انکل سام کے دانت
دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ مختلف قسم کے تعلقات میں اگر کوئی ملک امریکا کو کمزور سمجھتا ہے
ریاست متحدہ ہائے امریکا کے بین الاقوامی ممالک کے ساتھ معاملات و تعلقات اپنی پیچیدہ فطرت اورگوناگوں نوعیت کے لحاظ سے عجیب و غریب ہیں۔ امریکا کا عالمی سطح پر کردار پیش منظر میں بالا فہم ہے، جس پر سطحی ہو یا اعلیٰ ذہن ہر ایک اپنے اپنے انداز سے تشریح کرتا ہے، البتہ پس منظر کے وہ حقائق جو انتہائی گمبھیر اور دائمی شکل میں طویل ہونے کے باوجود امریکا کے اصل چہرے کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں، انھیں شاذونادر ہی کوئی کریدتا اور کھوجتا دکھائی دیتا ہے۔
امریکا کا پس منظر ہی وہ دریچہ ہے جہاں سے کوئی بھی یہ بات جان سکتا ہے کہ امریکی ریاستی مشینری اور اس کے زیر اثر عالمی ادارے، کارخانے اور فیکٹریوں کے ذریعے دنیا کے منظرنامے کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق بظاہر انسانی حلیہ رکھنے والے صاحبان ترتیب دراصل قدرتی بشری تقاضوں سے آزاد ہیں اور جن کے نزدیک حضرت انسان کی حیثیت محض اسپرنگ بورڈ اور ٹشوپیپر کی سی ہے۔ دراصل دنیا کی دولت، وسائل اور کارپوریشنوں کے نسل در نسل چلے آرہے مالک مٹھی بھر خاندانوں کا گروہ ہی امریکا کی وہ ڈرائیونگ فورس ہے جس کے حساب کتاب کے مطابق ملنے والی ہدایت کی بدولت امریکا بین الاقوامی تعلقات میں قوموں پر مسلط حیثیت کا مالک بنا ہے۔ امریکی صاحبان ترتیب کا حساب کتاب آج کی موجودہ سائنس اور ہائی ٹیک ٹیکنالوجی کو بھی شرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کے رشتے ناتے، مفادات اور اغراض سب انتہائی پیچیدہ ہیں کیونکہ یہ غیر انسانی ذہن کی کارفرمائیوں کا نتیجہ ہے۔
انسانی شکل میں نظر آنے والی اس غیر انسانی مخلوق اور پراسرار خاندانوں کا قدیم ترین گروہ خود کو ایک ایسے وجود کا تابع سمجھتا ہے جو اپنی سوچ میں خود خدائی قدرت کے مساوی اور متوازی ہے، یعنی اینٹی خدا ہے۔ بھلا یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ خلاف خدا وجود قدرت الٰہی کے ماننے والوں کو برداشت کرے۔ دنیا کی آبادی کو صحت کے نام پر مختلف مہموں اور ادویات کے ذریعے مختصر کرنے اور اپنی مرضی کا انسانی گروہ تشکیل دینے کے لیے قوموں سے تعلقات استوار کرنا اولین ترجیح ہے، تاہم امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے تیسری دنیا کے ممالک سے ان تعلقات کی بنیاد برابری اور بھلائی پر قائم نہیں ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ مختلف قسم کے تعلقات میں اگر کوئی ملک امریکا کو کمزور سمجھتا ہے تو وہ اس کے خلاف مضبوط نکلتا ہے اور اگر کوئی امریکا کو مضبوط سمجھتا ہے تو وہ اس کے لیے کمزور نکلتا ہے۔ بات دشمنوں کی ہو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا کو اپنے دشمنوں سے کسی قسم کا کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا اور وہ سو جنگیں بھی لڑنے کے لیے تیار ہے جب کہ اس روش کے باعث درحقیقت امریکا معاشی اور سماجی سطح پر انتہائی کھوکھلا ہوچکا ہے۔
اس کے باوجود یہ حد سے زیادہ خود اعتمادی اسے اکثر اپنے دشمنوں سے غافل کر دیتی ہے اور ریاست امریکا بظاہر جیت کر بھی شکست خوردہ نتائج کی پشیمانی میں مبتلا رہا ہے۔ امریکا کے منصوبے وہ نہیں ہوتے جو وہ بتاتا ہے کیونکہ اس کے اصل منصوبوں پر تاریکی کا دبیز پردہ پڑا رہتا ہے جو اسے خفیہ رکھتا ہے اور انھیں تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی سیاہ رات میں چیونٹی کو تلاش کرے۔ یہی مثال مختلف میدانوں میں امریکی کامیابیوں کی ہے جن کا ایک بڑا حصہ دراصل فیبریکیٹڈ ہے۔ جنگ کی بنیاد دھوکا دہی پر ہوتی ہے۔
امریکا جب حملے کے قابل ہوتا ہے، اس وقت وہ خود کو یہ ظاہر کرتا ہے کہ جیسے وہ اس کے قابل نہیں، البتہ جو اسے پرامن سمجھ رہے ہوتے ہیں ان پر امریکا ایک جارح حملہ آور کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ اکثر ریاستوں کو تعلقات اور لین دین میں امریکا ان سے قریب نظر آتا ہے، تاہم درحقیقت وہ ان سے بہت دور ہوتا ہے اور جو ممالک امریکا کو اپنے سے دور سمجھ رہے ہوتے ہیں، حقیقتاً وہ ان سے بہت قریب ہوتا ہے۔ یہ امریکا کی پرانی عادت ہے کہ جب اس کا دشمن پرسکون ہوتا ہے تو وہ اس کا سکھ چین برباد کردیتا ہے۔ جب شکم سیر ہوتا ہے تو اسے بھوکا مارتا ہے اور جب سنبھل چکا ہوتا ہے تو اسے ٹھڈا مار کر آگے دھکا دے دیتا ہے۔ امریکا کی افغانستان سمیت دیگر افراتفری کا شکار اور بدامنی میں مبتلا ممالک میں فتوحات یقینی اور بڑی ہیں، کیونکہ اکثر اہداف کو جدید ٹیکنالوجی اور سازشوں کے سہارے بغیر کسی جنگ وجدل کے حاصل کرلیا گیا ہے۔ مفتوحہ جاپان امریکی تسلط کی ایک مثال ہے۔
امریکا نے جہاں جہاں جمہوریت کی خاطر حکومتوں کی بساطیں پلٹیں، جیسے افغانستان، عراق، لیبیا اور مصر وغیرہ، وہاں اب خانہ جنگی، لاقانونیت اور طبقاتی بے چینی اور کشمکش مقدر بن چکی ہے اور یہ سب مستقبل میں اپنی جڑیں مضبوط کرتی رہیں گی، کیونکہ امریکا کی مثال ایک ایسی بدروح کی ہے جو جب کبھی کسی بھی ریاست کے خلاف نبرد آزما ہو تو اس کے جسم میں حلول کر جاتی ہے اور اپنے مخالف کو باؤلا بناکر اسے ہلاکت کے گڑھے تک پہنچا کر اس کے جسم سے نکل جاتی ہے۔ سوویت یونین اس کی ایک بڑی مثال ہے۔
امریکا اس حقیقت سے خوب اچھی طرح واقف ہے کہ خود کو محفوظ رکھنے، اپنا دال دلیے کا ذریعہ چلاتے رہنے اور دنیا میں کسی بھی قسم کی متوازی طاقت کو پنپنے نہ دینے کے لیے بین الاقوام انتشار اور تفریق کی فضا کتنی ضروری ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے جمہوریت کے خول کے پیچھے جو چہرہ ہے وہ ایک ایسی ریاست کا ہے جو یہ بات کسی طرح ماننے کے لیے تیار نہیں کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا نکلنا ہی امن کا قیام ہے اور امن وہ چیز ہے جو سام بہادر کے نزدیک اس وقت سب سے مہنگی متاع ہے۔ ایک ایسا بیش قیمت خزانہ جسے وہ کبھی بھی تیسری دنیا اور بالخصوص مسلمانوں کے ہاتھ نہیں لگنے دے گا۔
