کچھ صحت بارے
غریب اور نچلے متوسط طبقے کے لوگ(جو کل آبادی کا 70فیصد کے لگ بھگ ہیں) انھی سرکاری اسپتالوں میں علاج کروانےپر مجبور ہیں
ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ وطن عزیز میں ایسا کون سا شعبہ ہے جس کی کارکردگی کو اطمینان بخش کہا جائے۔ البتہ مختلف شعبہ جات کی تنزلی کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ کون سا شعبہ کسی دوسرے شعبے کے مقابلے میں کتنی تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہے۔ تعلیم و صحت جو بنیادی سہولیات کے زمرے میں آتے ہیں اور دنیا بھر میں ریاست کی اولین ذمے داری تصور کیے جاتے ہیں ، اپنے یہاں حکومتوں کی عدم توجہی کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔
چونکہ دونوں شعبہ جات کلیدی نوعیت کے ہیں اور ان گنت مسائل کے انبار تلے دبے ہوئے ہیں،اس لیے ان دونوں پر ایک ہی اظہاریے میں گفتگو ناانصافی ہے۔ اس لیے آج صرف ایک کلیدی شعبہ یعنی صحت پرگفتگو کیے لیتے ہیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی رپورٹ کے مطابق ملک کے پبلک سیکٹر میں اس وقت کل 62 مکمل اسپتال (پنجاب میں26، سندھ میں20، خیبر پختونخواہ میں 12اور بلوچستان میں 4) ہیں ۔ اس کے علاوہ مختلف نوعیت کے پورے ملک میں 58اسپتال ہیں۔ جب کہ نجی شعبے (جن میں ٹرسٹ کے اسپتال بھی شامل ہیں) میں قائم اسپتالوں کی کل تعداد94ہے۔ ان 214 اسپتالوں میں سے ایک تہائی سے بھی کم تعداد میں ایسے اسپتال ہیں، جن میں جدید طبی سہولیات میسر ہیں۔ وہ ملک جس کی آبادی 13کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے، اسپتالوں کی یہ تعداد انتہائی ناکافی ہے۔
اب اگر پاکستان کے مجموعی اقتصادی منظرنامہ کا اجمالی جائزہ لیں، تو 1990کے عشرے میں غربت کی شرح 26.1فیصد تھی جب کہ 2000کے عشرے میں یہ شرح بڑھ کر 32.3فیصد ہوگئی۔ 2010کے عشرے میں اس شرح میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہوا اور اس وقت(2016) یہ شرح 34فیصد کے لگ بھگ ہوچکی ہے، جب کہ معاشی شرح نمو جو1990کے عشرے5.6فیصد تھی، اس وقت 2.2فیصد ہے جب کہ صحت پر GDPکا صرف 0.7فیصد لگایا جاتا ہے جو کہ انتہائی ناکافی ہے۔ اس پر مستزاد کرپشن اور بدعنوانی کی عفریت ہے۔ جس نے خرابیِ بسیار کی رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ لہٰذا چھوٹے شہروں اور قصبوں کو تو جانے دیجیے، بڑے شہروں میں سرکاری اسپتال زبوں حالی کی منہ بولتی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
غریب اور نچلے متوسط طبقے کے لوگ (جو کل آبادی کا 70فیصد کے لگ بھگ ہیں) انھی سرکاری اسپتالوں میں علاج کروانے پر مجبور ہیں، جہاں ہر قسم کی طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ امراء اور مقتدر اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے خاندان بیرون ملک علاج کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مقتدراشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی) اپنے علاج کا بوجھ سرکاری خزانے پر ڈالتی ہے،اس لیے اس کی جیب سے دمڑی نہیں جاتی۔ جب کہ دولت مند اور متمول افراد کے لیے ملک اندر گو کہ گنتی کے چند ہی سہی پنج ستارہ قسم کے اسپتال موجود ہیں، جہاں وہ پرآسائش انداز میں اپنا علاج کرواتے ہیں۔
اب رہ گئے متوسط اور نچلی متوسط آمدنی والے شہری، تو ان کے لیے طبی سہولیات تک رسائی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔پنج اور چار ستارہ اسپتالوں کے اخراجات ان کی استطاعت سے باہر ہوتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کا ماحول ، عملے کی بے اعتنائی اور ادویات سمیت صفائی ستھرائی کا فقدان ناقابل قبول ہوتا ہے۔ یہ طبقات ان اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، جہاں کم اخراجات کے ساتھ مناسب طبی سہولیات میسر آجائیں۔ عام طور پر کسی ٹرسٹ کے تحت قائم وہ اسپتال جو یہ ضروریات پوری کررہے ہیں واقعتاً نیک نیتی کے ساتھ کام کررہے ہیں۔
ملک کے مختلف شہروں میں اب ایسے اسپتال قائم ہورہے ہیں، جو خالصتاً خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کرکام کررہے ہیں۔ گو کہ ان کی تعداد بہت کم ہے، لیکن یہ کسی حد تک عوام کی طبی ضروریات کا احاطہ کررہے ہیں۔ ٹرسٹ کے تحت کام کرنے والے اسپتال بھی دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو عوام سے زکوۃ، خیرات اور چندے لے کر غریب و نادار مریضوں کو علاج کی مفت سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو اپنے وسائل اور ذرایع سے اپنی آمدنی بڑھاتے ہیں۔ ان کی فیس اور ٹیسٹوں کے نرخ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے لیے قابل قبول ہوتے ہیں۔ لاہور میں شوکت خانم کینسر اسپتال غریب اور لاچار مریضوں کوبھی وہی سہولیات فراہم کررہا ہے، جو وہ متمول مریضوں کو فراہم کرتا ہے۔
کراچی میں دو اسپتال ایک ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی زیر قیادت suit (سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجیکل ٹریٹ منٹ)اور دوسرا انڈس اسپتال ہے جو متوسط، نچلے متوسط طبقے کو معمولی فیس کے ساتھ جب کہ غریبوں کو مفت طبی سہولیات مہیا کررہے ہیں۔کراچی ہی میں ایک اور اسپتال بھی ہے، جس کا سنگ بنیاد 1948 میں رکھا گیا اور افتتاح 1954میں اس وقت کے گورنر جنرل ملک غلام محمد مرحوم نے کیا۔ یہ اسپتال واجد علی میموریل ٹرسٹ کے تحت چلتا ہے۔ اس اسپتال میں صرف کراچی ہی کے شہری طبی سہولیات سے فیضیاب نہیں ہورہے، بلکہ اندرون سندھ اور بلوچستان سے بھی اچھی خاصی تعداد میں مریض یہاں علاج کی غرض سے آتے ہیں۔ یہ اسپتال خیراتی نہیں ہے، لیکن متوسط اور نچلی متوسط آمدنی والے طبقے کی طبی ضروریات کا مناسب نرخوں پربہرحال احاطہ ضرور کر رہا ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ جدید دنیا ذرایع ابلاغ کی دنیا ہے۔ معلومات کی رسائی آج کی دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ عوام کی خواہش ہوتی ہے کہ جس طرح دنیا بھرکی دیگر خبروں تک ان کی رسائی ہوتی ہے، اسی طرح ان کے رہنما اور پسندیدہ شخصیات جب زیرعلاج ہوں تو ان کی صحت کے بارے میں لمحہ بہ لمحہ اطلاعات ان تک پہنچتی رہیں۔ اسپتالوں میں پبلک ریلیشنز کا شعبہ قائم کرنے پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ جب کوئی بڑا سانحہ رونما ہوتا ہے یا کوئی اہم شخصیت علاج کی غرض سے اسپتال میں داخل ہوتی ہے، تو منتظم ڈاکٹر ہی میڈیا کو بریفنگ دے دیتا ہے یا پھر اہل خانہ خود ہی اس بابت بتا رہے ہوتے ہیں۔ اس کی مثال لندن کا ویسٹ ہارلے اسپتال ہے جہاں کوئی ترجمان نہ ہونے کی وجہ سے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے بائی پاس اور ان کی صحت کے بارے میں معلومات کا واحد ذریعہ ان کی دختر مریم نواز کے ٹوئٹس ہوا کرتے تھے۔
اس کے برعکس جب رکن قومی اسمبلی رشید گوڈیل انتہائی زخمی حالت میں اسپتال لائے گئے ، تو ان کی حالت خاصی نازک تھی۔ ڈاکٹروں کی ایک پوری ٹیم ان کی زندگی بچانے کی تگ ودو میں لگی ہوئی تھی جب کہ دوسری طرف اسپتال کے باہر ذرایع ابلاغ کا اژدہام تھا جوان کی صحت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے بیتاب تھا۔ ہر چینل کی خواہش تھی درست اور فوری خبر سب سے پہلے وہ عوام تک پہنچائے۔ایسے میں افواہوں کا بازار بھی گرم ہوجاتا ہے۔اس موقعے پر شعبہ پبلک ریلیشنز کے سربراہ انجم رضوی کی خدمات کام آئیں، جو ایک سینئر صحافی اور اینکر پرسن رہے ہیں۔
انھوں نے پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے ساتھ رپورٹرز کے سوال کا اطمینان بخش جواب دیا۔ یہی سبب ہے کہ رشید گوڈیل کی صحت کے حوالے سے ذرایع ابلاغ کو مکمل، بروقت اور درست خبریں ملتی رہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار سپر ہائی وے پر حادثے کا شکار ہوئے تو ان کی بھی اولین ترجیح لیاقت نیشنل اسپتال ہی تھا جہاں نہ صرف ماہر ڈاکٹروں نے ان کا علاج کیا، بلکہ میڈیا تک ان کی صحت کے بارے میں اطلاعات شعبہ پبلک ریلیشنزکے انجم رضوی بنے۔
اختتامی الفاظ یہ ہیں کہ ملک میں اسپتالوں، شفاخانوں اور ڈسپنسریوں کی شدید قلت ہے۔ جس پر حکومت کو اولین ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ دوئم، جو ادارے ٹرسٹ کے تحت چل رہے ہیں، وہ عوام کو کم خرچ پرزیادہ سے زیادہ سہولیات بہم پہنچا رہے ہیں،حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ انھیں آلات جراحی کی خریداری میں کم از کم ڈیوٹی سے استثنیٰ دے۔ سوئم،ذرایع ابلاغ کی اہمیت کے پیش نظر اب تمام بڑے سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں میں شعبہ پبلک ریلیشنز کے شعبے کے قیام اور جہاں قائم ہے وہاں اسے ایک سینئر صحافی کی زیر قیادت فعال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی اچانک بڑے سانحے یا کسی اہم شخصیت کے بارے میں بروقت اور صحیح خبر عوام تک پہنچ سکے۔