ڈپٹی نذیر احمد اور بچیوں کی تعلیم
’’تمہیں یاد ہے فلاں کے میلاد پر اس لڑکی کو دیکھا تھا ناں۔ دبلی پتلی سلونی سی۔‘‘
''تمہیں یاد ہے فلاں کے میلاد پر اس لڑکی کو دیکھا تھا ناں۔ دبلی پتلی سلونی سی۔''
ہاں یاد آیا فلاں کی بیٹی۔ غالباً ان کے شوہرکی پہلی بیوی کی بیٹی تھی۔''
''بہت چھوٹی سی تھی تو اس کے باپ سے ماں طلاق لے کر پنجاب چلی گئی تھی۔بس دو چھوٹے بچے تھے ایک یہ، ایک اس بچی سے ذرا بڑا بھائی تھا۔پر شاباش ہے ماں کو ذرا خیال نہ کیا اور چلی گئی۔ بعد میں اس نے بھی وہاں شادی کرلی تھی۔''
''خیریت...کیا ہوا اس لڑکی کو۔میٹرک توکرلینا تھا اس نے۔''
''لومیٹرک بھی کرلیا تھا فرسٹ ایئرمیں داخلہ بھی لے لیا تھا۔اپنی مرضی سے شادی بھی کرلی تھی۔ خیر سے ایک بیٹا بھی ہوا،ابھی دس بارہ روزکا ہی بچہ تھا کہ لڑکی کے گردے فیل ہوگئے اور بیماری میں مر گئی۔''
''کیا...مرگئی؟'' یہ ایک ہولناک انکشاف تھا۔
''تو اورکیا مرگئی۔ پسند کی شادی تھی ناں۔ باپ کو تو لڑکا پہلے ہی ناپسند تھا لیکن کیا کرتا بیٹی کی پسند جو تھی۔ آج کل بچوں میں اتنی بے راہ روی بڑھ گئی ہے کہ کیا ہورہا ہے۔ یہ زمانہ کدھر جا رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آتا، اسکول کالجز توکیا کم تھے کہ ان کوچنگ سینٹرز نے بھی ایک نئے ماحول کو جنم دے دیا والدین کہاں تک پہرے داری کریں۔ باپ بے چارے نے محبت میں گھر تک بیٹی کے نام کردیا کہ بیٹی کی خوشی کی سیکیورٹی بھی رہے حالانکہ شادی کے بعد باپ نے بیٹی سے بات کرنا بھی چھوڑ دی تھی لیکن بیٹی نے دوسری ماں جس نے اسے اپنے بچوں کی طرح پالاپوسا چوری چھپے فون کرتی رہتی تھی۔ سنا ہے لڑکی کو جان بوجھ کر مارا گیا ہے۔''
اوہ خدایا۔ بہت برا ہوا۔ لیکن ایسا کیا تھا کہ اسے مارا گیا۔ بیٹا بھی تھا حالانکہ اس کا۔گھر بھی اس کے نام تھا۔''
''شادی کے بعد لڑکے نے بہت برا رویہ رکھا تھا دونوں کی کسی کوچنگ میں دوستی ہوئی تھی پہلے دراصل لڑکا ٹائم پاس کررہا تھا لیکن باپ نے دونوں کو پکڑلیا اورزبردستی شادی کروادی اور اسی وجہ سے کہ بیٹی خوش رہے لڑکے کا منہ بھرنے کے لیے گھر بھی نام لکھ دیا۔شاید لڑکے والے بھی اس شادی سے خوش نہ تھے، لڑکا لڑکی کی خوب پٹائی کرتا تھا۔ ننھی سی جان عمر ہی کیا تھی اس کی۔ اسکول میں جاب بھی کرتی حالانکہ یہ اس کے اپنے پڑھنے کی عمر تھی۔ واپس آکرکھانا پکاتی، ساس نندوں کی تلخ باتیں سہتی،کس سے کہتی اورکس سے نہ کہتی کہ یہ اس کا اپنا فیصلہ تھا کم عمری کی شادی میں یہ بوجھ۔
بس سال ڈیڑھ سال میں چٹ پٹ ہوگئی۔ لڑکی کے والدین شہر سے باہر تھے تب انھیں اس کی شدید بیماری کی اطلاع ملی تودوڑے آئے لیکن وقت بہت گزرچکا تھا، حالات اورواقعات سے یہی ظاہر ہورہا تھا کہ اسے پلاننگ کے تحت مارا گیا ہے لڑکی کی نند نرس ہے بس اب کیا کہیں بات پولیس تھانے تک پہنچی ہے۔''
یہ گفتگوکسی ڈرامے یا افسانے کی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ایک معصوم لڑکی کی زندگی کی ہے جو اب ہم سب کے درمیان نہیں رہی یہ نئی نسل اخلاقی طور پرکس قدر دلدل میں دھنستی جا رہی ہے ہمیں احساس تک نہیں ہے کس طرح ان کی تربیت میں زہر شامل ہو رہا ہے جو مذہبی اور معاشرتی طور پر اخلاقی انحطاط کا شکار ہورہے ہیں۔
ان دنوں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے بہت چرچے جاری ہیں، ذرا حقیقی آنکھ سے دیکھیے کہ تعلیم اور انسانی زندگی کے درمیان کیا رشتے ہے۔ کیا اس طرح کی تعلیم ہماری بچیوں کے لیے کافی ہے جو ان کو میٹرک انٹر اور بی اے کی کامیابی کی ڈگریاں تو دلا دیں لیکن عملی طور پر ان کے لیے یہ تعلیم کس حد تک موثر ثابت ہوسکتی ہے، تعلیم کا مقصد کیا ہے؟
تعلیم انسانی زندگی کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے بچوں اور بچیوں کے نوخیزمعصوم ذہن اس طرح ان خطوط پر سنوارے جائیں کہ وہ اپنے معاشرتی اورمذہبی حقوق کو بہتر طور پر سمجھیں۔ لڑکے اور لڑکی کے درمیان دوستی کس حد تک جاسکتی ہے اس کے درمیان پیمانہ مقررکرنے میں انھیں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی کم عمر اسکول کے بچے اور بچی کی خودکشی کا کیس ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔
آج کل اسکولز کالجز میں کیا پڑھایا جا رہا ہے تقریباً ایک صدی سے بھی زیادہ ہوئے ڈپٹی نذیر احمد نے اپنی بچی کی تعلیم کے لیے ''مراۃ العروس'' 1869 میں لکھا۔ یہ ناول انھوں نے ایک اچھے مقصد کو ذہن میں رکھ کر لکھا،اس زمانے میں بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے کوئی باقاعدہ کورس نہ تھا۔ یہ ایک اصلاحی ناول تھا جسے بعد میں باقاعدہ کورس میں شامل کیا گیا بلکہ ان کو انعام واکرام سے بھی نوازا گیا۔ مراۃ العروس، بنات النعش، توبۃ النصوح جیسے مقبول ناولز میں انھوں نے خاص کر خواتین کا معاشرے میں مقام اورتربیت کے حوالے سے آسان، خوبصورت مکالمے، کہانی کے سے اسلوب میں ایک نئے اندازکو متعارف کروایا جس میں لڑکیوں کے کردار،اخلاق، بول چال، سگھڑ پن، صبح سویرے اٹھنے کے فوائد،گھریلوذمے داریاں، شوہر اور بچوں کے حقوق بہت خوبصورت طریقے سے لکھے۔
ڈپٹی نذیراحمد آج بھی پڑھنے والوں کے لیے کمال کے مصنف ہیں، اس زمانے میں یہی ایک مناسب طریقہ تھا جسے اصلاح معاشرہ کے لیے استعمال کیا گیا۔ سوا صدی گزر چکی ہے ہر اسکول کالج اور کوچنگ سینٹر سے کہانیاں ابھر رہی ہیں۔ قندیل بلوچ کی زندگی نے بہت سے عقل کے اندھوں کے لیے قندیل روشن کردی ہے۔ اب شدت سے ضرورت ہے کہ بچیوں کی تعلیم میں اصلاح معاشرہ کا پہلو دیکھتے ہوئے جدید خطوط پر ایسا کورس ترتیب دیا جائے جو انھیں کمپیوٹر کے تاروں میں الجھنے کی بجائے اپنی زندگی کے تاروں کو خوبصورتی سے ترتیب دینے کی کوشش کرے تاکہ نہ صرف اس کی بلکہ معاشرے میں بھی بدصورتی نہ پیدا ہو ہم اپنی بچیوں کے مستقبل سے خوفزدہ نہ ہوں اور وہ ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش نہ کریں۔
