رائیونڈ کے بعد اسلام آباد کی طرف بڑے لانگ مارچ کا امکان
30 ستمبر کا شو بظاہر اجتماعی شو ہوگا جس میں پنجاب بھر کے اضلاع سے کارکن شریک ہوں گے
SINGAPORE:
تحریک انصاف نے 30 ستمبر کو رائیونڈ روڈ پر بھوبتیاں چوک سے اڈہ پلاٹ کے درمیان میگا پاور شو کیلیے تمام مالی وسائل اور افرادی قوت استعمال کرنیکا فیصلہ کیا ہے، سب سے اہم بات یہ کہ رائے ونڈ جلسے کی کامیابی کی صورت میں تحریک انصاف کی قیادت نے مستقبل قریب میں ایک مرتبہ پھر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا آپشن کو ری اوپن کر لیا ہے۔
این اے 162 چیچہ وطنی کے ضمنی الیکشن میں جیت کا تڑکا رائے ونڈ جلسے میں کارکنوں کی شرکت کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔ رائے ونڈ جلسہ توقعات کے مطابق کامیاب رہا تو آئندہ چند ہفتوں میں ایک بڑے لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد کی جانب ہو سکتا ہے۔ بعض پارٹی رہنمائوں کے اصرار کے باوجود عمران خان نے رائے ونڈ جلسہ کو دھرنے میں تبدیل کرنیکی تجویز کو مسترد کردیا۔گزشتہ روز ورکرز کنونشن میں عمران خان کے خطاب اور باڈی لینگویج میں بہت عرصے بعد ایک خاص اعتماد اور طاقت محسوس ہوئی۔ یوں لگا جیسے عمران خان کے ذہن میں آنے والے دنوں کے حوالے سے ایک مربوط اور جامع منصوبہ بندی موجود ہے جسے ''فیصلہ سازوں''کی خاموش حمایت میسر ہونا بھی ممکن ہے۔
3 ستمبر کی لاہور ریلی کے حوالے سے شہری لاہور کے تنظیمی عہدیداروں کے ترجمان ''اپنے منہ میاں مٹھو'' بننے کی جتنی بھی کوشش کر لیں مگر یہ حقیقت ہے کہ عمران خان سمیت اعلی قیادت اور دیگر اضلاع کی قیادت میں''آف دی ریکارڈ'' گفتگو میں ریلی کو''فلاپ شو'' کہا جاتا ہے۔30 ستمبر کا شو بظاہر اجتماعی شو ہوگا جس میں پنجاب بھر کے اضلاع سے کارکن شریک ہوں گے، خیبر پختونخواہ سے بھی کارکن آئیں گے تاہم اس شو کی کامیابی کا کریڈٹ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان، اسحاق خاکوانی، عامر کیانی اور چوہدری اشفاق کو ملے گا۔
علیم خان کو رائے ونڈ جلسے کا انتظامی سربراہ مقرر کیا گیا ہے، یہ خوش آئند امر ہے کہ وہ سب دھڑوں کو ساتھ لیکر چل رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے تنظیمی اختلافات کے حوالے سے بھی عمران خان کے رویے میں گزشتہ روز تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ یوتھ ونگ،خواتین ونگ اور لیبر ونگ کے چند سابق مرکزی عہدیداروںکی جانب سے اتوار کے روز جہانگیر ترین کے خلاف بغاوت کی کوشش کو عمران خان نے نہایت سختی سے کچل دیا۔
تحریک انصاف نے 30 ستمبر کو رائیونڈ روڈ پر بھوبتیاں چوک سے اڈہ پلاٹ کے درمیان میگا پاور شو کیلیے تمام مالی وسائل اور افرادی قوت استعمال کرنیکا فیصلہ کیا ہے، سب سے اہم بات یہ کہ رائے ونڈ جلسے کی کامیابی کی صورت میں تحریک انصاف کی قیادت نے مستقبل قریب میں ایک مرتبہ پھر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا آپشن کو ری اوپن کر لیا ہے۔
این اے 162 چیچہ وطنی کے ضمنی الیکشن میں جیت کا تڑکا رائے ونڈ جلسے میں کارکنوں کی شرکت کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔ رائے ونڈ جلسہ توقعات کے مطابق کامیاب رہا تو آئندہ چند ہفتوں میں ایک بڑے لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد کی جانب ہو سکتا ہے۔ بعض پارٹی رہنمائوں کے اصرار کے باوجود عمران خان نے رائے ونڈ جلسہ کو دھرنے میں تبدیل کرنیکی تجویز کو مسترد کردیا۔گزشتہ روز ورکرز کنونشن میں عمران خان کے خطاب اور باڈی لینگویج میں بہت عرصے بعد ایک خاص اعتماد اور طاقت محسوس ہوئی۔ یوں لگا جیسے عمران خان کے ذہن میں آنے والے دنوں کے حوالے سے ایک مربوط اور جامع منصوبہ بندی موجود ہے جسے ''فیصلہ سازوں''کی خاموش حمایت میسر ہونا بھی ممکن ہے۔
3 ستمبر کی لاہور ریلی کے حوالے سے شہری لاہور کے تنظیمی عہدیداروں کے ترجمان ''اپنے منہ میاں مٹھو'' بننے کی جتنی بھی کوشش کر لیں مگر یہ حقیقت ہے کہ عمران خان سمیت اعلی قیادت اور دیگر اضلاع کی قیادت میں''آف دی ریکارڈ'' گفتگو میں ریلی کو''فلاپ شو'' کہا جاتا ہے۔30 ستمبر کا شو بظاہر اجتماعی شو ہوگا جس میں پنجاب بھر کے اضلاع سے کارکن شریک ہوں گے، خیبر پختونخواہ سے بھی کارکن آئیں گے تاہم اس شو کی کامیابی کا کریڈٹ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان، اسحاق خاکوانی، عامر کیانی اور چوہدری اشفاق کو ملے گا۔
علیم خان کو رائے ونڈ جلسے کا انتظامی سربراہ مقرر کیا گیا ہے، یہ خوش آئند امر ہے کہ وہ سب دھڑوں کو ساتھ لیکر چل رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے تنظیمی اختلافات کے حوالے سے بھی عمران خان کے رویے میں گزشتہ روز تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ یوتھ ونگ،خواتین ونگ اور لیبر ونگ کے چند سابق مرکزی عہدیداروںکی جانب سے اتوار کے روز جہانگیر ترین کے خلاف بغاوت کی کوشش کو عمران خان نے نہایت سختی سے کچل دیا۔