ایک جملہ لیکن زبردست نسخہ

’’نواز شریف کی حکومت کے لیے ستمبر کا مہینہ ستمگر ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘

03332257239@hotmail.com

''نواز شریف کی حکومت کے لیے ستمبر کا مہینہ ستمگر ثابت ہوسکتا ہے۔'' یہ سیاسی ماہرین کی رائے ہے۔ حکمران صرف اور صرف ایک جملہ کہہ کر نہ صرف ستمبر بلکہ اگلے دو برس اپنے لیے نسبتاً پرسکون کرسکتے ہیں۔ ایک کارآمد جملے کا نسخہ اپوزیشن کی جانب سے ہر قسم کا احتجاج ٹال سکتا تھا۔ نہحکمرانوں کی زبان سے یہ جملہ ابھر رہا ہے اور نہ حکومت پچھلے تین برسوں سے بحران سے نکل پا رہی ہے۔

عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنے اب احتساب مارچ اور قصاص ریلی میں بدل رہے ہیں۔ محرم سے قبل لاہور کی سڑکوں پر ہونے والا مارچ کیا اثر دکھائے گا؟ عید قرباں کے بعد پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر کیسی منظرکشی ہوگی؟ پاکستانی عوام دیکھیں گے کہ کون ذبح کرے گا اور پھر کون ثواب سمیٹے گا۔ وہ ایک جملہ، جی ہاں ایک جملہ زبردست نسخہ ہے جس سے پاکستانی حکمران فیض یاب ہونے سے اب تک محروم ہیں؟ کیا ایک جملہ واقعی زبردست نسخہ ہے؟ جنرل محمد ایوب ، بھٹو، ضیا، غلام اسحق خان، اور پرویز مشرف سمیت کسی کی زبان سے یہ جملہ ادا نہ ہوا۔ اسکندر مرزا اور یحییٰ خان تک کو توفیق نہ ہوئی کہ یہ جملہ ادا کرکے اپنے آپ کو اور ملکی سیاست کو سکون بخشتے۔ پاکستان میں جنم لینے والے سیاسی بحران، احتجاجی تحریکیں، دھرنے، مارچ، ہڑتالیں اور کرفیو حکمرانوں کی جانب سے اس ایک جملے کی عدم ادائیگی کے سبب پیدا ہوئے ہیں۔

جنرل ایوب آئین ختم ہونے اور اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد برسر اقتدار آئے۔ ان کا دس سالہ جشن کیا ظاہر کرتا تھا؟ وہ ایک مرتبہ پھر فاطمہ جناح کی طرح کسی بھی صدارتی امیدوار کو دھاندلی سے شکست دے کر برسر اقتدار رہیں گے۔ ایوب اگر وہ جملہ بروقت ادا کردیتے تو ان کے خلاف کوئی احتجاجی تحریک جنم نہ لیتی۔ قوم سے خطاب تک تاخیر ہوچکی تھی یوں ایوب کو بے بسی سے یحییٰ کو اقتدار سونپ کر رخصت ہونا پڑا۔ بھٹو کی زبان سے بھی وہ جملہ ادا نہ ہوا۔ اس عدم ادائیگی نے پہلے انھیں حکومت اور پھر جان سے محروم کردیا۔

برسر اقتدار آنے کے بعد آئین کی تشکیل، ایٹم بم کی بنیاد اور قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوانا بھٹو کی جرأت مندی تھی۔ حزب اختلاف کو کچلنے، پریس کو پابند سلاسل کرنے اور عدلیہ کے اختیارات میں کمی کرکے بھٹو نے سیاسی ماحول میں گھٹن پیدا کردی۔ انتخابات میں دھاندلی ان کے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔ اس دھاندلی سے واضح ہوگیا کہ بھٹو کی زبان پر تو کیا ذہن میں بھی یہ جملہ نہ تھا۔ کیا بھٹو کی طرح کے مقبول موجودہ حکمرانوں کے ذہن میں یہ جملہ ہے؟

