جالب اور شوقِ آوارگی

’’حدِ نگاہ تک یہاں غبار ہی غبار ہے، یہ کیا جگہ ہے دوستو! یہ کون سا دیار ہے‘‘

غبار اتنا بڑھ گیا ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ ''حدِ نگاہ تک یہاں غبار ہی غبار ہے، یہ کیا جگہ ہے دوستو! یہ کون سا دیار ہے''۔ یہ دیار اپنا وطن ہے، اب تو غبار میں رہتے برسوں بیت گئے اور غبار کم ہونے کے بجائے بڑھتا رہا، بڑھتا رہا، حتیٰ کہ حدِ نگاہ تک پہنچ گیا۔ سو آج جالب کی بات مانتے ہوئے کالم لکھوںگا۔ جالبؔ کہتے ہیں:

چلو دیار نغمہ و شباب میں پناہ لیں
سمٹ کے آگئی ہیں دل میں، سب جہاں کی تلخیاں
چلو غزل کے شہر میں، چلو طرب کے شہر میں
چلو نگاہ کو نگاہ کی سنائیں داستاں

تو چلو آج جالب کے ساتھ اس کے شہر غزل میں چلتے ہیں۔ جالب کا پہلا مجموعہ کلام 1957 میں شایع ہوا تھا۔ ''برگِ آوارہ'' مکتبہ کارواں لاہور نے اسے شایع کیا تھا اور سرورق حنیف رامے نے بنایا تھا۔ ہجرت کے دکھ لیے جالب کی شاعری کی ابتدا ہوئی تھی۔ نئے دیس! خوابوں کے دیس میں جب سارے خواب چکنا چور ہوئے تو اپنا چھوڑا ہوا دیس شدت سے یاد آنے لگا۔

محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے
ترے شہر میں اِک جہاں چھوڑ آئے
پہاڑوں کی وہ مست شاداب وادی
جہاں ہم دلِ نغمہ خواں چھوڑ آئے
وہ سبزہ، وہ دریا، وہ پیڑوں کے سائے
وہ گیتوں بھری بستیاں چھوڑ آئے
حسیں پنگھٹوں کا وہ چاندی سا پانی
وہ برکھا کی رُت، وہ سماں چھوڑ آئے
بہت مہرباں تھیں وہ گل پوش راہیں
مگر ہم انھیں مہرباں چھوڑ آئے
یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

حبیب جالبؔ 1951-52 میں بحیثیت شاعر سامنے آچکے تھے۔ ابتدا میں ہی ان کی ایک غزل مقبول عام ہوئی:

دِل کی بات زباں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دِل والے بھی رہتے ہیں
آج وہی ہم سے بیگانے، بیگانے سے رہتے ہیں
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دِل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ، جالبؔ کہتے ہیں

جالب آئے تو بعض احباب نے انھیں اختر شیرانی سے تشبیہ دی۔ مگر جالب نے سفر جاری رکھا۔ ''برگِ آوارہ'' جالب کے پہلے مجموعہ کلام کا نام ہے اور آوارگی ہی ان کا اوڑھنا بچھونا رہی اور اسی آوارگی نے انھیں حبیب جالب بنایا۔

آج اس شہر میں، کل نئے شہر میں، بس اسی لہر میں
اڑتے پتوں کے پیچھے اڑاتا رہا، شوق آوارگی
میں بھی ہوں تری طرح آوارہ و بیکار
اڑتے ہوئے پتے مجھے ہمراہ لیے چل
ہم آوارہ گاؤں گاؤں، بستی بستی پھرنے والے
ہم سے پریت بڑھاکر کوئی مفت میں کیوں غم کو اپنالے

ماں باپ، گھر والے، جالب کی آوارگی سے شدید پریشان رہتے، مگر جالب مجبور تھا، قدرت نے اسے حبیب جالب بنانا تھا۔ سو وہ کراچی سے نکل کر حیدر بخش جتوئی کے پاس حیدرآباد چلا آتا، وہاں سے اپنے یارِ غار شاعر ظہور نظر کے پاس بہاولپور پہنچ جاتا، پھر ملتان اور آخر لاہور، مگر اس کا دل لائل پور میں آباد تھا۔

