احتجاجی سیاست اوراپوزیشن میں پھوٹ
اپوزیشن حکومت کی پالیسیوں اورکمزوریوں پر نکتہ چینی ضرورکرتی ہے
میری رائے میں پاکستان کے بعض سیاستدانوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جمہوریت صرف احتجاج کا نام ہے یا پھر ایک منتخب اورجمہوری حکومت کا خاتمہ اس کی مدت سے قبل ہی کردیا جائے تو وہ جمہوریت زندہ باد کا نعرہ لگاسکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اور جمہوری ملکوں میں جب مخصوص مدت کے لیے حکومت قائم ہوجاتی ہے تو اسے کام کرنے دیا جاتا ہے تاکہ وہ عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے پر بھرپورتوجہ دے سکے۔
البتہ اپوزیشن حکومت کی پالیسیوں اورکمزوریوں پر نکتہ چینی ضرورکرتی ہے لیکن عموماً ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ منتخب حکومت کے برسراقتدار آتے ہی اپوزیشن سازشیں شروع کردے اور مسلسل احتجاج کی کال دیتی رہے۔ اس طرح ایک منتخب حکومت عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کے بجائے احتجاج کی غیر ضروری کالوں سے نمٹنے میں اپنا قیمتی وقت ضایع کردیتی ہے۔ اپوزیشن کے لیے اپنی بات کرنے کا بہترین فورم پارلیمینٹ ہے جہاں وہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرسکتی ہے اور ان پر اثرانداز بھی ہوسکتی ہے اورقانون سازی کے عمل میں اپنا حصہ بھی ڈال سکتی ہے، لیکن جب اپوزیشن کی نیت خراب ہو اوروزیراعظم بننے کی خواہش نفسیاتی مرض بن گئی ہو تو پھر جلدازجلد حکومت کے خاتمے اور احتجاج کی راہ اختیارکرنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستان میں پیپلزپارٹی سمیت اپوزیشن کی کئی سیاسی جماعتیں ہیں مگر عمران خان صرف اپنے آپ کو ہی اپوزیشن لیڈر تصور کرتے ہیں اور وہ کسی بھی طرح حکومت کے حصول کو جائز سمجھتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے موجودہ حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ریلیوں اوردھرنوں کی سیاست شروع کردی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ عوامی دباؤکے ذریعے ایک منتخب عوامی حکومت کوگرانے میں کامیاب ہوجائیں گے مگر ہر بار انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور ہر بار وہ اپنے کارکنوں کو جھوٹی تسلیاں دینے کی کوشش کرتے رہے ان کی سیاسی حکمت عملی اتنی ناقص رہی کہ ان کی پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے ایک الگ گروپ بنالیا۔
پارٹی میں دھڑے بندی کے باوجود انھوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی نہیں کی۔ پھرجب اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا تو ان کے ساتھ ساتھ پاکستان عوامی تحریک بھی تھی جو اب ان کے فیصلوں سے لاتعلقی کا اظہارکررہی ہے۔ انھوں نے پاناما لیکس کے معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اوراس واقعے کی آڑ میں حکومت کے خلاف عوام کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کی۔ عمران خان نے ٹی آر اوز کی بنیاد پر بعض اپوزیشن جماعتوں سے بھی راہ و رسم بڑھالی تھی اور وہ متحدہ اپوزیشن کا تاثر دینے لگے تھے۔
غالباً ان کا خیال تھا کہ وہ اپوزیشن کو متحد کرکے ان کی قیادت سنبھال لیں گے، لیکن اپوزیشن کے بعض سینئر اور سنجیدہ سیاستدان، عمران خان کی سیاسی چالوں کو خوب اچھی طرح سمجھ گئے۔ لہٰذا جب انھوں نے اعلان کیا کہ عیدکے بعد رائے ونڈ میں مارچ ہوگا اور جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ وہ وزیراعظم نوازشریف کے گھرکا گھیراؤکریں گے ان کے اس بیان پر نہ صرف حکومت بلکہ بعض اپوزیشن رہنماؤں کا بھی سخت اور واضح رد عمل سامنے آیا کہ کسی سیاسی لیڈرکے گھرکا گھیراؤ نہیں کرنا چاہیے،اگر یہ روایت پڑگئی تو دیگر رہنماؤں کے گھروں کا بھی گھیراؤکیا جائے گا اور نوبت خون خرابے تک پہنچ سکتی ہے۔
اس صورتحال میں عمران خان نے یوٹرن لیا اور یہ اعلان کیا کہ رائے ونڈ کسی کی جاگیر نہیں ہم رائے ونڈ میں مارچ کرسکتے ہیں اور وزیراعظم نوازشریف کے گھرکے سامنے نہیں جائیں گے۔ان کی خواہش تھی کہ رائے ونڈ مارچ میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں شریک ہوں انھوں نے بعض اپوزیشن جماعتوں کو احتجاج مارچ میں شرکت کی باقاعدہ دعوت بھی دی۔
مگرعمران خان کی حکمت عملی سے نومولود متحدہ اپوزیشن کا ہی شیرازہ بکھرگیا۔ حسرت ہے ان غنچوں پر جو بن کھلے ہی مرجھاگئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، قومی وطن پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان عوامی تحریک سمیت بیشتر اپوزیشن جماعتوں نے پی ٹی آئی کی جانب سے رائے ونڈ میں شرکت سے صاف انکارکردیا ہے۔ خورشید شاہ کے مطابق مخالفین کوئی بھی ہوں وہ کسی کے گھرکے باہر مظاہرہ کرنے کے خیال کی حمایت نہیں کرسکتے۔ قومی وطن پارٹی کے رہنماآفتاب احمد شیرپاؤ نے بتایا کہ ان کی جماعت نے اپوزیشن لیڈرکے ہمراہ قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔ جو اپوزیشن جماعتوں کا متفقہ فیصلہ تھا۔ تاہم واک آؤٹ سے ہمیں بڑی مایوسی ہوئی۔ عمران خان نے ہم سے ملنا بھی پسند نہیں کیا۔
انھوں نے پی ٹی آئی کے مجوزہ رائے ونڈ مارچ میں شرکت کے امکان کو مستردکردیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان زاہد خان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کسی کے بھی گھرکی چاردیواری کا احترام کرتی ہے اور وہ کسی کے بھی گھر کے باہر احتجاج کی کبھی حمایت نہیں کرے گی۔ جب کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ مارچ میں شریک ہوں گے نہ کوئی وفد بھیجیں گے۔ اسی طرح پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی گول مول انداز سے رائے ونڈ مارچ سے لاتعلقی کا اظہارکیا ہے۔ بلاشبہ عمران خان کی احتجاجی سیاست قبل از وقت ہی بے اثر ہوتی جارہی ہے وہ حکومت پر تو بھلا کیا دباؤ ڈالتے بلکہ ان کی سیاست کی وجہ سے اپوزیشن کی طاقت اور قوت منتشر ہونا شروع ہوگئی ہے اور مختلف ایشوز کی بنیاد پر متحدہ اپوزیشن کی تشکیل کا خواب بھی دھرا کا دھرا ہی رہ گیا ہے۔ اگر رائے ونڈ میں ان کے سیاسی کزن ہی ساتھ دے دیتے توکم ازکم انھیں کچھ افرادی قوت ہی مل جاتی اور شو آف کرنے کا موقع مل جاتا۔ اب سب نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔
قارئین کرام اس امر سے اب کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان تحریک انصاف کو اب یہ سوچنا پڑے گا کہ رائے ونڈ کی کال سے اپوزیشن طاقتور ہونے کے بجائے کمزورہوگئی ہے اور پی ٹی آئی کے سربراہ اپنا مارچ کامیاب بنانے کے لیے جن سہاروں کی تلاش میں تھے اب وہ انھیں میسر نہیں رہے۔ پی ٹی آئی کو اب تنہا پروازکرنی ہوگی اور اگر وہ رائے ونڈ میں کسی نہ کسی طرح مارچ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ محض ایک مشق ہوگی۔ ریلیوں، دھرنوں اور مختلف سطح پر ہونے والے انتخابات میں ناکامیوں کی ایک طویل فہرست ہے اور یہ تازہ ناکامی بھی اس فہرست کا حصہ بن جائے گی۔
موجودہ سیاسی صورتحال کا دیانتداری سے تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ عوام نے موجودہ جمہوری عوامی اور منتخب حکومت کو 5 سال کا مینڈیٹ دیا ہے۔ لہٰذا اسے 5 سال تک کام کرنے دیا جائے۔ موجودہ حکومت اس دوران عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جس میں دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور امن وامان قائم کرنے کا وعدہ کسی حد تک پورا کردیا گیا۔
موجودہ حکومت کو زوال پذیر معیشت ورثے میں ملی تھی، حکومت نے معیشت کو بہتر بنانے کا وعدہ کیا تھا۔آج اگر ہم اقتصادی اشاریوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں واضح طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ معیشت درست سمت میں گامزن ہے اور اس کا شمار ابھرتی ہوئی معیشت میں کیا جانے لگا ہے جہاں تک لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا تعلق ہے کہ اس ضمن میں حکومت نے انتھک محنت کی توانائی کے متعدد پراجیکٹ پر کام جاری ہے جس سے ملک میں لوڈشیڈنگ کی صورتحال پہلے سے بہتر ہے اور وزیراعظم نوازشریف نے وعدہ کیا ہے کہ 2018 تک ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ بھی ہوجائے گا۔اس کے علاوہ بے شمارترقیاتی منصوبوں بھی کام جاری ہے جن میں سی پیک اور موٹرویز کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ جب 2018 میں عام انتخابات ہوں گے تو عوام خود فیصلہ کریں گے کہ کون صحیح ہے اورکون غلط۔
البتہ اپوزیشن حکومت کی پالیسیوں اورکمزوریوں پر نکتہ چینی ضرورکرتی ہے لیکن عموماً ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ منتخب حکومت کے برسراقتدار آتے ہی اپوزیشن سازشیں شروع کردے اور مسلسل احتجاج کی کال دیتی رہے۔ اس طرح ایک منتخب حکومت عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کے بجائے احتجاج کی غیر ضروری کالوں سے نمٹنے میں اپنا قیمتی وقت ضایع کردیتی ہے۔ اپوزیشن کے لیے اپنی بات کرنے کا بہترین فورم پارلیمینٹ ہے جہاں وہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرسکتی ہے اور ان پر اثرانداز بھی ہوسکتی ہے اورقانون سازی کے عمل میں اپنا حصہ بھی ڈال سکتی ہے، لیکن جب اپوزیشن کی نیت خراب ہو اوروزیراعظم بننے کی خواہش نفسیاتی مرض بن گئی ہو تو پھر جلدازجلد حکومت کے خاتمے اور احتجاج کی راہ اختیارکرنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستان میں پیپلزپارٹی سمیت اپوزیشن کی کئی سیاسی جماعتیں ہیں مگر عمران خان صرف اپنے آپ کو ہی اپوزیشن لیڈر تصور کرتے ہیں اور وہ کسی بھی طرح حکومت کے حصول کو جائز سمجھتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے موجودہ حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ریلیوں اوردھرنوں کی سیاست شروع کردی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ عوامی دباؤکے ذریعے ایک منتخب عوامی حکومت کوگرانے میں کامیاب ہوجائیں گے مگر ہر بار انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور ہر بار وہ اپنے کارکنوں کو جھوٹی تسلیاں دینے کی کوشش کرتے رہے ان کی سیاسی حکمت عملی اتنی ناقص رہی کہ ان کی پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے ایک الگ گروپ بنالیا۔
پارٹی میں دھڑے بندی کے باوجود انھوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی نہیں کی۔ پھرجب اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا تو ان کے ساتھ ساتھ پاکستان عوامی تحریک بھی تھی جو اب ان کے فیصلوں سے لاتعلقی کا اظہارکررہی ہے۔ انھوں نے پاناما لیکس کے معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اوراس واقعے کی آڑ میں حکومت کے خلاف عوام کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کی۔ عمران خان نے ٹی آر اوز کی بنیاد پر بعض اپوزیشن جماعتوں سے بھی راہ و رسم بڑھالی تھی اور وہ متحدہ اپوزیشن کا تاثر دینے لگے تھے۔
غالباً ان کا خیال تھا کہ وہ اپوزیشن کو متحد کرکے ان کی قیادت سنبھال لیں گے، لیکن اپوزیشن کے بعض سینئر اور سنجیدہ سیاستدان، عمران خان کی سیاسی چالوں کو خوب اچھی طرح سمجھ گئے۔ لہٰذا جب انھوں نے اعلان کیا کہ عیدکے بعد رائے ونڈ میں مارچ ہوگا اور جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ وہ وزیراعظم نوازشریف کے گھرکا گھیراؤکریں گے ان کے اس بیان پر نہ صرف حکومت بلکہ بعض اپوزیشن رہنماؤں کا بھی سخت اور واضح رد عمل سامنے آیا کہ کسی سیاسی لیڈرکے گھرکا گھیراؤ نہیں کرنا چاہیے،اگر یہ روایت پڑگئی تو دیگر رہنماؤں کے گھروں کا بھی گھیراؤکیا جائے گا اور نوبت خون خرابے تک پہنچ سکتی ہے۔
اس صورتحال میں عمران خان نے یوٹرن لیا اور یہ اعلان کیا کہ رائے ونڈ کسی کی جاگیر نہیں ہم رائے ونڈ میں مارچ کرسکتے ہیں اور وزیراعظم نوازشریف کے گھرکے سامنے نہیں جائیں گے۔ان کی خواہش تھی کہ رائے ونڈ مارچ میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں شریک ہوں انھوں نے بعض اپوزیشن جماعتوں کو احتجاج مارچ میں شرکت کی باقاعدہ دعوت بھی دی۔