ہاں یاد آیا فلاں کی بیٹی۔ غالباً ان کے شوہرکی پہلی بیوی کی بیٹی تھی۔''
''بہت چھوٹی سی تھی تو اس کے باپ سے ماں طلاق لے کر پنجاب چلی گئی تھی۔بس دو چھوٹے بچے تھے ایک یہ، ایک اس بچی سے ذرا بڑا بھائی تھا۔پر شاباش ہے ماں کو ذرا خیال نہ کیا اور چلی گئی۔ بعد میں اس نے بھی وہاں شادی کرلی تھی۔''
''خیریت...کیا ہوا اس لڑکی کو۔میٹرک توکرلینا تھا اس نے۔''
''لومیٹرک بھی کرلیا تھا فرسٹ ایئرمیں داخلہ بھی لے لیا تھا۔اپنی مرضی سے شادی بھی کرلی تھی۔ خیر سے ایک بیٹا بھی ہوا،ابھی دس بارہ روزکا ہی بچہ تھا کہ لڑکی کے گردے فیل ہوگئے اور بیماری میں مر گئی۔''
''کیا...مرگئی؟'' یہ ایک ہولناک انکشاف تھا۔
''تو اورکیا مرگئی۔ پسند کی شادی تھی ناں۔ باپ کو تو لڑکا پہلے ہی ناپسند تھا لیکن کیا کرتا بیٹی کی پسند جو تھی۔ آج کل بچوں میں اتنی بے راہ روی بڑھ گئی ہے کہ کیا ہورہا ہے۔ یہ زمانہ کدھر جا رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آتا، اسکول کالجز توکیا کم تھے کہ ان کوچنگ سینٹرز نے بھی ایک نئے ماحول کو جنم دے دیا والدین کہاں تک پہرے داری کریں۔ باپ بے چارے نے محبت میں گھر تک بیٹی کے نام کردیا کہ بیٹی کی خوشی کی سیکیورٹی بھی رہے حالانکہ شادی کے بعد باپ نے بیٹی سے بات کرنا بھی چھوڑ دی تھی لیکن بیٹی نے دوسری ماں جس نے اسے اپنے بچوں کی طرح پالاپوسا چوری چھپے فون کرتی رہتی تھی۔ سنا ہے لڑکی کو جان بوجھ کر مارا گیا ہے۔''
اوہ خدایا۔ بہت برا ہوا۔ لیکن ایسا کیا تھا کہ اسے مارا گیا۔ بیٹا بھی تھا حالانکہ اس کا۔گھر بھی اس کے نام تھا۔''
''شادی کے بعد لڑکے نے بہت برا رویہ رکھا تھا دونوں کی کسی کوچنگ میں دوستی ہوئی تھی پہلے دراصل لڑکا ٹائم پاس کررہا تھا لیکن باپ نے دونوں کو پکڑلیا اورزبردستی شادی کروادی اور اسی وجہ سے کہ بیٹی خوش رہے لڑکے کا منہ بھرنے کے لیے گھر بھی نام لکھ دیا۔شاید لڑکے والے بھی اس شادی سے خوش نہ تھے، لڑکا لڑکی کی خوب پٹائی کرتا تھا۔ ننھی سی جان عمر ہی کیا تھی اس کی۔ اسکول میں جاب بھی کرتی حالانکہ یہ اس کے اپنے پڑھنے کی عمر تھی۔ واپس آکرکھانا پکاتی، ساس نندوں کی تلخ باتیں سہتی،کس سے کہتی اورکس سے نہ کہتی کہ یہ اس کا اپنا فیصلہ تھا کم عمری کی شادی میں یہ بوجھ۔
بس سال ڈیڑھ سال میں چٹ پٹ ہوگئی۔ لڑکی کے والدین شہر سے باہر تھے تب انھیں اس کی شدید بیماری کی اطلاع ملی تودوڑے آئے لیکن وقت بہت گزرچکا تھا، حالات اورواقعات سے یہی ظاہر ہورہا تھا کہ اسے پلاننگ کے تحت مارا گیا ہے لڑکی کی نند نرس ہے بس اب کیا کہیں بات پولیس تھانے تک پہنچی ہے۔''
یہ گفتگوکسی ڈرامے یا افسانے کی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ایک معصوم لڑکی کی زندگی کی ہے جو اب ہم سب کے درمیان نہیں رہی یہ نئی نسل اخلاقی طور پرکس قدر دلدل میں دھنستی جا رہی ہے ہمیں احساس تک نہیں ہے کس طرح ان کی تربیت میں زہر شامل ہو رہا ہے جو مذہبی اور معاشرتی طور پر اخلاقی انحطاط کا شکار ہورہے ہیں۔
ان دنوں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے بہت چرچے جاری ہیں، ذرا حقیقی آنکھ سے دیکھیے کہ تعلیم اور انسانی زندگی کے درمیان کیا رشتے ہے۔ کیا اس طرح کی تعلیم ہماری بچیوں کے لیے کافی ہے جو ان کو میٹرک انٹر اور بی اے کی کامیابی کی ڈگریاں تو دلا دیں لیکن عملی طور پر ان کے لیے یہ تعلیم کس حد تک موثر ثابت ہوسکتی ہے، تعلیم کا مقصد کیا ہے؟
تعلیم انسانی زندگی کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے بچوں اور بچیوں کے نوخیزمعصوم ذہن اس طرح ان خطوط پر سنوارے جائیں کہ وہ اپنے معاشرتی اورمذہبی حقوق کو بہتر طور پر سمجھیں۔ لڑکے اور لڑکی کے درمیان دوستی کس حد تک جاسکتی ہے اس کے درمیان پیمانہ مقررکرنے میں انھیں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی کم عمر اسکول کے بچے اور بچی کی خودکشی کا کیس ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔
آج کل اسکولز کالجز میں کیا پڑھایا جا رہا ہے تقریباً ایک صدی سے بھی زیادہ ہوئے ڈپٹی نذیر احمد نے اپنی بچی کی تعلیم کے لیے ''مراۃ العروس'' 1869 میں لکھا۔ یہ ناول انھوں نے ایک اچھے مقصد کو ذہن میں رکھ کر لکھا،اس زمانے میں بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے کوئی باقاعدہ کورس نہ تھا۔ یہ ایک اصلاحی ناول تھا جسے بعد میں باقاعدہ کورس میں شامل کیا گیا بلکہ ان کو انعام واکرام سے بھی نوازا گیا۔ مراۃ العروس، بنات النعش، توبۃ النصوح جیسے مقبول ناولز میں انھوں نے خاص کر خواتین کا معاشرے میں مقام اورتربیت کے حوالے سے آسان، خوبصورت مکالمے، کہانی کے سے اسلوب میں ایک نئے اندازکو متعارف کروایا جس میں لڑکیوں کے کردار،اخلاق، بول چال، سگھڑ پن، صبح سویرے اٹھنے کے فوائد،گھریلوذمے داریاں، شوہر اور بچوں کے حقوق بہت خوبصورت طریقے سے لکھے۔
ڈپٹی نذیراحمد آج بھی پڑھنے والوں کے لیے کمال کے مصنف ہیں، اس زمانے میں یہی ایک مناسب طریقہ تھا جسے اصلاح معاشرہ کے لیے استعمال کیا گیا۔ سوا صدی گزر چکی ہے ہر اسکول کالج اور کوچنگ سینٹر سے کہانیاں ابھر رہی ہیں۔ قندیل بلوچ کی زندگی نے بہت سے عقل کے اندھوں کے لیے قندیل روشن کردی ہے۔ اب شدت سے ضرورت ہے کہ بچیوں کی تعلیم میں اصلاح معاشرہ کا پہلو دیکھتے ہوئے جدید خطوط پر ایسا کورس ترتیب دیا جائے جو انھیں کمپیوٹر کے تاروں میں الجھنے کی بجائے اپنی زندگی کے تاروں کو خوبصورتی سے ترتیب دینے کی کوشش کرے تاکہ نہ صرف اس کی بلکہ معاشرے میں بھی بدصورتی نہ پیدا ہو ہم اپنی بچیوں کے مستقبل سے خوفزدہ نہ ہوں اور وہ ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش نہ کریں۔