امریکا کا پس منظر ہی وہ دریچہ ہے جہاں سے کوئی بھی یہ بات جان سکتا ہے کہ امریکی ریاستی مشینری اور اس کے زیر اثر عالمی ادارے، کارخانے اور فیکٹریوں کے ذریعے دنیا کے منظرنامے کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق بظاہر انسانی حلیہ رکھنے والے صاحبان ترتیب دراصل قدرتی بشری تقاضوں سے آزاد ہیں اور جن کے نزدیک حضرت انسان کی حیثیت محض اسپرنگ بورڈ اور ٹشوپیپر کی سی ہے۔ دراصل دنیا کی دولت، وسائل اور کارپوریشنوں کے نسل در نسل چلے آرہے مالک مٹھی بھر خاندانوں کا گروہ ہی امریکا کی وہ ڈرائیونگ فورس ہے جس کے حساب کتاب کے مطابق ملنے والی ہدایت کی بدولت امریکا بین الاقوامی تعلقات میں قوموں پر مسلط حیثیت کا مالک بنا ہے۔ امریکی صاحبان ترتیب کا حساب کتاب آج کی موجودہ سائنس اور ہائی ٹیک ٹیکنالوجی کو بھی شرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کے رشتے ناتے، مفادات اور اغراض سب انتہائی پیچیدہ ہیں کیونکہ یہ غیر انسانی ذہن کی کارفرمائیوں کا نتیجہ ہے۔
انسانی شکل میں نظر آنے والی اس غیر انسانی مخلوق اور پراسرار خاندانوں کا قدیم ترین گروہ خود کو ایک ایسے وجود کا تابع سمجھتا ہے جو اپنی سوچ میں خود خدائی قدرت کے مساوی اور متوازی ہے، یعنی اینٹی خدا ہے۔ بھلا یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ خلاف خدا وجود قدرت الٰہی کے ماننے والوں کو برداشت کرے۔ دنیا کی آبادی کو صحت کے نام پر مختلف مہموں اور ادویات کے ذریعے مختصر کرنے اور اپنی مرضی کا انسانی گروہ تشکیل دینے کے لیے قوموں سے تعلقات استوار کرنا اولین ترجیح ہے، تاہم امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے تیسری دنیا کے ممالک سے ان تعلقات کی بنیاد برابری اور بھلائی پر قائم نہیں ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ مختلف قسم کے تعلقات میں اگر کوئی ملک امریکا کو کمزور سمجھتا ہے تو وہ اس کے خلاف مضبوط نکلتا ہے اور اگر کوئی امریکا کو مضبوط سمجھتا ہے تو وہ اس کے لیے کمزور نکلتا ہے۔ بات دشمنوں کی ہو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا کو اپنے دشمنوں سے کسی قسم کا کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا اور وہ سو جنگیں بھی لڑنے کے لیے تیار ہے جب کہ اس روش کے باعث درحقیقت امریکا معاشی اور سماجی سطح پر انتہائی کھوکھلا ہوچکا ہے۔
اس کے باوجود یہ حد سے زیادہ خود اعتمادی اسے اکثر اپنے دشمنوں سے غافل کر دیتی ہے اور ریاست امریکا بظاہر جیت کر بھی شکست خوردہ نتائج کی پشیمانی میں مبتلا رہا ہے۔ امریکا کے منصوبے وہ نہیں ہوتے جو وہ بتاتا ہے کیونکہ اس کے اصل منصوبوں پر تاریکی کا دبیز پردہ پڑا رہتا ہے جو اسے خفیہ رکھتا ہے اور انھیں تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی سیاہ رات میں چیونٹی کو تلاش کرے۔ یہی مثال مختلف میدانوں میں امریکی کامیابیوں کی ہے جن کا ایک بڑا حصہ دراصل فیبریکیٹڈ ہے۔ جنگ کی بنیاد دھوکا دہی پر ہوتی ہے۔
امریکا جب حملے کے قابل ہوتا ہے، اس وقت وہ خود کو یہ ظاہر کرتا ہے کہ جیسے وہ اس کے قابل نہیں، البتہ جو اسے پرامن سمجھ رہے ہوتے ہیں ان پر امریکا ایک جارح حملہ آور کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ اکثر ریاستوں کو تعلقات اور لین دین میں امریکا ان سے قریب نظر آتا ہے، تاہم درحقیقت وہ ان سے بہت دور ہوتا ہے اور جو ممالک امریکا کو اپنے سے دور سمجھ رہے ہوتے ہیں، حقیقتاً وہ ان سے بہت قریب ہوتا ہے۔ یہ امریکا کی پرانی عادت ہے کہ جب اس کا دشمن پرسکون ہوتا ہے تو وہ اس کا سکھ چین برباد کردیتا ہے۔ جب شکم سیر ہوتا ہے تو اسے بھوکا مارتا ہے اور جب سنبھل چکا ہوتا ہے تو اسے ٹھڈا مار کر آگے دھکا دے دیتا ہے۔ امریکا کی افغانستان سمیت دیگر افراتفری کا شکار اور بدامنی میں مبتلا ممالک میں فتوحات یقینی اور بڑی ہیں، کیونکہ اکثر اہداف کو جدید ٹیکنالوجی اور سازشوں کے سہارے بغیر کسی جنگ وجدل کے حاصل کرلیا گیا ہے۔ مفتوحہ جاپان امریکی تسلط کی ایک مثال ہے۔
امریکا نے جہاں جہاں جمہوریت کی خاطر حکومتوں کی بساطیں پلٹیں، جیسے افغانستان، عراق، لیبیا اور مصر وغیرہ، وہاں اب خانہ جنگی، لاقانونیت اور طبقاتی بے چینی اور کشمکش مقدر بن چکی ہے اور یہ سب مستقبل میں اپنی جڑیں مضبوط کرتی رہیں گی، کیونکہ امریکا کی مثال ایک ایسی بدروح کی ہے جو جب کبھی کسی بھی ریاست کے خلاف نبرد آزما ہو تو اس کے جسم میں حلول کر جاتی ہے اور اپنے مخالف کو باؤلا بناکر اسے ہلاکت کے گڑھے تک پہنچا کر اس کے جسم سے نکل جاتی ہے۔ سوویت یونین اس کی ایک بڑی مثال ہے۔
امریکا اس حقیقت سے خوب اچھی طرح واقف ہے کہ خود کو محفوظ رکھنے، اپنا دال دلیے کا ذریعہ چلاتے رہنے اور دنیا میں کسی بھی قسم کی متوازی طاقت کو پنپنے نہ دینے کے لیے بین الاقوام انتشار اور تفریق کی فضا کتنی ضروری ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے جمہوریت کے خول کے پیچھے جو چہرہ ہے وہ ایک ایسی ریاست کا ہے جو یہ بات کسی طرح ماننے کے لیے تیار نہیں کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا نکلنا ہی امن کا قیام ہے اور امن وہ چیز ہے جو سام بہادر کے نزدیک اس وقت سب سے مہنگی متاع ہے۔ ایک ایسا بیش قیمت خزانہ جسے وہ کبھی بھی تیسری دنیا اور بالخصوص مسلمانوں کے ہاتھ نہیں لگنے دے گا۔