یہ ادھڑتی سڑکیں اور ابھرتے فلاحی اوور
جب اس سڑک کی اکھاڑ پچھاڑ کی ہم نے خبریں سنیں تو ہم نے قسم کھائی کہ جب تک یہ عمل جاری ہے، ہم اس سڑک کا رخ نہیں کریں گے۔
دلی میں سن ستاون کی ابتدا کے بعد جب نئی تعمیر کے نام پر اونچی عمارتیں ڈھائی گئیں اور کوچوں کو اجاڑا گیا تو غالب نے ایک دوست کو خط میں اپنی آنکھ کا احوال یوں لکھا ''آنکھوں کے غبار کی وجہ یہ ہے کہ جو مکان دلی میں ڈھائے گئے اور جہاں جہاں سڑکیں نکلیں ان سے جتنی گرد اڑی اس سب کو از راہِ محبت میں نے اپنی آنکھوں میں جگہ دی۔''
ادھر ہم حیران تھے کہ ان دنوں اس شہر لاہور میں اتنی سڑکیں ادھیڑی گئی ہیں، ان سے کتنی خاک اڑی ہے لیکن عجب ہے کہ لاہوریوں میں سے نہ کسی کی آنکھوں میں غبار پھیلا نہ کسی کی چشم نم ہوئی۔ مگر اب عطاء الحق قاسمی کے کالم میں فوٹو گرافر عارف بھٹی کا احوال پڑھا تو دل نے کہا کہ تم نے غلط سمجھا تھا۔ ابھی اس شہر میں ایسی حساس روحیں موجود ہیں کہ شہر کے کوچوں کو اجڑتے اور سڑکوں کو ادھڑتے دیکھ کر ان کی آنکھ بھیگ جاتی ہے اور یہ ذکر کرتے ہوئے آواز گلوگیر ہوجاتی ہے۔
عارف بھٹی کے درد دل کو ہم سمجھتے ہیں۔ ان کے بیان سے ایک سڑک کا ماضی ہمیں بھی بہت یاد آیا۔ یہ فیروز پور روڈ ہے۔ یعنی وہ فیروز پور روڈ جو آگے ہوا کرتی تھی۔ اس سڑک کے ایک گوشے میں جو نہر کے آس پاس پھیلا ہوا تھا، ہم نے اپنی پاکستانی زندگی کے بہت سال گزارے ہیں۔ اسی نکڑ پر اپنے کرائے کے مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر یہ منظر بھی دیکھا کہ سڑک کے اس طرف جو جنگل پھیلا ہوا تھا اس کا دیکھتے دیکھتے صفایا ہو گیا اور وہ سڑک نمودار ہوئی جو اب وحدت روڈ کہلاتی ہے۔ اور ہاں اچھرہ موڑ۔ جب بس اس موڑ پر آ کر رکتی تو اتنے بڑے ہجوم کی اس پر یلغار ہوتی کہ ہمارا دم گھٹنے لگتا۔ ایک ماڈل ٹائون میں مقیم صحافی نے جو روز بس میں بیٹھ کر اس راہ سے گزرتا تھا، اپنے کالم میں لکھا کہ ''میری زندگی کا سب سے نازک موڑ اچھرہ موڑ ہے۔''
جب اس سڑک کی اکھاڑ پچھاڑ کی ہم نے خبریں سنیں تو ہم نے قسم کھائی کہ جب تک یہ عمل جاری ہے، ہم اس سڑک کا رخ نہیں کریں گے۔ ہم نے اس سڑک کے صبح و شام بہت دیکھے ہیں۔ کبھی سائیکل پر سوار ہو کر ،کبھی بس میں بیٹھ کر،کبھی ٹخ ٹخ کرتے تانگلہ میں آزادانہ پائوں پھیلا کر۔ اسے ابتر حالت میں دیکھ کر ہمیں اس سڑک پر اپنی آوارہ گردی بہت یاد آئے گی۔
اگر یہ بات ہے تو سب سے بڑھ کر ہمیں مال روڈ کے گوشے کے بدلے ہوئے نقشے پر ماتم کرنا چاہیے جہاں ٹی ہائوس اور کافی ہائوس شاد آباد تھے۔ اب یہ گوشہ شاد ہے یا ناشاد' یہ بحث پھر کبھی۔ مگر اس گوشے کا نقشہ کچھ آج تو نہیں بدلا۔ پوری مال کا نقشہ اسی گھڑی اتھل پتھل ہو گیا تھا جب ایوب خاں کے مارشل لاء کے زمانے میں اسے ادھیڑ کر دو رویہ سڑک بنائی گئی تھی۔ سب سے بڑھ کر افتاد اس فٹ پاتھ پر پڑی جس پر چنبیلی کے درختوں کا ریگل سے ہائی کورٹ سے آگے تک مہکتا سایہ تھا۔ جب جون کی کھڑی دوپہری میں مولانا صلاح الدین احمد سوٹ میں ملبوس چھڑی ٹیکتے بہت سکون سے اس راہ گزرتے نظر آتے تو لگتا کہ یہ فٹ پاتھ اسی مقصد سے بنایا گیا تھا کہ مولانا کو اس راہ گزر کر نگینہ بیکری پہنچنا ہے۔
