سنو سچ کیا کہہ رہا ہے
مستقبل لکھا ہوا نہیں ہوتا اور نہ ہی مستقبل کوئی ایسی چیز ہوتا ہے جس میں آپ داخل ہوجائیں
KARACHI:
مستقبل لکھا ہوا نہیں ہوتا اور نہ ہی مستقبل کوئی ایسی چیز ہوتا ہے جس میں آپ داخل ہوجائیں بلکہ مستقبل وہ چیز ہے جو ہم خود بناتے ہیں۔ ہمیں کبھی پیچھے کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ ہم اس راستے پر نہیں جارہے ہیں ہر کامیاب آدمی کے پیچھے لاتعداد ناکامی کے سال ہوتے ہیں۔ ہمارا بہترین استاد ہماری غلطیاں ہونی چاہییں۔ ماریا روبنسن نے ٹھیک کہا ہے کہ کوئی بھی ماضی میں جاکر نئی شروعات نہیں کرسکتا لیکن ہم آج نئی شروعات کرکے ایک نیا اور خوشگوار مستقبل بنا سکتے ہیں۔
یہ زندگی کا اصول ہے کہ آپ نے وقت کے ساتھ ساتھ سفر کرنا ہے، اگر آپ وقت کے ساتھ سفر نہیں کریں گے تو وقت آگے نکل جائے گا اور آپ پیچھے رہ جائیں گے۔ ڈیکارٹ نے کہا تھا ''میں سوچتا ہوں اس لیے میں موجود ہوں '' آئیں ہم بے باکی سے آتش نمرود میں کود پڑیں اور اپنے مسائل کا اسی طرح مطالعہ کریں کہ ہر جزکل میں سماجائے ہمارا علاج فکرونظرکے سوا کچھ نہیں انسانی کرداراورایمان میں کبھی بھی اتنی گہری اور خطرناک تبدیلیاں نہیں ہوئیں ، جتنی آج کل ہورہی ہیں، آج پھر سقراط کا زمانہ ہے ۔ ہماری اخلاقی زندگی خطر ے میں ہے، آج ہم انسانیت کے چیتھڑے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں آج ہم میں سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ زندگی کے سارے پہلوؤں کا جائزہ لے سکے زندگی کے اس ڈرامے میں ہر شخص کو اپنا پارٹ تو یاد ہے لیکن وہ اس کے مطلب سے نابلد ہے زندگی بے معنی ہورہی ہے ۔
کسی زمانے میں عظیم شخصیتیں سچائی کے لیے جان دینے کے لیے تیار رہتی تھیں۔ سقراط نے اپنے دشمنوں سے بھاگنے کے بجائے جام شہادت پینا منظور کیا۔ افلاطون نے اس کے لیے ایک ریاست قائم کرنے کی خاطر دومرتبہ اپنی جان خطر ے میں ڈالی۔ مارکس اور پلیٹس کو تخت وتاج سے زیادہ اس سے محبت تھی، برونو اس کا وفادار ہونے کے جرم میں آگ میں جلادیا گیا ۔کسی زمانے میں کلیسیا اور حکومتیں اس سے کانپتی تھیں اوراس کے نام لیواؤں کو اس لیے قید و بند میں ڈال دیتی تھیں کہ ان کی وجہ سے حکومتوں کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا تھا ۔
دوسری طرف ہم ہمیشہ بہرے بنے رہے ہمارے سامنے سچ بار بارآ کے چلاتا رہا، دہائیاں دیتا رہا لیکن ہم میں کبھی اسے سننے کی ہمت اور جرأت نہ ہوسکی جب بھی وہ ہمارے سامنے آتا ہم اس سے خوفزدہ ہوکے اس سے ڈر کر بھاگ کر چھپ جاتے لیکن ہماری تمام تر بزدلی اور ڈر و خوف کے باوجود ہم سچ سے نہ چھپ سکے۔ آج سچ پوری قوت اور طاقت کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑا ہے اب ہمارے پاس نہ بھاگنے کی کوئی جگہ باقی بچی ہے اور نہ چھپنے کی۔ آج سچ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ہم نے اپنے لوگوں کا کیا سے کیا حال کردیا، اپنے ملک کو تباہی اور دیوالیے کے دہانے لاکھڑا کردیا ہے آج پورے ملک میں خاک اڑاتی پھررہی ہے۔
بربادی وحشیانہ رقص میں محو ہے موت دیوانہ وار قہقہے لگا رہی ہے، آج ہمارا ملک ایسا ملک بن گیا، جہاں کرپٹ سیاست دان، جمہوریت کے نام پر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں، جہاں علماء مذہب کے نام پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں مصروف ہیں جہاں بزنس مین اپنے منافعے کی خاطر لوگوں کو زندہ درگور کرنے تلا بیٹھا ہے ۔ جہاں جاگیردار ذرا سی بات پر اپنی تسکین کی خاطر اور دھاک بٹھانے کے لیے بے کس و بے بس کسانوں کی بیٹیوں کی عزت تار تار کر دیتے ہیں، جہاں ڈاکٹر کو مریض کی زندگی بچانے کے بجائے اپنی فیس کی زیادہ فکر ہوتی ہے جہاں شرافت، تعلیم ، تہذیب و تمدن ، مروت ، خلوص محبت کو کوئی ٹین ڈبے والا بھی نہیں خریدتا جہاں رشتوں کے لیے لڑکیوں کا معائنہ بھیڑبکریوں کی طرح ہوتا ہے، جہاں ہرجائزکام ناجائزطریقے سے انجام پاتاہے اور ہر ناجائزکام جائز طریقے سے ہوتا ہے۔
جہاں تھانے، نوکریاں، ٹھیکے سرعام بکتے ہیں جہاں کفن، تابوتوں ، رشوت،کمیشن کا کاروبار دن رات ترقی کرتا جا رہا ہے جہاں مزدوروں کا دن رات خون پیا جا رہا ہے۔ جہاں ہر دونمبرکام عروج پر ہے۔ جہاں عقل سے پیدل تہذیب و تمدن سے عاری سمجھ ودانش سے محروم نرے جاہل عقل مندوں، تعلیم یافتہ، دانش مندوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں ۔جہاں ابن الوقتوں، مفاد پرستوں، لٹیروں کی چاندی ہی چاندی ہے جہاں عوام کے ٹیکسوں پر چند ہزار لوگ عیش و عشرت میں غرق ہیں جہاں ٹیکس دینے والوں کے گھروں میں ماتم برپا ہے وہیں اس ٹیکس کے روپوں سے چند ہزار لوگ عیاشیوں میں مصروف ہیں وہ یا ان کے پیارے بیمار پڑیں تو وہ اپنا علاج خیراتی اسپتال میں کروانے پر مجبور ہیں جہاں وہ بغیردوائی یادو نمبر دوائی کی وجہ سے سسک سسک کرجان دے رہے ہیں جب کہ وہ لوگ جو ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی وجہ سے زندہ ہیں وہ بیمار ہوں تو اپنا علا ج بیرون ملک کرواتے ہیں۔
ٹیکس دینے والوں کے بچے پیلے اسکول میں پڑھیں اور ان لٹیروں کے بچے عالیشان ، ایئرکنڈیشنر انگلش اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں، ٹیکس دینے والوں کے بچوں کے لیے مالی اور چپڑاسی کی نوکری نصیب بناد ی گئی ہے اور تمام اعلیٰ اورمنافع بخش نوکریاں وہ اپنے پیاروں میں تقسیم کردیتے ہیں ۔ بے شرمی کی حد ہوگئی ہے اگر جمہوریت اس کا نام ہے تو لعنت ہے ایسی جمہوریت پر 69سالوں سے سنتے آرہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گذر رہا ہے عوام قربانیوں کے لیے تیار ہوجائیں ، بجلی، پیٹرول، گھی،آٹا، گیس، چاول، چینی میں اضافہ کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔
ساری کی ساری قربانیاں عام لوگ دیں اور عوام کے اداکردہ ٹیکسوں پر یہ زندہ صرف عیاشیاں ہی عیاشیاںکرتے رہیں۔ آپ ایک چھوٹا سا تجربہ کر کے دیکھ لیں آپ کسی کرپٹ سیاستدان ، بیوروکریٹس، جاگیردار، سرمایہ دار کے بچوں کی شادی یا موت میت میں جاکر معائنہ کر لیں آپ ان کی شان وشوکت ،ان کے کھانے،ان کے لباس ہیرے جواہرات دیکھ کر اپنا ذہنی توازن کھوبیٹھیں گے ۔ کیا یہ ملک اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ عوام قربانیاں دیتے رہیں فاقے کرتے رہیں خودکشیاں کرتے رہیں۔ ماتم کرتے رہیں اور ان کے پیسوںپر چند ہزار لوگ عیاشیوں میں غرق رہیں ۔ حضرت علی کا قول ہے ''کفرکا معاشرہ قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں'' اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ ظلم کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے لیکن یہ طے ہے کہ اب انجام دور نہیں۔
