چلیں یہ بھی کرکے دیکھ لیں

لوگوں کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرتی ہے مگر لوگوں کو تحفظ دیتے دیتے یہی پولیس سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوگئی ہے


شہباز علی خان September 20, 2016
پولیس سے متعلق بہت سی شکایات اپنی جگہ ٹھوس بھی ہیں مگر کیا کسی نے ان کے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھایا ہے؟ فائل: فوٹو

میرے اس سوال پر کہ اب تو پنجاب پولیس کا یونیفارم کے رنگ کی تبدیلی کی باتیں ہورہی ہیں، اس نے تھانے کی میز پر پڑے پیپر ویٹ کو ایک دم سے گول گول گھماتے ہوئے، مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا، ہاں! یہ بھی کرکے دیکھ لیں۔ اس سے شاید اندرونی سطح پر تو تبدیلی آنے کے روشن امکانات ہیں نہیں مگر ظاہری طور پر تبدیلی ضرور آئے گی۔ موجودہ یونیفارم قانون کی بالادستی میں رکاوٹ نہیں بن رہی ہے بلکہ اس خاکی پتلون اور سیاہ شرٹ کی ایک دہشت ہے جو کہ کئی سالوں سے چلی آرہی ہے، باقی ہمیں چاہیں جینز پہنا دیں۔

مثبت نتائج کے لئے سب سے اہم یہ ہے کہ تربیتی سطح پر جدید دور سے ہم آہنگ تبدیلیاں لائی جائیں۔ جدید ترین ٹیکنالوجی صرف مہیا ہی نہ کی جائے بلکہ اسے استعمال کرنے کی صلاحیت کو بھی بڑھایا جائے۔ آج بھی ہمارا ادارہ تاج برطانیہ کے دور کی ہر شے کو سینے سے لگا کر زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے جب میں رات کو وردی اتار کر ہینگر میں لٹکا کر سو جاتا ہوں اور رات کے کسی پہر اچانک آنکھ کھل جائے تو سامنے اسے دیکھ کر میں خود بھی ڈر جاتا ہوں کہ ''ایہہ پُلس کتھوں آگئی اے؟ ہُن بچو (یہ پولیس کہاں سے آگئی ہے اب بھاگو)۔ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک بار پھر سے کھل کر قہقہہ لگایا اور بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا، ترازو کے ایک پلڑے میں ہمارے ایک دن کے فرائض اور دوسرے میں ہماری سال بھر کی تنخواہ رکھ دیں، پھر بھی تنخواہ والا پلڑا اوپر ہی لٹکا رہے گا۔

ہم لوگوں کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرتے ہیں مگر ہم خود سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ جدید اسلحہ کی کمی، تیز رفتار گاڑیوں کی کمی، نفری کی کمی اور دباؤ کا شکار الگ ہیں۔ اگر مارے بھی جائیں تو پچھلے ہی رل گئے۔ نہ ہمارے لئے رہائشی منصوبہ جات ہیں اور نہ بچوں کی اچھی تعلیم۔ جو بھی حکومت آتی ہے اپنی ہر نااہلی کا ذمہ دار ہمیں ہی سمجھتی ہے، بلکہ ہماری مثال تو اس چوکیدار کی طرح ہے جسے مالک رات کے وقت دودھ یا موبائل میں ایزی لوڈ کروانے بھیج دے اور اسی دوران باہر کھڑا ہو کر چلانے لگے کہ بھائیوں چوکیدار گھر پر نہیں ہے کسی نے واردات ڈالنی ہے تو آ جاؤ، پھر نہ کہنا کہ خبر نہیں ہوئی اور پھر اگلے دن چوکیدار کو ہی حوالات میں ڈالا ہو کہ یہی سہولت کار تھا۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ہمارا اس طرح لولا لنگڑا رہنا ہی جمہوریت کی مضبوطی کی ضمانت ہے۔

پولیس ساری دنیا کی ایک جیسی ہی ہے چاہے امریکہ ہو، فرانس، جرمنی یا پھر برطانیہ کہ اسکاٹ لینڈ والے جو 6 سال سے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل پر لگے ہوئے ہیں مگر محرکات تک نہیں پہنچ سکے۔ اصل قاتلوں کی گرفتاری تو ابھی دور کی بات ہے۔ ہمارا اور مجرم کا بڑا رومانوی سا رشتہ ہے، ہم واردات کے بعد انہی نکات پر سوچتے ہیں جو مجرم کے ذہن میں اس وقت چل رہے ہوتے ہیں جب وہ جرم کر رہا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ہم کیسے کسی مجرم کو پکڑ سکیں گے؟ پھر بھینس خود تو دودھ میں پانی نہیں ملاتی ناں؟ مال خود چل کر تو چور کے پاس جاتا نہیں۔ کبھی کسی کبوتر یا طوطے نے بلی کے پاس جاکر اسے ٹھونگا مار کر کہا کہ ڈنر، لنچ تیار ہے آؤ اور ہمیں کھا جاؤ۔ بھائی جی مجرم کو پکڑنا اور پھر اس سے جرم منوانا ایک آرٹ ہے۔ باقی اوپر والوں کی مرضی، ہمیں بھیڑ، بکریوں کی طرح اِدھر اُدھر ہانکتے رہیں۔ ہمارے ہاتھوں میں پھولوں کے گلدستے دے کر یا سبزیوں کے شاپر دے کر وی آئی پیز کے حوالے کردیں۔ ان کا دل چاہے تو ہم سے ریچھ ڈانس کروائیں یا ہمیں اپنی لینڈ کروزر کے دروازے کھلوانے بند کروانے کے لئے رکھ لیں۔

ابھی ہماری بات چیت مزید ہوتی کہ ایک سپاہی نے آکر ہماری گپ شپ کا سلسلہ یہ کہہ کر منقطع کردیا کہ اپوزیشن سرکار کے ایک نمائندہ خاص نے اپنی فیملی کے ساتھ آئسکریم کھانے نکلنا ہے انہیں سیکیورٹی چائیے۔ یہ سنتے ہی سارے تھانے کی دوڑیں لگ گئیں کیونکہ اوپر سے سخت آرڈر تھے کہ موصوف کو خوش رکھنا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے میں نے اپنے دوست سے اجازت لی اور واپسی پر انہی سوچوں میں گم تھا کہ ہم پولیس سے بے پناہ شکایات رکھتے ہیں، بہت سی شکایات اپنی جگہ ٹھوس بھی ہیں مگر کیا ہم نے کبھی عملی طور پر اس خلیج کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے؟ کیا کسی نے ان کے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھایا ہے؟ اور اس کے ساتھ کیا کبھی ہم نے بھی اپنے حکمرانوں سے یہ گزارشات کیں ہیں کہ ان میں بہتری کی سفارشات حاضر ہیں جن سے ان اداروں پر اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔

پولیس کا خوف چور، اچکوں پر ہونا چائیے مگر یہاں معاملہ الٹ ہے اور ان الٹ معاملات کو سیدھا کرنا کس کی بنیادی ذمہ داری ہے یہ ہم آپ تو سوچ لیں گے، لیکن جن کو سوچنا چائیے وہ کب سنجیدہ ہوں گے؟ جب تک محکمہ میں جدید اصلاحات نہیں لائیں گے اس وقت تک نہ تو یہ رنگ باتیں کریں گے اور نہ ہی باتوں سے خوشبو آئے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں