صغیر طاہر کا امریکی شاہنامہ

آنے والی نسلیں جہاں دنیا کے دیگر عظیم لوگوں کے گن گائیں گی، وہاں اس کا نام بھی سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔


Asadullah Ghalib December 09, 2012
[email protected]

میں نے نہیں بتایا کہ وہ کون ہے، بس اس کا نام لکھ دیا، اس لیے کہ اس کے تعارف کے لیے اس کا نام ہی کافی ہے، آنے والی نسلیں جہاں دنیا کے دیگر عظیم لوگوں کے گن گائیں گی، وہاں اس کا نام بھی سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔اس نے پاکستان کا نام امریکا کی دھرتی پر روشن کیا، پاکستان اس کے نام کو ہمیشہ کے لیے سر بلند رکھے گا۔اس نے ایک امریکی ریاست نیو ہیمپشائر کے ایوان نمایندگان میں ری پبلکن پارٹی کی طرف سے دس برس تک نمایندگی کی، وہ امریکا میں پہلا پاکستانی ہے جوکسی ریاستی اسمبلی کے لیے منتخب ہوا، اس نے امریکی وفود کے ساتھ دو مرتبہ آزاد کشمیرکا دورہ کیا اور نیو ہیمپشائر اسمبلی سے کشمیر کے منصفانہ تصفیے کے حق میں قرارداد منظور کرائی جس پر امریکا میں بھارتی لابی اس کے خون کی پیاسی ہو گئی۔

اس کا کہنا ہے کہ بھارتیوں نے ان کا جینا دوبھر کر دیا، وہ اور اس کا پورا خاندان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے تھے۔مگر وہ اپنی ہٹ کا پکا نکلا اور کشمیر قرارداد امریکی کانگریس میں بحث کے لیے بھجوا کر رہا۔نائن الیون ہوا تو اس نے محسوس کیا کہ کہ امریکی اور پاکستانی عوام ایک دوسرے کے خلاف شدید غلط فہمیوں کا شکار ہو گئے،وہ دو مرتبہ امریکیوں کے وفود لے کر پاکستان آیا اور پیپل ٹو پیپل رابطوں کے ذریعے ان غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کی۔عراق اور افغانستان کی جنگوں کی وجہ سے اسے احساس ہوا کہ ری پبلکن پارٹی امریکی مسلمانوں کی ہمدردی سے محروم ہو رہی ہے، اس نے اپنی طرف سے بہتیری کوشش کی کہ اس کی پارٹی ایسی غلطیوں کا اعادہ نہ کرے جو امریکی معاشرے کے بعض طبقات کو قبول نہیں ہیں۔اس کے خدشات درست ثابت ہوئے اور حالیہ الیکشن میں جب ساری دنیا کے مسلمان نہیں چاہتے تھے کہ اوباما دوبارہ منتخب ہوں تو امریکی مسلمانوں کی اکثریت نے ری پبلکن امیدوار کو ہرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

میں اس شخص کو نیو یارک میں سن دو ہزار میں پاکستانیوں کے ایک استقبالیے میںملا تھا، اور اس کے کردار اور افکار سے مسحور ہو گیا تھا۔پچھلے دنوں عبدالعلیم خان کے دفاتر میں اس سے دوبارہ ملاقات ہوئی، پہلی بار میں اسے پہچان نہیں پایا، دوسری مرتبہ احسن رشید نے اس کا تعارف کرایا تو میں نے اسے پی سی آئی اے کے اجلاس میں مدعو کر لیا جہاں شہر کے دانش وروں کے ساتھ اس کا مکالمہ ہوا ۔وہ بول رہا تھا اور سننے والے کان لگائے بیٹھے رہے۔اس نے منطق اور دلیل کے ساتھ بات کی، اس نے اپنے بارے میں سب کچھ کھول کر رکھ دیا، عام طور پر کوئی بھی کامیاب شخص اپنی کمزوریوں کو عیاں نہیں کرتا مگر اس نے بتایا کہ جب وہ پہلی مرتبہ امریکا پہنچا تو اس کی جیب میں صرف ایک سو بیس ڈالر تھے۔ اس کے میزبان نے بوسٹن کا نقشہ اس کے سامنے پھیلا دیا اور کہا کہ یہ شہر ہے جہاں آ پ نے اپنا رزق تلاش کرنا ہے، اس شخص نے بیس بیس گھنٹے کام کیا، ہفتہ وار چھٹی بھی نہیں کی ۔

وہ ساہیوال کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، اسے اپنا اور پور ے خاندان کا پیٹ پالنا تھا، اس نے محنت مشقت میں کبھی عار محسوس نہیں کی، دن پھرنے لگے، غربت کے سائے مٹ گئے اور خوشحالی اس کے آنگن میں در آئی۔وہ بہتر مواقع کی تلاش میں نیو ہیمپشائر چلا آیا، اس نے1998 میں پہلا الیکشن لڑا تو کسی سے ووٹ مانگنے کے لیے گھر سے نہیں نکلا،اس کا کہنا ہے کہ اس الیکشن میں اس کی بیوی نصرت نے بھی شاید اسے ووٹ نہیں دیا کیونکہ وہ پہلے ہی اس کی بے پناہ کاروباری مصروفیات کی وجہ سے نالاں تھی، اگلے الیکشن میں اس نے محنت کی اور اکثریتی ووٹوں سے اپنی نشست جیتی۔

اس کی وجہ کیا تھی، صرف یہ کہ وہ کمیونٹی کی خدمت میں پیش پیش رہتا تھا، وہ سمجھتا تھا کہ جب اس کا مذہب فلاحی کاموں کی تلقین کرتاہے تو اس میں صرف مسلمان ہی شامل نہیں، سبھی انسان شامل ہیں۔اس کے حلقے میں پاکستانیوں اور مسلمانوں کے برائے نام ووٹ تھے، سارے ووٹ گوروں کے تھے اور وہ ٹوٹ کر اس کو پیار کرتے تھے، وہ بے گھروں کے مسائل کے حل میں پیش پیش رہتا، بیرون ملک لڑنے والے امریکی فوجیوں کے گھرانوں کی دیکھ بھال کرتا، ایک بار کسی ریٹائرڈ امریکی جنرل نے گھر کا خرچہ چلانے کے لیے اس سے سو ڈالر مانگے، اس نے ہزار ڈالر پیش کر دیے۔اس نے اپنے آپ کو امریکی رنگ میں رنگ لیا تھا اور امریکیوں نے بھی اسے اپنے دلوں میں بسا لیا۔

امریکی معاشرے کی کامیابی کیا ہے، اس کا جواب ہے برداشت اور صرف برداشت، وہاں ہر ایک کو برداشت کیا جاتا ہے۔ یہی کچھ وہ اپنے اس ملک میں بھی دیکھنا چاہتا ہے جسے اس نے روزی کمانے کے لیے چھوڑا تھا مگر اپنا دل وہ یہیں چھوڑ گیا تھا اور جب بھی اسے پہلا موقع ملا ہے تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں چلا آیا ہے، وہ پھر اسی ساہیوال میں ہے جہاں وہ بھوک سے بلبلا اٹھتا تھا مگر اسی شہر میں وہ نادار اور ضرورتمندوں میں پچاس ساٹھ لاکھ ڈالر تقسیم کر چکا ہے، طالب علموں پر اس کی خصوصی توجہ ہے۔وہ نہیں چاہتا کہ جو نوجوان صرف وسائل سے محروم ہے، وہ تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔پی سی آئی اے کے تین گھنٹوں پر محیط اجلاس میں اس کی گفتگو کا بنیادی محور یہی تھا کہ ہم اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں۔نفرت ، تعصب اور کینہ پروری سے پیچھا چھڑائیں۔ وہ تبدیلی کا خواہاں ہے، اس کا کہنا ہے کہ پرانے سیاستدانوں کا بار بار آزما کر دیکھ لیا ، اب نوجوانوں کو آگے لایا جائے۔

ان کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر آزمانے کا موقع فراہم کیا جائے، اسی آرزو کی تکمیل کے لیے وہ عمران خان سے بار بار مل چکا ہے،اس کے نوجوانوں کے لیے ورکشاپس منعقد کرتا ہے، ان کی پالیسی سازی میں رضا کارانہ مدد دیتا ہے۔شرکائے محفل نے ہزار کہا کہ کہ عمران کے ذریعے تبدیلی کیسے آئے گی، اس نے تو اسٹیٹس کو کے سارے بندے ساتھ ملا لیے ہیں، یہاں اس نے کہا کہ چلیے کم تر برائی کا ساتھ دیتے ہیں۔جس کو پہلے نہیں آزمایا ، اس کو آزما کر دیکھتے ہیں،نوجوانوں کے جوش و خروش سے فائدہ تو اٹھانا چاہیے۔ ملکی آبادی میں پچپن فی صد لوگ پینتیس سال سے کم عمر کے لوگ ہیں، یہ گیارہ کروڑ کے لگ بھگ بنتے ہیں، ان نوجوانوں کی آنکھوںمیں خواب رقص کرہے ہیں،انھیں اپنے خوابوں کی تعبیر چاہیے، وہ گلے سڑے نظام میں شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتے ، اس کے لیے تبدیلی درکار ہے،قیادت کی بھی، نظام کی بھی اور پالیسیوں کی بھی۔ہمیںا پنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ہمیں ایک نعرے کے نیچے اکٹھے ہونا چاہیے کہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں ، ہم تبدیلی لا سکتے ہیں،ہم جمود توڑ سکتے ہیں۔yes, we can ، ہاں ہمی یہ کر سکتے ہیں۔یہی نعرہ، یہی جذبہ تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔

اس نے عالمی حقائق کی بھی پردہ کشائی کی، اس کا کہنا تھا کہ چین اور روس نہیں چاہتے کہ امریکا اس علاقے سے نکلے، وہ اسے پھنسائے رکھنا چاہتے ہیں، اس کی معیشت کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں اور اس دوران اپنی معیشت کوترقی دینے میں لگے ہوئے ہیں۔پاکستان کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، اس کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ اس کے بغیر کسی کو اپنی دال گلتی نظر نہیں آتی۔دوسری طرف اسرائیل کے عزائم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔اس کے وزیر اعظم نے 1967 میں اپنی پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ وہ عربوں کا علاج کر سکتا ہے مگر اسرائیل کو پاکستان سے حقیقی خطرہ ہے۔اس خطرے کا سد باب کرنے کے لیے بھارت کو استعمال کیا جا سکتا ہے اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔امریکی ریاست نیو ہیمپشائر سے منتخب ہونے والے پہلے پاکستانی نے خطرے کی کئی گھنٹیاں ایک ساتھ بجا دی ہیں۔ریاست میں لوگ اسے سیگی کہہ کر پکارتے ہیں، والدین نے اس کا نام صغیر احمد طاہر رکھا، اس نے امریکی سرزمین پر نئے دور کا شاہنامہ لکھا۔اور اس شاہنامے کو پاکستان سے منسوب کر دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