دہشتگردی اور سیاسی جماعتوں کا گٹھ جوڑ
سیاسی جماعتوں اور دہشتگردوں کے درمیان گٹھ جوڑ کو ختم کرنا ہوگا۔
پاکستان میں تواتر کے ساتھ کچھ ریاستی ادارے، سیاسی فریقین اور تھنک ٹینک سمیت کچھ لوگ انفرادی سطح پر سیاسی جماعتوں کے دہشتگردوں اور بدعنوان و کرپٹ عناصر کے درمیان گٹھ جوڑ کے معاملے کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی کراچی کے مقدمہ میں اپنے فیصلے میں اسی نکتہ کو اجاگر کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے قائم کردہ مسلح ونگز اور مسلح جدوجہد پر بھی فیصلہ دیا تھا۔ کراچی آپریشن اور دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر موثر عملدرآمد کے حوالے سے بھی اس نکتے کو سامنے رکھا گیا تھا کہ سیاسی جماعتوں اور دہشتگردوں کے درمیان گٹھ جوڑ کو ختم کرنا ہوگا۔
لیکن اس نکتہ پر بہت سی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے تحفظات پیش کیے۔ ان کے بقول اس کے پیچھے اہم ایجنڈا دہشتگردی یا انتہا پسندی سے نمٹنا نہیں بلکہ اپنی مرضی کے مطابق بعض سیاسی جماعتوں کو دباؤ میں لانا یا ان کے سیاسی کردار کو محدود کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کراچی آپریشن کے حوالے سے اپنے تحفظات پیش کرچکی ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر بھی سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان اعتماد سازی کا فقدان وقتا فوقتا دیکھنے کو ملتا ہے۔
سیاسی جماعتوں اور دہشتگردوں، کرپٹ اور بدعنوان عناصر کے درمیان گٹھ جوڑ پر سیاسی جماعتوں کے اندر کوئی بڑی خاص قبولیت ہمیں نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر سیاسی جماعتوں جن پر یہ الزامات ہیں کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ ان کے اندر داخلی محاذ پر یہ تمام مسائل موجود ہیں۔سب سیاسی فریقین خود ذمے داری لینے اور اپنی غلطی کو ماننے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین پر ان الزامات کو دہرا کر خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اگر مان لیا جائے ساری سیاسی جماعتیں پاک صاف ہیں تو یہ انتہا پسند، دہشتگرد، کرپٹ عناصر کون ہیں جو بغیر کسی ریاستی یا سیاسی سرپرستی کے دندناتے پھرتے ہیں۔ جرائم پیشہ یا سیاسی کارکن ریاستی تحویل میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ایما پر یہ سب کچھ کرتے تھے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے عدالتی سال کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چند اہم، بنیادی اور حساس نوعیت کے مسائل کو اجاگر کیا جو توجہ طلب ہیں۔ اول دہشتگردوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان موجود گٹھ جوڑ کو توڑ کر ہی دہشتگردی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ دوئم دہشتگردوں کو بیرونی اور داخلی محاذ سے بہت سے فریقین کی مدد اور حمایت حاصل ہے۔سوئم انصاف دینے والے اداروں کو انصاف کی فراہمی میں خوف کا سامنا ہے یا ان کو باقاعدہ خوف زدہ کیا جا رہا ہے۔ چہارم، دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہو گا اور یہ عمل اعتماد سازی کے بغیر ممکن نہیں۔ پنجم، تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں جس کی آئین میں وضاحت موجود ہے تاکہ ملک میں حکمرانی کے نظام میں جن مسائل کا سامنا ہے، وہ حل ہوسکیں گے۔ششم، معاشرے میں ہر طرف عدم برداشت کا دور دورہ ہے جولوگوں کو تقسیم کررہا ہے ،اس میں مذہبی تقسیم زیادہ ہے۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے جو بات کی ہے وہ تلخ حقیقت ہے۔ سیاسی جماعتوں اور دہشتگردوں کے گٹھ جوڑ سے متعلق کراچی اور بلوچستان بدامنی کیس پر پہلے بھی سپریم کورٹ کچھ اسی طرح کا فیصلہ دے چکی ہے۔ہم بطور قوم، ریاست یا معاشرہ سچائی کو قبول کرنے کے بجائے جھوٹ، مکاری، دھوکا دہی کی بنیاد پر معاملات کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں، جو مسئلہ کے حل میں رکاوٹ ہے۔ سیاسی جماعتیں جو جمہوری نظام میں ایک بڑی طاقت رکھتی ہیں اور ان کی اپنی اہمیت سے انکار نہیں لیکن جب سیاسی جماعتیں خود مجرمانہ سرگرمیوں کا حصہ بن کر دہشتگردوں کی سیاسی، انتظامی ، مالی سرپرستی کریں تو یہ سوالیہ نشان ہے۔
