شام میں امریکی فورسز کی بمباری سے 83 شامی فوجی ہلاک 100 زخمی

 بمباری شہر دیرالزور میں ایئرپورٹ کے قریب کی گئی، جنگی طیارے عراقی سرحد کی طرف سے آئے تھے، روسی جنرل


AFP September 18, 2016
 بمباری شہر دیرالزور میں ایئرپورٹ کے قریب کی گئی، جنگی طیارے عراقی سرحد کی طرف سے آئے تھے، روسی جنرل، فوٹو؛ فائل

امریکی اتحادی فوج کی شام میں بمباری کے نتیجے میں 83 شامی فوجی ہلاک اور 100 زخمی ہوگئے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی قیادت میں اتحادی فورسز نے شامی شہر دیرالزور میں ایئرپورٹ کے قریب شامی فوج کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا جس میں 83 فوجی ہلاک اور 100 زخمی ہوگئے۔ امریکی اتحادی فوج کی بمباری کے عین وقت روسی جنگی طیارے نے بھی اسی علاقے میں بمباری کررہے تھے۔

ذرائع کے مطابق بمباری سے داعش کیلیے ''جبل تھرڈا'' مقام پر قبضہ کرنے کیلیے راستہ صاف ہوگیا ہے۔ اس سے قبل کہا گیا تھا کہ بمباری میں صرف 30 شامی فوجی مارے گئے ہیں۔ دوسری طرف روسی وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ امریکی بمباری میں 62 شامی فوجی مارے گئے ہیں۔ روسی جنرل ایگور کے مطابق بمباری دو ایف 16 اور دو اے 10 جنگی طیاروں کی مدد سے کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ جنگی طیارے امریکی قیادت میں کام کرنے والی اتحادی فورسز کے تھے۔

روسی جنرل نے کہا کہ امریکی اتحادی جنگی طیارے عراقی سرحد کی طرف سے آئے تھے۔ شامی فوج کے جنرل نے کہا کہ امریکی اتحادی فوج کی بمباری سے داعش کے لیے دیرالزور ایئرپورٹ پر قبضہ کرنے کیلیے آسانی ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ حملے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی شدت پسند گروپوں کے ساتھ ہیں، حملہ کھلی جارحیت ہے۔ امریکی فوج نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دیرالزور کے قریب داعش کے 5 سپلائی روٹس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

امریکی فوج کے ترجمان نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ رقہ شہر اور دیگر شامی علاقوں میں بھی بمباری کی گئی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق شامی فوج کے دو ٹھکانوں پر 3 فضائی حملے کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں شام میں جنگ بندی نافذالعمل ہونے کے چھٹے دن بعد بھی امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے الزام عائد کیا ہے کہ شام میں جنگ بندی معاہدے کو باغی اپنی تنظیم نو کیلیے استعمال کر رہے ہیں۔

روسی صدر نے شام میں جاری جنگ بندی کی ڈیل کی تفصیلات نہ عام کرنے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ روسی فوج کے جنرل نے کہا ہے کہ اگر شام میں جنگ بندی ناکام ہوتی ہے تو اس کا ذمے دار امریکا ہوگا۔ اس معاہدے کے تناظر میں امریکا اور روس ایک دوسرے پر الزامات بھی عائد کر رہے ہیں اور خدشات ہیں کہ یہ جنگ بندی معاہدہ ناکام ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل امریکا کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ شامی حکومت جنگ زدہ علاقوں میں امدادی سامان کی رسائی کو روک رہی ہے۔

روس نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا نے اعتدال پسند باغی تنظیموں کو شدت پسند تنظیموں سے الگ نہ کیا تو وہ ان پر دوبارہ سے بمباری شروع کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ باغی تنظیموں اور حکومتی دستوں کے مابین جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ ادھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام میں جنگ بندی کی توثیق کیلیے بلایا گیا ہنگامی اجلاس بھی منسوخ کر دیا ہے۔ اجلاس میں شام میں روس اور امریکا کے درمیان طے پایا جانے والا معاہدہ زیربحث آنا تھا۔

اقوام متحدہ میں امریکی مشن کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کو تفصیلات سے آگاہ کرنے کے طریقہ کار پر روس کے ساتھ اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ نیٹ نیوز کے مطابق شام میں باغی گروپ کے سینئر رہنما نے کہا کہ صدر بشارالاسد کی فوج حلب میں امدادی سامان کو آنے سے روک رہی ہے اور حملے کرنے میں بھی مصروف ہے جس سے جاری جنگ بندی ختم ہوسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں