امریکا کیری لوگر بل کے تحت پاکستان میں طویل مدتی ترقیاتی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام
بل کے تحت پاکستان کو 5سال کے دوران7.5ارب ڈالرامداد ملنا تھی، ستمبر2015تک صرف 1.8ارب ڈالر ملے
امریکا قلیل مدتی سیاسی ترجیحات کے باعث 7.5ارب ڈالر کے کیری لوگر بل کے تحت پاکستان میں اپنے طویل مدتی ترقیاتی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا۔
یوایس ایڈ آفس آف انسپکٹر جنرل کی ''مقابلہ جاتی ترجیحات کے باعث یو ایس ایڈ پاکستان میں ای پی پی اے کے تحت طویل مدتی ترقی حاصل کرنے میں ناکام رہی'' کے عنوان سے8ستمبر کوجاری کردہ رپورٹ کے مطابق 7.5ارب ڈالر کے پانچ سالہ کیری لوگربل کے تحت گزشتہ سال ستمبر تک پاکستان کو صرف1.8ارب ڈالر کی ادائیگیاں کی گئیں، ایپا ایکٹ کو عام طور پر کیری لوگر برمن ایکٹ بھی کہا جاتا ہے۔یو ایس ایڈ آفس آف انسپکٹر جنرل نے رپورٹ میں امریکی بیرونی امداد کے پروگرام اور آپریشنز کا یو ایس ایڈ او آئی جیز کے تحت آزادانہ جائزہ پیش کیاہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے قلیل مدتی سیاسی اسٹریٹجک مقاصد کابجٹ اور پروگرامنگ یو ایس ایڈ کے طویل مدتی ترقیاتی منصوبہ بندی سے متصادم ہے، ایپا نے امدادی پروگراموں کے حوالے سے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو بجٹ اور پراجیکٹس کے حوالے سے فیصلہ سازی کا ذمے دار قرار دیا ہے تاہم اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اوریو ایس ایڈ ترجیحات کے حوالے سے باہم مقابلہ بازی کر رہے تھے اور بالآخر یو ایس ایڈ کو اپنے طویل مدتی مقاصد کو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے قلیل مدتی مقاصد میں ضم کرنا پڑا۔
رپورٹ کے مطابق یو ایس ایڈ کے اسٹاف کو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے اختلافات کے باعث اور اس کے فیصلے نہ ماننے پر پاکستان سے نکال دیا گیا۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق یو ایس ایڈ کے پروگرامز ایپا کلے ترقیاتی مقاصد حاصل کرنے میں ناکا م رہے، ایپا کے تحت دیے گئے30فیصد آڈٹ شدہ فنڈز اپنے مقررہ اہداف حاصل نہیں کرسکے جبکہ اس کے علاوہ 55فیصد فنڈزجزوی طور پر ہی اپنے مقاصد حاصل کر سکے۔ رپورٹ میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو زیادہ ترمسائل کا ذمے دار قراردیا گیا ہے جو اس وقت کی امریکی وزیرخارجہ اور موجودہ صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کے زیرسایہ کام کر رہا تھا۔
یو ایس ایڈ کی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مینڈیٹ کی حد میںکاوشوں کے باوجودپاکستان میں طویل مدتی ترقیاتی مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔ ایپا ایکٹ کے تحت پاکستان کو 5سال کے دوران7.5ارب ڈالر کی سول امداد ملنی تھی، ستمبر2014تک امریکی کانگریس نے4.5ارب ڈالر کی منظوری دی تھی جس میں سے یو ایس ایڈ پاکستان کو3.9 ارب ڈالرملے اور ان3.9ارب ڈالر میں سے ستمبر 2015تک اصل ادائیگی صرف1.8ارب ڈالر رہی۔ رپورٹ کے مطابق اس طرح فریقین میں بداعتمادی مزید بڑھی جبکہ پاکستان کو کئی ارب ڈالر امداد دینے کے بجائے امریکاکا مطمح نظر شکوک شبہات کو بڑھانا ہی رہا۔
پروگرام پرعملدرآمد میں پاک امریکاسیاسی تناؤ، پاکستان کے حوالے سے امریکاکی منفی سوچ اورپاکستانی وزارت داخلہ کی جانب سے بین الاقوامی این جی اوز کی رجسٹریشن پروگرام میں تبدیلیاں بڑی رکاوٹیں ثابت ہوئیں۔پاک امریکاسیاسی تناؤ میں اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد آپریشن میں ہلاکت، لاہور میں دو شہریوں کی امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں ہلاکت اور نیٹو فورسز کی شیلنگ سے24پاکستانیوںکی شہادت نے بھی اہم کردارادا کیا۔ رپورٹ کے مطابق امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ہدایات کے مطابق یو ایس ایڈ پاکستان نے اسٹریٹجک ڈیولپمنٹ پلان مرتب نہیں کیا جبکہ یو ایس ایڈ کی پاکستان میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اٹھائے گئے اقدامات کواسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے پاکستان کے توانائی شعبے میں توجہ نے متاثر کیا۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے قلیل مدتی سیاسی اسٹریٹجک گولز بھی یو ایس ایڈ کے طویل مدتی پروگراموں سے مطابقت نہیں رکھتے،حتی کہ جب اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اپنا ابتدائی ترقیاتی پروگرام دیا تو اس وقت کی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہلیری کلنٹن نے پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر اور آبپاشی کے بڑے منصوبوں کا اعلان کر دیا۔مقاصد کے حصول کیلیے یو ایس ایڈ کیلیے کنٹری ڈیولپمنٹ کو آپریشن اسٹریٹجی بھی نہیں بنائی بنائی گئی جبکہ امریکی فنڈنگ میں اضافے نے بھی یو ایس ایڈ کے منصوبوں کے ڈیزائن اور ان منصوبوں کو متعلقہ اداروں کو دینے کی صلاحیت کو متاثر کیا، اسٹاف کی کمی اور پاکستان میں بڑھتے تناؤ کے باعث بھی پروگرام مزید متاثر ہوا جس سے1.9ارب ڈالر کے ناقابل خرچ فنڈز بن گئے۔
ایپا نے پاکستان کیلیے ایک متوازن اسٹریٹجی بنانے کا مطالبہ کیا تاہم اس کے آدھے سے زیادہ اکنامک سپورٹ فنڈز امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے توانائی اور استحکام کے منصوبوں کو دیے جاتے ہیں اور ان میں زیادہ تر منصوبوں کا تعلق خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں سے ہے۔
سابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے رپورٹ پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام کے پاس پاکستان میں طویل مدتی مقاصد حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں قلیل مدتی مقاصدحاصل کرکے ان کی رپورٹ امریکی کانگریس کو سہ ماہی اورششماہی بنیادوں پر پیش کی جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکام سے ملاقاتوں میں انھوں نے سول امدادکا معاملہ اٹھایا تھا اورمطالبہ کیا تھا کہ کئی ملین ڈالرکے کیری لوگر بل کی رقم کودیامر بھاشا ڈیم یا کسی اور منصوبے میں لگایا جائے۔ ہم نے کہا تھا کہ پاکستان کو امداد کی نہیں عالمی مارکیٹوں تک رسائی کی ضرورت ہے۔
یوایس ایڈ آفس آف انسپکٹر جنرل کی ''مقابلہ جاتی ترجیحات کے باعث یو ایس ایڈ پاکستان میں ای پی پی اے کے تحت طویل مدتی ترقی حاصل کرنے میں ناکام رہی'' کے عنوان سے8ستمبر کوجاری کردہ رپورٹ کے مطابق 7.5ارب ڈالر کے پانچ سالہ کیری لوگربل کے تحت گزشتہ سال ستمبر تک پاکستان کو صرف1.8ارب ڈالر کی ادائیگیاں کی گئیں، ایپا ایکٹ کو عام طور پر کیری لوگر برمن ایکٹ بھی کہا جاتا ہے۔یو ایس ایڈ آفس آف انسپکٹر جنرل نے رپورٹ میں امریکی بیرونی امداد کے پروگرام اور آپریشنز کا یو ایس ایڈ او آئی جیز کے تحت آزادانہ جائزہ پیش کیاہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے قلیل مدتی سیاسی اسٹریٹجک مقاصد کابجٹ اور پروگرامنگ یو ایس ایڈ کے طویل مدتی ترقیاتی منصوبہ بندی سے متصادم ہے، ایپا نے امدادی پروگراموں کے حوالے سے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو بجٹ اور پراجیکٹس کے حوالے سے فیصلہ سازی کا ذمے دار قرار دیا ہے تاہم اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اوریو ایس ایڈ ترجیحات کے حوالے سے باہم مقابلہ بازی کر رہے تھے اور بالآخر یو ایس ایڈ کو اپنے طویل مدتی مقاصد کو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے قلیل مدتی مقاصد میں ضم کرنا پڑا۔
رپورٹ کے مطابق یو ایس ایڈ کے اسٹاف کو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے اختلافات کے باعث اور اس کے فیصلے نہ ماننے پر پاکستان سے نکال دیا گیا۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق یو ایس ایڈ کے پروگرامز ایپا کلے ترقیاتی مقاصد حاصل کرنے میں ناکا م رہے، ایپا کے تحت دیے گئے30فیصد آڈٹ شدہ فنڈز اپنے مقررہ اہداف حاصل نہیں کرسکے جبکہ اس کے علاوہ 55فیصد فنڈزجزوی طور پر ہی اپنے مقاصد حاصل کر سکے۔ رپورٹ میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو زیادہ ترمسائل کا ذمے دار قراردیا گیا ہے جو اس وقت کی امریکی وزیرخارجہ اور موجودہ صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کے زیرسایہ کام کر رہا تھا۔
یو ایس ایڈ کی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مینڈیٹ کی حد میںکاوشوں کے باوجودپاکستان میں طویل مدتی ترقیاتی مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔ ایپا ایکٹ کے تحت پاکستان کو 5سال کے دوران7.5ارب ڈالر کی سول امداد ملنی تھی، ستمبر2014تک امریکی کانگریس نے4.5ارب ڈالر کی منظوری دی تھی جس میں سے یو ایس ایڈ پاکستان کو3.9 ارب ڈالرملے اور ان3.9ارب ڈالر میں سے ستمبر 2015تک اصل ادائیگی صرف1.8ارب ڈالر رہی۔ رپورٹ کے مطابق اس طرح فریقین میں بداعتمادی مزید بڑھی جبکہ پاکستان کو کئی ارب ڈالر امداد دینے کے بجائے امریکاکا مطمح نظر شکوک شبہات کو بڑھانا ہی رہا۔
پروگرام پرعملدرآمد میں پاک امریکاسیاسی تناؤ، پاکستان کے حوالے سے امریکاکی منفی سوچ اورپاکستانی وزارت داخلہ کی جانب سے بین الاقوامی این جی اوز کی رجسٹریشن پروگرام میں تبدیلیاں بڑی رکاوٹیں ثابت ہوئیں۔پاک امریکاسیاسی تناؤ میں اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد آپریشن میں ہلاکت، لاہور میں دو شہریوں کی امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں ہلاکت اور نیٹو فورسز کی شیلنگ سے24پاکستانیوںکی شہادت نے بھی اہم کردارادا کیا۔ رپورٹ کے مطابق امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ہدایات کے مطابق یو ایس ایڈ پاکستان نے اسٹریٹجک ڈیولپمنٹ پلان مرتب نہیں کیا جبکہ یو ایس ایڈ کی پاکستان میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اٹھائے گئے اقدامات کواسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے پاکستان کے توانائی شعبے میں توجہ نے متاثر کیا۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے قلیل مدتی سیاسی اسٹریٹجک گولز بھی یو ایس ایڈ کے طویل مدتی پروگراموں سے مطابقت نہیں رکھتے،حتی کہ جب اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اپنا ابتدائی ترقیاتی پروگرام دیا تو اس وقت کی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہلیری کلنٹن نے پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر اور آبپاشی کے بڑے منصوبوں کا اعلان کر دیا۔مقاصد کے حصول کیلیے یو ایس ایڈ کیلیے کنٹری ڈیولپمنٹ کو آپریشن اسٹریٹجی بھی نہیں بنائی بنائی گئی جبکہ امریکی فنڈنگ میں اضافے نے بھی یو ایس ایڈ کے منصوبوں کے ڈیزائن اور ان منصوبوں کو متعلقہ اداروں کو دینے کی صلاحیت کو متاثر کیا، اسٹاف کی کمی اور پاکستان میں بڑھتے تناؤ کے باعث بھی پروگرام مزید متاثر ہوا جس سے1.9ارب ڈالر کے ناقابل خرچ فنڈز بن گئے۔
ایپا نے پاکستان کیلیے ایک متوازن اسٹریٹجی بنانے کا مطالبہ کیا تاہم اس کے آدھے سے زیادہ اکنامک سپورٹ فنڈز امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے توانائی اور استحکام کے منصوبوں کو دیے جاتے ہیں اور ان میں زیادہ تر منصوبوں کا تعلق خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں سے ہے۔
سابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے رپورٹ پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام کے پاس پاکستان میں طویل مدتی مقاصد حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں قلیل مدتی مقاصدحاصل کرکے ان کی رپورٹ امریکی کانگریس کو سہ ماہی اورششماہی بنیادوں پر پیش کی جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکام سے ملاقاتوں میں انھوں نے سول امدادکا معاملہ اٹھایا تھا اورمطالبہ کیا تھا کہ کئی ملین ڈالرکے کیری لوگر بل کی رقم کودیامر بھاشا ڈیم یا کسی اور منصوبے میں لگایا جائے۔ ہم نے کہا تھا کہ پاکستان کو امداد کی نہیں عالمی مارکیٹوں تک رسائی کی ضرورت ہے۔