جنرل ضیا نے پاکستان پر سب سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد سناٹا اور پھر ریفرنڈم کے بعد غیر جماعتی انتخابات۔ تین سال بعد جونیجو حکومت کی برطرفی ظاہر کرتی ہے کہ ضیا نے واپسی کے تمام دروازے بند کردیے تھے۔


ایک بار پھر سیاسی پارٹیوں کے بغیر الیکشن کا اعلان واضح کرتا ہے کہ جنرل ضیا کے ذہن میں وہ جملہ تھا ہی نہیں۔ ایسی ہی صورتحال بعد کے حکمرانوں کو پیش آئی۔ غلام اسحق خان اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کرنے کے بعد ایک بار پھر صدر بننا چاہتے تھے۔ اگلی ٹرم نواز شریف کی رضامندی کے بغیر ممکن نہ تھی۔ میاں صاحب، غلام اسحق خان کی موجودگی میں الجھن محسوس کر رہے تھے۔ جب انھوں نے صدر کو حوصلہ افزا جواب نہ دیا تو پھر اختلافات شروع ہوگئے۔ صدر اسحق نے نواز شریف کی حکومت برطرف کردی۔ سپریم کورٹ سے حکومت کو بحالی کے پروانے کے بعد بھی انھوں نے رخت سفر نہ باندھا، یوں صدر اور وزیر اعظم کے اختلافات نے دونوں کو واپسی کا راستہ دکھادیا۔ وہ واپسی جو رضامندی سے قبول نہ کی گئی۔ غلام اسحق خان کے ذہن میں بھی ''بس اب بہت ہوچکا'' والا جملہ نہ تھا۔

مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی نے نوے کے عشرے میں ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ نواز شریف دو تہائی اکثریت لے کر صدی کے آخر میں پاکستان کے حکمران بنے۔ صدر فاروق لغاری، آرمی چیف، جہانگیر کرامت اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے محاذ آرائی کے بعد وہ پاکستان کے طاقتور ترین حکمران بن چکے تھے۔ پنجاب میں ان کے سگے بھائی کی حکومت سونے پر سہاگے کی کیفیت پیدا کررہی تھی۔ ایسے میں رخت سفر باندھنے والا جملہ تو ذہن میں آ ہی نہیں سکتا تھا۔ اگر وہ جملہ ذہن میں ہوتا تو نواز حکومت کا خاتمہ مشرف کے ہاتھوں نہ ہوتا۔

پرویز مشرف کو سپریم کورٹ نے جمہوریت کی بحالی کے لیے تین سال کا وقت دیا۔ ایک جملہ فوجی حکمران کے ذہن میں بھی نہ تھا۔ وہ حکمران جو ایک بار اسمبلیوں سے منتخب ہوکر اپنے اقتدار کے آٹھ سال مکمل کرچکا تھا۔ وہ ایک بار پھر وردی میں منتخب ہونا چاہتے تھے۔ افتخار چوہدری کی برطرفی کے بعد وکلا تحریک کے سبب مشرف حکومت کمزور ہوچکی تھی۔ اس ڈگمگاہٹ کے بعد بھی ان کی زبان سے واپسی والا جملہ ادا نہ ہوسکا۔ ایوب کی طرح وہ بھی تاخیر کرگئے اور ان ہی کی مانند قوم سے خطاب کرکے استعفیٰ دیا۔ اگر بروقت ایک جملے کی ادائیگی کردیتے تو نہ انھیں جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کرنا پڑتا اور نہ ہی وکلا تحریک کا سامنا کرنا پڑتا۔ مشرف کو نہ ججوں کو گرفتار کرنا پڑتا اور نہ ہی ایمرجنسی پلس نافذ کرنا پڑتی۔ نہ 12 مئی کا واقعہ شخصیت پر دھبا ہوتا اور نہ ہی تاریخ مشرف کو مکے لہرانے کا طعنہ دیتی۔

ایک جملہ کہ ''بس اب بہت ہوچکا'' کسی حکمران نے نہیں کہا۔ دوسری پارٹی یا شخصیت برسراقتدار آجائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، یہ تاثر کسی نے نہیں دیا۔ حکومت میں رہنے کی ضد نے پاکستان کو مسلسل بحرانوں میں مبتلا رکھا ہے۔ لیاقت علی کے دور میں آئین نہیں بنا تھا اور نہ ہی کوشش کی جا رہی تھی، یوں انھیں اقتدار سے ہٹانے کا کوئی دستوری راستہ نہیں تھا۔ اسکندر مرزا جانتے تھے کہ 56 کا آئین بننے کے بعد ہونے والے انتخابات میں ان کی گنجائش نہیں بنتی۔ یوں آئین اور اسمبلیوں کا خاتمہ ان کا اپنا خاتمہ ثابت ہوا۔ ایوب بھی دس سال گزارنے اور پہلا الیکشن جیتنے کے بعد دوسرا الیکشن بھی جیتنا چاہتے تھے۔ یوں اس خطرے کو دیکھ کر اپوزیشن کی تحریک ان کو واپسی کا راستہ دکھا گئی۔

یحییٰ بھی طاقتور صدر بننا چاہتے تھے۔ جب بات نہ بنی تو خود بھی رسوا ہوئے اور ملک کو بھی دولخت کرگئے۔ بھٹو نے دو تہائی والی حکومت کے لیے دھاندلی کی لیکن اپنی دوسری ٹرم کا پہلا سال بھی نہ گزار سکے۔ ضیا بھی غیر جماعتی انتخابات والی تاریخ دہرا کر اپنی واپسی کے تمام راستے بند کر رہے تھے۔ غلام اسحق خان بھی دوسری ٹرم کی خاطر حد سے گزر گئے لیکن دوبارہ حلف نہ اٹھاسکے۔مشرف بھی دوسری ٹرم بمعہ وردی والی کوشش میں کالی وردی والوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ پاکستان میں ایک میعاد گزارنے کے بعد ''در گنجائش نشتہ'' کو کوئی نہ سمجھا۔نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر ایک جملہ کہہ دیتے تو پرسکون انداز میں حکومت کرتے۔ نہ دھرنے ہوتے اور نہ احتجاج۔ واپسی اور رخصتی والا ایک جملہ پاکستان کے درجن بھر حکمران ادا نہ کرسکے۔ حکمران اگر اپوزیشن سے کہہ دیں کہ اگلے الیکشن میں کوئی بھی پارٹی کامیاب ہوکر اقتدار میں آسکتی ہے۔ ضمنی انتخابات کا شفاف ہونا ارادے کو ظاہر کرتا۔ اگلی ٹرم کی کوشش اور اپوزیشن کو دیوار سے لگائے رکھنا تلخی کا باعث بنتا ہے۔

رخت سفر کی تیاری دوسروں کو مطمئن رکھتی ہے۔ سب کے لیے لیول پلیٹنگ فیلڈ حزب اختلاف کی صفوں کو سکون دلاتی ہے۔ الیکشن کمیشن کی حوصلہ مندی اطمینان کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ انتخابات کے انتظامات کرنے والی عبوری حکومت کی غیر جانبداری 35 پنکچر کے الزامات سے بچاتی ہے۔ ایک جملہ بڑا زبردست جملہ ہے۔ یہ نسخہ کیمیا ہے۔ یہ جملہ نہ اگلی پارٹی کی کوشش ہوتا ہے اور نہ اگلی نسل کی تیاری۔ سامان سفر باندھنے کی ایماندرانہ تیاری ظاہر کرتی ہے کہ حکمران ہمیں بھی موقعہ دینے کو تیار ہیں، اگر عوام ہمیں ووٹ دیں۔ حکومت کا کام کمر پر بستہ باندھنے کا تاثر ہیجانی ماحول سے ملک کو نکال باہر کرتا ہے۔ ایک شاندار جملہ ''ہاں اگلی باری ہوسکتی ہے تمہاری''۔ جب پاکستان میں کسی حکمران کو لگاتار دوسری ٹرم ملی ہی نہیں تو یہ جملہ اپوزیشن سے کہنے میں کیا حرج ہے۔ ہاں اگلی باری، ہوسکتی ہے تمہاری، بظاہر ہے تو ایک جملہ لیکن ہے زبردست نسخہ۔
Load Next Story