مگرعمران خان کی حکمت عملی سے نومولود متحدہ اپوزیشن کا ہی شیرازہ بکھرگیا۔ حسرت ہے ان غنچوں پر جو بن کھلے ہی مرجھاگئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، قومی وطن پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان عوامی تحریک سمیت بیشتر اپوزیشن جماعتوں نے پی ٹی آئی کی جانب سے رائے ونڈ میں شرکت سے صاف انکارکردیا ہے۔ خورشید شاہ کے مطابق مخالفین کوئی بھی ہوں وہ کسی کے گھرکے باہر مظاہرہ کرنے کے خیال کی حمایت نہیں کرسکتے۔ قومی وطن پارٹی کے رہنماآفتاب احمد شیرپاؤ نے بتایا کہ ان کی جماعت نے اپوزیشن لیڈرکے ہمراہ قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔ جو اپوزیشن جماعتوں کا متفقہ فیصلہ تھا۔ تاہم واک آؤٹ سے ہمیں بڑی مایوسی ہوئی۔ عمران خان نے ہم سے ملنا بھی پسند نہیں کیا۔
انھوں نے پی ٹی آئی کے مجوزہ رائے ونڈ مارچ میں شرکت کے امکان کو مستردکردیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان زاہد خان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کسی کے بھی گھرکی چاردیواری کا احترام کرتی ہے اور وہ کسی کے بھی گھر کے باہر احتجاج کی کبھی حمایت نہیں کرے گی۔ جب کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ مارچ میں شریک ہوں گے نہ کوئی وفد بھیجیں گے۔ اسی طرح پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی گول مول انداز سے رائے ونڈ مارچ سے لاتعلقی کا اظہارکیا ہے۔ بلاشبہ عمران خان کی احتجاجی سیاست قبل از وقت ہی بے اثر ہوتی جارہی ہے وہ حکومت پر تو بھلا کیا دباؤ ڈالتے بلکہ ان کی سیاست کی وجہ سے اپوزیشن کی طاقت اور قوت منتشر ہونا شروع ہوگئی ہے اور مختلف ایشوز کی بنیاد پر متحدہ اپوزیشن کی تشکیل کا خواب بھی دھرا کا دھرا ہی رہ گیا ہے۔ اگر رائے ونڈ میں ان کے سیاسی کزن ہی ساتھ دے دیتے توکم ازکم انھیں کچھ افرادی قوت ہی مل جاتی اور شو آف کرنے کا موقع مل جاتا۔ اب سب نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔
قارئین کرام اس امر سے اب کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان تحریک انصاف کو اب یہ سوچنا پڑے گا کہ رائے ونڈ کی کال سے اپوزیشن طاقتور ہونے کے بجائے کمزورہوگئی ہے اور پی ٹی آئی کے سربراہ اپنا مارچ کامیاب بنانے کے لیے جن سہاروں کی تلاش میں تھے اب وہ انھیں میسر نہیں رہے۔ پی ٹی آئی کو اب تنہا پروازکرنی ہوگی اور اگر وہ رائے ونڈ میں کسی نہ کسی طرح مارچ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ محض ایک مشق ہوگی۔ ریلیوں، دھرنوں اور مختلف سطح پر ہونے والے انتخابات میں ناکامیوں کی ایک طویل فہرست ہے اور یہ تازہ ناکامی بھی اس فہرست کا حصہ بن جائے گی۔
موجودہ سیاسی صورتحال کا دیانتداری سے تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ عوام نے موجودہ جمہوری عوامی اور منتخب حکومت کو 5 سال کا مینڈیٹ دیا ہے۔ لہٰذا اسے 5 سال تک کام کرنے دیا جائے۔ موجودہ حکومت اس دوران عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جس میں دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور امن وامان قائم کرنے کا وعدہ کسی حد تک پورا کردیا گیا۔
موجودہ حکومت کو زوال پذیر معیشت ورثے میں ملی تھی، حکومت نے معیشت کو بہتر بنانے کا وعدہ کیا تھا۔آج اگر ہم اقتصادی اشاریوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں واضح طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ معیشت درست سمت میں گامزن ہے اور اس کا شمار ابھرتی ہوئی معیشت میں کیا جانے لگا ہے جہاں تک لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا تعلق ہے کہ اس ضمن میں حکومت نے انتھک محنت کی توانائی کے متعدد پراجیکٹ پر کام جاری ہے جس سے ملک میں لوڈشیڈنگ کی صورتحال پہلے سے بہتر ہے اور وزیراعظم نوازشریف نے وعدہ کیا ہے کہ 2018 تک ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ بھی ہوجائے گا۔اس کے علاوہ بے شمارترقیاتی منصوبوں بھی کام جاری ہے جن میں سی پیک اور موٹرویز کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ جب 2018 میں عام انتخابات ہوں گے تو عوام خود فیصلہ کریں گے کہ کون صحیح ہے اورکون غلط۔