ضمنی انتخابات کا دوسرا رُخ

پی پی 133 نارووال کے ضمنی الیکشن میں ڈاکٹر نعمت کو پنجاب حکومت کی بھر پور سرپرستی کے باوجود بدترین شکست ہوئی۔


Asghar Abdullah December 09, 2012
[email protected]

ضمنی الیکشن عموماً صوبائی حکومتوں کے ہوتے ہیں۔ انتظامی مشینری صوبائی حکومت کی مرضی کے تابع رہ کر کام کرتی ہے۔ ضمنی الیکشن میں یہ فیکٹر اہم ہی نہیں، فیصلہ کن ہوتا ہے۔ اس تناظر میں کسی صوبائی حکومت کا اپنی عمل داری میں ضمنی الیکشن جیت لینا اہم نہیں سمجھا جاتا۔ ہاں، یہ معاملہ ضرور اہم ہو جاتا ہے، جب کسی صوبائی حکومت کی عمل داری میں، حکومت مخالف امیدوار کامیاب ہو جائے، یا جب کوئی صوبائی حکومت اپنی ہی جیتی ہوئی نشستیں دوبارہ جیت لینے کو معرکہ سر کر لینے سے تعبیر کرنے پر مجبور ہو۔

اس میں شک نہیں کہ 4 دسمبر کو 2 قومی اور7 صوبائی نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے لیے لمحہ فکریہ ہیں، وہاں ن لیگ کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ 4 دسمبر کے ضمنی الیکشن میں اصل معرکہ صرف 3 نشستوں پر برپا ہو رہا تھا؛ این اے 107۔گجرات، پی پی 133 نارووال، اور این اے 162 ساہیوال۔ این اے 107 کی اہمیت یہ تھی کہ یہ حلقہ چوہدری برادران کے آبائی ضلعے میں ہے۔ پی پی 133۔ نارووال کی نشست ڈاکٹر طاہر علی جاوید نے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر جیت کر ن لیگ کی جیب میں ڈال دی تھی۔ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ق کو صرف اس نشست میں دلچسپی تھی۔ این اے 162۔ ساہیوال میں بظاہر ن لیگ اور تحریک انصاف مد مقابل تھیں۔

2008ء کے الیکشن میں، پی پی 133 نارووال سے ڈاکٹر طاہر جاوید نے 27508 حاصل کیے تھے۔ ن لیگ کے وقار احمد چوہدری نے 13704 ووٹ لیے تھے۔ ن لیگ کو یقین تھا کہ ضمنی الیکشن میں اب جب کہ ڈاکٹر طاہر علی جاوید کے والد ڈاکٹر نعمت علی جاوید ن لیگ کے امیدوار ہیں تو پنجاب حکومت اور ن لیگ کی ''سروے مقبولیت'' کے بل پر ریکارڈ ووٹ لے کر کامیاب ہوں گے۔ ن لیگ کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ 2008ء میں اس نشست پر ڈاکٹر طاہر علی جاوید کی جیت میں مسلم لیگ ق یا چوہدری برادران کا کوئی حصہ نہیں۔

ڈاکٹر طاہر علی جاوید کو شہباز شریف کی خواہش پر یونیفیکیشن بلاک کا لیڈر مقرر کیا گیا۔ پی پی 133 کے ضمنی الیکشن میں صرف یہی فیصلہ نہیں ہونا تھا کہ ن لیگ اور ڈاکٹر طاہر علی جاوید کا موقف درست ہے یا نہیں، بلکہ یہ فیصلہ بھی ہونا تھا کہ آئی آر آئی اور گیلپ سروے رپورٹوں میں، ن لیگ اور شریف برادران کی مقبولیت کے جو دعوے کیے جا رہے ہیں، ان میں کس حد تک سچائی ہے۔ 4 دسمبر کو پی پی 133 نارووال کا انتخابی نتیجہ پنجاب میں ضمنی الیکشن کا سب سے بڑا اپ سیٹ ثابت ہوا۔ ڈاکٹر نعمت علی جاوید کو ن لیگ اور پنجاب حکومت کی بھر پور سرپرستی کے باوجود بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلم لیگ ق کے چوہدری عمر شریف نے یہ نشست بہ آسانی جیت لی۔ ڈاکٹر نعمت علی جاوید دوسری پوزیشن بھی حاصل نہ کر سکے اور تیسرے نمبر پر آئے۔ صرف ایک سال میں، یزمان کے بعد نارووال میں، پنجاب اسمبلی کی یہ دوسری نشست ہے، جس پر مسلم لیگ ق نے ن لیگ کو ہرایا ہے۔

 

این اے 162 ساہیوال کا ضمنی الیکشن اس لحاظ سے بالکل سادہ ہے کہ یہ نشست چوہدر ی زاہد اقبال نے خالی کی تھی، انھوں ہی نے دوبارہ جیت لی۔ جنرل الیکشن میں وہ پیپلزپارٹی کے امیدوار تھے، اور اب ضمنی الیکشن میں ن لیگ کے امیدوار۔ لہٰذا چوہدری زاہد اقبال کی جیت کو ن لیگ کی مقبولیت کا نتیجہ قرار نہیں دیا سکتا۔ ہاں، اگر ن لیگ اس نشست پر نیا امیدوار نامزد کرتی، پھر بلاشبہ ن لیگ کی مقبولیت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا تھا۔ یہ چوہدری زاہد اقبال کے لیے بھی ترقی معکوس ہے کہ جنرل الیکشن میں انھیں سرکاری مشینری کی حمایت میسر نہیں تھی، اور ضمنی الیکشن میں جب یہ نشست انھوں نے دوبارہ جیتی ہے، تو اسے پنجاب حکومت کی سرکاری مشینری کا کرشمہ قرار دیا جا رہا ہے۔ این اے 162 کی اہم بات لیکن یہ ہے کہ رائے حسن نواز کوپنجاب حکومت کی زبردست مخالفت کا سامنا تھا، تحریک انصاف کی حمایت بھی با لواسطہ تھی، ان کے پاس پی ٹی آئی کا ٹکٹ تھا نہ انتخابی نشان۔ق لیگ بھی ان کی حمایت سے گریزاں تھی۔ 2008ء میں اس حلقہ سے ق لیگ کے امیدوار نے 65440 ووٹ لیے تھے۔ اگر تحریک انصاف اورق لیگ میں مفاہمت ہوتی تو رائے حسن نواز جیت سکتے تھے۔

این اے 107گجرات میں2008ء میں، ن لیگ کے ملک جمیل اعوان نے 75205، جب کہ ق لیگ کے رحمن نصیر چوہدری نے 69101 ووٹ لیے تھے۔ایسا لگتا ہے کہ جب تک پنجاب میں شریف برادران کی حکومت ہے، یہ نشست چوہدری برادران کو ملنے والی نہیں۔ پنجاب حکومت ن لیگ کے امیدوار ملک حنیف اعوان کے ساتھ تھی۔لیکن پی پی 133 کی طرح این اے 107 کا انتخابی نتیجہ بھی ن لیگ کے لیے پریشانی لیے ہوئے آیا۔ معلوم ہوا کہ ق لیگ کے رحمن نصیر چوہدری نے 2008ء کے الیکشن میں 69101 حاصل کیے تھے، اب ان کے ووٹ بڑھ کر 76041 ہو چکے ہیں۔

ریٹرنگ افسر کی طرف سے جاری ہونے والے انتخابی نتیجے میں، اگرچہ ملک حنیف اعوان کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ظاہر کیا گیا، تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ضمنی الیکشن میں دیہاتی حلقہ میں ٹرن آئوٹ اتنا اوپر جا سکتا ہے۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) نے اپنی رپورٹ میں اس غیر معمولی ٹرن آئوٹ کو مشکوک قرار دے دیا ہے۔ بی بی سی نے بھی تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ این اے 107گجرات سے ملک حنیف اعوان کی جیت کوپچھلے سال پی پی 111گجرات سے حاجی عمران کی جیت کے مماثل قرار دیا جارہا ہے۔ اب جنرل الیکشن میں ہی معلوم ہو گا کہ ان دونوں نشستوں پر ن لیگ اور ق لیگ کی حقیقی پوزیشن کیا ہے۔

