بدامنی کیس بلوچستان حکومت کو تمام آئینی اثرات کا سامنا کرنا پڑیگا سپریم کورٹ
ایف سی اہلکاروں کے بعض افرادکولاپتا کرنے کے ثبوت موجودہیں،انتظامیہ کے اقدامات سے مطمئن نہیں
سپریم کورٹ نے بلوچستان امن و امان کیس میں جاری کردہ تحریری حکم نامے(آرڈر) میںکہاہے کہ عدالت لاپتا افرادکی بازیابی کے حوالے سے بلوچستان انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے مطمئن نہیں۔
صوبے میں لاپتہ افرادکے اہلخانہ کی شکایات کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہیں اور یہ بات کہنا بھی خلاف حقیقت نہ ہوگا کہ موصولہ رپورٹس اور آئی جی کے بیان کے مطابق بعض افرادکو لاپتہ کرنے میں ایف سی اہلکاروں کا بھی ہاتھ ہے اور اس سلسلے میں کافی ثبوت موجود ہیں۔یہ حکومت کی آئینی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کی جانوں کا تحفظ کرے ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسے تمام آئینی اور قانونی اثرات کاجلد سامنا کرنا پڑیگا، اگرکوئی یہ سمجھتا ہے کہ زیادہ وقت حاصل کرنے سے مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا تو وہ یہ کام اپنے رسک پرکر رہا ہے اور اس کا خمیازہ اسے آئین و قانون کے مطابق بھگتنا پڑے گا کیونکہ قانون اپنا راستہ خود بناتاہے۔
تحریری آرڈرکے مطابق دوران سماعت ظہور شاہوانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ عدالت کی گزشتہ سماعت کے بعد سے اب تک صوبے میں25 سے 30افراد قتل کیے جا چکے ہیں ۔عدالت نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ اس نے اپنے عبوری حکم نامے میں اسمبلی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا تاہم صوبائی حکومت کی ناکامی کا ذکر ضرورکیا تھا۔
مقتول حکمل رئیسانی کے والدکے وکیل نے بتایا کہ قتل کے سلسلے میںکوئی بھی گرفتاری تاحال عمل میں نہیں آسکی اس لیے عدالت ڈی آئی جی سی آئی ڈی کو حکم دیتی ہے کہ وہ قاتلوںکی گرفتاری میں ذاتی دلچسپی لیں۔ علی محمد ابو تراب نے عدالت کو بتایا کہ اس کے بھائی کو5 ماہ قبل اغواء کر لیا گیا تھا ۔
اغواء کنندگان نے 60لاکھ تاوان کے بدلے رہائی کی حامی بھری مگر پھر وہ اتنی رقم لینے سے انکاری ہوگئے۔ معاملہ پولیس کے نوٹس میں لایا گیا مگرکوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ایف بی آرکے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات کے بعد626ایسی گاڑیوںکی نشاندہی ہوئی ہے جوکسٹم ادا کیے بغیر صوبے میں چل رہی ہیں ۔عدالت نے چیئرمین ایف بی آرکو ہدایت کی کہ وہ صوبے میں تعینات اپنے افسران کو احکامات دیںکہ وہ ایسی گاڑیوںکو قبضے میں لینے کیلیے اقدامات تیزکریں ۔عدالت نے کہا ہے کہ بینچ کی دستیابی کی صورت میں دو ہفتے بعدکیس کی سماعت کوئٹہ میںکی جائے گی ۔
صوبے میں لاپتہ افرادکے اہلخانہ کی شکایات کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہیں اور یہ بات کہنا بھی خلاف حقیقت نہ ہوگا کہ موصولہ رپورٹس اور آئی جی کے بیان کے مطابق بعض افرادکو لاپتہ کرنے میں ایف سی اہلکاروں کا بھی ہاتھ ہے اور اس سلسلے میں کافی ثبوت موجود ہیں۔یہ حکومت کی آئینی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کی جانوں کا تحفظ کرے ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسے تمام آئینی اور قانونی اثرات کاجلد سامنا کرنا پڑیگا، اگرکوئی یہ سمجھتا ہے کہ زیادہ وقت حاصل کرنے سے مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا تو وہ یہ کام اپنے رسک پرکر رہا ہے اور اس کا خمیازہ اسے آئین و قانون کے مطابق بھگتنا پڑے گا کیونکہ قانون اپنا راستہ خود بناتاہے۔
تحریری آرڈرکے مطابق دوران سماعت ظہور شاہوانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ عدالت کی گزشتہ سماعت کے بعد سے اب تک صوبے میں25 سے 30افراد قتل کیے جا چکے ہیں ۔عدالت نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ اس نے اپنے عبوری حکم نامے میں اسمبلی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا تاہم صوبائی حکومت کی ناکامی کا ذکر ضرورکیا تھا۔
مقتول حکمل رئیسانی کے والدکے وکیل نے بتایا کہ قتل کے سلسلے میںکوئی بھی گرفتاری تاحال عمل میں نہیں آسکی اس لیے عدالت ڈی آئی جی سی آئی ڈی کو حکم دیتی ہے کہ وہ قاتلوںکی گرفتاری میں ذاتی دلچسپی لیں۔ علی محمد ابو تراب نے عدالت کو بتایا کہ اس کے بھائی کو5 ماہ قبل اغواء کر لیا گیا تھا ۔
اغواء کنندگان نے 60لاکھ تاوان کے بدلے رہائی کی حامی بھری مگر پھر وہ اتنی رقم لینے سے انکاری ہوگئے۔ معاملہ پولیس کے نوٹس میں لایا گیا مگرکوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ایف بی آرکے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات کے بعد626ایسی گاڑیوںکی نشاندہی ہوئی ہے جوکسٹم ادا کیے بغیر صوبے میں چل رہی ہیں ۔عدالت نے چیئرمین ایف بی آرکو ہدایت کی کہ وہ صوبے میں تعینات اپنے افسران کو احکامات دیںکہ وہ ایسی گاڑیوںکو قبضے میں لینے کیلیے اقدامات تیزکریں ۔عدالت نے کہا ہے کہ بینچ کی دستیابی کی صورت میں دو ہفتے بعدکیس کی سماعت کوئٹہ میںکی جائے گی ۔