مستقبل لکھا ہوا نہیں ہوتا اور نہ ہی مستقبل کوئی ایسی چیز ہوتا ہے جس میں آپ داخل ہوجائیں بلکہ مستقبل وہ چیز ہے جو ہم خود بناتے ہیں۔ ہمیں کبھی پیچھے کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ ہم اس راستے پر نہیں جارہے ہیں ہر کامیاب آدمی کے پیچھے لاتعداد ناکامی کے سال ہوتے ہیں۔ ہمارا بہترین استاد ہماری غلطیاں ہونی چاہییں۔ ماریا روبنسن نے ٹھیک کہا ہے کہ کوئی بھی ماضی میں جاکر نئی شروعات نہیں کرسکتا لیکن ہم آج نئی شروعات کرکے ایک نیا اور خوشگوار مستقبل بنا سکتے ہیں۔
یہ زندگی کا اصول ہے کہ آپ نے وقت کے ساتھ ساتھ سفر کرنا ہے، اگر آپ وقت کے ساتھ سفر نہیں کریں گے تو وقت آگے نکل جائے گا اور آپ پیچھے رہ جائیں گے۔ ڈیکارٹ نے کہا تھا ''میں سوچتا ہوں اس لیے میں موجود ہوں '' آئیں ہم بے باکی سے آتش نمرود میں کود پڑیں اور اپنے مسائل کا اسی طرح مطالعہ کریں کہ ہر جزکل میں سماجائے ہمارا علاج فکرونظرکے سوا کچھ نہیں انسانی کرداراورایمان میں کبھی بھی اتنی گہری اور خطرناک تبدیلیاں نہیں ہوئیں ، جتنی آج کل ہورہی ہیں، آج پھر سقراط کا زمانہ ہے ۔ ہماری اخلاقی زندگی خطر ے میں ہے، آج ہم انسانیت کے چیتھڑے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں آج ہم میں سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ زندگی کے سارے پہلوؤں کا جائزہ لے سکے زندگی کے اس ڈرامے میں ہر شخص کو اپنا پارٹ تو یاد ہے لیکن وہ اس کے مطلب سے نابلد ہے زندگی بے معنی ہورہی ہے ۔
کسی زمانے میں عظیم شخصیتیں سچائی کے لیے جان دینے کے لیے تیار رہتی تھیں۔ سقراط نے اپنے دشمنوں سے بھاگنے کے بجائے جام شہادت پینا منظور کیا۔ افلاطون نے اس کے لیے ایک ریاست قائم کرنے کی خاطر دومرتبہ اپنی جان خطر ے میں ڈالی۔ مارکس اور پلیٹس کو تخت وتاج سے زیادہ اس سے محبت تھی، برونو اس کا وفادار ہونے کے جرم میں آگ میں جلادیا گیا ۔کسی زمانے میں کلیسیا اور حکومتیں اس سے کانپتی تھیں اوراس کے نام لیواؤں کو اس لیے قید و بند میں ڈال دیتی تھیں کہ ان کی وجہ سے حکومتوں کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا تھا ۔
دوسری طرف ہم ہمیشہ بہرے بنے رہے ہمارے سامنے سچ بار بارآ کے چلاتا رہا، دہائیاں دیتا رہا لیکن ہم میں کبھی اسے سننے کی ہمت اور جرأت نہ ہوسکی جب بھی وہ ہمارے سامنے آتا ہم اس سے خوفزدہ ہوکے اس سے ڈر کر بھاگ کر چھپ جاتے لیکن ہماری تمام تر بزدلی اور ڈر و خوف کے باوجود ہم سچ سے نہ چھپ سکے۔ آج سچ پوری قوت اور طاقت کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑا ہے اب ہمارے پاس نہ بھاگنے کی کوئی جگہ باقی بچی ہے اور نہ چھپنے کی۔ آج سچ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ہم نے اپنے لوگوں کا کیا سے کیا حال کردیا، اپنے ملک کو تباہی اور دیوالیے کے دہانے لاکھڑا کردیا ہے آج پورے ملک میں خاک اڑاتی پھررہی ہے۔