ضمنی الیکشن کے ضمن میں دو مزید امور توجہ طلب ہیں۔ پنجاب میں اگرچہ پچھلے 5 سال سے ن لیگ کی حکومت ہے، اس کا ہدف ق لیگ اور چوہدری برادران رہے۔ تاہم اس کے باوجود، ضمنی الیکشن میں ق لیگ نے ہر حلقہ میں2008 ء کے الیکشن سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ این اے 107 سے 2008 ء میں69101 ووٹ لیے اور اب ضمنی الیکشن میں 76041 لیے ہیں۔ پی پی 133۔ نارووال سے ق لیگ نے2008ء میں 27508 ووٹ لیے ، اور اب ضمنی الیکشن میں 28989 ووٹ لیے ہیں۔ پی پی 226 ساہیوال سے 2008ء میں29955 ووٹ لیے، اور اب 35359 ووٹ لیے ہیں۔

پی پی 129۔ سیالکوٹ سے 2008ء میں 20178 ووٹ لیے، اور اب 30846 ووٹ لیے ہیں۔ پی پی 26 ۔ جہلم سے ق لیگ نے2008ء میں 16487 ووٹ لیے ، اور اب 16884 ووٹ لیے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پنجاب میں ق لیگ کا نہ صرف 2008ء کا ووٹ بینک قائم ہے، بلکہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسرا ن لیگ کو اس ضمنی الیکشن میں دو سہولتیں حاصل تھیں، پہلی سہولت یہ کہ، یہ ضمنی الیکشن، ن لیگ، پنجاب میں اپنی حکومت کے سائے تلے لڑ رہی تھی۔ الیکشن کمیشن کو پولنگ اسٹیشنز پر جو انتخابی عملہ فراہم کیا گیا، وہ پنجاب حکومت کا منتخب کردہ تھا۔ دوسری سہولت یہ کہ ن لیگ کے ووٹ بینک کی دو اہم ترین شراکت دار جماعتیں، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی، ضمنی الیکشن میں سرے سے حصہ ہی نہیں لے رہی تھیں۔ جنرل الیکشن میں یہ دونوں جماعتیں براہ راست حصہ لیں گے، اور ظاہر ہے کہ ن لیگ کے ووٹ بینک سے حصہ بقدر جثہ وصول کریں گی۔

ن لیگ ضمنی الیکشن میں اپنی پرفارمنس پر مطمئن نظر آنے کی کوشش کر رہی ہے، تاہم حقیقت بہرحال یہ نہیں۔ ضمنی الیکشن میں ن لیگ کے مخالف ووٹ بینک نے اپنے متحرک ہونے کا بھر پور ثبوت دے دیا ہے۔ عدلیہ سے چپقلش کے باعث پیپلزپارٹی فی الحال دباؤ میں ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو قیادت کا بحران بھی درپیش ہے۔ پھر، ن لیگ اور ق لیگ کی لیڈر شپ کے برعکس، پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ نے ابھی انتخابی مہم شروع نہیں کی۔ پیپلز پارٹی کی دلچسپی اس وقت صرف یہ ہے کہ اپنی آئینی مدت مکمل کر لے۔ جیسے ہی یہ مدت پوری ہو گئی، پیپلز پارٹی ایک مست ہاتھی کی طرح بیدار ہو جائے گی۔ ضمنی الیکشن کا پیغام یہی ہے کہ پنجاب میں ن لیگ کے خلاف ق لیگ ، پیپلزپارٹی، اور تحریک انصاف کا ''انتخابی کیمپ'' بتدریج اپنی طاقت بڑھا رہا ہے۔ یہ آثار ن لیگ کے لیے خطرے کا الارم تو ہیں ہی، ان تجزیہ کاروں کے لیے بھی ایک تازیانہ ہیں، جو 2008ء سے ن لیگ کو یہ نوید سُنا رہے ہیں کہ پنجاب میں ق لیگ کا صفایا ہو گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