انھیں کے صدقے میں ہم ایسے بھی اس فٹ پاتھ کو اپنا گھر آنگن سمجھتے تھے اور گرم تپتی دوپہروں میں بھیگتی راتوں میں یہاں ایلے گیلے پھرتے تھے۔ اب یہ فٹ پاتھ اتنا پتلا ہو گیا ہے اور بیچ بیچ میں درخت اس طرح اڑے کھڑے ہیں اور ٹریفک اس طرح اس پر یلغار کرتا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں چار قدم چلنا دشوار نظر آتا ہے۔ آگے مال روڈ کے قلب میں اتنی وسعت تھی کہ سوار اور پیادے اور ان کے ساتھ درخت سب کے لیے گنجائش تھی۔
اب مال روڈ دو رویہ ہے مگر اب وہ تنگ دل ہو گئی ہے کہ پیادوں کو راہ دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ اب اس سڑک پر سوار دندناتے ہیں اور سواریوں کی ریل پیل ہے۔ پیادہ اس ریل پیل میں روندا گیا۔ اور درخت جو اس شاہراہ پر اکا دکا رہ گئے ہیں تیز رفتار پر شور سواریوں کے بیچ اجنبی نظر آتے ہیں جیسے اب اس سڑک پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ تو اب کوئی معزز بزرگ اپنی چھڑی کے سہارے اس راہ پر خراماں خراماں چلتا نظر نہیں آئے گا تو پھر درختوں کی چھائوں کس کے لیے۔ موٹر سوار اڑے چلے جا رہے ہیں۔ درختوں کی چھائوں ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔
سو اب مال روڈ دو رویہ بننے کے بعد ٹھنڈی سڑک نہیں رہی۔ اب وہ اپنی پر شور دھواں اگلتی سواریوں کے ساتھ ایک گرم شاہراہ ہے۔ بس اس کے ساتھ یہاں سے ریستورانوں کا دفتر مٹ گیا۔ کیا زمانہ تھا کہ اس شاہراہ پر ریستورانوں کی ایک قطار لگی ہوئی تھی۔ اور ہر ریستوران میں ادیبوں، دانشوروں، صحافیوں کی کوئی ٹولی رونق افروز ہے اور اپنی دانشورانہ بحثوں سے چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا رہی ہے۔ اب وہ ریستوران کہاں ہیں اور وہ ٹولیاں بے ٹھکانا ہو کر کدھر نکل گئیں۔
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
سو عطاء الحق قاسمی کا یہ ارشاد تو بجا ہے کہ اب نیا زمانہ ہے۔ ترقی کی دوڑ جاری ہے۔ سو شہر شہر ترقیاتی منصوبے پروان چڑھیں گے۔ فلائی اوور تعمیر ہوں گے۔ انڈر پاس بنیں گے۔ رنگ روڈ بچھائی جائے گی۔ فاصلے اس کمال سے سکڑیں گے کہ شاہدرہ سے ایئرپورٹ تک کا سفر پہلے ڈھائی گھنٹے میں طے ہوتا تھا۔ اب پندرہ منٹوں میں طے ہوتا ہے۔ اس میں عطاء الحق قاسمی کی تھوڑی خوش فہمی بھی شامل ہے جس نے ایئرپورٹ کے فاصلے کو اتنا مختصر کر دیا ہے ورنہ احوال واقعی یہ ہے کہ ہم جیل روڈ سے چل کر ایئر پورٹ واقعی پندرہ بیس منٹ میں پہنچ جاتے تھے۔ اب ایک ڈیڑھ گھنٹے کا تصور باندھ کر گھر سے نکلتے ہیں۔ اس لیے کہ راہ میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں جہاں موٹریں ٹھسا ٹھس کھڑی نظر آتی ہیں۔ موٹر سوار نہ آگے جا سکتا ہے نہ پیچھے ہٹ کر کوئی دوسری راہ اختیار کر سکتا ہے۔
اور پھر بیچ میں ناکے بھی تو آتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر سواری برق رفتاری سے کنارہ کر کے چیونٹی کی چال چلتی نظر آتی ہے۔ یہ ٹریفک جام' یہ ناکے' آخر یہ بھی ترقیاتی دور کی برکتیں ہیں مگر اصل معاملہ یہ نہیں ہے۔ وہ معاملہ جو ہمیں پریشان کر رہا ہے وہ دوسرا ہے۔ نئے زمانے کی سوغات تیز رفتاری کی قدر و قیمت برحق، مگر ترقی کی اس دوڑ میں ہم نے کیا پایا وہ بھی بجا مگر مڑ کر اگر یہ بھی دیکھ لیں کہ کیا گنوایا تو کیا مضائقہ ہے۔ نیا زمانہ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے۔ ہم سست رفتار سواریوں کے مسافر اس کی زد میں ہیں۔
جب ایک ترقیاتی منصوبہ کسی کوچے کسی شاہراہ کے ساتھ اکھاڑ پچھاڑ کرتا ہے تو سمجھ لو کہ ایک پوری تہذیب اس کی زد میں ہے۔ جب مولانا صلاح الدین احمد اپنی خاص وضع کے ساتھ چھڑی ٹیکتے مال کی فٹ پاتھ پر چلتے نظر آتے تھے اور تانگہ میں سوار مولانا چراغ حسن حسرت کافی ہائوس کی سمت میں رواں دکھائی دیتے تھے تو اس پیادے اور اس سوار کے جلو میں ایک تہذیب سفر کرتی نظر آتی تھی۔ جب یہاں کا فٹ پاتھ سکڑ گیا اور شاہراہ پر تانگے کا داخلہ ممنوع ہو گیا، اور سڑک کے دائیں بائیں سبزے کے تختے اور پھولوں کی کیاریاں اجڑ گئیں اور درخت کٹ گئے اور شاد آباد ریستوران حرف غلط کی طرح مٹ گئے اور بحث مباحثہ کے رسیا دانشور غائب غلہ ہو گئے تو سمجھ لو کہ ایک تہذیب سفر کر گئی۔ ایک نئی تہذیب اس کوچہ پر چھا گئی۔ پہلے یہ شاہراہ اپنے ریستورانوں اور درختوں سے پہچانی جاتی تھی۔ اب بینکوں کی عمارات اس کی شناخت ہیں۔
ہمیں بس یہ یاد کرنے دیں کہ وہ کیا تہذیب تھی کہ اجڑ گئی۔ نئی تہذیب کا حساب کتاب نئے زمانے کے حسابی کتابی جانیں۔
ادھر ہم حیران تھے کہ ان دنوں اس شہر لاہور میں اتنی سڑکیں ادھیڑی گئی ہیں، ان سے کتنی خاک اڑی ہے لیکن عجب ہے کہ لاہوریوں میں سے نہ کسی کی آنکھوں میں غبار پھیلا نہ کسی کی چشم نم ہوئی۔ مگر اب عطاء الحق قاسمی کے کالم میں فوٹو گرافر عارف بھٹی کا احوال پڑھا تو دل نے کہا کہ تم نے غلط سمجھا تھا۔ ابھی اس شہر میں ایسی حساس روحیں موجود ہیں کہ شہر کے کوچوں کو اجڑتے اور سڑکوں کو ادھڑتے دیکھ کر ان کی آنکھ بھیگ جاتی ہے اور یہ ذکر کرتے ہوئے آواز گلوگیر ہوجاتی ہے۔
عارف بھٹی کے درد دل کو ہم سمجھتے ہیں۔ ان کے بیان سے ایک سڑک کا ماضی ہمیں بھی بہت یاد آیا۔ یہ فیروز پور روڈ ہے۔ یعنی وہ فیروز پور روڈ جو آگے ہوا کرتی تھی۔ اس سڑک کے ایک گوشے میں جو نہر کے آس پاس پھیلا ہوا تھا، ہم نے اپنی پاکستانی زندگی کے بہت سال گزارے ہیں۔ اسی نکڑ پر اپنے کرائے کے مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر یہ منظر بھی دیکھا کہ سڑک کے اس طرف جو جنگل پھیلا ہوا تھا اس کا دیکھتے دیکھتے صفایا ہو گیا اور وہ سڑک نمودار ہوئی جو اب وحدت روڈ کہلاتی ہے۔ اور ہاں اچھرہ موڑ۔ جب بس اس موڑ پر آ کر رکتی تو اتنے بڑے ہجوم کی اس پر یلغار ہوتی کہ ہمارا دم گھٹنے لگتا۔ ایک ماڈل ٹائون میں مقیم صحافی نے جو روز بس میں بیٹھ کر اس راہ سے گزرتا تھا، اپنے کالم میں لکھا کہ ''میری زندگی کا سب سے نازک موڑ اچھرہ موڑ ہے۔''
جب اس سڑک کی اکھاڑ پچھاڑ کی ہم نے خبریں سنیں تو ہم نے قسم کھائی کہ جب تک یہ عمل جاری ہے، ہم اس سڑک کا رخ نہیں کریں گے۔ ہم نے اس سڑک کے صبح و شام بہت دیکھے ہیں۔ کبھی سائیکل پر سوار ہو کر ،کبھی بس میں بیٹھ کر،کبھی ٹخ ٹخ کرتے تانگلہ میں آزادانہ پائوں پھیلا کر۔ اسے ابتر حالت میں دیکھ کر ہمیں اس سڑک پر اپنی آوارہ گردی بہت یاد آئے گی۔
اگر یہ بات ہے تو سب سے بڑھ کر ہمیں مال روڈ کے گوشے کے بدلے ہوئے نقشے پر ماتم کرنا چاہیے جہاں ٹی ہائوس اور کافی ہائوس شاد آباد تھے۔ اب یہ گوشہ شاد ہے یا ناشاد' یہ بحث پھر کبھی۔ مگر اس گوشے کا نقشہ کچھ آج تو نہیں بدلا۔ پوری مال کا نقشہ اسی گھڑی اتھل پتھل ہو گیا تھا جب ایوب خاں کے مارشل لاء کے زمانے میں اسے ادھیڑ کر دو رویہ سڑک بنائی گئی تھی۔ سب سے بڑھ کر افتاد اس فٹ پاتھ پر پڑی جس پر چنبیلی کے درختوں کا ریگل سے ہائی کورٹ سے آگے تک مہکتا سایہ تھا۔ جب جون کی کھڑی دوپہری میں مولانا صلاح الدین احمد سوٹ میں ملبوس چھڑی ٹیکتے بہت سکون سے اس راہ گزرتے نظر آتے تو لگتا کہ یہ فٹ پاتھ اسی مقصد سے بنایا گیا تھا کہ مولانا کو اس راہ گزر کر نگینہ بیکری پہنچنا ہے۔
انھیں کے صدقے میں ہم ایسے بھی اس فٹ پاتھ کو اپنا گھر آنگن سمجھتے تھے اور گرم تپتی دوپہروں میں بھیگتی راتوں میں یہاں ایلے گیلے پھرتے تھے۔ اب یہ فٹ پاتھ اتنا پتلا ہو گیا ہے اور بیچ بیچ میں درخت اس طرح اڑے کھڑے ہیں اور ٹریفک اس طرح اس پر یلغار کرتا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں چار قدم چلنا دشوار نظر آتا ہے۔ آگے مال روڈ کے قلب میں اتنی وسعت تھی کہ سوار اور پیادے اور ان کے ساتھ درخت سب کے لیے گنجائش تھی۔
اب مال روڈ دو رویہ ہے مگر اب وہ تنگ دل ہو گئی ہے کہ پیادوں کو راہ دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ اب اس سڑک پر سوار دندناتے ہیں اور سواریوں کی ریل پیل ہے۔ پیادہ اس ریل پیل میں روندا گیا۔ اور درخت جو اس شاہراہ پر اکا دکا رہ گئے ہیں تیز رفتار پر شور سواریوں کے بیچ اجنبی نظر آتے ہیں جیسے اب اس سڑک پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ تو اب کوئی معزز بزرگ اپنی چھڑی کے سہارے اس راہ پر خراماں خراماں چلتا نظر نہیں آئے گا تو پھر درختوں کی چھائوں کس کے لیے۔ موٹر سوار اڑے چلے جا رہے ہیں۔ درختوں کی چھائوں ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔
سو اب مال روڈ دو رویہ بننے کے بعد ٹھنڈی سڑک نہیں رہی۔ اب وہ اپنی پر شور دھواں اگلتی سواریوں کے ساتھ ایک گرم شاہراہ ہے۔ بس اس کے ساتھ یہاں سے ریستورانوں کا دفتر مٹ گیا۔ کیا زمانہ تھا کہ اس شاہراہ پر ریستورانوں کی ایک قطار لگی ہوئی تھی۔ اور ہر ریستوران میں ادیبوں، دانشوروں، صحافیوں کی کوئی ٹولی رونق افروز ہے اور اپنی دانشورانہ بحثوں سے چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا رہی ہے۔ اب وہ ریستوران کہاں ہیں اور وہ ٹولیاں بے ٹھکانا ہو کر کدھر نکل گئیں۔
