فیدل کاستروکی انقلابی ریاست کیوبا
1898ء میں کیوبا کے اندرونی معاملات میں امریکا کی مداخلت سے پیدا ہونے والے تنازعات کے نتیجہ میں جنگ کا آغازہو گیا
QUETTA:
گزشتہ دنوں میں CNN نیوزچینل پرخبریں دیکھ رہا تھا تو ان خبروں میں ایک اہم اور سنسنی خیز خبر جنوبی امریکا کی غریب اور لاوارث جزیرائی ریاست کیوبا کی تھی جو لاطینی امریکا کا حصہ ہو نے کے ساتھ امریکا کے شہر فلوریڈا سے صرف نوے میل کی مسافت پر واقع ہے۔کیوبا کے شہر سانتا کلاز کے ہوائی اڈے پر امریکی مسافر بردار طیارہ ''جیٹ بلو'' لگ بھگ 150مسافروں کو لے کر اترا، ان مسافروں کے قافلے میں امریکا کے ٹرانسپورٹ سیکریٹری انتھونی فاکس بھی شامل تھے۔
پروازکو پانی کی شاورنگ توپ سے سلامی دی گئی جوروایتی طور پر ایک بحری یا ہوائی جہازکوکسی خاص موقع پردی جاتی ہے ۔یاد رہے، اس سے قبل امریکی صدرباراک اوباما بھی کیوبا کا تین روزہ سرکاری دورہ کر چکے ہیں۔ 2014ء میں امریکا اورکیوبا کے درمیان ہونے والے مشروط معاہدے کے تحت سفارتی تعلقات کا باقاعدہ آغاز بلاشبہ صدر باراک اوباما کی غیرمعمولی کاوشوں کا ثمرکہا جا سکتا ہے ۔ یقینا حیرت بھی ہوئی اور وہ بھی یوں کہ پچاس سال کا طویل عرصہ گزرجانے کے بعد امریکا کو ایسا کون سا خیال آگیا کہ اپنے ہی گھر میں بیٹھے پڑوسی کی خبرگیری اوردامن گیری کے لیے پہنچ گئے۔
کیوبا کی آبادکاری اورآزادی کی بھی عجب تاریخ ہے جس کا باقاعدہ آغاز 1492ء یعنی پندرھویں صدی میں اس وقت ہوا جب عالمی شہرت یافتہ بحری سیاح کرسٹوفرکولمبس اپنے تین بحری جہازوں کے ہمراہ اس جزیرہ پر لنگر انداز ہوا تو یہاں قدیم ریڈانڈین قبائل''اراواک''آباد تھے جن میں بیشترکی تعداد غلاموں کی ہوا کرتی تھی۔ زرعی لحاظ سے اس کی زرخیزی کا یہاں سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ یہاں کی زمین گنا، تمباکو،کافی جیسی خداداد نعمتوں کا خزانہ اگلتی تھی اور ہنرمندافرادی قو ت کی بھی بہتات تھی۔انھی خوبیوں کو بھانپتے ہوئے کولمبس نے اس جزیرہ پرآباد کاری کا فیصلہ کیا اورہسپانیوں (Spanish)کے لیے ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔
1898ء میں کیوبا کے اندرونی معاملات میں امریکا کی مداخلت سے پیدا ہونے والے تنازعات کے نتیجہ میں جنگ کا آغازہو گیا اوریوں کیوبا سیاسی طور پر امریکا کی آماجگاہ بن گیا اور 1933ء میںآرمی آفیسر بٹسٹاء امریکا کی آشیرواد پر اس وقت کے صدرمچوڈوکا تختہ الٹ کراقتدار پر قابض ہوگیا۔کیوبا میں پہلی جنگ آزادی 1868ء سے 1878ء کے درمیان لڑی گئی ۔ ملک میں سیاسی اورمعاشی صورتحال مزید ابتر ہوئی تو1895ء میں جو زمارٹی کی قیادت میں دوسری جنگ لڑی گئی ۔1878ء میں امریکا کے جنگی بحری جہاز پرایک دھماکا ہوا توامریکا نے 1898ء میں اسپین کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور اسپین نے ایک امن معاہدے کے تحت کیوبا سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔
امریکا کی طرف سے مسلسل مداخلت کی روک تھام اورکیوبا کو ایک الگ خود مختار سلطنت کی غرض سے 1956ء میں فیدل کاسترو نے امریکا کے خلاف گوریلا جنگ کا آغازکیا۔اس معرکے کے دوران سوویت یونین کی حمایت وامداد کیوبا کو حاصل ہوتی رہی۔ادھرکاسترو نے اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے فوجی ٹریبونل قائم کیا اورہزاروں سیاسی مخالفین کو پابند سلاسل کر دیا اور کیوبا نے 1952ء میں طے پانے والے ہر قسم کے امریکا کے ساتھ فوجی معاہدے کوتوڑ دیا اور اثاثے بھی ضبط کر لیے اورسوویت یونین کے ساتھ مشترکہ معاہدے طے پائے۔امریکا نے بھی تمام معاہدے 3 جنوری1961ء میں یکسر منقطع کر دیے۔
مخالفین کی بیشتر تعداد ملک چھوڑ کر جلاوطنی پر مجبور ہو گئی۔1962ء میں سوویت یونین اور امریکا کے درمیان شدید تنازعہ کے نتیجے میں سوویت یونین نے بھی امریکا کو براہ راست ہدف بنانے میں کیوبا کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے درمیانے درجے کے میزائل نصب کر دیے۔ جو امریکا پر دباؤ کا سبب بنے۔ یکم ستمبر 1977ء میں امریکا نے محدود سفارتی تعلقات کیوبا سے بدستور قائم رکھے تاکہ امریکا کی براہ راست آمدورفت اس جزیرہ پر یقینی بنائی جاسکے۔امریکا کا کیوبا سے ایک معاہدے کے تحت جزیرہ کے ایک اہم حصہ ''گوانتا موگابے'' پر اپنا بحری اڈا قائم کیا ہوا تھا۔کیوبا نے اس کوختم کروایا۔افریقہ کے ساتھ سرد جنگ میں بھی کیوبا نے امریکا کے خلاف درپردہ ساتھ نبھایا۔ کیوبنزکی آزادی کی امید کی کرن اس وقت نمودارہوئی جب 2008ء میں اقوام متحدہ اور کیوبا کے درمیان سول اورسیاسی حقوق اورعالمی معاہدہ برائے معاشی ،سماجی اورکلچرل حقوق طے پایا۔
جغرافیائی محل و قوع کے لحاظ سے جنوبی امریکا کی اس منفرد جزیرائی ریاست کریبین کے شمال میں ایسے مقام پر واقع ہے جہاں بحرہ کریبین، خلیج میکسیکو اور بحرہ اٹلانٹک ایک دوسرے کو جدا کر تے ہیں ۔ جنوب میں امریکا کی ریاست فلوریڈا اور بہا ماس جب کہ ہیٹی اور نارتھ جمیکا مغرب کا حصہ ہیں۔ ہوا نا نہ صرف کیوبا کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ملک کا دارالحکومت اور تجارت اورکاروبارکا سب سے بڑا معاشی مرکز بھی ہے۔نمایاں شہروں میں سانتا موگابے اورگافاگو قابلِ ذکر ہیں۔ درحقیقت کیریبین کے سمندری خطے میں عالمگیر پیمانے پر یہ سب سے بڑا سیاحتی جزیرہ ہے۔
قابل حیرت ہے یہ امرکہ ترقی پذیر ہونے کے باوجود کیوبا کی معیشت کا معیار قابل تعریف ہے اسی لیے پیداواری ذرایع میں چینی،تمباکو،کافی کی پیداوار اور ہنر مند افرادی قوت میں قابل ذکرہے۔انیسویں صدی میں کیوبا میں ہونے والی وافر مقدار میں گنے کی کاشت نے چینی کی صنعت کو با م عروج بخشا اورایک وقت ایسا بھی آیا کہ کیوبا دنیا کی ایک تہائی چینی پیدا کر نے کے قابل ہوگیا۔کیوبا کی تاریخ کا ماضی یہ بتا تا ہے کہ1868ء سے1895ء تک کا عرصہ وہ ہے جس میں جدوجہد آزادی کے لیے جنگیں لڑی گئی۔ سب سے غریب ریاست ہو نے کے باوجود سب سے زیادہ خوددار اور معیارِ زندگی کے اعتبار سے کیوبا کا شمار تیسری دنیا میں ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی 97 فیصد ہے۔