بربادی وحشیانہ رقص میں محو ہے موت دیوانہ وار قہقہے لگا رہی ہے، آج ہمارا ملک ایسا ملک بن گیا، جہاں کرپٹ سیاست دان، جمہوریت کے نام پر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں، جہاں علماء مذہب کے نام پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں مصروف ہیں جہاں بزنس مین اپنے منافعے کی خاطر لوگوں کو زندہ درگور کرنے تلا بیٹھا ہے ۔ جہاں جاگیردار ذرا سی بات پر اپنی تسکین کی خاطر اور دھاک بٹھانے کے لیے بے کس و بے بس کسانوں کی بیٹیوں کی عزت تار تار کر دیتے ہیں، جہاں ڈاکٹر کو مریض کی زندگی بچانے کے بجائے اپنی فیس کی زیادہ فکر ہوتی ہے جہاں شرافت، تعلیم ، تہذیب و تمدن ، مروت ، خلوص محبت کو کوئی ٹین ڈبے والا بھی نہیں خریدتا جہاں رشتوں کے لیے لڑکیوں کا معائنہ بھیڑبکریوں کی طرح ہوتا ہے، جہاں ہرجائزکام ناجائزطریقے سے انجام پاتاہے اور ہر ناجائزکام جائز طریقے سے ہوتا ہے۔
جہاں تھانے، نوکریاں، ٹھیکے سرعام بکتے ہیں جہاں کفن، تابوتوں ، رشوت،کمیشن کا کاروبار دن رات ترقی کرتا جا رہا ہے جہاں مزدوروں کا دن رات خون پیا جا رہا ہے۔ جہاں ہر دونمبرکام عروج پر ہے۔ جہاں عقل سے پیدل تہذیب و تمدن سے عاری سمجھ ودانش سے محروم نرے جاہل عقل مندوں، تعلیم یافتہ، دانش مندوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں ۔جہاں ابن الوقتوں، مفاد پرستوں، لٹیروں کی چاندی ہی چاندی ہے جہاں عوام کے ٹیکسوں پر چند ہزار لوگ عیش و عشرت میں غرق ہیں جہاں ٹیکس دینے والوں کے گھروں میں ماتم برپا ہے وہیں اس ٹیکس کے روپوں سے چند ہزار لوگ عیاشیوں میں مصروف ہیں وہ یا ان کے پیارے بیمار پڑیں تو وہ اپنا علاج خیراتی اسپتال میں کروانے پر مجبور ہیں جہاں وہ بغیردوائی یادو نمبر دوائی کی وجہ سے سسک سسک کرجان دے رہے ہیں جب کہ وہ لوگ جو ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی وجہ سے زندہ ہیں وہ بیمار ہوں تو اپنا علا ج بیرون ملک کرواتے ہیں۔
ٹیکس دینے والوں کے بچے پیلے اسکول میں پڑھیں اور ان لٹیروں کے بچے عالیشان ، ایئرکنڈیشنر انگلش اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں، ٹیکس دینے والوں کے بچوں کے لیے مالی اور چپڑاسی کی نوکری نصیب بناد ی گئی ہے اور تمام اعلیٰ اورمنافع بخش نوکریاں وہ اپنے پیاروں میں تقسیم کردیتے ہیں ۔ بے شرمی کی حد ہوگئی ہے اگر جمہوریت اس کا نام ہے تو لعنت ہے ایسی جمہوریت پر 69سالوں سے سنتے آرہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گذر رہا ہے عوام قربانیوں کے لیے تیار ہوجائیں ، بجلی، پیٹرول، گھی،آٹا، گیس، چاول، چینی میں اضافہ کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔
ساری کی ساری قربانیاں عام لوگ دیں اور عوام کے اداکردہ ٹیکسوں پر یہ زندہ صرف عیاشیاں ہی عیاشیاںکرتے رہیں۔ آپ ایک چھوٹا سا تجربہ کر کے دیکھ لیں آپ کسی کرپٹ سیاستدان ، بیوروکریٹس، جاگیردار، سرمایہ دار کے بچوں کی شادی یا موت میت میں جاکر معائنہ کر لیں آپ ان کی شان وشوکت ،ان کے کھانے،ان کے لباس ہیرے جواہرات دیکھ کر اپنا ذہنی توازن کھوبیٹھیں گے ۔ کیا یہ ملک اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ عوام قربانیاں دیتے رہیں فاقے کرتے رہیں خودکشیاں کرتے رہیں۔ ماتم کرتے رہیں اور ان کے پیسوںپر چند ہزار لوگ عیاشیوں میں غرق رہیں ۔ حضرت علی کا قول ہے ''کفرکا معاشرہ قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں'' اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ ظلم کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے لیکن یہ طے ہے کہ اب انجام دور نہیں۔