دہشتگردوں اور بدعنوان عناصر کی بڑی طاقت ہی ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام میں موجود طاقتیں ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان انفرادی اور اجتماعی طاقتوں کے بغیر وہ لمبے عرصہ تک نہ تو ریاستی رٹ کو چیلنج کرسکتے ہیں اور نہ ہی قانون کی گرفت سے بچ سکتے ہیں۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور دہشتگردوں کے درمیان جو گٹھ جوڑ ہے اس کا خاتمہ کیسے ہو۔ فوج، عدلیہ، انصاف کے ادارے، تھنک ٹینک، سیاسی فریقین سب اعتراف کرتے ہیں کہ یہ مسائل ہمیں درپیش ہیں، لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا یہ بڑا سوالیہ نشان ہے۔ محض باتیں کرنے، تقریریں کرنے یا مسائل کی نشاندہی کرنے سے معاشرے سدھر نہیں سکتے۔ اس کے لیے ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کا فقدان غالب نظر آتا ہے۔
اصولی طور پر تو سیاسی جماعتوں کو داخلی محاذ پر ان مسائل کو قبول کر کے ہی اپنے اندر سے اصلاح کا عمل شروع کرنا چاہیے جو مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ جب ٖ کسی بڑے مقصد کے لیے کچھ طے کرتے ہیں تو پھر آپ کو اپنے اندر سے بھی ایک بڑی صفائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان ایک مشکل وقت سے گزررہا ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے اقدامات بھی روائتی کے بجائے غیر معمولی نوعیت کے ہونے چاہیے، جن میں کڑوی گولیاں بھی شامل ہیں۔ لیکن عمومی طور پر سیاسی جماعتیں خود سے اس طرح کا چیلنج قبول نہیں کرتیں۔ اس کی ایک حکمت عملی یہ ہے کہ معاشرے کے بااثر اداروں، سول سوسائٹی، میڈیا اور اہل دانش سمیت خود سیاسی جماعتوں میں موجود سنجیدہ لوگوں کو سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو بیدار کرنا ہوگا۔اس عمل میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی ظفرخود بھی وکلا برادری کے پلیٹ فارم سے ایسی تحریک کو لیڈ کرسکتے ہیں جس کا مقصد سیاسی جماعتوں کو کرپٹ مافیا اور بدعنوان سمیت دہشتگردوں کی سرپرستی سے آزاد کرنا ہونا چاہیے، وہ اگر ایسا کرسکے تو یہ اہم پیشرفت ہوگی ۔
سیاسی جماعتوں کو یہ باور کروانا ہوگا کہ اب تک سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں جو غلطیاں انتہا پسندی اور دہشتگردی کو طاقت فراہم کرکے کرتی رہی ہیں، اس کا خاتمہ ہونا چاہیے یا یہ کام اور زیادہ برداشت نہیں ہوگا۔ پاکستان جو اس وقت ریاستی و حکومتی اداروں کے بقول دہشتگردی سے نمٹنے میں سنجیدہ کوششوں کا حصہ ہے ، یہ کام اس طرح کے داخلی تضادات کے ساتھ مثبت انداز میں آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اگر سیاسی جماعتیں، یا دیگر ادارے ایک دوسرے پر الزام لگا کر آگے بڑھیں گے تو اس کا فائدہ عمومی طور پر دہشتگردوں کو پہنچتا ہے ۔ کیونکہ دہشتگردی عمومی طور پر وہیں طاقت پکڑتی ہے جہاں اسے داخلی محاذ سے حمایت ہو۔
اس لیے ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اگر واقعی دہشتگردوں سے نجات چاہتے ہیں تو جو ہمارا موجودہ طرز عمل، حکمت عملی ہے اس کو تبدیل ہونا چاہیے ۔سیاسی جماعتیں داخلی محاذ پر کچھ کڑوی گولیوں کے ساتھ بڑے فیصلے کریں جو سیاسی جماعتوں کی ساکھ کو بھی بحال کرے گا۔ اسی طرح ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ریاستی اداروں کو خود بھی سمجھوتوں کی سیاست سے باہر نکل کر قانون کی حکمرانی کے نظام کو طاقت فراہم کرنی چاہیے جو ہر طرح کے سیاسی تعصب، پسند و ناپسند سے بالاتر ہونی چاہیے ۔ مسئلہ سیاسی جماعتوں کا نہیں بلکہ ریاستی نظام کا ہے جو بغیر شفافیت کے اپنی ساکھ قائم نہیں رکھ سکتا۔