فیڈل کاسٹرو(Fidel Castro)کون تھا؟ فیڈل کاسٹرو کی ہمہ جہت انقلابی شخصیت اور کیوبا دونوں لازم و ملزوم تھے ۔ فیڈل کاسٹرو کا نام پوری دنیا میں جانا پہچانا جاتا رہا ہے۔کیوبا کی انقلابی حکومت کا 32 سالہ وزیراعظم فیڈل کاسٹرو ایک دولت مند باپ کا بیٹا تھا۔اس کی انقلابی سرگرمیوں کا آغازاس وقت ہوا جب وہ قانون کی تعلیم حاصل کررہا تھا۔ جولائی1952ء میں اس کی رہنمائی میں دو سو طلبا نے سانتاگو میںایک فوجی گیریژن پر حملہ کر دیا جس میں بہت سے طلباء مارے گئے، مگر یہ دن کیوباکی قومی زندگی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔اس انقلابی اقدام کے بعد کاسٹرو اور اس کا بھائی راؤل گرفتار کر لیے گئے، مگر 1955ء جب سابق صدر بٹسٹا نے عام معافی کا اعلان کیا اور دونوں رہا ہوکر ترک وطن کرکے نیویارک اور پھرمیکسیکو میں پناہ لی اور وہاں سے اپنے ساتھیوں کو چھاپہ مارجنگ کی تربیت دیتا رہا۔
اس کے بعد وہ 2دسمبر 1956ء کو 100ساتھیوں کے ہمراہ کیوبا کے شمالی ساحل پر اترا لیکن صدر بٹسٹا کی فوجوں کو پتہ چل گیا اور انھوں نے کاسٹرو اور ان کے ساتھیوں کا پیچھا کیا، تعاقب کرنے پر وہ روپوش ہوگئے، اس کے ساتھ ہی اس نے ملک بھر میں انقلابی سرگرمیاں شروع کردیں اور بالآخر یکم جنوری1959ء کیوبا کے آمر بٹسٹا کی حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوگیا۔کاسترو اب 81 برس کے ہوچکے ہیں ۔ طویل علالت نے صحت کو بری طرح متاثرکیا ہے، اس لیے انھوں نے فروری2008ء کو اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا اور اپنے چھوٹے بھائی راؤل کاستروکو اختیارات سونپ دیے ہیں جو ملک کے 21 ویں صدر ہو نے کا رتبہ حاصل کر یںگے۔
کیوبا میں نوآباد ہسپانوی باشندوں کا قدیم مقامی لوگوں کے ساتھ ہتک آمیزاورغلامانہ طرز عمل،امریکیوں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اورسرمایہ کاری کے ذریعے وہاں کی معیشت اور قدرتی وسائل پر غاصبانہ قبضہ ایسے عوامل تھے جس نے ایک طرف کیوبا کومجبور کیا کہ وہ سوویت یونین کی امداد طلب کرے اوردوسری طرف انھوں نے امریکا کے خلاف افریقہ کے تمام ممالک کی در پردہ اپنی حمایت جاری رکھی۔ بالخصوص جنوبی افریقہ کی آزادی کی تحریک میں نیلسن مینڈیلا کا ساتھ دیا۔
جنوبی افریقہ کی آزادی نے پوری دنیا بلکہ براعظم یورپ پر بڑے مثبت اثرات مرتب کیے۔ امریکا میں سیام فام صدرکا انتخاب نیلسن مینڈیلا ہی کی سحرانگیز شخصیت اورمثبت خیالات کا نتیجہ ہے۔ سوویت یونین کی جانب سے امریکا سے نوے میل کے فاصلے پرکیوبا میں میزائلوں کا نصب کرنا،لہذا انھی اسباب کے پیش نظر امریکا نے لچکدار سفارتی پالیسی اپنانے پر مجبورہوا۔ فیدل کاستروکی نیلسن مینڈیلا کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی ہرسطح پر برقرار رہی۔
گزشتہ دنوں میں CNN نیوزچینل پرخبریں دیکھ رہا تھا تو ان خبروں میں ایک اہم اور سنسنی خیز خبر جنوبی امریکا کی غریب اور لاوارث جزیرائی ریاست کیوبا کی تھی جو لاطینی امریکا کا حصہ ہو نے کے ساتھ امریکا کے شہر فلوریڈا سے صرف نوے میل کی مسافت پر واقع ہے۔کیوبا کے شہر سانتا کلاز کے ہوائی اڈے پر امریکی مسافر بردار طیارہ ''جیٹ بلو'' لگ بھگ 150مسافروں کو لے کر اترا، ان مسافروں کے قافلے میں امریکا کے ٹرانسپورٹ سیکریٹری انتھونی فاکس بھی شامل تھے۔
پروازکو پانی کی شاورنگ توپ سے سلامی دی گئی جوروایتی طور پر ایک بحری یا ہوائی جہازکوکسی خاص موقع پردی جاتی ہے ۔یاد رہے، اس سے قبل امریکی صدرباراک اوباما بھی کیوبا کا تین روزہ سرکاری دورہ کر چکے ہیں۔ 2014ء میں امریکا اورکیوبا کے درمیان ہونے والے مشروط معاہدے کے تحت سفارتی تعلقات کا باقاعدہ آغاز بلاشبہ صدر باراک اوباما کی غیرمعمولی کاوشوں کا ثمرکہا جا سکتا ہے ۔ یقینا حیرت بھی ہوئی اور وہ بھی یوں کہ پچاس سال کا طویل عرصہ گزرجانے کے بعد امریکا کو ایسا کون سا خیال آگیا کہ اپنے ہی گھر میں بیٹھے پڑوسی کی خبرگیری اوردامن گیری کے لیے پہنچ گئے۔
کیوبا کی آبادکاری اورآزادی کی بھی عجب تاریخ ہے جس کا باقاعدہ آغاز 1492ء یعنی پندرھویں صدی میں اس وقت ہوا جب عالمی شہرت یافتہ بحری سیاح کرسٹوفرکولمبس اپنے تین بحری جہازوں کے ہمراہ اس جزیرہ پر لنگر انداز ہوا تو یہاں قدیم ریڈانڈین قبائل''اراواک''آباد تھے جن میں بیشترکی تعداد غلاموں کی ہوا کرتی تھی۔ زرعی لحاظ سے اس کی زرخیزی کا یہاں سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ یہاں کی زمین گنا، تمباکو،کافی جیسی خداداد نعمتوں کا خزانہ اگلتی تھی اور ہنرمندافرادی قو ت کی بھی بہتات تھی۔انھی خوبیوں کو بھانپتے ہوئے کولمبس نے اس جزیرہ پرآباد کاری کا فیصلہ کیا اورہسپانیوں (Spanish)کے لیے ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔
1898ء میں کیوبا کے اندرونی معاملات میں امریکا کی مداخلت سے پیدا ہونے والے تنازعات کے نتیجہ میں جنگ کا آغازہو گیا اوریوں کیوبا سیاسی طور پر امریکا کی آماجگاہ بن گیا اور 1933ء میںآرمی آفیسر بٹسٹاء امریکا کی آشیرواد پر اس وقت کے صدرمچوڈوکا تختہ الٹ کراقتدار پر قابض ہوگیا۔کیوبا میں پہلی جنگ آزادی 1868ء سے 1878ء کے درمیان لڑی گئی ۔ ملک میں سیاسی اورمعاشی صورتحال مزید ابتر ہوئی تو1895ء میں جو زمارٹی کی قیادت میں دوسری جنگ لڑی گئی ۔1878ء میں امریکا کے جنگی بحری جہاز پرایک دھماکا ہوا توامریکا نے 1898ء میں اسپین کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور اسپین نے ایک امن معاہدے کے تحت کیوبا سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔
امریکا کی طرف سے مسلسل مداخلت کی روک تھام اورکیوبا کو ایک الگ خود مختار سلطنت کی غرض سے 1956ء میں فیدل کاسترو نے امریکا کے خلاف گوریلا جنگ کا آغازکیا۔اس معرکے کے دوران سوویت یونین کی حمایت وامداد کیوبا کو حاصل ہوتی رہی۔ادھرکاسترو نے اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے فوجی ٹریبونل قائم کیا اورہزاروں سیاسی مخالفین کو پابند سلاسل کر دیا اور کیوبا نے 1952ء میں طے پانے والے ہر قسم کے امریکا کے ساتھ فوجی معاہدے کوتوڑ دیا اور اثاثے بھی ضبط کر لیے اورسوویت یونین کے ساتھ مشترکہ معاہدے طے پائے۔امریکا نے بھی تمام معاہدے 3 جنوری1961ء میں یکسر منقطع کر دیے۔
مخالفین کی بیشتر تعداد ملک چھوڑ کر جلاوطنی پر مجبور ہو گئی۔1962ء میں سوویت یونین اور امریکا کے درمیان شدید تنازعہ کے نتیجے میں سوویت یونین نے بھی امریکا کو براہ راست ہدف بنانے میں کیوبا کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے درمیانے درجے کے میزائل نصب کر دیے۔ جو امریکا پر دباؤ کا سبب بنے۔ یکم ستمبر 1977ء میں امریکا نے محدود سفارتی تعلقات کیوبا سے بدستور قائم رکھے تاکہ امریکا کی براہ راست آمدورفت اس جزیرہ پر یقینی بنائی جاسکے۔امریکا کا کیوبا سے ایک معاہدے کے تحت جزیرہ کے ایک اہم حصہ ''گوانتا موگابے'' پر اپنا بحری اڈا قائم کیا ہوا تھا۔کیوبا نے اس کوختم کروایا۔افریقہ کے ساتھ سرد جنگ میں بھی کیوبا نے امریکا کے خلاف درپردہ ساتھ نبھایا۔ کیوبنزکی آزادی کی امید کی کرن اس وقت نمودارہوئی جب 2008ء میں اقوام متحدہ اور کیوبا کے درمیان سول اورسیاسی حقوق اورعالمی معاہدہ برائے معاشی ،سماجی اورکلچرل حقوق طے پایا۔
جغرافیائی محل و قوع کے لحاظ سے جنوبی امریکا کی اس منفرد جزیرائی ریاست کریبین کے شمال میں ایسے مقام پر واقع ہے جہاں بحرہ کریبین، خلیج میکسیکو اور بحرہ اٹلانٹک ایک دوسرے کو جدا کر تے ہیں ۔ جنوب میں امریکا کی ریاست فلوریڈا اور بہا ماس جب کہ ہیٹی اور نارتھ جمیکا مغرب کا حصہ ہیں۔ ہوا نا نہ صرف کیوبا کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ملک کا دارالحکومت اور تجارت اورکاروبارکا سب سے بڑا معاشی مرکز بھی ہے۔نمایاں شہروں میں سانتا موگابے اورگافاگو قابلِ ذکر ہیں۔ درحقیقت کیریبین کے سمندری خطے میں عالمگیر پیمانے پر یہ سب سے بڑا سیاحتی جزیرہ ہے۔
قابل حیرت ہے یہ امرکہ ترقی پذیر ہونے کے باوجود کیوبا کی معیشت کا معیار قابل تعریف ہے اسی لیے پیداواری ذرایع میں چینی،تمباکو،کافی کی پیداوار اور ہنر مند افرادی قوت میں قابل ذکرہے۔انیسویں صدی میں کیوبا میں ہونے والی وافر مقدار میں گنے کی کاشت نے چینی کی صنعت کو با م عروج بخشا اورایک وقت ایسا بھی آیا کہ کیوبا دنیا کی ایک تہائی چینی پیدا کر نے کے قابل ہوگیا۔کیوبا کی تاریخ کا ماضی یہ بتا تا ہے کہ1868ء سے1895ء تک کا عرصہ وہ ہے جس میں جدوجہد آزادی کے لیے جنگیں لڑی گئی۔ سب سے غریب ریاست ہو نے کے باوجود سب سے زیادہ خوددار اور معیارِ زندگی کے اعتبار سے کیوبا کا شمار تیسری دنیا میں ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی 97 فیصد ہے۔
