حساب دینا ہو گا
بنگلا دیش کا قیام بھارت کی پاکستان دشمنی کا کھلا ثبوت ہے بنگالی بھائی ہرگز پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتے تھے
غرور اور تکبرکبھی کسی کو نہیں پھلا۔ دنیا میں یہی ہوتا چلا آرہا ہے کہ جس نے بھی تکبرکیا وہ تباہی اور بربادی کا شاہکار بن کر رہا۔ نمرود اور فرعون سے لے کر ہٹلر اور موسلینی تک سب ہی نہ صرف تباہ و برباد ہوگئے بلکہ دنیا کے لیے عبرت کی داستان بن گئے۔ موجودہ دور میں بنگلا دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد مغروریت کے نئے ریکارڈ قائم کررہی ہیں۔ مگر بھارت کے اُکسانے پر پاکستان سے جس قسم کی دشمنی پر کمر بستہ ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔
22 نومبر 2012ء کو اسلام آباد میں ڈی 8 ممالک کا سربراہی اجلاس ہونے والا تھا۔ اس کا دعوت نامہ سابق وزیر خارجہ حنا ربانی حسینہ واجد کو پہنچانے ڈھاکا گئی تھیں۔ حسینہ نے بڑی رعونت سے اس دعوت کو ٹھکرا دیا تھا۔ بعد میں بنگلا دیشی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ حسینہ اس اجلاس میں اس وقت تک شرکت نہیں کریںگی جب تک پاکستان 1971ء میں ہونے والی زیادتیوں کی معافی نہیں مانگے گا۔ پاکستانی ترجمان نے حسینہ کی شرط کو یہ کہہ کر رد کردیا تھا کہ پاکستان پہلے ہی 1971ء کی جنگ میں ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا افسوس کرچکا ہے اب بار بار معافی کا کیا سوال؟ حسینہ کو حد سے زیادہ احساس برتری زیب نہیں دیتا۔
ہوا در اصل یہ ہے کہ جب سے بھارت نے ان کا ہاتھ پکڑا ہے وہ بنگلا دیش کی ملکہ ٔ اعظم بن گئی ہیں۔ انھوں نے بنگلہ دیش میں جمہوریت کا گلا گھونٹ ڈالا ہے۔ اپوزیشن کوکچل کر رکھ دیا، وہ اب تک دو الیکشن بغیر شرکت غیرے جیت چکی ہیں۔ انتخابات میں اپوزیشن کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ مخالف سیاسی پارٹیوں پر طرح طرح کی مشکلیں کھڑی کردی گئیں۔ اپوزیشن کی دوسری اہم پارٹی جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے کے الزامات لگا کر اور قتل وہنگامہ آرائی کے جھوٹے مقدمات قائم کرکے پھانسیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جو جاری ہے مغربی اخبارات حسینہ کو ڈکٹیٹر کا خطاب دے چکے ہیں۔ خود بنگلا دیش میں حسینہ کی آمریت پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔
اپوزیشن کی بڑی پارٹی بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کو کام کرنے نہیں دیا جارہا ہے۔ خالدہ ضیا دو مرتبہ بنگلا دیش کی وزیراعظم رہ چکی ہیں اس وقت حکومت کی جانب سے اپنی پارٹی کی پسپائی پر سخت مایوس ہیں مگران کی سننے والا کوئی نہیں ہے۔ حسینہ نے خالدہ ضیا پرکئی مقدمات قائم کرکے انھیں تنگ کر رکھا ہے ان کے بیٹے کو مختلف جھوٹے الزامات لگاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ملک کے نوبل انعام یافتہ بینکار اور غریبوں کے ہمدرد محمد یونس جنھوں نے گرامین بینک قائم کر کے غریب خاندانوں کی معاشی حالت سدھارنے کا کارنامہ انجام دیا ہے ان کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔ انھیں حسینہ کے مفاد میں کام نہ کرنے کی پاداش میں طرح طرح سے تنگ کیا جارہاہے۔ بنگلا دیش اس وقت عملاً انارکی کا شکار ہے۔
حسینہ اوران کے بیٹے دھڑلے سے جو چاہتے ہیں کرگزرتے ہیں۔ اس کی وجہ وہی ہے کہ بھارت ان کی کھل کر پشت پناہی کررہاہے۔ حسینہ کی بھارت نوازی اور ملک میں آمریت کے فروغ کی وجہ سے فوج بھی بدظن ہو کر حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کرچکی ہے مگر اسے بھارت نے ناکام بنادیا ہے اس وقت بنگلا دیشی فوج پر''را'' کے ذریعے نظر رکھی جارہی ہے، حسینہ اور بھارتی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ حسینہ کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی طے پاگیا تھا کہ وہ بنگلا دیش میں بھارت کے مفاد کے لیے کام کریںگی۔ بنگلا دیش میں پاکستان کے اثر ونفوذ کو ختم کریںگی۔
