آفریدی کے آخری میچ کا اصل قصہ

2007 میں پی سی بی کے بڑوں کی خواہش تھی کہ انضمام الحق ٹیسٹ سے بھی ریٹائر ہو جائیں تاکہ کسی نئے بیٹسمین کو چانس مل سکے


Saleem Khaliq September 20, 2016
آفریدی نے ملک کی طویل عرصے خدمت کی اور بلاشبہ وہ اس کے حقدار بھی ہیں ۔ فوٹو: فائل

2007 کی بات ہے، پی سی بی کے بڑوں کی خواہش تھی کہ انضمام الحق ٹیسٹ سے بھی ریٹائر ہو جائیں تاکہ کسی نئے بیٹسمین کو چانس مل سکے مگر ورلڈکپ میں بدترین ناکامی کے بعد ون ڈے کرکٹ چھوڑنے والے کپتان اس کے موڈ میں نہیں تھے، اس وقت کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم اشرف ، چیف سلیکٹر صلاح الدین صلو اور دیگر اعلیٰ حکام مل کر بیٹھے، کچھ لوگوں نے انضمام سے بھی بات کی، یوں کرکٹ میں پہلی بار ''گولڈن ہینڈ شیک'' اسکیم کا اطلاق ہوا، ایک کروڑ اب بھی بہت بڑی رقم ہے، آپ سوچ سکتے ہیں 9 برس قبل اس کی کتنی قدر ہو گی۔

طے یہ ہوا کہ جنوبی افریقہ کیخلاف لاہور ٹیسٹ میں انضمام الحق کوکیریئر کا باعزت اختتام کرنے کا موقع دیا جائیگا، اس کے عوض انھیں ایک کروڑ روپے دینے پر اتفاق ہوا، پھر جب بورڈ نے چیک دینا چاہا تو ٹیکس کی کٹوتی سے بچنے کیلیے کیش پر اصرار ہوا، یوں نسیم اشرف اور صلاح الدین کے سامنے کپتان کو بھاری رقم دی گئی، اس کی کوئی رسید بھی بورڈ کے پاس نہ تھی مگر بعد میں اصرار پر انضمام نے لکھ کر دیا کہ انھوں نے بورڈ سے ایک کروڑ روپے لیے ہیں، بعد میں یہ معاملہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں سامنے آیا اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بھی گیا، اس قصے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اکاؤنٹ سے ایک کروڑ دس لاکھ روپے نکالے گئے مگر انضمام کو ایک کروڑ دینے کے بعد باقی دس لاکھ کہاں گئے کسی کو نہیں پتا،آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آج میں کہاں پرانی باتیں لے کر بیٹھ گیا۔

مگر مجھے یہ سب کچھ اس لیے یاد آیا کہ ان دنوں شاہد آفریدی کے بارے میں یہ اطلاعات زیرگردش ہیں کہ چیف سلیکٹر انھیں الوداعی میچ کھیلنے کا موقع دے کر عزت سے ریٹائر کرانا چاہ رہے تھے، آفریدی نے ملک کی طویل عرصے خدمت کی اور بلاشبہ وہ اس کے حقدار بھی ہیں مگر افسوس ان کی بات پر حکام نے کوئی توجہ نہ دی، شاید انھوں نے اس کیلیے درست پلیٹ فارم کا استعمال نہ کیا، اگر انضمام الحق چاہتے تو انگلینڈ سے واحد ٹی ٹوئنٹی کیلیے جہاں انھوں نے عماد بٹ کو بھیجا وہاں شاہد آفریدی کو بھی بھیج دیتے مگر ایسا نہ کیا، پھر جب ویسٹ انڈیز سے سیریز کیلیے اسکواڈ منتخب کرنے لگے تب بھی انھیں خیال نہ آیا کہ آفریدی کو بطور 16واں کھلاڑی چن کر ایک میچ کھیلنے کا موقع دے دیتے ہیں، اچانک ٹیم کی روانگی سے قبل انھوں نے یہ شوشا چھوڑا جس سے حسب توقع تنازع کھڑا ہوا، سوچنے کی بات تھی کہ چیئرمین اسپتال اور نجم سیٹھی لندن میں تھے۔

ایسے میں کیسے اتنا بڑا فیصلہ ہو جاتا ؟ اب تو سلیکشن کمیٹی کو ٹیم کا انتخاب کرتے وقت چیئرمین کے دستخط کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، مگر اس ''بااختیار کمیٹی'' نے جب اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا تو حسب توقع انھیں یہی جواب ملا کہ آپ اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں ، ہم سے کیوں پوچھ رہے ہیں، خود فیصلہ کریں اور بعد میں کچھ مسئلہ ہو تو اس کی ذمہ داری بھی قبول کرنا ہو گی، یہ سوال بھی اٹھا کہ چیف سلیکٹر نے آفریدی کو میرٹ پر پہلے خود ٹیم میں لینے سے گریز کیا، سرفراز احمد بھی ان کی واپسی سے پریشان ہوتے، اب کیوں اس معاملے میں ہمیں لا کر اسے بگاڑ رہے ہیں، اب انضمام نے یہ تاثر دیا کہ وہ تو چاہتے تھے مگر حکام نے آفریدی کو آخری میچ کھیلنے کا موقع نہ دیا یوں خوامخواہ کا تنازع پیدا ہوا، اس کا تمام تر نقصان آفریدی کو ہی برداشت کرنا پڑا، اب اس سال حالیہ سیریز کے بعد مزید ٹی ٹوئنٹی میچز نہیں ہونے اور انھیں آخری میچ کھیلنے کیلیے اگلے برس تک انتظار کرنا پڑے گا۔

انھوں نے پانچ یا دس کروڑ روپے نہیں مانگے صرف باعزت طریقے سے اپنے لوگوں کے سامنے آخری میچ کھلانے کی بات کہی جو بالکل غلط نہیں ہے، یونس خان تو باقاعدہ منصوبہ بنا کر ون ڈے ٹیم میں آئے اور ایک میچ کھیل کر ریٹائر ہو گئے، مگر ڈسپلن کی اس خلاف ورزی پر ان کیخلاف کوئی ایکشن نہ لیا گیا، آفریدی کو یہ چالاکیاں نہیں آتیں ، ورنہ وہ بھی کچھ ایسا کر کے ایک میچ کھیل جاتے، یہ درست ہے کہ ان کی حالیہ فارم اچھی نہیں مگر اب بھی دنیا بھر کی ٹی ٹوئنٹی لیگز میں بڑی ڈیمانڈ ہے، بدقسمتی سے پاکستانی ٹیم میں میچ ونرز کی بھی کمی ہے، آفریدی نے ملک کو بے تحاشا میچز میں فتح دلائی اور آئندہ بھی ایسا کر سکتے ہیں،میں اب بھی اس بات پر قائم ہوں کہ ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں ان کی جگہ بنتی ہے، سرفراز احمد بلاشبہ بہت اچھے کھلاڑی ہیں، مگر بدقسمتی سے ہم بہت جلدی کھلاڑی کو آسمان پر پہنچاتے اور پھر گرا دیتے ہیں، آفریدی کے ساتھ بھی ایسا ہوا،اظہر علی کی ون ڈے کپتانی بچ گئی مگر وہ بھی ان دنوں زیرعتاب ہیں، خدانخواستہ اگر سرفراز چند میچز ہار گئے تو انھیں بھی برا بھلا کہنا شروع کر دیا جائیگا۔

یہ طریقہ کار درست نہیں ہے، صبر وتحمل سے کام لینا چاہیے، ملک میں ہیروز کی ویسے ہی کمی ہے جو ہیں ان کے ساتھ بھی خراب سلوک مناسب نہیں، اب نجم سیٹھی نے معاملے کی نزاکت سمجھتے ہوئے آفریدی کو26ستمبر کو لاہور طلب کیا ہے، شاید وہ مسئلے کا کوئی حل نکال لیں، البتہ پی ایس ایل میں ان کی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سے ریٹائرمنٹ کا اعلان مضحکہ خیز بات ہو گی، اس کیلیے مزید انتظار ہی کرنا چاہیے، وہ فروری میں شیڈول پاکستان سپر لیگ کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں، ایسے میں انھیں ایک انٹرنیشنل میچ کھلا کر باعزت طریقے سے ریٹائرمنٹ کا موقع دینا چاہیے، ویسے بھی ٹیم میں کون سے گیارہ میچ ونرز بھرے ہیں کہ ایک کھلاڑی کی جگہ بنانے سے کوئی مسئلہ ہو جائے، بورڈ کو انھیں اتنے شاندار انداز سے رخصت کہنا چاہیے کہ دنیا دیکھے کہ ہم اپنے سپراسٹارز کی کتنی قدر کرتے ہیں، بصورت دیگر ایک اور عظیم کھلاڑی کا کیریئر ناخوشگوار انداز میں ختم ہو جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں