عید قربان کیا سسٹم میں بہتری کی گنجائش نہیں

(خاکم بدہن) میں سنت ابراہیمی ؑ کے خلاف ہر گز نہیں ہوں بلکہ میں اس جذبے سے سرشار ہونے کو شرف سمجھتا ہوں


علی احمد ڈھلوں September 20, 2016
[email protected]

میرے گزشتہ کالم ''عید قربان یا اسٹیٹس سمبل'' پر چند دوست احباب اور قارئین نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ، ایک دوست تو خاصے متاثر بھی ہوئے اور کہا کہ ''بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی'' ۔ واقعی یہ حقیقت ہے کہ قربانی کا اصل مقصد لوگ بھلا بیٹھے ہیں، اب زیادہ تراسٹیٹس قائم رکھنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ پچھلے سال قربانی کی تھی ، اس سال نہ کی تو لوگ کیا سوچیں گے؟ یا کیا کہیں گے؟ ... یا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خاندان میں لوگ باتیں کریں گے اس لیے کہیں سے پیسے پکڑ کر جانور لے آئیں۔ خیر عید قربان گزر گئی لیکن دو تین چیزوں نے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑ ے۔ پہلا یہ کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ جانور قربان کرنے والا ملک ہے تو سرکار کہا ں ہے ؟ دوسرا یہ کہ عید گاہوں میں پہلی صفیں وی آئی پیز کے لیے مختص کیوں کی جاتی ہیں؟

میرے ایک دوست بتاتے ہیں کہ عید قرباں کے روز ان کی گلی ہمیشہ بند رہتی ہے ۔ میں خود لاہور کے ایک پوش علاقے میں اپنے عزیز کے گھر گیا اور جب واپسی کے لیے گاڑی نکالنے لگا تو مجھے تین گھنٹے انتظار کرنا پڑا کیونکہ گھر کے دروازے کے سامنے اونٹ ذبح کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ آپ پاکستان کے جس شہر میں بھی چلے جائیں عید کے ان تین ایام میں آپ کو جگہ جگہ آلائشوں کے ڈھیر نظر آئیں گے۔

(خاکم بدہن) میں سنت ابراہیمی ؑ کے خلاف ہر گز نہیں ہوں بلکہ میں اس جذبے سے سرشار ہونے کو شرف سمجھتا ہوں لیکن دنیا بھر میں اس قدر بے دردی اور اناڑی قصائیوں کے ہاتھوں جانوروں کو ذبح کرایا جاتا ہے ، کہیں گولی مار کر جانور کو گھیرا جارہا ہے تو کہیں ادھ ذبح جانور کے پیچھے نومولود قصائیوں کی دوڑیں لگی ہوتی ہیں۔ کیا اسلام یہ سکھاتا ہے کہ جانور کو اذیتیں دی جائیں، عوام الناس کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی جائیں اور کئی دن تک جانوروں کی آلائشوں کی بدبو پھیلی رہے۔

شہروں اور دیہات میں جانوروں کی قربانی سے متعلق بظاہر تو کوئی قانون موجود نہیں اور اگر ہے بھی تو نافذ العمل نہیں۔جگہ جگہ جانوروں کی منڈیاں نظر آتی ہیں جو کہیں حجم میں چھوٹی تو کہیں بڑی ہوتی ہیں۔ عموماً لوگ اپنی رہائش گاہوں کے باہر جانور ذبح کرتے ہیں۔ ایسے میں صفائی کے ناقص نظام کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے اور مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

دنیا بھر میں عید الاضحٰی کے موقع پر سنتِ ابراہیمی ؑ کی یاد تازہ کرنے کے لیے قوانین کی پاسداری لازمی ہوتی ہے۔آپ متحدہ عرب امارات کی مثال لے لیں۔ تمام ریاستوں میں قربانی کے جانوروں کی منڈیاں لگائی جاتی ہیں، ہر ریاست میں انتظامیہ کی جانب سے ان جانوروں کی فروخت کے لیے ایک مخصوص جگہ متعین کی جاتی ہے۔ قربانی گلی محلوں یا اپنی رہائش گاہ کے باہر نہیں کی جاسکتی بلکہ جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے سلاٹر ہاؤس میں لے جایا جاتا ہے جہاں موجود ڈاکٹرز کی جانب سے طبی معائنہ کے بعد اُنھیں قربان کیا جاتا ہے۔

اس کا مقصد جانوروں میں موجود بیماریوں کو انسانوں میں منتقلی سے روکنا ہے۔ جب کہ ذبح کرنے کے بعد بھی گوشت کا معائنہ کیا جاتا ہے کہ آیا اس گوشت کا استعمال مضرِ صحت تو نہیں۔دنیا بھر میں دوسرے ممالک سے قربانی کے لیے آنے والے جانوروں کے معائنہ کے لیے ایئر پورٹ پر بھی ویٹرنری سیکشن ہوتا ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے کہ یہ جانور بیماریوں سے پاک ہوں۔

یہ سب مثالیں ایک طرف مگر پاکستان ایسا ملک کیوں ہے جہاں ریاست لاچار دکھائی دیتی ہے، وہ ہر سال اربوں روپے صفائی ستھرائی کے لیے خرچ کرتی ہے مگر ہر یونین کونسل میں قربانی کی نگرانی نہیں کر سکتی اور نہ ہی جگہ مختص کر سکتی ہے ۔ میرے خیال میں یہ کام وزارت مذہبی امور یا بیت المال کی زیر نگرانی ہونا چاہیے اور حکومت یہ بھی خیال رکھے کہ قربانی کی کھالیں کہاں جا رہی ہیں ؟ کیا یہ انھی لوگوں کے ہاتھوں تو نہیں جارہیں جو ہمارے بچوں کو ماررہے ہیں، ملک دشمن قوتیں بھی تو ملک میں دندناتی پھر رہی ہیں۔

کیا علم کہ یہ سب کچھ انھیں کے پاس جا رہا ہو۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ قربانی کے جانوروں کی خود خریدو فروخت کرے تاکہ عام آدمی بھی قربانی کر سکے ، ورنہ بیس ہزار والا بکرا قربانی کے دنوں میں 60ہزار کا کبھی نہ بکے۔ حکومت خود کھالیں اکٹھی کرے اور یہ تصدیق کرے کہ کونسی جماعت مستحق ہے اور کونسی نہیں؟ ہر سال دنیا بھر میں 30کروڑ کے لگ بھگ جانور وں کو ذبح کیا جاتا ہے اور اگلے سال اس انڈسٹری میں اتنے ہی مزید جانوروں کا اضافہ ہو جا تاہے۔ ایک نظر خالص بزنس کے تناظر میں دیکھاجائے تو عیدالاضحی کے موقع پر فارمنگ انڈسٹری تیزی سے بڑھتی ہے۔ اس کے بعد کیٹل انڈسٹری کو عروج ملتا ہے۔ پھر لیدر انڈسٹری کا پہیہ حرکت میں آجاتا ہے۔ یہ تین انڈسٹریز تو براہ راست اس سے متحرک ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ بھی بے شمار انڈسٹریز کو اس موقع پر فائدہ پہنچتا ہے۔ اسلامی ممالک میں ابھی انڈسٹریز کو اتنا فروغ حاصل نہیں ہوا۔ ورنہ ان جانوروں کی اون، ہڈیوں، چربی اور انتڑیوں سے ایسے ایسے بزنس وجود میں آسکتے ہیں، جن سے لاکھوں افراد کو مزید روزگار میسر آسکتا ہے۔ حکومت تھوڑی سی بھی دلچسپی لے تو جانوروں کی باقیات سے روزگار کے سیکڑوں مزید مواقع پیدا کیے جاسکتے ہیں۔

یقین جانیے جانوروں کی باقیات پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ ان سے واٹر پروفنگ، آگ سلگانے، موم بتی بنانے، صابن اور کاسمیٹکس بنانے سے لے کر مختلف اجزاء میں ڈھالنے تک سیکڑوں ہزاروں پروڈکٹس بنائی جاسکتی ہیں۔ جن فضلات کو ٹھکانے لگانے اور شہر سے باہر ڈمپ کرنے پر ملک بھر کی میونسپلٹی اپنی توانائیاں جھونک دیتی ہے، ان کو کارآمد بناکر اربوں کے بزنس شروع کیے جاسکتے ہیں۔ بلاشبہ ان چیزوں سے اب بھی بے شمار اشیاء بنائی جارہی ہیں، مگر ذرا سی حکومتی توجہ اور تاجرانہ اپروچ اس کام کو ملک کی خوش حالی کا ذریعہ بنا سکتی ہے۔

پھر شاید وہ وقت آجائے جب کمپنیاں خود ہی تمام گھروں سے باقیات جمع کررہی ہوں اور کچرے کے ڈھیر سے بزنس کے پہاڑ کھڑے کر رہی ہوں۔ صرف عید کے تین دنوں میں لیدر انڈسٹری کو اپنا 30 فیصد خام مال مل جاتا ہے۔ تو ایسے میں حکومت کہاں سو رہی ہے ۔ کیا حکومت یہی چاہتی ہے کہ اسے پکی پکائی مل جائے یعنی فلاں کی انکم میں سے کتنے فیصد رقوم کاٹنی ہیں اور کتنے فیصد بچانی ہے۔ اگر نظام بہتر ہو جائے تو اربوں روپے کی اس انڈسٹری سے حقیقت میں غریب آدمی کی مدد کر سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں