نواز شریف کا جنرل اسمبلی سے خطاب
نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سیشن شروع ہو چکے ہیں
نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سیشن شروع ہو چکے ہیں۔ ہر سال ستمبر کے آخری ہفتے میں یہ اجلاس معمول کی کارروائی ہوتے ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جنرل اسمبلی کی یہ سالانہ میٹنگیں، جن میں عمومی طور پر کئی ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم شریک ہوتے ہیں، پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے دکھ درد اور مسائل حل کر سکتی ہیں تو یہ خیال غلط ہو گا۔
ہاں ان سیشنوں میں عالمی مقتدرین کی اجتماعی بیٹھک اور گپ شپ کا اچھا انتظام ہوتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم جناب محمد نواز شریف بھی نیویارک پہنچ چکے ہیں اور ان کے ساتھ کئی اخبار نویس بھی۔ تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد جناب نواز شریف جنرل اسمبلی سے چوتھی بار خطاب کرنے کا اعزاز حاصل کریں گے۔ ان کا خطاب پرسوں یعنی 21 ستمبر 2016ء کو ہو گا۔ پاکستانیوں، بھارتیوں اور مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کی نظریں اسی خطاب پر مرتکز ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی تو میدان سے فرار ہوتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ خبریں آ رہی ہیں کہ جنرل اسمبلی میں مودی کی نمایندگی بھارتی وزیرِخارجہ سشما سوراج کریں گی۔ اندازہ تو یہی تھا کہ ہمارے وزیراعظم مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کے پس منظر میں بھارتی وزیراعظم کو جنرل اسمبلی کی کسی سائیڈ لائن پر آمنے سامنے بٹھا کر کھری کھری سنائیں گے لیکن غنیم ہی میدان سے بھاگ گیا ہے۔
اندازہ یہی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے جنرل اسمبلی سے خطاب میں مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں پر بھارت کے تازہ ہلاکت خیز مظالم کو مرکزی مقام حاصل رہے گا۔ نیویارک روانہ ہونے سے قبل وزیراعظم صاحب نے اسلام آباد میں سپہ سالارِ پاکستان اور مظفر آباد میں کشمیری قیادت سے جو فرداً فرداً ملاقاتیں کی ہیں، یہ منظر بھی زبان حال سے بتا رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہی پر ان کی تقریر کا فوکس ہو گا کہ بھارتی سامراج نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی ہر حد عبور کر لی ہے۔ گزشتہ 80 دنوں سے مقبوضہ کشمیر کے تمام اضلاع میں سخت کرفیو نافذ ہے جس نے زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ پیلٹ گنز سے ایک ہزار کے قریب کشمیری بچے بچیاں یا تو مستقل اندھے ہو چکے ہیں یا وہ نیم نابینا ہونے کے عذاب میں مبتلا کر دیے گئے ہیں۔
آٹھ جولائی کو بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں کشمیری مجاہد برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے لے کر اب تک سو کشمیریوں کو بھارتی فوجی ذبح کر چکے ہیں۔ ایسے میں نیویارک روانہ ہونے سے قبل جناب نواز شریف کا یہ کہنا کہ ''اقوامِ متحدہ میں مسئلہ کشمیر کے حق میں بھرپور طریقے سے آواز اٹھاؤں گا'' دراصل کشمیریوں اور پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے۔ یہ آواز اٹھانا مگر آسان نہیں ہو گا کیونکہ امریکا نے نہایت سفاکی، ناانصافی اور بے حسی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے گزشتہ 80 دنوں میں ایک بار بھی کشمیر میں تازہ بھارتی استبداد اور زیادتیوں کی مذمت نہیں کی ہے۔ اس کے برعکس انھی ایام میں امریکا نے آگے بڑھ کر بھارت سے نیا دفاعی رشتہ بھی قائم کیا ہے جو ظاہر ہے پاکستان مفادات کے منافی ہے۔
جناب نواز شریف یقینا اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مظلوم و مقہور کشمیریوں کی آواز بنیں گے کہ ایسا کرنا پاکستان کا تاریخی، اخلاقی اور قانونی فریضہ بھی ہے اور قائداعظم کے آدرشوں پر عمل پیرا ہونے کا ایک موقع بھی۔ یہ بات بھی مگر یاد رہنی چاہیے کہ اس آواز کو مدہم اور بے اثر کرنے کے لیے بھارت نے ساری دنیا میں پاکستان کے خلاف سفارتی جارحیت شروع کر رکھی ہے۔ مثال کے طور پر پندرہ اگست 2016ء کو دہلی کے لال قلعے میں نریندر مودی کی آزاد کشمیر، گلگت اور بلوچستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور بعد ازاں ان کا جی ٹونٹی اور ''آسیان'' کے سربراہی اجلاس میں شریک ہو کر، پاکستان کا نام لیے بغیر، پاکستان کے خلاف الزامات کی بارش۔
پاکستان اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اے ایس دولت ایسے اہم بھارتی کے مذکورہ بالا انٹرویو کو بہترین اسلوب میں ایکسپلائیٹ کر سکتا تھا مگر ایسا بوجوہ نہ کیا گیا۔ اسی دوران جنیوا میں پاکستانی مستقل مندوب، تہمینہ جنجوعہ، کے کشمیری بیانئے کے خلاف بھارتی مندوب اجیت کمار نے جو ہرزہ سرائی کی ہے، اور بلوچستان کے بارے میں جو دھول اڑائی گئی ہے، پوری طاقت اور جارحانہ دلائل سے ان کا جواب دیا جانا چاہیے تھا۔ پانیوں کو مزید گدلا کرنے کے لیے بھارت کل یعنی 20 ستمبر 2016ء کو دہلی میں ستمبر 65ء کی پاک بھارت جنگ کی یاد میں کئی بوڑھے اور سالخوردہ بھارتی جوانوں اور افسروں کو تمغے اور نقد انعامی رقوم دے رہا ہے۔ اس کام کے لیے مودی حکومت نے دو سو ملین روپے مختص کیے ہیں۔
مقصد بھارتیوں کو یہ باور کرانا ہے کہ بھارت 65ء کی جنگ ستمبر میں پاکستان پر بالا دست رہا تھا۔ ''یہ کام'' پچاس برس گزرنے کے بعد مودی حکومت کی طرف سے پہلی بار بطور شرارت کیا جا رہا ہے۔ مطلب فقط یہ ہے کہ پاکستان کو دباؤ میں رکھا جائے۔ غالباً اسی لیے معروف بھارتی سیاستدان اور اتر پردیش میں ''بھوجن سماج پارٹی'' کی سربراہ، مایاوتی، نے کہا ہے کہ کشمیر کے حالات سے تنگ آئے اور بھارت بھر میں بار بار ناکامیوں کا منہ دیکھنے والے نریندر مودی حالات کا رُخ پھیرنے کی غرض سے پاکستان پر حملہ بھی کر سکتے ہیں۔ ان حالات میں وزیراعظم پاکستان جناب محمد نواز شریف کا 21 ستمبر 2016ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہو کر مقبوضہ کشمیر کے موضوع پر خطاب کرنا اُن کے اعصاب کی آزمائش بھی ہے اور ان کے مشیروں و تقریر نویسوں کی لیاقت و قابلیت کا امتحان بھی۔ ہمیں قوی امید ہے کہ وہ عالمی برادری کے رُوبرو سرخرو ہو کر اہلِ پاکستان اور کشمیریوں کو شاد کام کریں گے۔