لائل پور اِک شہر ہے جس میں دل ہے مرا آباد
دھڑکن دھڑکن ساتھ رہے گی اس بستی کی یاد
میٹھے بولوں کی وہ نگری، گیتوں کا سنسار
ہنستے بستے ہائے وہ رستے نغمہ ریز دیار
وہ گلیاں وہ پھول وہ کلیاں رنگ بھرے بازار
میں نے اُن گلیوں پھولوں کلیوں سے کیا ہے پیار
برگ آوارہ میں بکھری ہے جس کی روداد
لائل پور اِک شہر ہے جس میں دل ہے مرا آباد

''لائل پور'' اب فیصل آباد کہلاتا ہے مگر میں اسے لائل پور ہی کہتا ہوں۔ اسی ''دل آباد شہر میں رقیب کہتا: اس کا نام مت لینا ورنہ'' تو جالب کہتا


لوگ کہتے ہیں ترا نام نہ لوں
میں تجھے ماہتاب کہہ لوں گا

اور کبھی شاعر اسے ''نزہتِ مہتاب'' تو کبھی ''نازشِ خورشید'' کہہ لیتا۔

اے نزہتِ مہتاب ترا غم ہے مری زیست
اے نازشِ خورشید، ترا غم ہے مری جاں

اسی لائل پور کے قریب ڈچکوٹ نامی چھوٹا سا شہر آباد ہے۔ جالب کی آوارگی اسے وہاں بھی لے گئی:

ہائے ڈچکوٹ کی مدھر گلیاں
میں کبھی اس طرح سے گزرا تھا

چلیں پھر ''دل آباد'' میں چلتے ہیں جہاں رنگ بکھرے ہیں پھول کھلے ہیں مگر غبار اور شرار بھی ہیں اور شاعر کہہ رہا ہے:

تو رنگ ہے، غبار ہیں تیری گلی کے لوگ
تو پھول ہے، شرار ہیں تیری گلی کے لوگ
پھر جا رہا ہوں، تیرے تبسم کو لوٹ کر
ہر چند ہوشیار ہیں، تیری گلی کے لوگ
اس کے آنچل کو چھورہی ہے صبا
وائے قسمت کہ میں صبا نہ ہوا
...
رہ گزاروں میں نور بکھرا ہے
وہ اِدھر سے گزر گئے ہوںگے
کچھ فضاؤں میں انتشار سا ہے
ان کے گیسو بکھر گئے ہوںگے
...
کبھی تو مہرباں ہوکر بلالیں
یہ مہوش ہم فقیروں کی دعا لیں
نہ جانے پھر یہ رُت آئے نہ آئے
جواں پھولوں کی کچھ خوشبو چرالیں
ہماری بھی سنبھل جائے گی جالبؔ
وہ پہلے اپنی زلفیں تو سنبھالیں
نکلنے کو ہے وہ مہتاب گھر سے
ستاروں سے کہو، نظریں جھکالیں
زمانہ تو یونہی روٹھا رہے گا
چلو جالبؔ انھیں چل کر منالیں
پھر ایک ایسا وقت آیا کہ محبوب نے کہا ''اس شہر کو چھوڑدو'' محبوب کا حکم سر آنکھوں پر۔ شاعر نے محبوب کے حکم سر تسلیم خم کردیا۔
پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیںگے
ہم ترا شہر چھوڑ جائیںگے
دور افتادہ بستیوں میں کہیں
تیری یادوں سے لُو لگائیںگے
شمع ماہ و نجوم گل کرکے
آنسوؤں کے دیے جلائیںگے
مگر شہر چھوڑنے سے پہلے شاعر نے محبوب سے ایک التجا کردی:
آخری بار اِک غزل سن لو
آخری بار ہم سنائیںگے
اور پھر یہ کہہ کر شہر چھوڑ دیا
صورتِ موجۂ ہوا جالبؔ
ساری دنیا کی خاک اڑائیںگے
شاعر لاہور پہنچا۔ لاہور بڑا مشکل شہر ہے خون کی مشکیں مانگتا ہے پھر مانتا ہے نئے نئے ستم ڈھاتا ہے آزماتا ہے پھر پہچانتا ہے شاعر بھی اپنی لگن کا پکا، ارادے میں پختہ، ایک بار پھر لاہور چھوڑدیا اور جاتے جاتے کہہ گیا:
اب کس پہ نیا تم ستم ایجاد کروگی
لاہور کی گلیو! مجھے تم یاد کروگی
شاعر ''زخم کھاتا رہا، مسکراتا رہا، شوقِ آوارگی'' مگر اب اسے محبوب کی یاد بری طرح ستارہی تھی۔
اُس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے
جالبؔ چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم
Load Next Story