جماعت اسلامی جو پاکستان کا دم بھر رہی ہے اس کے اہم رہنماؤں کو موت کی سزا دے کر اب کے پاکستان اور اسلام کے پرچار پر روک لگائیںگی اس کے ساتھ ہی بنگلا دیشی حکومت ہر عالمی فورم پر پاکستان کی مخالفت کرے گی۔ کھیلوں میں بھی خاص کر کرکٹ میں پاکستان کو سائیڈ لائن کرنے میں بھارت کی مدد کرے گی۔ بھارت اس کے بدلے میں حسینہ کی زندگی اور ان کی حکومت کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرے گا۔ تب سے بھارتی فوج کے ایک چاق وچوبند دستے کو حسینہ کی حفاظت پر مامورکیا گیا ہے۔
خالدہ ضیا بہ بانگ دہل حسینہ کو بھارتی ایجنٹ قرار دے رہی ہیں۔ خالدہ ضیا کی شروع سے ہی پاکستان سے دوستانہ پالیسی رہی ہے ان کا ماننا ہے کہ 1971ء کی جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی پاکستان کی دشمنی کا خاتمہ ہوگیا ہے چنانچہ بنگلہ دیش کو بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایوں سے مل جل کر رہنا چاہیے حسینہ واجد کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے باوجود بھی بنگلا دیشی عوام پاکستانیوں کو اپنا اسلامی بھائی کے طور پر دیکھتے ہیں اور پاکستان سے بھائیوں جیسے تعلقات رکھنے کے خواہاں ہیں۔
در اصل بنگلا دیش کا قیام بھارت کی پاکستان دشمنی کا کھلا ثبوت ہے بنگالی بھائی ہرگز پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتے تھے البتہ وہ اپنی کچھ شکایات کا ازالہ ضرور چاہتے تھے۔ مجیب الرحمن اگر بھارتی پٹھو بن کر بھارت کے لیے کام نہ کرتا اور بھارت سے ساز باز کرکے اسے مشرقی پاکستان پر حملے کی ترغیب نہ دیتا تو بھارت کبھی بھی ملک کو دولخت نہ کرپاتا۔ مجیب الرحمن کی بھارت سے ساز باز کے سلسلے میں کئی کتابوں میں انکشافات سامنے آچکے ہیں۔ وہ 1962ء سے ہی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہوگیا تھا۔
مشہور زمانہ اگر تلا سازش کیس حقیقت پر مبنی تھا مگر ہمارے اس وقت کے نادان سیاست دانوں نے اسے آمریت کی کارروائی سمجھا اور ایوب خان کو مجبور کر کے مجیب کی گلوخلاصی کرا دی تھی ۔ اگر اسی وقت ہی اس کے خلاف کیس عدالت میں چل جاتا تو مجیب کی غداری کے ثبوت سب کے سامنے آجاتے۔ حسینہ واجد پاکستان پر 1971ء کی جنگ میں بنگالیوں پر زیادتی کا جو الزام عائد کرتی ہیں وہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ اس وقت جو کچھ بھی قتل وغارت گری ہوئی ان کے والد اور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے درمیان طے پانے والے سازشی معاہدے کے مطابق ہوئی تھی۔
اس معاہدے کے تحت بھارتی فوج نے نہ صرف مکتی باہنی کا کردار ادا کیا تھا بلکہ پاکستانی فوجیوں کی وردیاں پہن کر بنگالیوں کا قتل عام اور خواتین کی بے دریغ عصمت دری کی تھی۔ ابھی تک بنگالی عوام اسے پاکستانی فوج کی کارروائی سمجھتے تھے مگر اب حقیقت کے آشکار ہونے کے بعد وہ جان چکے ہیں کہ یہ سارا خونی ڈراما بھارت نے انھیں پاکستان سے متنفرکرنے کے لیے رچایا تھا۔
بھارت کی ایک مصنفہ شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں بھارت اور مجیب کے گٹھ جوڑ سے پردہ اٹھایا ہے اس نے برملا لکھا ہے کہ بھارت نے بنگلہ دیش بناکر عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو مذاق بنادیا ہے۔ اب مودی بلوچستان کو اپنی دہشتگردی کا نشانہ بناکر اور اسے پاکستان سے علیحدہ کرنے کی سازش کرکے اقوام متحدہ کو منہ چڑارہا ہے۔ اب جب کہ بنگلا دیش بن چکا ہے اور پاکستان اسے تسلیم کرچکا ہے تو پھر حسینہ کی پاکستان سے دشمنی کا کیا مطلب ہے؟ اب دراصل بھارت بنگلا دیش کو بنانے کا معاوضہ اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرکے وصول کر رہا ہے مگر بھارت یاد رکھے کہ بنگلا دیش پر اس کا کنٹرول عارضی ہے اور یہ شاید حسینہ کی حکومت تک ہی قائم رہے گا اور جس دن مجیب کے خاندان کی حکومت ختم ہوگئی پاکستان دشمنی بھی ختم ہوجائے گی البتہ حسینہ بے گناہوں کو پھانسیاں دینے کا حساب ضرور دینا ہوگا۔
22 نومبر 2012ء کو اسلام آباد میں ڈی 8 ممالک کا سربراہی اجلاس ہونے والا تھا۔ اس کا دعوت نامہ سابق وزیر خارجہ حنا ربانی حسینہ واجد کو پہنچانے ڈھاکا گئی تھیں۔ حسینہ نے بڑی رعونت سے اس دعوت کو ٹھکرا دیا تھا۔ بعد میں بنگلا دیشی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ حسینہ اس اجلاس میں اس وقت تک شرکت نہیں کریںگی جب تک پاکستان 1971ء میں ہونے والی زیادتیوں کی معافی نہیں مانگے گا۔ پاکستانی ترجمان نے حسینہ کی شرط کو یہ کہہ کر رد کردیا تھا کہ پاکستان پہلے ہی 1971ء کی جنگ میں ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا افسوس کرچکا ہے اب بار بار معافی کا کیا سوال؟ حسینہ کو حد سے زیادہ احساس برتری زیب نہیں دیتا۔
ہوا در اصل یہ ہے کہ جب سے بھارت نے ان کا ہاتھ پکڑا ہے وہ بنگلا دیش کی ملکہ ٔ اعظم بن گئی ہیں۔ انھوں نے بنگلہ دیش میں جمہوریت کا گلا گھونٹ ڈالا ہے۔ اپوزیشن کوکچل کر رکھ دیا، وہ اب تک دو الیکشن بغیر شرکت غیرے جیت چکی ہیں۔ انتخابات میں اپوزیشن کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ مخالف سیاسی پارٹیوں پر طرح طرح کی مشکلیں کھڑی کردی گئیں۔ اپوزیشن کی دوسری اہم پارٹی جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے کے الزامات لگا کر اور قتل وہنگامہ آرائی کے جھوٹے مقدمات قائم کرکے پھانسیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جو جاری ہے مغربی اخبارات حسینہ کو ڈکٹیٹر کا خطاب دے چکے ہیں۔ خود بنگلا دیش میں حسینہ کی آمریت پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔
اپوزیشن کی بڑی پارٹی بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کو کام کرنے نہیں دیا جارہا ہے۔ خالدہ ضیا دو مرتبہ بنگلا دیش کی وزیراعظم رہ چکی ہیں اس وقت حکومت کی جانب سے اپنی پارٹی کی پسپائی پر سخت مایوس ہیں مگران کی سننے والا کوئی نہیں ہے۔ حسینہ نے خالدہ ضیا پرکئی مقدمات قائم کرکے انھیں تنگ کر رکھا ہے ان کے بیٹے کو مختلف جھوٹے الزامات لگاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ملک کے نوبل انعام یافتہ بینکار اور غریبوں کے ہمدرد محمد یونس جنھوں نے گرامین بینک قائم کر کے غریب خاندانوں کی معاشی حالت سدھارنے کا کارنامہ انجام دیا ہے ان کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔ انھیں حسینہ کے مفاد میں کام نہ کرنے کی پاداش میں طرح طرح سے تنگ کیا جارہاہے۔ بنگلا دیش اس وقت عملاً انارکی کا شکار ہے۔
حسینہ اوران کے بیٹے دھڑلے سے جو چاہتے ہیں کرگزرتے ہیں۔ اس کی وجہ وہی ہے کہ بھارت ان کی کھل کر پشت پناہی کررہاہے۔ حسینہ کی بھارت نوازی اور ملک میں آمریت کے فروغ کی وجہ سے فوج بھی بدظن ہو کر حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کرچکی ہے مگر اسے بھارت نے ناکام بنادیا ہے اس وقت بنگلا دیشی فوج پر''را'' کے ذریعے نظر رکھی جارہی ہے، حسینہ اور بھارتی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ حسینہ کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی طے پاگیا تھا کہ وہ بنگلا دیش میں بھارت کے مفاد کے لیے کام کریںگی۔ بنگلا دیش میں پاکستان کے اثر ونفوذ کو ختم کریںگی۔
جماعت اسلامی جو پاکستان کا دم بھر رہی ہے اس کے اہم رہنماؤں کو موت کی سزا دے کر اب کے پاکستان اور اسلام کے پرچار پر روک لگائیںگی اس کے ساتھ ہی بنگلا دیشی حکومت ہر عالمی فورم پر پاکستان کی مخالفت کرے گی۔ کھیلوں میں بھی خاص کر کرکٹ میں پاکستان کو سائیڈ لائن کرنے میں بھارت کی مدد کرے گی۔ بھارت اس کے بدلے میں حسینہ کی زندگی اور ان کی حکومت کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرے گا۔ تب سے بھارتی فوج کے ایک چاق وچوبند دستے کو حسینہ کی حفاظت پر مامورکیا گیا ہے۔
خالدہ ضیا بہ بانگ دہل حسینہ کو بھارتی ایجنٹ قرار دے رہی ہیں۔ خالدہ ضیا کی شروع سے ہی پاکستان سے دوستانہ پالیسی رہی ہے ان کا ماننا ہے کہ 1971ء کی جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی پاکستان کی دشمنی کا خاتمہ ہوگیا ہے چنانچہ بنگلہ دیش کو بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایوں سے مل جل کر رہنا چاہیے حسینہ واجد کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے باوجود بھی بنگلا دیشی عوام پاکستانیوں کو اپنا اسلامی بھائی کے طور پر دیکھتے ہیں اور پاکستان سے بھائیوں جیسے تعلقات رکھنے کے خواہاں ہیں۔
در اصل بنگلا دیش کا قیام بھارت کی پاکستان دشمنی کا کھلا ثبوت ہے بنگالی بھائی ہرگز پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتے تھے البتہ وہ اپنی کچھ شکایات کا ازالہ ضرور چاہتے تھے۔ مجیب الرحمن اگر بھارتی پٹھو بن کر بھارت کے لیے کام نہ کرتا اور بھارت سے ساز باز کرکے اسے مشرقی پاکستان پر حملے کی ترغیب نہ دیتا تو بھارت کبھی بھی ملک کو دولخت نہ کرپاتا۔ مجیب الرحمن کی بھارت سے ساز باز کے سلسلے میں کئی کتابوں میں انکشافات سامنے آچکے ہیں۔ وہ 1962ء سے ہی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہوگیا تھا۔
مشہور زمانہ اگر تلا سازش کیس حقیقت پر مبنی تھا مگر ہمارے اس وقت کے نادان سیاست دانوں نے اسے آمریت کی کارروائی سمجھا اور ایوب خان کو مجبور کر کے مجیب کی گلوخلاصی کرا دی تھی ۔ اگر اسی وقت ہی اس کے خلاف کیس عدالت میں چل جاتا تو مجیب کی غداری کے ثبوت سب کے سامنے آجاتے۔ حسینہ واجد پاکستان پر 1971ء کی جنگ میں بنگالیوں پر زیادتی کا جو الزام عائد کرتی ہیں وہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ اس وقت جو کچھ بھی قتل وغارت گری ہوئی ان کے والد اور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے درمیان طے پانے والے سازشی معاہدے کے مطابق ہوئی تھی۔
اس معاہدے کے تحت بھارتی فوج نے نہ صرف مکتی باہنی کا کردار ادا کیا تھا بلکہ پاکستانی فوجیوں کی وردیاں پہن کر بنگالیوں کا قتل عام اور خواتین کی بے دریغ عصمت دری کی تھی۔ ابھی تک بنگالی عوام اسے پاکستانی فوج کی کارروائی سمجھتے تھے مگر اب حقیقت کے آشکار ہونے کے بعد وہ جان چکے ہیں کہ یہ سارا خونی ڈراما بھارت نے انھیں پاکستان سے متنفرکرنے کے لیے رچایا تھا۔
بھارت کی ایک مصنفہ شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں بھارت اور مجیب کے گٹھ جوڑ سے پردہ اٹھایا ہے اس نے برملا لکھا ہے کہ بھارت نے بنگلہ دیش بناکر عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو مذاق بنادیا ہے۔ اب مودی بلوچستان کو اپنی دہشتگردی کا نشانہ بناکر اور اسے پاکستان سے علیحدہ کرنے کی سازش کرکے اقوام متحدہ کو منہ چڑارہا ہے۔ اب جب کہ بنگلا دیش بن چکا ہے اور پاکستان اسے تسلیم کرچکا ہے تو پھر حسینہ کی پاکستان سے دشمنی کا کیا مطلب ہے؟ اب دراصل بھارت بنگلا دیش کو بنانے کا معاوضہ اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرکے وصول کر رہا ہے مگر بھارت یاد رکھے کہ بنگلا دیش پر اس کا کنٹرول عارضی ہے اور یہ شاید حسینہ کی حکومت تک ہی قائم رہے گا اور جس دن مجیب کے خاندان کی حکومت ختم ہوگئی پاکستان دشمنی بھی ختم ہوجائے گی البتہ حسینہ بے گناہوں کو پھانسیاں دینے کا حساب ضرور دینا ہوگا۔