسندی کے سائے تلے اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کی کوششیں کرتے رہیں گے، کیوںکہ مودی حکومت کی سرشت میں اپنی غلطی کو ماننا ہے ہی نہیں جس کا مظاہرہ وہ ہر جگہ کرتی رہی ہے۔
دنیا بھر میں لگی آگ کو بجھانے کی ٹھیکے دار بننے والی مودی سرکار اپنے دیس میں محرومیوں، زیادتیوں، غلط پالیسیوں اور من مانیوں کی وجہ سے لگی آگ کو صحیح طرح بجھا پائے گی یا نہیں، اس کا فیصلہ آئندہ مہینوں میں ہوجائے گا۔ ورنہ آئندہ انتخابات میں بھارتی عوام مودی کا حساب بے باق کردیں گے۔
جب سے بھارت میں انتہا پسند ذہنیت کے حامل نریندر مودی کی حکومت آئی ہے نہ صرف پورے خطے میں اس کے منفی اثرات دیکھے جاسکتے ہیں بل کہ بھارتی باشندے بھی اندرون ملک مودی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بے انتہا پریشانیوں اور مشکلات کا شکار ہیں۔
خود کو علاقے کا ''چوہدری '' سمجھنے والے مودی اور اُن کے رفقا نے جو کام کیے ہیں اُن پر پوری دنیا میں تنقید کی جارہی ہے۔ یہ بات اب طشت ازبام ہے کہ مودی حکومت پاکستان کو پریشان کرنے اور غیرمستحکم کرنے کے لیے اپنی خفیہ ایجنسی ''را'' اور دیگر ہم خیال ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی، انتہاپسندی اور تخریب کاری کی کارروائیوں میں مسلسل مصروف ہے۔ جب ان کرتوتوں کا پردہ چاک ہوجاتا ہے تو مودی حکومت اپنی روایتی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے واقعات کو دوسرا رنگ دینے کی کوشش کرتی ہے۔
مودی حکومت کے کالے کرتوتوں کا نشانہ بننے والے بھارتی عوام بھی اپنی ہی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اصل میں مودی خود کو عقلِ کُل سمجھنے کی بری عادت میں مبتلا ہیں اور وہ اس خوش فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ وہ جو کررہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ پہلے بھارتی حکومت کی جانب سے انتہاپسندی کو فروغ دینے کی عادت کی وجہ سے بھارت میں جو عدم برداشت کا رجحان شروع ہوا اُس پر بھارت کا سمجھ دار طبقہ مودی حکومت سے بے انتہا نالاں رہا اور ہے۔
حکومتی عدم برداشت کی پالیسیوں کی وجہ ہی سے سیکڑوں نام ور لوگوں نے بھارتی حکومت سے لیے گئے اپنے ایوارڈ اور اعزازات واپس کردیے تھے۔ اب رواں ماہ ستمبر میں جب مودی سرکار نے مزید اداروں کو پرائیویٹائز کرنے اور دیگر من پسند معاشی پالیسیوں کا اعلان کیا تو بھارت کی ٹریڈ یونینز نے ملک گیر احتجاج کرکے مودی کی پالیسیوں اور اقدامات پر عدم اعتماد کی مہر ثبت کردی۔
بھارت کی 10 بڑی ٹریڈ یونینز سے وابستہ کروڑوں ملازمین نے 2 ستمبر کو ملک گیر ہڑتال کرکے بھارتی حکومت پر واضح کردیا کہ اُس کی پالیسیاں اور معاشی اقدامات کسی صورت قبول نہیں کیے جاسکتے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس ہڑتال کو جسے ''بھارت بند'' کا نام دیا گیا ہے دنیا بھر میں مزدوروں کی سب سے بڑی ہڑتال کہا جاسکتا ہے، جس میں15 کروڑ سے 18 کروڑ افراد نے شرکت کی۔ بھارتی حکومت کے خلاف اس احتجاج کے دوران سیکڑوں ادارے اور ٹرانسپورٹ سسٹم معطل رہا، بسیں، ریل گاڑیاں کھڑی رہیں، بینک اور دیگر اداروں میں تالابندی رہی۔ رکشے اور ٹیکسیاں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے اور اگر ملے تو بغیر ڈرائیور کے۔
اس ساری صورت حال میں بہت سے شہروں میں نظام زندگی بالکل معطل ہوکر رہ گیا تھا۔ احتجاج میں صرف مودی حکومت کی معاشی پالیسیوں اور نام نہاد اقتصادی اصلاحات ہی کو شدید تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا بل کہ سوشل سیکیوریٹی کے مسائل، صحت عامہ کے ایشوز اور کم تن خواہوں کے معاملے پر بھی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ گوکہ یہ ہڑتال کرناٹکا اور کیرالہ سمیت اُن ریاستوں میں ہوئی جہاں بھارتی اپوزیشن کا اثرورسوخ زیادہ ہے، لیکن اس کے اثرات مودی حکومت کے زیراثر علاقوں میں بھی محسوس کیے گئے۔ حکومت نے مختلف علاقوں میں ہڑتال کے پیش نظر تعلیمی ادارے بند کردیے تھے۔ جن علاقوں میں ہڑتال نہیں ہوئی وہاں کے لوگ بھی اس معاملے پر بحث و مباحثہ کرتے نظر آئے۔