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
سو عطاء الحق قاسمی کا یہ ارشاد تو بجا ہے کہ اب نیا زمانہ ہے۔ ترقی کی دوڑ جاری ہے۔ سو شہر شہر ترقیاتی منصوبے پروان چڑھیں گے۔ فلائی اوور تعمیر ہوں گے۔ انڈر پاس بنیں گے۔ رنگ روڈ بچھائی جائے گی۔ فاصلے اس کمال سے سکڑیں گے کہ شاہدرہ سے ایئرپورٹ تک کا سفر پہلے ڈھائی گھنٹے میں طے ہوتا تھا۔ اب پندرہ منٹوں میں طے ہوتا ہے۔ اس میں عطاء الحق قاسمی کی تھوڑی خوش فہمی بھی شامل ہے جس نے ایئرپورٹ کے فاصلے کو اتنا مختصر کر دیا ہے ورنہ احوال واقعی یہ ہے کہ ہم جیل روڈ سے چل کر ایئر پورٹ واقعی پندرہ بیس منٹ میں پہنچ جاتے تھے۔ اب ایک ڈیڑھ گھنٹے کا تصور باندھ کر گھر سے نکلتے ہیں۔ اس لیے کہ راہ میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں جہاں موٹریں ٹھسا ٹھس کھڑی نظر آتی ہیں۔ موٹر سوار نہ آگے جا سکتا ہے نہ پیچھے ہٹ کر کوئی دوسری راہ اختیار کر سکتا ہے۔
اور پھر بیچ میں ناکے بھی تو آتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر سواری برق رفتاری سے کنارہ کر کے چیونٹی کی چال چلتی نظر آتی ہے۔ یہ ٹریفک جام' یہ ناکے' آخر یہ بھی ترقیاتی دور کی برکتیں ہیں مگر اصل معاملہ یہ نہیں ہے۔ وہ معاملہ جو ہمیں پریشان کر رہا ہے وہ دوسرا ہے۔ نئے زمانے کی سوغات تیز رفتاری کی قدر و قیمت برحق، مگر ترقی کی اس دوڑ میں ہم نے کیا پایا وہ بھی بجا مگر مڑ کر اگر یہ بھی دیکھ لیں کہ کیا گنوایا تو کیا مضائقہ ہے۔ نیا زمانہ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے۔ ہم سست رفتار سواریوں کے مسافر اس کی زد میں ہیں۔
جب ایک ترقیاتی منصوبہ کسی کوچے کسی شاہراہ کے ساتھ اکھاڑ پچھاڑ کرتا ہے تو سمجھ لو کہ ایک پوری تہذیب اس کی زد میں ہے۔ جب مولانا صلاح الدین احمد اپنی خاص وضع کے ساتھ چھڑی ٹیکتے مال کی فٹ پاتھ پر چلتے نظر آتے تھے اور تانگہ میں سوار مولانا چراغ حسن حسرت کافی ہائوس کی سمت میں رواں دکھائی دیتے تھے تو اس پیادے اور اس سوار کے جلو میں ایک تہذیب سفر کرتی نظر آتی تھی۔ جب یہاں کا فٹ پاتھ سکڑ گیا اور شاہراہ پر تانگے کا داخلہ ممنوع ہو گیا، اور سڑک کے دائیں بائیں سبزے کے تختے اور پھولوں کی کیاریاں اجڑ گئیں اور درخت کٹ گئے اور شاد آباد ریستوران حرف غلط کی طرح مٹ گئے اور بحث مباحثہ کے رسیا دانشور غائب غلہ ہو گئے تو سمجھ لو کہ ایک تہذیب سفر کر گئی۔ ایک نئی تہذیب اس کوچہ پر چھا گئی۔ پہلے یہ شاہراہ اپنے ریستورانوں اور درختوں سے پہچانی جاتی تھی۔ اب بینکوں کی عمارات اس کی شناخت ہیں۔
ہمیں بس یہ یاد کرنے دیں کہ وہ کیا تہذیب تھی کہ اجڑ گئی۔ نئی تہذیب کا حساب کتاب نئے زمانے کے حسابی کتابی جانیں۔