میڈیا پروٹوکول اور صحرائے تھر

ہر جماعت کے مشتعل کارکنان اپنی قیادت کے حکم پر یہ فریضہ انجام دے چکے۔

saifuzzaman1966@gmail.com

جس میڈیا پر 22 اگست کو حملے کیے گئے، اسٹاف کو زد و کوب، اسی میڈیا کی بدولت آج ایم کیو ایم پاکستان اپنے دفاع کو ممکن بناسکی۔ اسی میڈیا نے ان کے نقطہ نظر کو حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام تک پہنچایا۔ میڈیا پر یہ کوئی پہلا حملہ نہیں، بدقسمتی سے یہ تعداد سیکڑوں میں ہے۔

ہر جماعت کے مشتعل کارکنان اپنی قیادت کے حکم پر یہ فریضہ انجام دے چکے، درجنوں صحافی شہید کردیے گئے، کیمرہ مین، فوٹو گرافرز ماردیے گئے، حملے ہنوز جاری ہیں ان پر، جو آپ کے مسائل بھی اجاگرکرتے ہیں، آپ کے مخالفین کے بھی۔ لیکن زور اس پر ہے کہ صرف ہمارا نقطہ نظر بیان کیا جائے اور اس کے بعد چینل کا سوئچ آف۔ مجھے سیاسی جماعتوں کے اس طرز عمل پر کوئی خاص حیرت نہیں۔ کیونکہ ہم نے اپنے معاشرے کو انھی خطوط پر استوار کیا کہ جہاں سے بھلائی ہو رہی ہو، پہلا وار وہیں کیا جائے۔ کچھ عرصہ قبل یہی حال عدلیہ کا تھا۔ جس کا جی چاہا کارکنان کو لے کر سپریم کورٹ کی دیوار پھلانگ گیا۔ وجہ وہ فیصلہ جو ان کے خلاف آگیا۔

ان پر بھی حملے جاری رہتے، اگر چوہدری افتخار نہ آجاتے۔ حالانکہ یہ عدلیہ ہی ہے جس کی بدولت جمہوریت آج پٹڑی پر ہے۔ سیاستدان حکومتی خزانے پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔ ملک کو درجنوں ہاتھوں پیروں سے لوٹ رہے ہیں۔ اب انھیں چھوڑ دیا جائے تو عدلیہ مقدس ادارہ، پکڑ لیا تو ایک لمبی ہوہوں۔ اچھا یہ سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ جج ہم سے تعصب برت رہا ہے، عناد رکھتا ہے، ارے یہ عدلیہ ہے یا پٹواری کا دفتر، چلو ذرا سبق سکھاتے ہیں، انھیں بتائیں کہ جمہوریت میں کتنا دم ہے، انھیں شاید خبر نہیں ہم عوام سے ووٹ لے کر آئے ہیں، ہم نے حکومت چھینی نہیں بنائی ہے۔ اور حملہ شروع۔ ہمارا قومی نعرہ ہونا چاہیے۔ '' جو ہم چاہتے ہیں وہ کرو، نہیں تو جرمانہ بھرو''۔ جرمانے میں بات نہ ماننے والے کو ڈنڈے، جوتے، کبھی کبھی گولی بھی کھانی پڑتی ہے۔

اگرچہ مکمل طور پر اداروں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا، وہاں بھی اقربا پروری، جانبداری سے کام لیا گیا۔ کرپشن کے واقعات تو عام ہیں۔ آج بھی آپ میڈیا چینلز کا بغور جائزہ لیں۔ آپ اچھے ناظر ہیں تو باآسانی جان لیں گے کون سا چینل کسے سپورٹ کر رہا ہے، کیوں کر رہا ہے۔ کئی وجوہات ہیں، بعض اوقات بغض و عناد بھی دیکھنے میں آیا۔ کسی واقعے پر بدلہ و انتقام کے جذبات بھی کارفرما رہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اداروں کو اپنا تقدس پہلے خود قائم کرنا ہوتا ہے۔ بعد میں پاسداری نہ کرنے والوں کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ سلسلہ بہرحال رکھنا چاہیے۔ حدود کے تعین میں زندگی کا حسن ہے۔


اگر میں قوم کے مصائب و آلام کا ذکر کروں تو ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ کبھی کبھار تذکرے سے سمندر اور قطرے والی مثال کی صورت بنتی ہے۔ لیکن یہ جو شہنشاہوں اور بادشاہوں کے پروٹوکول میں غربا یا فقرا کے معصوم بچے اسپتال پہنچنے سے پہلے سڑک پر دم توڑ جاتے ہیں، ظلم ہے۔ بہت بڑا ظلم۔ آپ کے شہزادگان، ملکہ و شہزادیوں کی سواری غریب کی جان کا لاگو بن گئی ہے۔

میرے محترم بادشاہو، جو اس وقت ملک کی شہ رگ پر سوار ہیں، اور آیندہ بننے والو، میری آپ سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ آپ اپنی سڑکیں، راستے الگ سے تعمیر کروالیں، جس پر کسی جاندار و بے جان کو چلنے کی اجازت نہ ہو، سوائے آپ و اہل خانہ کے۔ اور وہ راستے ہمیشہ کے لیے ہوں، ابدالآباد، جب تک آپ کے خاندان کا تسلسل ہے۔ ہم آپ کی رعایا ہیں۔ یوں بھی ایک راستے پر ہمارا آپ کا سفر کرنا آپ کے شایان شان نہیں۔ ہماری غیرت و حمیت گوارا نہیں کرتی۔ ہمیں شرم آتی ہے، جب جناب کو ہمارے کسی بچے کی بیماری سے تکلیف ہوتی ہے۔ ہم جناب کے عدل و انصاف سے، عنایت سے امید رکھتے ہیں کہ ہماری اس چھوٹی سی درخواست پر غور فرمائیں گے۔

ہم اپنے موجودہ بادشاہ اور ان کے عظیم وزیر خزانہ سے ایک مزید درخواست کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔ حضور جان کی امان۔ ہمیں کوئی ایک ایسا کام بتادیں، مطلب کاروبار سے ہے جو ہم ٹِک کر کر سکیں۔ جب سے حضور نے خزانے کا قلم دان سنبھالا ہے ہم جو کام بھی کرتے ہیں اس کی پالیسی یکسر بدل جاتی ہے، نئے SROZ جاری ہوجاتے ہیں، فیصلے فوری نافذ العمل، بھاری بھرکم ٹیکسز عائد، کام بند، دوسرا کام شروع، معاملہ پھر وہی، وہ بھی بند۔ آپ ہی بتا دیں کیا کرنا ہے؟ ہم تو جو کرتے ہیں آپ کو شاید پسند نہیں۔ پراپرٹی کے معاملے میں حضور کے فیصلے نے خزانے کو کئی سو ارب روپے ماہانہ سے محروم کردیا، سندھ والے بادشاہوں سے التماس ہے یہاں ایک صحرا ہوتا ہے ''تھر'' کے نام سے۔ ممکن ہے کبھی آپ کی شاہی سواری وہاں سے گزری ہو۔ آپ نے دیکھا ہوگا وہاں خس و خاشاک ہے، ریت ہے، سوکھے درخت ہیں لیکن کہیں کہیں گھاس پھوس سے بنی ہوئی جھگیوں میں انسان بھی ہیں۔ اگرچہ دیکھو تو لگتے نہیں، غور سے دیکھنے پر سوکھے ہاتھ، لکڑی جیسے، مدقوق آنکھیں، دھنسے ہوئے چہرے، پتا چلتا ہے انسان تو ہیں۔

حضور والا یہ انسان نما مخلوق آپ کے صوبے کا حصہ ہیں۔ آپ کی رعایا میں یہ خوش قسمت لوگ بھی آتے ہیں۔ ان کے پاس جینے کے لیے تو صرف قسمت ہے۔ جب تک وہ انھیں اجازت دے۔ لیکن فطرت سے بھی مجبور۔ لہٰذا افزائش کا سلسلہ جاری۔ پچھلے 15 برسوں سے تو میں دیکھ رہا ہوں، سن پڑھ رہا ہوں، روزانہ وہ بچے بھوک، پیاس سے، ڈاکٹرز، ادویات کی عدم فراہمی کے باعث ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔6,4,5 بچے ریت میں دب جاتے ہیں۔ آواز تک نہیں آتی۔ صحرا سے کون پکارے، کون سنے۔ وہ بے چارے اپنے جگر گوشوں کو وہیں ریت ہٹا کر دفنا دیتے ہیں۔ آپ سے گلہ نہیں۔ آپ نے تو وہاں کئی بار فلٹر پلانٹ لگوائے، اسپتال بنوائے، لیکن حضور وہ فلٹر پلانٹ چلائے کون؟ صحرا میں کون ڈاکٹر جاکر ڈیوٹی کرے؟ کون ٹیچر وہاں جائے، کوئی نہیں جاتا۔ بارش ہوتی نہیں، لیکن بارش پر تو انھیں چھوڑا بھی نہیں جاسکتا۔

آپ کوئی اور بندوبست کردیں۔ جیسے کنوئیں بڑی تعداد میں کھدوادیں یا جو سرکاری ملازم وہاں جانے پر راضی ہو اسے تنخواہ بڑھا کر دیں۔ ٹرانسپورٹ فری کرکے دیں۔ تب یہ شہری بابو وہاں جانے پر راضی ہوں گے۔ حضور! کمی آپ میں نہیں ہم لوگوں میں ہے۔ ہم صحرا کی خبر کو پڑھتے ہیں تو ایسے جیسے فلاں شہر میں صفائی کا انتظام ناقص ہے یا پھر پڑھتے ہی نہیں یہ سوچ کر کہ وہاں تو لوگ مرتے ہی چلے آئے ہیں، آج نئی بات کیا ہے۔ میں معذرت چاہتا ہوں، دو صوبوں کے بادشاہوں سے کچھ کہنا بھول گیا۔ یادداشت بھی ساتھ چھوڑ رہی ہے۔ صفحات پر جگہ کی بھی قلت محسوس ہوئی۔ خیر آیندہ سہی۔ جو دل میں ہوگا کہہ دیں گے۔
Load Next Story