’’ویمن آن وہیل‘‘ صنف نازک کے بائیک چلانے کی مہم
’ویمن آن وہیل‘ پروگرام کو ڈاکٹر، اساتذہ اور طالبات خاص طور پر سراہ رہی ہیں۔
LOS ANGELES:
ملک کے مختلف شہروں میں 'ویمن آن وہیل' کے نام سے ایک مہم کے ذریعے خواتین موٹر سائیکل چلانے کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ حکومت پنجاب کے تحت جاری کردی مہم 'ویمن آن وہیل' کے تحت باقاعدہ موٹرسائیکل چلانے کی تربیت حاصل کرنے والی خواتین کو باقاعدہ اسناد تقسیم کی گئیں۔
خواتین کا موٹر سائیکل چلانا ہمارے معاشرے میں کسی اچنبھے سے کم نہیں، مگر پنجاب حکومت نے اس سلسلے کا پہلا مرحلہ اپنی سرپرستی میں مکمل کرواکر خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ لانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ سلسلہ مرحلے وار آگے بڑھ رہا ہے ، جس میں خواتین میں اسکوٹریں بھی تقسیم کی جا رہی ہیں۔
خواتین حکومت کی اس مہم کے بعد کافی پرجوش ہیں۔ اس ضمن میں مختلف طبقے کی خواتین موٹر سائیکل چلانا سیکھ چکی ہیں۔ ان میں ایک بی ایس سی آنرز کی طالبہ نادیہ بھی ہیں، جو ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ انتہائی اعتماد کے ساتھ بتاتی ہیں کہ اب وہ اپنے کام بہ آسانی اور وقت پر خود انجام دے لیتی ہیں۔ زندگی آسان ہو گئی ہے۔ اس طرح ایک اسکول ٹیچر کی رائے ہے کہ پہلے بسوں میں دھکے کھا کر ملازمت پر پہنچتی تھی۔ بس کا انتظار، اسٹاپ پر کھڑے رہنا بے حد مشکل لگتا تھا، ملازمت پر تاخیر ہونے کی صورت میں مسائل علیحدہ۔ اب اپنی سواری پر بروقت اور بے فکر ہوکر منزل پر پہنچن جاتی ہوں، متوسط طبقے کے لوگ اپنی گاڑی کے متحمل نہیں ہو سکتے اور رکشے ٹیکسی کا کرایہ برداشت کرنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
'ویمن آن وہیل' پروگرام کو ڈاکٹر، اساتذہ اور طالبات خاص طور پر سراہ رہی ہیں۔ گھریلو خواتین بھی اس سلسلے میں کافی پرامید ہیں۔ بہت سے خواتین موٹر سائیکل چلانا سیکھ کر یہ فن دوسروں میں منتقل کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے خیال میں خواتین اب تک مختلف کاموں کے سلسلے میں شوہر، بھائیوں اور بیٹوں کی محتاج رہتی تھیں۔ اب اس پروگرام کے ذریعے ان کی یہ محتاجی دور ہو جائے گی۔
جہاں بیش تر خواتین بائیک مجبوری کے تحت چلانا سیکھ رہی ہیں، وہاں کچھ ایسی بھی ہیں جو کہ شوق کی بنیاد پر اس میدان میں اتر رہی ہیں۔ کچھ کو خدشات بھی لاحق ہیں کہ ایک دم سے جب صنف نازک موٹر سائیکل چلانے لگیں گی تو انہیں مسائل کا بھی سامنا ہوگا۔ جیسے کہیں اگر ان کی بائیک خراب ہوگئی یا ٹریفک جام میں پھنس گئیں وغیرہ۔ ہمارے ہاں کچھ مردوں سے خواتین کی یہ برتری ہضم ہونا بھی مشکل ہوگا، لیکن خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ اور مختلف طرح کے مردوں کے رویوں سے جان چھڑانے کے لیے یہ قدم اٹھانا ہی پڑے گا۔
ایک سال قبل شروع ہونے والے اس پروگرام میں اب تک مختلف عمر کی سیکڑوں خواتین داخلہ لے چکی ہیں۔ پہلے مرحلے میں ڈیڑھ سو خواتین نے تربیت حاصل کی اور پھر جب اس منصوبے کے متعلق سماجی روابط کی ویب سائٹ 'فیس بک' پر مشتہر کیا گیا، تو چند ہی دنوں میں چھے سو خواتین نے رابطہ کیا اور اس پروگرام کے تحت تربیت حاصل کرنے کا شوق ظاہر کیا۔ اس پروگرام کا مقصد خواتین کی آمدورفت کو آسان بنانا اور دیگر پریشان کن عوامل سے نجات دینا ہے۔
چوں کہ حکومت پنجاب اس پروگرام کے شروع کرتے وقت ہی اس کے ردعمل کے لیے دور اندیش رہی اور اس سلسلے میں پنجاب آئی بورڈ سے تعاون حاصل کیا اور اس طرح ایک ''فون ایپ'' تیار کی گئی ہے، تاکہ خواتین کو اسکوٹر چلاتے وقت کسی بھی مشکل یا پریشانی پیش آنے پر یا کسی شخص کے ہراساں کرنے پر قریبی ٹریفک وارڈن کو اطلاع مل جائے اور وہ فوراً مدد کو پہنچیں۔ اس سلسلے میں ٹریفک پولیس نے اپنے تعاون کا بھرپور یقین دلایا ہے۔
حقوق نسواں کی تنظیمیں خواتین کو معاشرے میں برابری دلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مہم کے سلسلے میں وہ کافی پرامید ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ متوسط طبقے کے مرد حضرات اپنی خواتین کو یوں سر راہ موٹر سائیکل چلانے کی اجازت دے پائیں گے، کیوں کہ خواتین کے گاڑی چلانے سے یہ ایک قطعی مختلف عمل ہے۔ بائیک چلانے میں بھرپور توجہ، مہارت اور یک سوئی کے ساتھ قوت برداشت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری جانب خواتین مختلف طرح کے طیارے اڑانے کے ساتھ اب وہ بھاری ٹرک اور جنگی ٹینک تک چلا رہی ہیں، تو پھر موٹر بائیک کو خواتین کے چلانے پر اعتراض کیوں؟
موٹرسائیکل ایک سستی سواری ہے، اس لیے جہاں متوسط طبقے کے مرد اس سے استفادہ کر رہے ہیں، وہیں خواتین بھی اس سے مستفید ہو لیں۔
اس ضمن میں بعض خواتین کا کہنا ہے کہ مختلف موٹر بائیک بنانے والی کمپنیوں کو خواتین کے لیے مخصوص طرز کی بائیک بنانے کا اقدام کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ مردوں کو بھی مثبت رویہ اپنا کر خواتین کا ساتھ دینا چاہیے۔ خواتین اس سواری کو اختیار کرتے ہوئے خود کو محفوظ بنانے کے لیے گاؤن کا استعمال کر سکتی ہیں، ہو سکتا ہے کہ ان کے لیے مزید حفاظتی سہولت لیے کوئی ایسی بائیک تیار کی جائے کہ جس میں وہ زیادہ محفوظ اور پراعتماد رہ سکیں۔
الغرض، یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کو قبول کرنے میں ہمارے معاشرے کو شاید کچھ وقت لگے۔ اگر کچھ تبدیلیوں کے ساتھ موٹر بائیک متعارف ہو جائیں، جو خواتین میں زیادہ مقبول ہوں تو یہ منصوبہ جلدکام یاب ہو سکتا ہے۔
ملک کے مختلف شہروں میں 'ویمن آن وہیل' کے نام سے ایک مہم کے ذریعے خواتین موٹر سائیکل چلانے کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ حکومت پنجاب کے تحت جاری کردی مہم 'ویمن آن وہیل' کے تحت باقاعدہ موٹرسائیکل چلانے کی تربیت حاصل کرنے والی خواتین کو باقاعدہ اسناد تقسیم کی گئیں۔
خواتین کا موٹر سائیکل چلانا ہمارے معاشرے میں کسی اچنبھے سے کم نہیں، مگر پنجاب حکومت نے اس سلسلے کا پہلا مرحلہ اپنی سرپرستی میں مکمل کرواکر خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ لانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ سلسلہ مرحلے وار آگے بڑھ رہا ہے ، جس میں خواتین میں اسکوٹریں بھی تقسیم کی جا رہی ہیں۔
خواتین حکومت کی اس مہم کے بعد کافی پرجوش ہیں۔ اس ضمن میں مختلف طبقے کی خواتین موٹر سائیکل چلانا سیکھ چکی ہیں۔ ان میں ایک بی ایس سی آنرز کی طالبہ نادیہ بھی ہیں، جو ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ انتہائی اعتماد کے ساتھ بتاتی ہیں کہ اب وہ اپنے کام بہ آسانی اور وقت پر خود انجام دے لیتی ہیں۔ زندگی آسان ہو گئی ہے۔ اس طرح ایک اسکول ٹیچر کی رائے ہے کہ پہلے بسوں میں دھکے کھا کر ملازمت پر پہنچتی تھی۔ بس کا انتظار، اسٹاپ پر کھڑے رہنا بے حد مشکل لگتا تھا، ملازمت پر تاخیر ہونے کی صورت میں مسائل علیحدہ۔ اب اپنی سواری پر بروقت اور بے فکر ہوکر منزل پر پہنچن جاتی ہوں، متوسط طبقے کے لوگ اپنی گاڑی کے متحمل نہیں ہو سکتے اور رکشے ٹیکسی کا کرایہ برداشت کرنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
'ویمن آن وہیل' پروگرام کو ڈاکٹر، اساتذہ اور طالبات خاص طور پر سراہ رہی ہیں۔ گھریلو خواتین بھی اس سلسلے میں کافی پرامید ہیں۔ بہت سے خواتین موٹر سائیکل چلانا سیکھ کر یہ فن دوسروں میں منتقل کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے خیال میں خواتین اب تک مختلف کاموں کے سلسلے میں شوہر، بھائیوں اور بیٹوں کی محتاج رہتی تھیں۔ اب اس پروگرام کے ذریعے ان کی یہ محتاجی دور ہو جائے گی۔
جہاں بیش تر خواتین بائیک مجبوری کے تحت چلانا سیکھ رہی ہیں، وہاں کچھ ایسی بھی ہیں جو کہ شوق کی بنیاد پر اس میدان میں اتر رہی ہیں۔ کچھ کو خدشات بھی لاحق ہیں کہ ایک دم سے جب صنف نازک موٹر سائیکل چلانے لگیں گی تو انہیں مسائل کا بھی سامنا ہوگا۔ جیسے کہیں اگر ان کی بائیک خراب ہوگئی یا ٹریفک جام میں پھنس گئیں وغیرہ۔ ہمارے ہاں کچھ مردوں سے خواتین کی یہ برتری ہضم ہونا بھی مشکل ہوگا، لیکن خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ اور مختلف طرح کے مردوں کے رویوں سے جان چھڑانے کے لیے یہ قدم اٹھانا ہی پڑے گا۔
ایک سال قبل شروع ہونے والے اس پروگرام میں اب تک مختلف عمر کی سیکڑوں خواتین داخلہ لے چکی ہیں۔ پہلے مرحلے میں ڈیڑھ سو خواتین نے تربیت حاصل کی اور پھر جب اس منصوبے کے متعلق سماجی روابط کی ویب سائٹ 'فیس بک' پر مشتہر کیا گیا، تو چند ہی دنوں میں چھے سو خواتین نے رابطہ کیا اور اس پروگرام کے تحت تربیت حاصل کرنے کا شوق ظاہر کیا۔ اس پروگرام کا مقصد خواتین کی آمدورفت کو آسان بنانا اور دیگر پریشان کن عوامل سے نجات دینا ہے۔
چوں کہ حکومت پنجاب اس پروگرام کے شروع کرتے وقت ہی اس کے ردعمل کے لیے دور اندیش رہی اور اس سلسلے میں پنجاب آئی بورڈ سے تعاون حاصل کیا اور اس طرح ایک ''فون ایپ'' تیار کی گئی ہے، تاکہ خواتین کو اسکوٹر چلاتے وقت کسی بھی مشکل یا پریشانی پیش آنے پر یا کسی شخص کے ہراساں کرنے پر قریبی ٹریفک وارڈن کو اطلاع مل جائے اور وہ فوراً مدد کو پہنچیں۔ اس سلسلے میں ٹریفک پولیس نے اپنے تعاون کا بھرپور یقین دلایا ہے۔
حقوق نسواں کی تنظیمیں خواتین کو معاشرے میں برابری دلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مہم کے سلسلے میں وہ کافی پرامید ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ متوسط طبقے کے مرد حضرات اپنی خواتین کو یوں سر راہ موٹر سائیکل چلانے کی اجازت دے پائیں گے، کیوں کہ خواتین کے گاڑی چلانے سے یہ ایک قطعی مختلف عمل ہے۔ بائیک چلانے میں بھرپور توجہ، مہارت اور یک سوئی کے ساتھ قوت برداشت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری جانب خواتین مختلف طرح کے طیارے اڑانے کے ساتھ اب وہ بھاری ٹرک اور جنگی ٹینک تک چلا رہی ہیں، تو پھر موٹر بائیک کو خواتین کے چلانے پر اعتراض کیوں؟
موٹرسائیکل ایک سستی سواری ہے، اس لیے جہاں متوسط طبقے کے مرد اس سے استفادہ کر رہے ہیں، وہیں خواتین بھی اس سے مستفید ہو لیں۔
اس ضمن میں بعض خواتین کا کہنا ہے کہ مختلف موٹر بائیک بنانے والی کمپنیوں کو خواتین کے لیے مخصوص طرز کی بائیک بنانے کا اقدام کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ مردوں کو بھی مثبت رویہ اپنا کر خواتین کا ساتھ دینا چاہیے۔ خواتین اس سواری کو اختیار کرتے ہوئے خود کو محفوظ بنانے کے لیے گاؤن کا استعمال کر سکتی ہیں، ہو سکتا ہے کہ ان کے لیے مزید حفاظتی سہولت لیے کوئی ایسی بائیک تیار کی جائے کہ جس میں وہ زیادہ محفوظ اور پراعتماد رہ سکیں۔
الغرض، یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کو قبول کرنے میں ہمارے معاشرے کو شاید کچھ وقت لگے۔ اگر کچھ تبدیلیوں کے ساتھ موٹر بائیک متعارف ہو جائیں، جو خواتین میں زیادہ مقبول ہوں تو یہ منصوبہ جلدکام یاب ہو سکتا ہے۔