ہڑتالیوں سے مختلف علاقوں میں خطاب کرتے ہوئے ٹریڈ یونینز کے راہ نماؤں نے مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ صرف بیان بازی کے بجائے اپنی معاشی پالیسیوں کو حقیقی معنوں میں عوام دوست اور غریب نواز بنائے۔ اس ہڑتال کے دوران ٹریڈیونینز کے نمائندوں نے بھارتی حکومت کو مطالبات کی فہرست بھی پیش کی جس میں مختلف تجاویز کے ساتھ ساتھ کم ازکم تن خواہ 18 ہزار روپے کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یونیورسل سوشل سیکیوریٹی دینے اور ریلوے، دفاعی پیداوار کے اداروں اور انشورنس کے محکمے میں غیرملکی سرمایہ کاری پر پابندی لگانے اور پینشن کی شرح کم ازکم 3 ہزار روپے کرنے کے بھی مطالبات قابل ذکر تھے۔
مظاہرین کی جانب سے بتائے گئے اعدادوشمار کے مطابق یہ دنیا میں اب تک کی جانے والی سب سے بڑی ہڑتال تھی، جس نے قومی معیشت کو ایک اندازے کے مطابق 180 ارب روپے کا دھچکا لگایا۔ گوکہ ہڑتال شروع ہونے سے پہلے بھارتی حکومت نے کچھ مصنوعی اقدامات اور وقتی اعلانات کرکے ٹریڈ یونینوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور بھارتی وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے محنت کشوں کی کم از کم تن خواہ 246 روپے روزانہ سے بڑھاکر 350 روپے کرنے کا اعلان بھی کیا، لیکن مودی سرکار اپنے اس حربے میں بھی ناکام رہی اور مختلف بھارتی شہروں کے تجارتی اداروں کی تالابندی نے مودی سرکار کی غلط پالیسیوں، ناکامیوں اور من پسند فیصلوں پر ''ہم نہیں مانتے'' کا طمانچہ رسید کردیا۔ ٹریڈیونینز کا مطالبہ تھا کہ کم ازکم اجرت 690 روپے روزانہ کی جائے۔
انڈین نیشنل ٹریڈ یونین کانگریس کے نائب صدر اشوک سنگھ نے کہا کہ مودی کہتے ہیں کہ میری لڑائی غربت کے خلاف ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اُن کی لڑائی ملک کے غریبوں کے ساتھ ہے۔
مغربی بنگال میں کچھ ایسے مظاہرین کو پولیس نے گرفتار کیا جنھوں نے حکومت کے مطابق احتجاج کو پُرتشدد بنانے کی کوشش کی۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ ان لوگوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ مجموعی طور پر ٹریڈ یونینز کی یہ ہڑتال ''بھارت بند'' پُرامن اور کام یاب رہی۔ بھارتی میڈیا نے دکھایا کہ ہزاروں بسیں اپنے اپنے ٹرمینلز پر کھڑی رہیں، ٹرینوں کی آمدورفت بھی بری طرح متاثر ہوئی، آسام، اُترپردیش اور دیگر علاقوں میں ہڑتال کے حامیوں نے ریلوے ٹریک پر رکاوٹیں ڈال کر ریلوے ٹریفک کی روانی کو روک دیا۔
گذشتہ سال بھی 2 ستمبر کو ایسی ہی ہڑتال کی گئی تھی۔ تاہم اُس میں شریک افراد کی تعداد اس سال کی نسبت خاصی کم تھی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مودی نے حکومت سنبھالنے سے قبل ملکی معیشت کو بھرپور ترقی دینے کے وعدے کیے تھے، لیکن ٹریڈیونینز کے راہ نماؤں کے مطابق مودی نے اپنا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔ ظاہری طور پر کچھ اقدامات ضرور کیے گئے، لیکن ایسا نہیں ہوا کہ غریبوں کی زندگیوں میں کوئی انقلاب آگیا ہو۔
2 ستمبر کی ملک گیر ہڑتال میں چند ایک مودی کی حمایتی یونینوں کو چھوڑکر بھارت کی تمام مرکزی ٹریڈ یونینز اور ان کی ذیلی تنظیموں نے بھرپور شرکت کی، اُن سب کی متفقہ رائے تھی کہ مودی سرکار کی غلط معاشی پالیسیوں اور دکھاوے کے اقدامات کی وجہ سے ٹریڈ یونینز اور ان سے وابستہ کروڑوں لوگ شدید خطرے میں ہیں۔
بھارت میں اس تاریخی ہڑتال اور ٹریڈ یونینز کے احتجاج کو پورے بھارت میں دیکھا گیا، لیکن یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا مودی حکومت اس کا نوٹس لے گی؟ سیدھا سا جواب ہے کہ دنیا بھر میں ہر بات میں خود کو صحیح سمجھنے والی حکومت اس کا نوٹس لینے کی اخلاقی جرات نہیں کرے گی۔ ہڑتال ختم ہوئی تو بات ختم ہوئی، بھارتی حکم راں اور اس کے مشیر اقتدار کے نشے میں دھت اور انتہاپسندوں کی انتہاپسندی کے سائے تلے اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کی کوششیں کرتے رہیں گے، کیوںکہ مودی حکومت کی سرشت میں اپنی غلطی کو ماننا ہے ہی نہیں جس کا مظاہرہ وہ ہر جگہ کرتی رہی ہے۔
دنیا بھر میں لگی آگ کو بجھانے کی ٹھیکے دار بننے والی مودی سرکار اپنے دیس میں محرومیوں، زیادتیوں، غلط پالیسیوں اور من مانیوں کی وجہ سے لگی آگ کو صحیح طرح بجھا پائے گی یا نہیں، اس کا فیصلہ آئندہ مہینوں میں ہوجائے گا۔ ورنہ آئندہ انتخابات میں بھارتی عوام مودی کا حساب بے باق کردیں گے۔