فیڈل کاسٹرو(Fidel Castro)کون تھا؟ فیڈل کاسٹرو کی ہمہ جہت انقلابی شخصیت اور کیوبا دونوں لازم و ملزوم تھے ۔ فیڈل کاسٹرو کا نام پوری دنیا میں جانا پہچانا جاتا رہا ہے۔کیوبا کی انقلابی حکومت کا 32 سالہ وزیراعظم فیڈل کاسٹرو ایک دولت مند باپ کا بیٹا تھا۔اس کی انقلابی سرگرمیوں کا آغازاس وقت ہوا جب وہ قانون کی تعلیم حاصل کررہا تھا۔ جولائی1952ء میں اس کی رہنمائی میں دو سو طلبا نے سانتاگو میںایک فوجی گیریژن پر حملہ کر دیا جس میں بہت سے طلباء مارے گئے، مگر یہ دن کیوباکی قومی زندگی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔اس انقلابی اقدام کے بعد کاسٹرو اور اس کا بھائی راؤل گرفتار کر لیے گئے، مگر 1955ء جب سابق صدر بٹسٹا نے عام معافی کا اعلان کیا اور دونوں رہا ہوکر ترک وطن کرکے نیویارک اور پھرمیکسیکو میں پناہ لی اور وہاں سے اپنے ساتھیوں کو چھاپہ مارجنگ کی تربیت دیتا رہا۔
اس کے بعد وہ 2دسمبر 1956ء کو 100ساتھیوں کے ہمراہ کیوبا کے شمالی ساحل پر اترا لیکن صدر بٹسٹا کی فوجوں کو پتہ چل گیا اور انھوں نے کاسٹرو اور ان کے ساتھیوں کا پیچھا کیا، تعاقب کرنے پر وہ روپوش ہوگئے، اس کے ساتھ ہی اس نے ملک بھر میں انقلابی سرگرمیاں شروع کردیں اور بالآخر یکم جنوری1959ء کیوبا کے آمر بٹسٹا کی حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوگیا۔کاسترو اب 81 برس کے ہوچکے ہیں ۔ طویل علالت نے صحت کو بری طرح متاثرکیا ہے، اس لیے انھوں نے فروری2008ء کو اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا اور اپنے چھوٹے بھائی راؤل کاستروکو اختیارات سونپ دیے ہیں جو ملک کے 21 ویں صدر ہو نے کا رتبہ حاصل کر یںگے۔
کیوبا میں نوآباد ہسپانوی باشندوں کا قدیم مقامی لوگوں کے ساتھ ہتک آمیزاورغلامانہ طرز عمل،امریکیوں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اورسرمایہ کاری کے ذریعے وہاں کی معیشت اور قدرتی وسائل پر غاصبانہ قبضہ ایسے عوامل تھے جس نے ایک طرف کیوبا کومجبور کیا کہ وہ سوویت یونین کی امداد طلب کرے اوردوسری طرف انھوں نے امریکا کے خلاف افریقہ کے تمام ممالک کی در پردہ اپنی حمایت جاری رکھی۔ بالخصوص جنوبی افریقہ کی آزادی کی تحریک میں نیلسن مینڈیلا کا ساتھ دیا۔
جنوبی افریقہ کی آزادی نے پوری دنیا بلکہ براعظم یورپ پر بڑے مثبت اثرات مرتب کیے۔ امریکا میں سیام فام صدرکا انتخاب نیلسن مینڈیلا ہی کی سحرانگیز شخصیت اورمثبت خیالات کا نتیجہ ہے۔ سوویت یونین کی جانب سے امریکا سے نوے میل کے فاصلے پرکیوبا میں میزائلوں کا نصب کرنا،لہذا انھی اسباب کے پیش نظر امریکا نے لچکدار سفارتی پالیسی اپنانے پر مجبورہوا۔ فیدل کاستروکی نیلسن مینڈیلا کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی ہرسطح پر برقرار رہی۔